Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 104
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا١ؕ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے تَعَالَوْا : آؤ تم اِلٰى : طرف مَآ : جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا وَاِلَى : اور طرف الرَّسُوْلِ : رسول قَالُوْا : وہ کہتے ہیں حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی مَا وَجَدْنَا : جو ہم نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا اَوَلَوْ كَانَ : کیا خواہ ہوں اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ دادا لَا : نہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَهْتَدُوْنَ : اور نہ ہدایت یافتہ ہوں
اور جب کہا جاتا ہے ان کو آؤ اس کی طرف جو کہ اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہم کو کافی ہے وہ جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اگر ان کے باپ دادے نہ کچھ علم رکھتے ہوں اور نہ راہ جانتی ہوں تو بھی ایسا ہی کریں گے
ربط آیات
اوپر رسم پرست کفار کی ایک جہالت کا ذکر تھا، اور ایسی ایسی جہالتیں ان کی بہ کثرت تھیں، جن کو سن کر مؤمنین کو رنج اور افسوس ہوتا تھا، اس لئے آگے مؤمنین کو اس کے متعلق ارشاد ہے کہ تم کیوں اس غم میں پڑے ہو، تم کو اپنی اصلاح کا اور دوسرے کی اصلاح میں بقدر وسعت وقدرت کوشش کرنے کا حکم ہے، باقی کوشش پر ثمرہ مرتب ہونا تمہارے اختیار سے خارج ہے، اس لئے ”کار خودکن کار بےگانہ مکن“ پر عمل کرو۔
خلاصہ تفسیر
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول ﷺ کی طرف (جن پر وہ احکام نازل ہوئے ہیں) رجوع کرو (جو امر اس سے حق ثابت ہو حق سمجھو اور جو باطل ہو باطل سمجھو) تو کہتے ہیں کہ ہم کو (ان احکام اور رسول ﷺ کی ضرورت نہیں ہم کو) وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) کیا (وہ طریقہ ان کے لئے ہر حال میں کافی ہے) اگرچہ ان کے بڑے (دین کی) نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ (کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں، اے ایمان والو اپنی (اصلاح کی) فکر کرو (اصل کام تمہارے ذمہ یہ ہے، باقی دوسروں کی اصلاح کے متعلق یہ ہے کہ جب تم اپنی طرف سے اپنی قدرت کے مطابق اصلاح کی سعی کر رہے ہو مگر دوسرے پر اثر نہیں ہوتا تو تم اثر مرتب نہ ہونے کی فکر میں نہ پڑو کیونکہ) جب تم (دین کی) راہ پر چل رہے ہو (اور واجبات دین کو ادا کر رہے ہو اس طرح کہ اپنی بھی اصلاح کر رہے ہو اور دوسروں کی اصلاح میں بھی کوشش کر رہے ہو) تو جو شخص (باوجود تمہاری سعی اصلاح کے بھی) گمراہ رہے تو اس (کے گمراہ رہنے) سے تمہارا کوئی نقصان نہیں (اور جیسا اصلاح وغیرہ میں حد سے زیادہ فکر و غم سے منع کیا جاتا ہے ایسے ہی ہدایت سے ناامید ہونے کی صورت میں غصہ میں آکر دنیا ہی میں ان پر سزا نازل ہونے کی تمنا بھی ممنوع ہے، کیونکہ حق و باطل کا مکمل فیصلہ تو آخرت میں ہوگا، چنانچہ) اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دیں گے جو کچھ تم سب کیا کرتے تھے (اور جتلا کر حق پر ثواب اور باطل پر عذاب کا حکم نافذ فرما دیں گے)۔

معارف و مسائل
آیات کا شان نزول
جاہلیت کی رسموں میں ایک تقلید آباء بھی تھی، جس نے ان کو ہر برائی میں مبتلا اور ہر بھلائی سے محروم رکھا تھا، تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ ان میں سے کوئی خوش نصیب اگر حق بات کو مان کر مسلمان ہوجاتا تو اس کو یوں عار دلائی جاتی تھی کہ تو نے اپنے باپ دادوں کو بیوقوف ٹھہرایا، کہ ان کے طریق کو چھوڑ کر دوسرا طریق اختیار کرلیا۔ ان کی اس گمراہی در گمراہی پر یہ آیت نازل ہوئی، وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا یعنی جب ان کو کہا جاتا کہ تم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حقائق اور احکام اور رسول کی طرف رجوع کرو جو ہر حیثیت سے حکمت و مصلحت اور تمہارے لئے صلاح و فلاح کے ضامن ہیں تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ ہم کو تو وہی طریقہ کافی ہے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو دیکھا۔
یہ وہ شیطانی استدلال ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو معمولی سمجھ بوجھ اور علم و ہنر رکھنے کے باوجود گمراہ کیا، قرآن کریم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایااَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤ ُ هُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ ، غور کرنے والوں کے لئے قرآن کے اس ایک جملہ نے کسی شخص یا جماعت کی اقتداء کرنے کا ایک صحیح اصول بیان کرکے اندھوں کے لئے بینائی کا اور جاہل و غافل کے لئے انکشاف حقیقت کا مکمل سامان فراہم کردیا ہے، وہ یہ کہ یہ بات تو معقول ہے کہ نہ جاننے والے جاننے والوں کی، ناواقف لوگ واقف کاروں کی پیروی کریں، جاہل آدمی عالم کی اقتداء کرے لیکن یہ کوئی معقول بات نہیں کہ علم و عقل اور ہدایت کے معیار سے ہٹ کر اپنے باپ دادا یا کسی بھائی بند کی اقتداء کو اپنا طریقہ کار بنا لیا جائے، اور بغیر یہ جانے ہوئے کہ یہ مقتداء خود کہاں جا رہا ہے، اور ہمیں کہاں پہنچائے گا اس کے پیچھے لگ لیا جائے۔
اسی طرح بعض لوگ کسی کی اتباع و اقتداء کا معیار لوگوں کی بھیڑ کو بنا لیتے ہیں جس طرف یہ بھیڑ دیکھی اسی طرف چل پڑے، یہ بھی ایک نامعقول حرکت ہے، کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ دنیا میں بیوقوفوں یا کم عقلوں کی اور عمل کے لحاظ سے بدعملوں کی رہتی ہے، اس لئے لوگوں کی بھیڑ حق و ناحق یا بھلے برے کی تمیز کا معیار نہیں ہوسکتی۔
نااہل کو مقتداء بنانا ہلاکت کو دعوت دینا ہے
قرآن کریم کے اس جملہ نے سب کو ایک واضح حکمت کا سبق دیا کہ ان میں سے کوئی چیز مقتداء و پیشواء بنانے کے لئے ہرگز کافی نہیں، بلکہ ہر انسان پر سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہ اپنی زندگی کا مقصد اور اپنے سفر کا رخ متعین کرے، پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یہ دیکھے کہ کون ایسا انسان ہے جو اس مقصد کا راستہ جاننے والا بھی ہو، اور اس راستہ پر چل بھی رہا ہو، جب کوئی ایسا انسان مل جائے تو بیشک اس کے پیچھے لگ لینا اس کو منزل مقصود پر پہنچا سکتا ہے، یہی حقیقت ہے ائمہ مجتہدین کی تقلید کی کہ وہ دین کو جاننے والے بھی ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی، اس لئے نہ جاننے والے ان کا اتباع کرکے دین کے مقصد یعنی اتباع خدا اور رسول ﷺ کو حاصل کرسکتے ہیں اور جو گم کردہ راہ ہو، منزل مقصود کو خود ہی نہ جانتا ہو، یا جان بوجھ کر منزل کے خلاف سمت چل رہا ہو اس کے پیچھے چلنا ہر عقل مند کے نزدیک اپنی سعی و عمل کو ضائع کرنا، بلکہ اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے، اس علم و حکمت اور روشن خیالی کے زمانہ میں بھی افسوس ہے کہ لکھے پڑھے ہوش و عقل والے لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور آج کی بربادی اور تباہی کا سب سے بڑا سبب نااہل اور غلط مقتداؤں اور لیڈروں کے پیچھے چلنا ہے۔
اقتداء کا معیار
قرآن کریم کے اس جملہ نے اقتداء کا نہایت معقول اور واضح معیار دو چیزوں کو بنایا ہے، علم اور اہتداء، علم سے مراد منزل مقصود اور اس تک پہنچنے کے طریقوں کا جاننا ہے اور اہتداء سے مراد اس مقصد کی راہ پر چلنا، یعنی صحیح علم پر عمل مستقیم۔
خلاصہ یہ ہوا کہ جس شخص کو مقتداء بناؤ تو پہلے یہ دیکھو کہ جس مقصد کے لئے اس کو مقتداء بنایا ہے وہ اس مقصد اور اس کے طریق سے پوری طرح واقف بھی ہے یا نہیں، پھر یہ دیکھو کہ وہ اس کی راہ پر چل بھی رہا ہے ؟ اور اس کا عمل اپنے علم کے مطابق ہے یا نہیں ؟
غرض کسی کو مقتداء بنانے کے لئے علم صحیح اور عمل مستقیم کے معیار سے جانچنا ضروری ہے، محض باپ دادا ہونا یا بہت سے لوگوں کا لیڈر ہونا، یا صاحب مال و دولت ہونا یا صاحب حکومت و سلطنت ہونا ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کو معیار اقتداء سمجھا جائے۔
کسی پر تنقید کرنے کا مؤ ثر طریقہ
قرآن کریم نے اس جگہ تقلید آبائی کے خوگر لوگوں کی غلطی کو واضح فرمایا، اور اس کے ساتھ ہی کسی دوسرے پر تنقید اور اس کی غلطی ظاہر کرنے کا ایک خاص مؤ ثر طریقہ بھی بتلا دیا، جس سے مخاطب کی دل آزاری یا اس کو اشتعال نہ ہو، کیونکہ دین آبائی کی تقلید کرنے والوں کے جواب میں یوں نہیں فرمایا کہ تمہارے باپ دادا جاہل یا گمراہ ہیں، بلکہ ایک سوالیہ عنوان بنا کر ارشاد فرمایا کہ کیا باپ دادا کی پیروی اس حالت میں بھی کوئی معقول بات ہوسکتی ہے جب کہ باپ دادا، نہ علم رکھتے ہوں نہ عمل۔
Top