بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
قسم ہے تارے کی جب گرے
خلاصہ تفسیر
قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے (یعنی کوئی بھی ستارہ ہو اور اس قسم میں مضمون جواب قسم مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے، یعنی جس طرح ستارہ طلوع سے غروب تک اس تمام تر مسافت میں اپنی باقاعدہ رفتار سے ادھر ادھر نہیں ہوا اسی طرح آپ اپنی عمر بھر ضلال وغوایت سے محفوظ ہیں اور نیز اشارہ ہے اس طرف کہ جیسے نجم سے ہدایت ہوتی ہے، اسی طرح آپ سے بھی بوجہ عدم ضلال و عدم غوایت کے ہدایت ہوتی ہے اور چونکہ ستاروں کے وسط سماء میں ہونے کے وقت کسی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لئے اس وقت ستارے سے راستہ کا پتہ نہیں لگتا، اس لئے اس میں قید لگائی غروب کے وقت کی اور گو قرب من الافق طلوع کے وقت بھی ہوتا ہے لیکن غروب میں یہ بات زیادہ ہے کہ اس وقت طالبان اہتداء اس کو غنیمت سمجھتے ہیں اس خیال سے کہ اگر استدلال میں ذرا توقف کیا پھر غائب ہوجاوے گا، بخلاف طلوع کے کہ اس میں بےفکری رہتی ہے پس اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ حضور ﷺ سے ہدایت حاصل کرلینے کو غنیمت سمجھو اور شوق سے دوڑو، آگے جواب قسم ہے کہ) یہ تمہارے (ہمہ وقت) ساتھ کے (اور سامنے) رہنے والے (پیغمبر جن کے عام احوال و افعال تم کو معلوم ہیں جن سے بشرط انصاف ان کی راستی اور حقانیت پر استدلال کرسکتے ہو یہ پیغمبر) نہ راہ (حق) سے بھٹکے اور نہ غلط راستے ہو لئے (ضلال یہ کہ بالکل راستہ بھول کر کھڑا رہ جاوے اور غوایت یہ کہ غیر راہ کو راہ سمجھ کر غلط سمت میں چلتا رہے کذا فی الخازن، یعنی تم جو ان کو دعوائے نبوت و دعوت الی الاسلام میں بےراہ سمجھتے ہو یہ بات نہیں ہے، بلکہ آپ نبی برحق ہیں) اور نہ آپ اپنی نفسیانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں (جیسا تم لوگ کہتے ہو افتراہ بلکہ) ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے (خواہ الفاظ کی بھی وحی ہو جو قرآن کہلاتا ہے خواہ صرف معافی کی ہو جو سنت کہلاتی ہے اور خواہ وحی جزئی ہو یا کسی قاعدہ کلیہ کی وحی ہو، جس سے اجتہاد فرماتے ہوں، پس اس سے نفی اجتہاد کی نہیں ہوتی اور اصل مقصود مقام نفی ہے کفار کے اس خیال کی کہ آپ خدا کی طرف غلط بات کی نسبت فرماتے ہیں، آگے وحی آنے کا واسطہ بتلاتے ہیں کہ) ان کو ایک فرشتہ (اس وحی کی منجانب اللہ) تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے (اور وہ اپنی کوشش و محنت سے طاقتور نہیں ہوا بلکہ) پیدائشی طاقتور ہے (جیسا کہ ایک روایت میں خود جبرئیل ؑ نے اپنی طاقت کا بیان فرمایا کہ میں نے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آسمان کے قریب اس کو لے جا کر چھوڑ دیا (رواہ فی تفسیر سورة التکویر من الدر المنثور) مطلب یہ کہ یہ کلام کسی شیطان کے ذریعہ سے آپ تک نہیں پہنچا کہ کاہن ہونے کا احتمال ہو بلکہ فرشتہ کے ذریعہ سے آیا اور شاید شدید القوی کا ذکر فرمانے میں یہ مقصود ہو کہ اس کا احتمال بھی نہ کیا جاوے کہ شاید اصل میں فرشتہ ہی لے کر چلا ہو مگر درمیان میں کوئی شیطانی تصرف ہوگیا ہو اس میں اشارہ ہوگیا جواب کی طرف کہ وہ نہایت شدید القویٰ ہیں شیطان کی مجال نہیں کہ ان کے پاس پھٹک سکے، پھر ختم وحی کے بعد خود حق تعالیٰ نے اس کے بعینہ ادا کردینے کا وعدہ فرمایا ہے اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه آگے اس شبہ کا جواب ہے کہ اس وحی لانے والے کا فرشتہ اور جبریل ہونا اس وقت معلوم ہوسکتا ہے، جب آپ ان کو پہچانتے ہوں اور پوزی صحیح پہچان موقوف ہے اصل صورت میں دیکھنے پر تو کیا آپ نے جبرئیل ؑ کو اپنی اصلی صورت پر دیکھا ہے اس کی نسبت فرماتے ہیں کہ ہاں یہ بھی ہوا ہے، جس کی کیفیت یہ ہے کہ چند بار تو دوسری صورت میں دیکھا) پھر (ایک بار ایسا بھی ہوا کہ) وہ فرشتہ (اپنی) اصلی صورت پر (آپ کے روبرو) نمودار ہوا ایسی حالت میں کہ وہ (آسمان کے) بلند کنارہ پر تھا (ایک روایت میں افق شرقی سے اس کی تفسیر آئی ہے، کما فی الدر المنثور، اور افق میں دکھلا دینے کی غالباً یہ حکمت ہے کہ وسط سماء میں دیکھنا خالی از مشقت و تکلف نہیں اور اعلیٰ میں غالباً یہ حکمت تھی کہ باکل نیچے افق پر بھی پوری چیز نظر نہیں آتی، اس لئے ذرا اونچے پر نظر آئے اور اس دیکھنے کا قصہ یہ ہوا تھا کہ ایک بار حضور ﷺ نے جبرئیل ؑ سے خواہش کی کہ مجھ کو اپنی اصلی صورت دکھلا دو ، انہوں نے حرا کے پاس وحسب روایت ترمذی محلہ جیاد میں وعدہ ٹھہرایا، آپ وہاں تشریف لے گئے تو ان کو افق مشرق میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ہیں اور اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ افق غربی تک گھیر رکھا ہے، آپ بیہوش ہو کر گر پڑے، اس وقت جبرئیل ؑ بصورت بشر ہو کر آپ کے پاس تسکین کے لئے اتر آئے جس کا آگے ذکر ہے کذا فی الجلالین، حاصل یہ کہ وہ فرشتہ اول صورت اصلیہ میں افق اعلیٰ پر نمو دار ہوا) پھر (جب آپ بےہوش ہوگئے تو) وہ فرشتہ (آپ کے) نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا سو (قرب کی وجہ سے) دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ (غایت قرب کی وجہ سے) اور بھی کم (فاصلہ رہ گیا، مطلب دو کمانوں کا یہ ہے کہ عرب کی عادت تھی کہ جب دو شخص باہم غایت درجہ کا اتفاق و اتحاد کرنا چاہتے تھے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں لے کر ان کے چلے یعنی تانت کو باہم متصل کردیتے اور اس صفت میں بھی بعض اجزاء کے اعتبار سے کچھ فصل ضروری رہتا ہے، پس اس محاورہ کی وجہ سے یہ کنایہ ہوگیا قرب و اتحاد سے اور چونکہ یہ محض اتفاق صوری کی علامت تھی تو اگر روحانی و قلبی اتفاق بھی ہو تو وہاں اَو اَدنیٰ بھی صادق آسکتا ہے، پس اَو اَدنیٰ کے بڑھا دینے میں اشارہ ہوگیا کہ مجاورت صوریہ کے علاوہ آپ میں اور جبرئیل ؑ میں روحانی مناسبت بھی تھی جو مدار اعظم ہے معرفت تامہ اور حفظ صورت کا، غرض یہ کہ ان کی تسکین سے آپ کو تسکین ہوئی اور افاقہ ہوا) پھر (افاقہ کے بعد) اللہ تعالیٰ نے (اس فرشتہ کے ذریعہ سے) اپنے بندہ (محمد ﷺ پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمانا تھی (جس کی تعیین بالتخصیص معلوم نہیں اور نہ معلوم ہونے کی حاجت اور باوجودیکہ اصل مقصود اس وقت وحی نازل کرنا نہیں بلکہ جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں دکھلا کر ان کی پوری معرفت آپ کو عطا کرنی تھی مگر اس وقت اور بھی وحی نازل فرمانا شاید اس لئے ہو کہ یہ معرفت میں اور زیادہ معین ہو، کیونکہ اس وقت کی وحی کو جس کا منجانب اللہ ہونا جبرئیل ؑ کی اصل صورت میں ہونے کی وجہ سے قطعی اور یقینی ہے اور دوسرے اوقات کی وحی جو بواسطہ صورت بشریہ ہے جب آنحضرت ﷺ ان دونوں کو ایک شان پر دیکھیں گے تو زیادہ سے زیادہ یقین میں قوت ہوگی کہ دونوں حالتوں میں وحی لانے والا واسطہ یعنی فرشتہ ایک ہی ہے، جیسا کہ کسی شخص کی آواز کے لب و لہجہ اور طرز کلام سے خوب آگاہ ہوں تو اگر کبھی وہ صورت بدل کر بھی بولتا ہے تو صاف پہچانا جاتا ہے، آگے اس دیکھنے کے متعلق ایک شبہ کا جواب ہے وہ شبہ یہ ہے کہ صورت اصلیہ میں دیکھنے کے باوجود یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ قلب کے ادراک و احساس میں غلطی ہوجائے جیسا کہ احساسات میں غلطی ہوجانا اکثر مشاہدہ کیا جاتا ہے، مجنون باوجود سلامت جس کے بعض اوقات پہچانے ہوئے لوگوں کو دوسرا شخص بتلانے لگتا ہے، پس یہ رویت صحیحہ تھی یا نہیں، آگے اس شبہ کا جواب ہے یعنی وہ رویت صحیحہ تھی کہ اس کے دیکھنے کے وقت) قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی (رہا یہ کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ قلب نے غلطی نہیں کی سو بات یہ ہے کہ اگر مطلقاً ایسے احتمالات قابل التفات ہوا کریں تو محسوسات کا کبھی اعتبار نہ رہے، پھر تو ساری دنیا کے معاملات ہی مختلف ہوجاویں، ہاں کسی کے پاس کوئی منشا شبہ کا معتدبہ موجود ہو تو اس پر غور کیا جاتا ہے اور احتمال خطائے قلبی کا منشاء یہ ہوسکتا ہے کہ ادراک کرنے والا مختل العقل ہو اور حضور ﷺ کا صحیح العقل، فطین و ذہین، صاحب فراست ہونا مشاہد اور ظاہر تھا، چونکہ باوجود اس اثبات بلیغ کے پھر بھی معاندین جدال و خلاف سے باز نہ آتے تھے اسی لئے آگے بطور توبیخ و تعجیب کے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم نے ایسے شافی کافی بیان سے معرفت و رویت کا ثبوت سن لیا) تو کیا ان (پیغمبر) سے ان کی دیکھی (بھالی) ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو (یعنی جن چیزوں کا علم و ادراک انسان کو ہوتا ہے ان میں محسوسات جیسی چیزیں شک و شبہ سے بالاتر ہوتی ہیں، غضب کی بات ہے کہ تم حیات میں بھی اختلاف کرتے ہو، پھر یوں تو تمہاری حسیات میں بھی ہزاروں خدشے نکل سکتے ہیں) اور (اگر یہ مہل خدشہ ہو کہ جس چیز کو ایک ہی بار دیکھا ہو تو اس کی پہچان کیسے ہو سکتی ہے تو جواب یہ ہے کہ اول تو یہ ضروری نہیں کہ ایک بار دیکھنے سے پہچان نہ ہو اور اگر علیٰ سبیل التنزل شناخت کے لئے تکرار مشاہدہ ہی کی ضروری ہے تو) انہوں نے (یعنی پیغمبر ﷺ نے) اس فرشتہ کو ایک اور دفعہ بھی (صورت اصلیہ میں) دیکھا ہے (پس اب تو وہ تو ہم بھی مدفوع ہوگیا، کیونکہ تطابق صورتین سے پوری تعیین ہوگئی کہ ہاں جبرئیل ؑ یہی ہیں، آگے اس دوبارہ دیکھنے کی جگہ بتلاتے ہیں کہ کہاں دیکھا یعنی شب معراج میں دیکھا ہے) سدرة المنتہیٰ کے پاس (سدرہ کہتے ہیں بیری کے درخت کو اور منتہیٰ کے معنی ہیں انتہا کی جگہ، حدیث میں آیا ہے کہ یہ ایک درخت ہے بیری کا، ساتویں آسمان میں عالم بالا سے جو احکام و ارزاق وغیرہ آتے ہیں وہ اول سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں پھر وہاں سے ملائکہ زمین پر لاتے ہیں، اسی طرح یہاں سے جو اعمال صعود کرتے ہیں وہ بھی سدرة المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے اوپر اٹھا لئے جاتے ہیں، دنیا میں اس کی مثال ڈاک خانہ کی سی ہے کہ آمد و برآمد خطوط وہاں سے ہوتی ہے اور عند سدرة المنتہیٰ میں تو امکان رویت بتلایا تھا، آگے اس مکان کا شرف بتلاتے ہیں کہ) اس (سدرة المنتہیٰ) کے قریب جنت الماوی ہے (ماویٰ کے معنی رہنے کی جگہ چونکہ جنت نیک بندوں کے رہنے کی جگہ ہے اس لئے جنت الماویٰ کہتے ہیں، حاصل یہ کہ وہ سدرة المنتہیٰ ایک ممتاز موقع پر ہے، اب بعد تعیین مکان رویت کے رویت کا زمانہ بتلاتے ہیں کہ رویت کب ہوئی، پس فرماتے ہیں کہ) جب اس سدرة المنتہیٰ کو لپٹ رہی تھیں جو چیزیں لپٹ رہی تھیں (ایک روایت میں ہے کہ سونے کے پروانے تھے، یعنی صورت پروانہ کی سی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ وہ فرشتے تھے یعنی حقیقت ان کی یہ تھی اور ایک روایت میں ہے کہ ملائکہ نے حق تعالیٰ سے اجازت چاہی تھی کہ ہم بھی حضور ﷺ کی زیارت کریں ان کو اجازت ہوگئی، وہ اس سدرہ پر جمع ہوگئے تھے، (الروایات کلہا فی الدر المنثور) اس میں بھی اشارہ ہوسکتا ہے حضور ﷺ کے معزز و مکرم ہونے کی طرف اور باقی وہی تقریر ہے جو تقیید سابق میں بیان کی گئی، اب ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی حیرت انگیز چیزیں دیکھ کر نگاہ چکرا جاتی ہے پوری طرح ادراک پر قدرت نہیں رہتی، پس اس صورت میں جبرئیل ؑ کی صورت کا کیا ادراک ہوگا، جب یہ ادراک ثانی معتبر نہ ہوا تو پھر اس خدشہ مذکورہ کا جو جواب لقدراہ نزلتہ اخری سے دیا گیا ہے وہ کافی نہ ہوا اس احتمال کے رفع کے لئے فرماتے ہیں کہ آپ ان عجائب کو دیکھ کر ذرا نہیں چکرائے اور بالکل متحیر نہیں ہوئے، چناچہ جن چیزوں کی رویت کا حکم تھا ان کی طرف نظر کرنے سے آپ کی) نگاہ نہ تو ہٹی (بلکہ ان چیزوں کو خوب دیکھا) اور (جن چیزوں کے دیکھنے کا حکم جب تک نہ ہوا) نہ (ان کی طرف دیکھنے کو آپ کی نگاہ) بڑھی (یعنی قبل اذن نہیں دیکھا، کذا فی المدارک فی الفرق بین زاغ وطغی، یہ دلیل ہے آپ کے غایت استقلال کی، کیونکہ عجیب چیزوں میں آ کر آدمی یہی دو حرکتیں کیا کرتا ہے جن چیزوں کے دیکھنے کو کہا جاتا ہے ان کو تو دیکھتا نہیں اور جن کے لئے نہیں کہا گیا ان کو تکتا ہے، غرض اس میں انضباط نہیں رہتا، آگے آپ کے استقلال کی قوت بیان کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ) انہوں نے (یعنی پیغمبر ﷺ نے) اپنے پروردگار (کی قدرت) کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے (مگر ہر چیز کے دیکھنے میں آپ کی یہی شان رہی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى، وہ عجائبات احادیث معراج میں آئے ہیں، انبیاء (علیہم السلام) کو دیکھنا ارواح کو دیکھنا جنت وغیرہ کو دیکھنا، پس ثابت ہوا کہ آپ میں غایت استقلال ہے، پس متحیر ہوجانے کا احتمال نہیں پس خدشہ کا جو جواب وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں مذکور تھا وہ سالم رہا، غرض تمام تر تقریر سے رویت و معرفت جبرئیل کے متعلق شبہ مندفع ہو کر امر سالت ثابت اور متحقق ہوگیا جو کہ مقصود مقام تھا)

معارف و مسائل
سورة نجم کی خصوصیات
سورة نجم پہلی سورت ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں اعلان فرمایا (رواہ عبداللہ بن مسعود قرطبی) اور یہی سب سے پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے سجدہ تلاوت کیا اور اس سجدہ میں ایک عجیب صورت یہ پیش آئی کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت مجمع عام میں تلاوت فرمائی، جس میں مسلمان اور کفار سب شریک تھے، جب آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ ادا کیا تو مسلمان تو آپ کے اتباع میں سجدہ کرتے ہی، سب نے حضور کے ساتھ سجدہ کیا، تعجب کی چیز یہ پیش آئی کہ جتنے کفار و مشرکین موجود تھے وہ بھی سب سجدہ میں گر گئے، صرف ایک متکبر شخص جس کے نام میں اختلاف ہے، ایسا رہا جس نے سجدہ نہیں کیا، مگر زمین سے ایک مٹھی مٹی کی اٹھا کر پیشانی سے لگالی اور کہنے لگا کہ بس یہی کافی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود راوی حدیث فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو کفر کی حالت میں مرا ہوا دیکھا ہے (رواہ البخاری و مسلم و اصحاب السنن، ابن کثیر ملخصاً)
اس سورت کے شروع میں رسول اللہ ﷺ کے رسول برحق ہونے اور آپ پر نازل ہونے والی وحی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہونے کا بیان ہے۔
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى، لفظ نجم ستارے کے معنی میں آتا ہے، ہر ایک ستارے کو نجم اور جمع نجوم بولی جاتی ہے اور کبھی یہ لفظ خاص طور سے ثریا ستارے کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو چند ستاروں کا مجموعہ ہے، اس آیت میں بھی بعض حضرات نے نجم کی تفسیر ثریا سے کی ہے، فرا اور حضرت حسن بصری نے پہلی تفسیر یعنی مطلق ستارے کو ترجیح دی ہے (قرطبی) اسی کو اوپر خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا ہے۔
اِذَا هَوٰى لفظ ہوٰی، ساقط ہونے اور گرنے کے معنی میں آتا ہے، ستارے کا گرنا اس کا غروب ہونا ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھا کر رسول اللہ ﷺ کی وحی کا حق و صحیح و شکوک سے بالاتر ہونا بیان فرمایا ہے، سورة صافات میں مفصل گزر چکا ہے کہ حق تعالیٰ کو اختیار ہے کہ وہ خاص مصالح اور حکمتوں کے لئے اپنی خاص خاص مخلوقات کی قسم کھاتے ہیں، دوسروں کو اس کی اجازت نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھائے، یہاں حق تعالیٰ نے ستاروں کی قسم کھائی جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ستارے اندھیری رات میں سمتیں اور راستے بتانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان سے سمت مقصود کی طرف ہدایت ہوتی ہے، ایسے ہی رسول اللہ ﷺ سے اللہ کے راستے کی طرف ہدایت ہوتی ہے۔
Top