Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا
: بیشک ہم نے فتح دی
لَكَ
: آپ کو
فَتْحًا
: فتح
مُّبِيْنًا
: کھلی
ہم نے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح فیصلہ
خلاصہ تفسیر
بیشک ہم نے (اس صلح حدیبیہ سے) آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی (یعنی صلح حدیبیہ سے یہ فائدہ ہوا کہ وہ سبب ہوگئی ایک فتح مطلوب یعنی فتح مکہ کا، اس لحاظ سے یہ صلح ہی فتح ہوگئی، اور فتح مکہ فتح مبین اس لئے کہا گیا کہ فتح سے مقصود شریعت اسلام میں کوئی حکمرانی نہیں بلکہ دین اسلام کا غلبہ مقصود ہوتا ہے، اور فتح مکہ سے یہ مقصود بڑی حد تک حاصل ہوگیا، کیونکہ تمام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ اگر آپ اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہم بھی اطاعت کرلیں گے، جب مکہ فتح ہوا تو چاروں طرف سے عرب کے قبائل امنڈ پڑے اور خود یا بواسطہ اپنے وفود کے اسلام لانا شروع کیا (رواہ البخاری عن عمر بن سلمہ) چونکہ غلبہ اسلام کے بڑے آثار فتح مکہ سے نمایاں ہوئے اس لئے اس کو فتح مبین فرمایا گیا، اور صلح حدیبیہ اس فتح مکہ کا سبب اور ذریعہ اس طرح ہوگئی کہ اہل مکہ سے آئے دن لڑائی رہا کرتی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنی قوت اور سامان بڑھانے کی مہلت و فرصت نہ ملتی تھی۔ حدیبیہ کے واقعہ میں جو صلح ہوگئی تو اطمینان کے ساتھ مسلمانوں نے کوشش کی جس سے بہت سے نئے آدمی مسلمان ہوگئے اور مجمع مسلمانوں کا بڑھ گیا اور فتح خیبر وغیرہ سے سامان بھی درست ہوگیا اور ایسے ہوگئے کہ دوسروں پر دباؤ پڑ سکے، پھر قریش کی طرف سے عہد شکنی ہوئی تو آپ دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مقابلے کے لئے چلے۔ اہل مکہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ زیادہ لڑائی بھی نہیں ہوئی اور اطاعت قبول کرلی اور جو لڑائی ہوئی بھی تو اتنی کم اور خفیف کہ اہل علم کا اس میں اختلاف ہوگیا کہ مکہ مکرمہ صلح کے ساتھ فتح ہوا یا جنگ سے، غرض اس طرح یہ صلح سبب فتح ہوگئی اس لئے مجازی طور پر اس صلح کو بھی فتح فرما دیا گیا جس میں فتح مکہ کی پیشین گوئی بھی ہے۔ آگے اس فتح کے دینی اور دنیوی ثمرات و برکات کا بیان ہے کہ یہ فتح اس لئے میسر ہوئی) تاکہ (تبلیغ دین اور دعوت حق میں آپ کی کوششوں کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہو کہ کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہوں اور اس سے آپ کا اجر بہت بڑھ جائے اور کثرت اجر و قرب کی برکت سے) اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی (صوری) خطائیں معاف فرما دے اور آپ پر (جو اللہ تعالیٰ) اپنے احسانات (کرتا آتا ہے مثلاً آپ کو نبوت دی، قرآن دیا، بہت سے علوم دیئے بہت سے اعمال کا ثواب دیا ان احسانات) کی (اور زیادہ) تکمیل کر دے (اس طرح کہ آپ کے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوں جس سے آپ کا اجر اور مقام قرب اور بلند ہو یہ دو نعمتیں تو آخرت سے متعلق ہیں) اور (دو نعمتیں دنیوی ہیں ایک یہ کہ) آپ کو بغیر کسی روک ٹوک کے دین کے) سیدھے راستہ پر لے چلے (اور اگرچہ آپ کا صراط مستقیم پر چلنا پہلے یقینی ہے مگر اس میں کفار کی مزاحمت ہوتی تھی اب یہ مزاحمت نہیں رہے گی) اور (دوسری دنیوی نعمت یہ ہے کہ) اللہ آپ کو ایسا غلبہ دے جس میں عزت ہی عزت ہو (یعنی جس کے بعد آپ کو کبھی کسی سے دبنا نہ پڑے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ تمام جزیرة العرب پر آپ کا تسلط ہوگیا)
معارف و مسائل
جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ تفسیر کے نزدیک سورة فتح 2 ہجری میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ آپ بقصد عمرہ مکہ مکرمہ مع جماعت صحابہ کے تشریف لے گئے اور حرم مکہ کے قریب مقام حدیبیہ تک پہنچ کر قیام فرمایا مگر قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کیا پھر اس پر صلح کرنے کے لئے تیار ہوئے کہ اس سال تو آپ واپس چلے جائیں اگلے سال اس عمرہ کی قضاء کرلیں، بہت سے صحابہ کرام خصوصاً فاروق اعظم اس طرح کی صلح سے ناراض تھے مگر آنحضرت ﷺ نے باشارات ربانی اس صلح کو انجام کار مسلمانوں کے لئے ذریعہ کامیابی سمجھ کر قبول فرما لیا جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
جب آنحضرت ﷺ نے اپنا احرام عمرہ کھول دیا اور حدیبیہ سے واپس روانہ ہوئے تو راستہ میں یہ سورت پوری نازل ہوئی جس میں بتلا دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا خواب سچا ہے ضرور واقع ہوگا مگر اس کا یہ وقت نہیں بعد میں فتح کے وقت ہوگا اور اس صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا کیونکہ یہ صلح ہی درحقیقت فتح مکہ کا سبب بنی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور بعض دوسرے صحابہ کرام نے فرمایا ہے کہ تم لوگ تو فتح مکہ کو فتح کہتے ہو اور ہم صلح حدیبیہ کو فتح سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جابر نے فرمایا کہ ہم صلح حدیبیہ ہی کو فتح سمجھتے ہیں اور حضرت براء بن عازب نے فرمایا کہ تم لوگ تو فتح مکہ ہی کو فتح سمجھتے ہو اور کوئی شک نہیں کہ وہ فتح ہے لیکن ہم تو واقعہ حدیبیہ کے وقت بیعت رضوان کو اصلی فتح سمجھتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے حاضرین صحابہ سے جن کی تعداد چودہ سو تھی ایک درخت کے نیچے جہاد کرنے پر بیعت لی تھی جیسا کہ اسی سورت میں اس بیعت کا ذکر بھی آگے آ رہا ہے (ملحض از ابن کثیر) اور جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ یہ سورت واقعہ حدیبیہ میں نازل ہوئی ہے اور اس واقعہ کے بہت سے اجزاء کا خود اس صورت میں تذکرہ بھی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس واقعہ کو پہلے ذکر کردیا جائے۔ تفسیر ابن کثیر میں اس کی بڑی تفصیل ہے اور اس سے زیادہ تفسیر مظہری میں اس جگہ چودہ صفحات میں یہ قصہ اول سے آخر تک مفصل اور مرتب مستند کتب حدیث کے حوالہ سے بیان کیا ہے جو بہت سے معجزات اور نصائح اور علمی، دینی، سیاسی فوائد و حکم پر مشتمل ہے اس میں سے یہاں اس قصہ کے صرف وہ اجرا لکھے جاتے ہیں جن کا ذکر خود اس سورت میں کیا گیا ہے یا جن سے اس کا گہرا تعلق ہے تاکہ آگے ان آیتوں کی تفسیر سمجھنا آسان ہوجائے جو اس قصہ سے متعلق ہیں اور یہ سب بیان تفسیر مظہری سے لیا گیا ہے اور جو کسی دوسری تفسیر سے لیا ہے اس کا حوالہ دے دیا ہے۔
واقعہ حدیبیہ
حدیبیہ، ایک مقام مکہ مکرمہ سے باہر حدود حرام کے بالکل قریب ہے جس کو آج کل شمیسہ کہا جاتا ہے یہ واقعہ اس مقام پر پیش آیا ہے۔
جزو اول رسول اللہ ﷺ کا خواب
اس واقعہ کا ایک جزو بروایت عبد بن حمید و ابن جریر و بیہقی وغیرہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں یہ خواب دیکھا کہ آپ مکہ مکرمہ میں مع صحابہ کرام کے امن و اطمینان کے ساتھ داخل ہوئے اور احرام سے فارغ ہو کر کچھ لوگوں نے حسب قاعدہ سر کا حلق کرایا بعض نے بال کٹوا لئے اور یہ کہ آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کی چابی آپ کے ہاتھ آئی، یہ اس واقعہ کا ایک جزو ہے جس کا ذکر اسی سورت میں آنے والا ہے (انبیاء (علیہم السلام) کا خواب وحی ہوتا ہے اس لئے اس صورت کا واقع ہونا یقینی ہوگیا مگر خواب میں اس واقعہ کے لئے کوئی سال یا مہینہ متعین نہیں کیا گیا اور درحقیقت یہ خواب فتح مکہ کے وقت پورا ہونے والا تھا مگر جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو خواب سنایا تو وہ سب کے سب مکہ مکرمہ جانے اور بیت اللہ کا طواف کرنے وغیرہ کے ایسے مشتاق تھے کہ ان حضرات نے فوراً ہی تیاری شروع کردی اور جب صحابہ کرام کا ایک مجمع تیار ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے بھی ارادہ فرما لیا کیونکہ خواب میں کوئی خاص سال یا مہینہ متعین نہیں تھا تو احتمال یہ بھی تھا کہ ابھی یہ مقصد حاصل ہوجائے) (کذافی بیان القرآن بحوالہ روح المعانی)
جزو دوم، آپ کا صحابہ کرام اور دیہات کے مسلمانوں کے ساتھ چلنے کے لئے بلانا اور بعض کا انکار کرنا
ابن سعد وغیرہ کی روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام نے عمرہ کا ارادہ فرما لیا تو آپ کو یہ خطرہ سامنے تھا کہ قریش مکہ ممکن ہے کہ ہمیں عمرہ کرنے سے روکیں اور ممکن ہے کہ مدافعت کے لئے جنگ کی صورت پیش آجائے اس لئے آپ نے مدینہ طیبہ کے قریبی دیہات میں اعلان کر کے ان لوگوں کے ساتھ چلنے کی دعوت دی، ان میں سے بہت سے اعراب (دیہات) نے ساتھ چلنے سے عذر کردیا اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ اور ان کے اصحاب ہمیں قریش مکہ سے لڑوانا چاہتے ہیں جو سازو سامان والے اور طاقتور ہیں ان کا انجام تو یہ ہونا ہے کہ یہ اس سفر سے زندہ واپس نہ لوٹیں گے (مظھری)
جزو سوم، مکہ کی طرف روانگی
امام احمد و بخاری، ابوداؤد و نسائی وغیرہ کی روایت کے مطابق روانگی سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے غسل فرمایا اور نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنی ناقہ قصوٰی پر سوار ہوئے، ام المومنین حضرت ام سلمہ کو ساتھ لیا اور آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار اور دیہات کے آنے والوں کا بڑا مجمع تھا جن کی تعداد اکثر روایات میں چودہ سو بیان کی گئی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے خواب کی وجہ سے ان میں کسی کو شک نہیں تھا کہ مکہ اس وقت فتح ہوجائے گا، حالانکہ بجز تلواروں کے ان کے ساتھ اور کچھ اسلحہ نہ تھا، آپ مع صحابہ کرام کے شروع ماہ ذیقعدہ میں پیر کے دن روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ میں پہنچ کر احرام باندھا (مظہری ملخصاً)
جزو چہارم، اہل مکہ کی مقابلے کیلئے تیاری
دوسری طرف جب اہل مکہ کو رسول اللہ ﷺ کے ایک بڑی جماعت صحابہ کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ ہونے کی خبر ملی تو جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لئے آ رہے ہیں اگر ہم نے ان کو مکہ میں آنے دیا تو تمام عرب میں یہ شہرت ہوجائے گی کہ وہ ہم پر غلبہ پا کر مکہ مکرمہ پہنچ گئے حالانکہ ہمارے اور ان کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں سب نے عہد کیا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے اور آپ کو روکنے کے لئے خالد بن ولید (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی سر کردگی میں ایک جماعت کو مکہ سے باہر مقام کراع الغمیم پر بھیج دیا اور آس پاس کے دیہات والوں کو بھی ساتھ ملا لیا اور طائف کا قبیلہ بنو ثقیف بھی ان کے ساتھ لگ گیا، انہوں نے مقام بلدح پر اپنا پڑاؤ ڈال لیا، ان سب نے آپس میں رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے اور آپ کے مقابلے میں جنگ کرنے کا عہد کرلیا۔
خبر رسانی کا ایک عجیب سادہ طریقہ
ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے حالات سے باخبر رہنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ مقام بلدح سے لے کر اس مقام تک جہاں آنحضرت ﷺ پہنچ چکے تھے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کچھ آدمی بٹھا دیئے تاکہ آپ کے پورے حالات دیکھ کر آپ کے متصل پہاڑ والا بآواز بلند دوسرے پہاڑ والے تک وہ تیسرے تک وہ چوتھے تک پہنچا دے اس طرح چند منٹوں میں آپ کی نقل و حرکت کا بلدح والوں کو علم ہوجاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے خبر رساں
آنحضرت ﷺ نے بشر ابن سفیان کو آگے مکہ مکرمہ بھیج دیا تھا کہ وہ خفیہ اہل مکہ کے حالات جا کر دیکھیں اور آپ کو اطلاع کریں۔ وہ مکہ سے واپس آئے تو اہل مکہ کی ان جنگی تیاریوں اور مکمل مزاحمت کے واقعات کی خبر دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ افسوس ہے قریش پر کہ متعدد جنگوں نے ان کو کھالیا ہے پھر بھی وہ جنگ سے باز نہیں آتے، ان کے لئے تو اچھا موقع تھا کہ وہ مجھے اور دوسرے اہل عرب کو آزاد چھوڑ دیتے اگر یہ عرب لوگ مجھ پر غالب آجاتے تو ان کی مراد گھر بیٹھے حاصل تھی اور میں ان پر غالب آجاتا تو یا تو پھر وہ بھی اسلام میں داخل ہوجاتے اور اگر یہ نہ کرتے اور جنگ ہی کرنے کا ارادہ ہوتا تو وہ تازہ اور قوی ہوتے اور پھر وہ میرے مقابلے پر آجاتے، معلوم نہیں کہ یہ قریش کیا سمجھ رہے ہیں قسم ہے اللہ کی کہ میں اس حکم پر جو اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے ہمیشہ ان کے خلاف جہاد کرتا رہوں گا یہاں تک کہ تنہا میری گردن رہ جائے۔
جزو پنجم، آنحضرت ﷺ کی ناقہ کا راستہ میں بیٹھ جانا
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا اور مشورہ لیا کہ اب ہمیں یہیں سے ان عربوں کے خلاف جہاد شروع کردینا چاہئے یا ہم بیت اللہ کی طرف بڑھیں، پھر جو ہمیں روکے اس سے قتال کریں۔ حضرت ابوبکر صدیق اور دوسرے صحابہ نے مشورہ دیا کہ آپ بیت اللہ کے قصد سے نکلے ہیں کسی سے جنگ کے لئے نہیں نکلے اس لئے آپ اپنے قصد پر رہیں ہاں اگر کوئی ہمیں مکہ سے روکے گا تو ہم اس سے قتال کریں گے، اس کے بعد حضرت مقداد بن اسودا اٹھے اور عرض کیا یا رسول اللہ، ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہ آپ سے یہ کہہ دیں (آیت) اذھب انت و ربک فقاتلا (یعنی جایئے آپ اور آپ کا رب لڑ بھڑ لیجئے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں) بلکہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ قتال کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا، بس اب اللہ کے نام پر مکہ کی طرف چلو۔ جب آپ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے اور خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں نے آپ کو مکہ کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو اپنے لشکر کی صفوف جانب قبلہ کی طرف مستحکم کر کے کھڑا کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے عباد بن بشر کو ایک دستہ فوج کا امیر بنا کر آگے کیا، انہوں نے خالد بن ولید کے لشکر کے بالمقابل صفوف بنالیں، اسی حالت میں نماز ظہر کا وقت آ گیا حضرت بلال نے اذان کہی اور رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ کرام کو نماز پڑھائی۔ خالد بن ولید اور ان کے سپاہی دیکھتے رہے۔ بعد میں خالد بن ولید نے کہا کہ ہم نے بڑا اچھا موقع ضائع کردیا جب یہ لوگ سب نماز میں تھے اس وقت ہم پر ٹوٹ پڑتے مگر کچھ بات نہیں اب ان کی دوسری نماز کا وقت آنے والا ہے اس کا انتظار کرو مگر جبرائیل ؑ صلوٰة الخوف کے احکام لے کر نازل ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کو ان کے ارادوں سے باخبر کر کے نماز کے وقت لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا طریقہ بتلادیا اور ان کے شر سے محفوظ رہے۔
جزو ششم، مقام حدیبیہ میں ایک معجزہ
مگر جب رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے قریب پہنچے تو آپ کی اونٹنی کا ہاتھ پھسل گیا وہ بیٹھ گئی صحابہ کرام نے اٹھانا چاہا تو نہ اٹھی لوگوں نے کہا کہ قصوٰی بگڑ گئی آپ نے فرمایا قصوٰی کا قصور نہیں نہ اس کی ایسی عادت ہے بلکہ اس کو تو اس ذات نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل کو روک دیا تھا (غالباً اس وقت رسول اللہ ﷺ کو یہ اندازہ ہوگیا کہ جو واقعہ خواب میں دکھلایا گیا ہے اس کا یہ وقت نہیں ہے) آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے آج کے دن قریش مجھ سے جو بات بھی ایسی کہیں گے جس میں شعائر الٰہیہ کی تعظیم ہو تو میں اس کو ضرور مان لوں گا۔ پھر آپ نے اونٹنی پر ایک آواز لگائی تو اٹھ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے خالد بن ولید کی جانب سے ہٹ کر حدیبیہ کی دوسری جانب قیام فرمایا جہاں پانی بہت ہی کم تھا۔ پانی کے موقع پر خالید بن ولید اور بلدح والے قابض ہوچکے تھے۔ یہاں رسول اللہ ﷺ کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ ایک کنواں جس میں پانی کچھ کچھ رستا تھا اس میں آپ نے کلی کردی اور اپنا ایک تیر دیا کہ اس کے اندر گاڑ دو ، یہ عمل ہوتے ہی اس کا پانی جوش مار کر کنویں کی من کے قریب پہنچ گیا کنویں کے اوپر والوں نے اپنے برتنوں سے پانی نکالا اور سیراب ہوگئے۔
جزو ہفتم، اہل مکہ کے ساتھ بواسطہ وفود بات چیت
اس طرح سب صحابہ مطمئن ہو کر یہاں مقیم ہوئے اور اہل مکہ سے بواسطہ وفود بات چیت شروع ہوئی۔ پہلے بدیل بن ورقاء (جو بعد میں مسلمان ہوگئے) اپنے ساتھیوں کے ساتھ حاضر ہوئے اور آنحضرت ﷺ سے خیر خواہانہ عرض کیا کہ قریش مکہ پوری قوت کے ساتھ مقابلے کے لئے نکل آئے ہیں اور پانی کی جگہوں پر انہوں نے قبضہ کرلیا ہے وہ ہرگز آپ کو نہ چھوڑیں گے کہ آپ مکہ میں داخل ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم کسی سے جنگ کرنے نہیں آئے البتہ اگر کوئی ہمیں عمرہ کرنے سے روکے گا تو ہم قتال کریں گے پھر آپ نے اسی بات کا اعادہ فرمایا جو پہلے جاسوس بشر کے سامنے کہی تھی کہ قریش کو متعدد جنگوں نے کمزور کردیا ہے اگر وہ چاہیں تو کسی معین مدت تک کیلئے ہم سے صلح کرلیں تاکہ وہ بےفکر ہو کر اپنی تیاری میں لگ جائیں اور ہمیں اور باقی عرب کو چھوڑ دیں، اگر وہ مجھ پر غالب آگئے تو ان کی مراد گھر بیٹھے پری ہوجائے گی اور اگر ہم غالب آگئے اور وہ اسلام میں داخل ہونے لگے تو ان کو اختیار ہوگا کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہوجاویں یا ہمارے خلاف جنگ کریں اور اس عرصہ میں وہ اپنی قوت محفوظ رکھ کر بڑھا چکے ہوں گے اور اگر قریش اس بات سے انکار کریں تو بخدا ہم اپنے معاملہ پر ان سے جہاد کرتے رہیں گے جب تک کہ میری تنہا گردن باقی ہے، بدیل یہ کہہ کر واپس ہوگئے کہ میں جا کر قریشی سرداروں سے آپ کی بات کہہ دیتا ہوں۔ وہاں پہنچے تو کچھ لوگوں نے تو ان کی بات ہی سننا نہ چاہا بلکہ جنگ کے جوش میں رہے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ بات تو سن لیں، یہ کہنے والے عروہ بن مسعود اپنی قوم کے سردار تھے، جب بات سنی تو عروہ بن مسعود نے قریشی سرداروں سے کہا کہ محمد ﷺ نے جو بات پیش کی ہے وہ درست ہے اس کو قبول کرلو اور مجھے اجازت دو کہ میں جا کر ان سے بات کروں، چناچہ دوسری مرتبہ عروہ بن مسعود گفتگو کے لئے حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اگر اپنی قوم قریش کا صفایا ہی کردیں تو یہ کونسی اچھی بات ہوگی، کبھی دنیا میں آپ نے سنا ہے کہ کوئی شخص اپنی ہی قوم کو ہلاک کر دے۔ پھر صحابہ کرام سے ان کی نرم و گرم باتیں ہوتی رہیں، اسی حال میں عروہ صحابہ کرام کے حالات کا مشاہدہ کرتے رہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے تھوکا بھی تو صحابہ نے اس کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے چہروں سے مل لیا اور جب آپ نے وضو کیا تو وضو کے گرنے والے پانی پر صحابہ کرام ٹوٹ پڑتے اور اپنے چہروں کو ملتے تھے اور جب آپ گفتگو فرماتے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے۔ عروہ نے واپس جا کر قریشی سرداروں سے یہ حال بیان کیا کہ میں بڑے بڑے شاہی درباروں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس جا چکا ہوں، خدا کی قسم میں نے کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا جس کی قوم اس پر اس طرح فدا ہو جیسے اصحاب محمد ﷺ ان پر فدا ہیں اور وہ ایک صحیح بات کہہ رہے ہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ان کی بات مان لو، مگر لوگوں نے کہا ہم یہ بات نہیں مان سکتے بجز اس کے کہ اس سال تو آپ لوٹ جائیں پھر اگلے سال آجائیں۔ جب عروہ کی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنی جماعت کو ساتھ لے کر واپس ہوگئے اس کے بعد ایک صاحب حلبیس بن علقمہ جو اعراب کے سردار تھے وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام کو احرام کی حالت میں قربانی کے جانور ساتھ لئے دیکھا تو واپس ہو کر اس نے بھی اپنی قوم کو سمجھایا کہ یہ لوگ بیت اللہ کے عمرہ کیلئے آئے ہیں ان کو روکنا کسی طرح درست نہیں، لوگوں نے اس کا کہنا نہ سنا تو یہ بھی اپنی جماعت کو لے کر واپس ہوگیا۔ پھر ایک چوتھا آدمی آپ سے بات کرنے کے لئے آیا اور آپ سے گفتگو کی تو آپ نے اپنی وہی بات پیش کردی جو اس سے پہلے بدیل اور عروہ ابن مسعود کے سامنے پیش کی تھی اس نے جا کر آپ کا جواب قریش کو سنا دیا۔
جزو ہشتم، حضرت عثمان کو اہل مکہ کے لئے پیغام دے کر بھیجنا
امام بیہقی نے حضرت عروہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ میں پہنچ کر قیام فرمایا تو قریش گھبرا گئے تو آنحضرت ﷺ نے ارادہ کیا کہ ان کے پاس اپنا کوئی آدمی بھیج کر بتلا دیں کہ ہم جنگ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں ہمارا راستہ نہ روکو، اس کام کے لئے حضرت عمر کو بلایا انہوں نے عرض کیا کہ یہ قریش میرے سخت دشمن ہیں کیونکہ ان کو میری عداوت و شدت کا حال معلوم ہے اور میرے قبیلہ کا کوئی آدمی ایسا مکہ میں نہیں جو میری حمایت کرے اس لئے میں آپ کے سامنے ایک ایسے شخص کا نام پیش کرتا ہوں جو مکہ مکرمہ میں اپنے قبیلہ وغیرہ کی وجہ سے خاص قوت و عزت رکھتے ہیں یعنی عثمان بن عفان، آپ نے حضرت عثمان کو اس کام کے لئے مامور فرما کر بھیج دیا اور یہ بھی فرمایا کہ جو ضعفاء مسلمین مرد اور عورتیں مکہ مکرمہ سے ہجرت نہیں کرسکے اور مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے پاس جا کر تسلی کردیں کہ پریشان نہ ہوں انشاء اللہ مکہ مکرمہ فتح ہو کر تمہاری مشکلات کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ حضرت عثمان غنی پہلے ان لوگوں کے پاس پہنچے جو مقام بلدح میں حضور کا راستہ روکنے اور مقابلے کے لئے جمع ہوئے تھے ان سے جا کر آنحضرت ﷺ کی وہی بات سنا دی جو آپ نے بدیل و عروہ ابن مسعود وغیرہ کے سامنے کہی تھی، ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے پیغام سن لیا آپ جا کر اپنے بزرگ سے کہہ دو کہ یہ بات ہرگز نہیں ہوگی۔ ان لوگوں کا جواب سن کر آپ مکہ مکرمہ کے اندر جانے لگے تو ابان بن سعید کی (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) ان سے ملاقات ہوئی انہوں نے حضرت عثمان کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور اپنی پناہ میں لے کر ان سے کہا کہ مکہ میں اپنا پیغام لے کر جہاں چاہیں جاسکتے ہیں اس میں آپ کوئی فکر نہ کریں پھر اپنے گھوڑے پر حضرت عثمان کو سوار کر کے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کیونکہ ان کا قبیلہ بنو سعید مکہ مکرمہ میں بہت قوی اور عزت دار تھا، یہاں تک کہ حضرت عثمان مکہ مکرمہ میں قریش کے ایک ایک سردار کے پاس پہنچے اور حضور کا پیغام پہنچایا کہ ہم کسی سے لڑنے کے لئے نہیں آئے عمرہ کر کے واپس جائیں گے ہاں کوئی ہمارا راستہ روکے گا تو لڑیں گے اور قریش خود جنگوں سے نیم جاں ہوچکے ہیں ان کے لئے مناسب یہ ہے کہ ہمیں اور دوسرے اہل عرب کو چھوڑ دیں قریش ہمارے مقابلہ پر نہ آئیں پھر دیکھیں اگر عرب ہم پر غالب آگئے تو ان کی مراد پوری ہوجائے گی اور ہم غالب آئے تو انہیں پھر بھی اختیار باقی ہوگا اس وقت قتال کرسکتے ہیں اور اس عرصہ میں ان کو اپنی طاقت بڑھانے اور محفوظ رکھنے کا موقع بھی مل جائے گا مگر ان سب نے آپ کی بات کو رد کردیا۔ پھر عثمان غنی ضعفاء مسلمین سے ملے ان کو رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچایا وہ بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو سلام بھیجا۔ جب حضرت عثمان رسول اللہ ﷺ کے پیغامات پہنچانے سے فارغ ہوئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو طواف کرسکتے ہیں، عثمان غنی نے کہا کہ میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ ﷺ کی بات ماننے کی طرف دعوت دیتے رہے۔
جزو نہم، اہل مکہ اور مسلمانوں میں آویزش اور اہل مکہ کے ساٹھ آدمیوں کی گرفتاری
اسی عرصہ میں قریش نے اپنے پچاس آدمی اس کام پر لگائے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے قریب پہنچ کر موقع کا انتظار کریں اور موقع ملنے پر (معاذ اللہ) آپ کا قصہ ختم کردیں۔ یہ لوگ اسی تاک میں تھے کہ آنحضرت ﷺ کی حفاظت و نگرانی پر مامور حضرت محمد بن مسلمہ نے ان سب کو گرفتار کرلیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں قید کر کے حاضر کردیا، دوسری طرف حضرت عثمان جو مکہ میں تھے اور ان کے ساتھ تقریباً دس مسلمان اور مکہ مکرمہ میں پہنچ گئے تھے۔ قریش نے جب اپنے پچاس آدمیوں کی گرفتاری کا حال سنا تو حضرت عثمان سمیت ان سب مسلمانوں کو روک لیا اور قریش کی ایک جماعت مسلمانوں کے لشکر کی طرف نکلی اور مسلمانوں کی جماعت پر تیر اور پتھر پھینکے اس میں مسلمانوں میں سے ایک صحابی ابن زنیم شہید ہوگئے اور مسلمانوں نے ان قریشیوں کے دس سواروں کو گرفتار کرلیا اور رسول اللہ ﷺ کو کسی نے یہ خبر پہنچائی کہ حضرت عثمان قتل کردیئے گئے۔
جزو دہم، بیعت رضوان کا واقعہ
رسول اللہ ﷺ نے یہ خبر سن کر صحابہ کرام کو ایک درخت کے نیچے جمع کیا کہ سب جمع ہو کر رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر جہاد کیلئے بیعت کریں، سب صحابہ کرام نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آگے اس سورت میں آنے والا ہے احادیث صحیحہ میں ان لوگوں کی بڑی فضیلت آئی ہے جو اس بیعت میں شریک تھے اور حضرت عثمان غنی چونکہ آپ کے حکم سے مکہ گئے ہوئے تھے اس لئے ان کی طرف سے رسول ﷺ نے خود آپ نے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے یہ خصوصی فضیلت حضرت عثمان کی تھی کہ آپ نے اپنے ہی ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے بیعت کرلی۔
جزو یازدہم، حدیبیہ کا واقعہ
دوسری طرف اہل مکہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا رعب مسلط کردیا اور خود مصالحت پر آمادہ ہو کر انہوں نے اپنے تین آدمی سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی اور مکرز بن حفص کو غدر معذرت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، ان میں سے پہلے دو حضرات بعد میں مسلمان بھی ہوگئے۔ سہیل بن عمرو نے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ تک جو خبر پہنچی ہے کہ عثمان غنی اور ان کے ساتھی قتل کردیئے یہ بالکل غلط ہے ہم ان کو آپ کے پاس بھیجتے ہیں، ہمارے قیدیوں کو آزاد کر دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا، مسند احمد اور مسلم میں حضرت انس کی روایت ہے کہ اس سورت میں جو آگے آیت آنے والی ہے (اآیت) ھوالذی کف ایدیھم عنکم، یہ اسی واقعہ سے متعلق ہے اب سہیل اور ان کے ساتھیوں نے جا کر بیعت رضوان میں صحابہ کرام کی مسارعت اور جان نثاری کے عجیب و غریب منظر کا حال قریش کے سامنے بیان کیا تو قریش کے اصحاب رائے لوگوں نے آپس میں کہا کہ اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کہ ہم محمد ﷺ سے اس بات پر صلح کرلیں کہ وہ اس سال تو واپس چلے جائیں تاکہ پورے عرب میں یہ شہرت نہ ہوجائے کہ ہم نے ان کو روکنا چاہا وہ زبردستی مکہ میں داخل ہوگئے اور اگلے سال عمرہ کے لئے آجائیں اور تین روز مکہ میں قیام کریں، اس وقت اپنے جانور قربانی کے ذبح کر ڈالیں اور احرام کھول دیں چناچہ یہی سہیل بن عمرو یہ پیغام لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا کہ اب معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم نے صلح کا ارادہ کرلیا ہے کہ سہیل کو پھر بھیجا ہے۔ رسول اللہ ﷺ چہار زانو بیٹھ گئے اور صحابہ میں سے عباد بن بشر اور سلمہ ہتھیاروں سے مسلح آنحضرت ﷺ کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے ہوگئے۔ سہیل حاضر ہوئے تو ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ گئے اور قریش کا پیغام آپ کو پہنچایا۔ صحابہ کرام عموماً اس پر راضی نہ تھے کہ اس وقت اپنے احرام بغیر عمرہ کئے کھول دیں، انہوں نے سہیل سے سخت گفتگو کی، آوازیں کبھی بلند ہوگئیں کبھی پست ہوئیں، عباد بن بشر نے سہیل کو ڈانٹا کہ حضور کے سامنے آواز بلند نہ کر، طویل گفتگو کے بعد آپ اس شرط کو قبول کر کے صلح کرلینے پر راضی ہوگئے، سہیل نے کہا کہ لائیے ہم اپنے اور آپ کے درمیان صلح نامہ لکھ لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو بلایا اور فرمایا لکھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، سہیل نے یہیں سے بحث شروع کردی اور کہا کہ لفظ رحمن اور رحیم ہمارے محاورات میں نہیں ہے آپ یہاں وہی لفظ لکھیں جو پہلے لکھا کرتے تھے یعنی باسمک اللھم آپ نے اس کو بھی مان لیا اور حضرت علی سے فرمایا کہ ایسا ہی لکھ دو ، اس کے بعد آپ نے حضرت علی کو فرمایا کہ یہ لکھو کہ یہ وہ عہد نامہ ہے جس کا فیصلہ محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ سہیل نے اس پر بھی ضد کی کہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو آپ کو ہرگز بیت اللہ سے نہیں روکتے (صلح نامہ میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہونا چاہئے جو کسی فریق کے عقیدہ کیخلاف ہو) آپ صرف محمد بن عبداللہ لکھوائیں، رسول اللہ ﷺ نے اس کو بھی منظور فرما کر حضرت علی سے فرمایا کہ جو لکھا ہے اس کو مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علی نے باوجود سراپا اطاعت ہونے کے عرض کیا میں تو یہ نہیں کرسکتا کہ آپ کے نام کو مٹا دوں۔ حاضرین میں سے حضرت اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ لیا کہ اس کو نہ مٹائیں اور بجز محمد رسول اللہ کے اور کچھ نہ لکھیں اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو ہمارے اور ان کے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی اور کچھ آوازیں ہر طرف سے بلند ہونے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے صلح نامہ کا کاغذ خود اپنے دست مبارک میں لے لیا اور باوجود اس کے کہ آپ امی تھے پہلے کبھی لکھا نہیں تھا مگر اس وقت خود اپنے قلم سے آپ نے یہ لکھ دیا ھذا ما قاضی محمد بن عبداللہ و سہیل بن عمر و اصلحا علی وضع الحرب عن الناس عشر سنبن یامن فیہ الناس و یکف بعضہم عن، یعنی وہ فیصلہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے دس سال کے لئے باہم جنگ نہ کرنے کا کیا ہے جس میں سب لوگ مامون رہیں ایک دوسرے پر چڑھائی اور جنگ سے پرہیز کریں۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہماری ایک شرط یہ ہے کہ اس وقت ہمیں طواف کرنے سے نہ روکا جائے، سہیل نے کہا کہ بخدا یہ نہیں ہوسکتا، آپ نے اس کو بھی قبول فرما لیا اس کے بعد سہیل نے اپنی ایک شرط یہ لکھی کہ جو شخص مکہ والوں میں سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آپ کے پاس جائے گا اس کو واپس کردیں گے اگرچہ وہ آپ ہی کے دین پر ہو اور مسلمانوں میں سے جو کوئی قریش کے پاس مکہ چلا آوے اس کو ہم واپس نہ کریں گے۔ اس پر عام مسلمانوں کی آواز اٹھی سبحان اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو مشرکین کی طرف لوٹا دیں، مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کو بھی قبول فرما لیا اور یہ فرمایا کہ ہم میں سے کوئی آدمی اگر ان کے پاس گیا تو اس کو اللہ ہی نے ہم سے دور کردیا اس کی ہم کیوں فکر کریں اور ان کا کوئی آدمی ہمارے پاس آیا اور ہم نے لوٹا بھی دیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ سہولت کا نکال دیں گے حضرت براء نے اس صلح نامہ کا خلاصہ تین شرطیں بیان کیا ہے، ایک یہ کہ ان کا کوئی آدمی ہمارے پاس آجائے گا تو ہم اس کو واپس کردیں گے، دوسرے یہ کہ ہمارا کوئی آدمی ان کے پاس چلا جائے گا تو وہ واپس نہ کریں گے۔ تیسرے یہ کہ اب آئندہ سال عمرہ کے لئے آئیں گے اور تین روز مکہ میں قیام کریں گے اور زیادہ ہتھیار لے کر نہیں آئیں گے اور آخر میں لکھا گیا کہ یہ عہد نامہ اہل مکہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان ایک محفوظ دستاویز ہے جس کی کوئی خلاف ورزی نہ کرے گا اور باقی سب عرب آزاد ہیں جس کا جی چاہے محمد ﷺ کے عہد میں داخل ہوجائے اور جس کا جی چاہے قریش کے عہد میں داخل ہوجائے۔ یہ سن کر قبیلہ خزاعہ اچھل پڑا اور کہا کہ ہم محمد ﷺ کے عقد میں داخل ہیں اور بنو بکر نے آگے بڑھ کر کہا کہ ہم قریش کے عقد و عہد میں داخل ہیں۔
شرائط صلح سے عام صحابہ کرام کی ناراضی اور رنج
جب یہ شرائط صلح طے ہوگئیں تو عمر بن خطاب سے نہ رہا گیا اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ، کیا آپ اللہ کے نبی برحق نہیں ہیں، آپ نے فرمایا کیوں نہیں، پھر حضرت عمر نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں، آپ نے فرمایا کیوں نہیں، پھر حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتولین جنت اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا کیوں نہیں، اس پر حضرت عمر نے عرض کیا تو پھر ہم کیوں اس ذلت کو قبول کریں کہ بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں جب تک جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ کردیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ہرگز اس کے حکم کے خلاف نہیں کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہ فرمائے گا وہ میرا مددگار ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا کہ ہم بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے، آپ نے فرمایا کہ بیشک یہ کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ کام اسی سال ہوگا تو حضرت عمر نے کہا کہ یہ تو آپ نے نہیں فرمایا تھا تو آپ نے فرمایا کہ بس یہ واقعہ جیسا کہ میں نے کہا تھا ہو کر رہے گا کہ آپ بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے۔
حضرت عمر بن خطاب خاموش ہوگئے مگر غم و غصہ نہیں گیا، آپ کے پاس سے حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور اسی گفتگو کا اعادہ کیا جو حضور کے سامنے کی تھی، حضرت ابوبکر نے فرمایا خدا کے بندے محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہ کریں گے اور اللہ ان کا مددگار ہے اس لئے تم مرتے دم تک آپ کی رکاب تھامے رہو، خدا کی قسم وہ حق پر ہیں، غرض حضرت فاروق اعظم کو ان شرائط صلح سے سخت رنج و غم پہنچا، خود انہوں نے فرمایا کہ واللہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا مجھے کبھی شک پیش نہیں آیا بجز اس واقعہ کے (رواہ البخاری) حضرت ابوعبیدہ نے سمجھایا اور فرمایا کہ شیطان کے شر سے پناہ مانگو، فاروق اعظم نے کہا میں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں برابر صدقہ خیرات کرتا اور روزے رکھتا اور غلام آزاد کرتا رہا کہ میری یہ خطا معاف ہوجائے۔
ایک اور حادثہ اور معاہدہ کی پابندی میں رسول اللہ ﷺ کا بےنظیر عمل
ابھی ابھی یہ شرائط صلح طے ہوئی تھیں اور صحابہ کرام کی ناگواری اس پر ہو رہی تھی کہ اچانک اسی سہیل بن عمرو کا جو صلح نامہ کا فریق منجانب قریش تھا بیٹا ابوجندل جو مسلمان ہوچکا تھا اور باپ نے اس کو قید کر رکھا تھا اور سخت ایذائیں ان کو دیتا تھا وہ کسی طرح بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا اور آپ سے پناہ مانگی، کچھ مسلمان بڑھے اور اس کو اپنی پناہ میں لے لیا مگر سہیل چلا اٹھا کہ یہ پہلی عہد نامہ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اگر اس کو واپس نہ کیا گیا تو میں صلح کی کسی شرط کو نہ مانوں گا، رسول اللہ ﷺ عہد کر کے پابند ہوچکے تھے اس لئے ابوجندل کو آواز دے کر فرمایا کہ اے ابوجندل تم چند روز اور صبر کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور ضعفاء مسلمین کے لئے جو مکہ میں محبوس ہیں جلد رہائی اور فراخی کا انتظام کرنے والا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں پر ابوجندل کے اس واقعہ نے اور زیادہ نمک پاشی کی وہ تو یقین کر کے آئے تھے کہ اسی وقت مکہ فتح ہوگا اور یہاں یہ حالات دیکھے تو ان کے رنج و غم کی انتہا نہ رہی قریب تھا کہ وہ ہلاکت میں پڑجاتے مگر معاہدہ صلح مکمل ہوچکا تھا اس صلح نامہ پر مسلمانوں کی طرف سے ابوبکر و عمر عبدالرحمن بن عوف اور عبداللہ بن سہیل بن عمر سعدبن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ اور علی بن ابی طالب وغیرہ ؓ کے دستخط ہوئے اسی طرح مشرکین کی طرف سے سہیل کے ساتھ چند دوسرے لوگوں کے بھی دستخط ہوگئے۔
احرام کھولنا اور قربانی کے جانور ذبح کرنا
جب صلح نامہ کی کتابت سے فراغت ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (قرار داد صلح کے مطابق اب ہمیں واپس جانا ہے) سب لوگ اپنی قربانی کے جانور جو ساتھ ہیں ان کی قربانی کردیں اور سر کے بال منڈوا کر احرام کھول دیں۔ صحابہ کرام کی مسلسل رنج و غم کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی تھی کہ آپ کے فرمانے کے باوجود کوئی اس کام کے لئے نہیں اٹھا جس سے رسول اللہ ﷺ مغموم ہوئے اور ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس تشریف لے گئے اور اپنے اس رنج کا ذکر کیا، ام المومنین نے بہت مناسب اور اچھا مشورہ دیا کہ آپ صحابہ کرام کو اس پر کچھ نہ کہیں، ان کو اس وقت سخت صدمہ اور رنج شرائط صلح اور بغیر عمرہ کے واپسی کی وجہ سے پہنچا ہوا ہے، آپ سب کے سامنے حجام کو بلا کر خود اپنا حلق کر کے احرام کھول دیں اور اپنی قربانی کردیں۔ آپ نے مشورہ کے مطابق ایسا ہی کیا، صحابہ کرام نے جب یہ دیکھا تو سب کھڑے ہوگئے ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے اور قربانی کے جانوروں کی قربانی کرنے لگے، آپ نے سب کے لئے دعا فرمائی۔
رسول اللہ ﷺ نے اس مقام حدیبیہ میں انیس اور بعض روایات کے اعتبار سے بیس دن قیام فرمایا تھا، اب یہاں سے واپسی شروع ہوئی اور آپ صحابہ کرام کے مجمع کے ساتھ پہلے مرظہران پھر عسفان پہنچے، یہاں پہنچ کر سب مسلمانوں کا زاد راہ تقریباً ختم ہوچکا تھا، کھانے کے لئے بہت کم سامان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک دستر خوان بچھایا اور سب کو حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے لا کر یہاں جمع کر دے اس طرح جو کچھ باقی ماندہ کھانے کا سامان تھا سب اس دستر خوان پر جمع ہوگیا۔ چودہ سو حضرات کا مجمع تھا، رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی اور سب کو کھانا شروع کرنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ پورے چودہ سو حضرات نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا پھر اپنے برتنوں میں بھر لیا اس کے بعد بھی اتنا ہی کھانا باقی تھا، اس مقام پر یہ دوسرا معجزہ ظاہر ہوا، رسول اللہ ﷺ اس کو دیکھ کر بہت مسرور ہوئے۔
صحابہ کرام کے ایمان اور اطاعت رسول کا ایک اور امتحان اور ان کی بےنظیر قوت ایمانی
اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ صحابہ کرام پر ان شرائط صلح اور بغیر عمرہ اور بغیر جنگ میں اپنے حوصلے نکالنے کے واپسی سخت بھاری اور ناگوار تھی، یہی انہی کا ایمان تھا کہ ان سب حالات میں ایمان اور اطاعت رسول پر جمے رہے۔ حدیبیہ سے واپسی پر جب آپ مقام کراع غمیم پر پہنچے تو آپ پر یہ سورة فتح نازل ہوئی آپ نے صحابہ کرام کو پڑھ کر سنایا، صحابہ کرام کے قلوب اس طرح کی شرائط صلح اور بغیر عمرہ کے واپسی سے زخم خوردہ پہلے ہی سے تھے اب اس سورت نے یہ بتلایا کہ فتح مبین حاصل ہوئی ہے حضرت عمر بن خطاب پھر سوال کر بیٹھے کہ یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے، آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ فتح مبین ہے۔ صحابہ کرام نے اس پر بھی سر تسلیم خم کیا اور ان سب چیزوں کو فتح مبین یقین کیا۔
صلح حدیبیہ کے ثمرات و برکات کا ظہور
سب سے پہلے بات تو اس واقعہ میں یہ ہوئی کہ قریش مکہ اور ان کے بہت سے متبعین پر ان کی ضد اور بےجاہٹ دھرمی واضح ہو کر خود ان میں پھوٹ پڑی بدیل ابن ورقاء اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے الگ ہوگئے، پھر عروہ ابن مسعود اپنی جماعت کو لے کر الگ ہوگئے۔ دوسرے صحابہ کرام کی بینظیر جان نثاری اور رسول اللہ ﷺ کی بےمثال اطاعت و محبت و عظمت دیکھ کر قریش مکہ کا مرعوب ہوجانا اور صلح کی طرف مائل ہونا حالانکہ ان کے لئے مسلمانوں کا صفایا کردینے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہ تھا کیونکہ وہ اپنے گھروں میں مطمئن تھے، مسلمان مسافرت کی حالت میں تھے قریش نے پانی کی جگہوں پر قبضہ کیا ہوا تھا یہ بےآب و دانہ جنگل میں تھے، ان کی پوری قوت موجود تھی مسلمانوں کے پاس کچھ زیادہ اسلحہ بھی نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا اور ان کی جماعت کے بہت سے افراد کو آنحضرت ﷺ سے ملاقات اور اختلاط کے مواقع مل کر ان میں سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں اسلام و ایمان راسخ ہوگیا اور بعد میں مسلمان ہوگئے۔ تیسرے صلح وامان کی وجہ سے راستے مامون ہوگئے دعوت اسلام کے لئے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے واسطے راستے کھل گئے، عرب کے وفود کو آپ کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ نے گوشہ گوشہ میں دعوت اسلام کو پھیلایا، دنیا کے بادشاہوں کو دعوت اسلام دینے کے لئے خطوط بھیجے گئے ان میں سے چند بڑے بڑے بادشاہ متاثر ہوئے جس کا حاصل یہ نکلا کہ واقعہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت عام اور سب کو عمرہ کے لئے نکلنے کی تاکید کے باوجود ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مسلمان ساتھ نہیں تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے اسی عرصہ میں 7 ہجری میں خیبر فتح ہو کر مسلمانوں کو سامان بڑی مقدار میں مل گیا اور ان کی مادی قوت مستحکم ہوگئی اور اس صلح پر دو سال گزرنے نہ پائے تھے کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی کثیر ہوگئی جو اس سے پہلے تمام پچھلی مدت میں نہیں تھی، اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب قریش مکہ نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر کے معاہدہ توڑ ڈالا اور رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کرنے کی خفیہ تیاری شروع کی تو اس صلح نامہ پر صرف بیس اکیس مہینے گزرے تھے کہ فتح مکہ کے لئے آنحضرت ﷺ کے ساتھ جانے والے جان نثار سپاہی دس ہزار تھے قریش مکہ کو خبر لگی تو گھبرا کر ابوسفیان کو عذر معذرت کر کے تجدید معاہدہ پر آمادہ کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا آپ نے معاہدہ کی تجدید نہ کی اور بالآخر دس ہزار کے اس حزب اللہ کے ساتھ آپ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے کفار قریش ایسے مغلوب و مرعوب ہوچکے تھے کہ مکر مکرمہ میں کچھ زیادہ لڑائی کی بھی نوبت نہیں آئی، کچھ رسول اللہ ﷺ کی حکیمانہ سیاست نے جنگ نہ ہونے کا یہ انتظام کردیا کہ آپ نے مکہ مکرمہ میں اعلان کرا دیا کہ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے وہ مامون ہے جو مسجد میں داخل ہوجائے وہ مامون جو ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے وہ مامون ہے اس طرح سب لوگوں کو اپنی اپنی فکر پڑگئی اور قتل و قتال کی زیادہ نوبت نہیں آئی اسی لئے ائمہ فقہاء میں یہ اختلاف ہوگیا کہ مکہ مکرمہ صلح سے فتح ہوا یا جنگ سے۔ بہرحال بڑی سہولت کے ساتھ مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کا خواب واقعہ بن کر سب کے سامنے آ گیا، صحابہ کرام نے بےخطر ہو کر بیت اللہ کا طواف پھر حلق و قصر کیا، آنحضرت ﷺ اور صحابہ بیت اللہ میں داخل ہوئے، بیت اللہ کی چابی آپ کے ہاتھ آئی اس وقت رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب کو خصوصاً اور سب صحابہ کو عموماً خطاب کر کے فرمایا کہ یہ ہے وہ واقعہ جو میں نے آپ سے کہا تھا، پھر حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ تھا وہ واقعہ جو میں نے تم سے کہا تھا۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ بیشک کوئی فتح صلح حدیبیہ سے زیادہ بہتر اور اعظم نہیں ہے۔ صدیق اکبر تو پہلے سے فرماتے تھے کہ اسلام میں کوئی فتح صلح حدیبیہ کے برابر نہیں ہے لیکن لوگوں کی رائے اور بصیرت وہاں تک نہ پہنچی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان ایک طے شدہ حقیقت تھی یہ لوگ جلد بازی کرنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی جلد بازی سے متاثر ہو کر جلدی نہیں کرتا بلکہ حکمت و مصلحت کے ساتھ ہر کام اپنے صحیح وقت پر انجام پاتا ہے اس لئے سورة فتح میں حق تعالیٰ نے واقعہ حدیبیہ کو فتح مبین فرمایا۔ یہ واقعہ حدیبیہ کے اہم اجزاء تھے جن سے اگلی آیات کے سمجھنے میں سہولت ملے گی اب آیات کی تفسیر دیکھئے۔
Top