Maarif-ul-Quran - Al-Hadid : 12
یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُۚ
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ : جس دن تم دیکھو گے مومن مردوں کو وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتوں کو يَسْعٰى نُوْرُهُمْ : دوڑتا ہے نور ان کا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے آگے وَبِاَيْمَانِهِمْ : اور ان کے دائیں ہاتھ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ : (کہا جائے گا) خوشخبری ہی ہے تم کو آج کے دن جَنّٰتٌ : باغات ہیں تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : ان کے نیچے سے نہریں خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ : ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں ذٰلِكَ : یہی هُوَ الْفَوْزُ : وہ کامیابی ہے الْعَظِيْمُ : بڑی
جس دن تو دیکھے ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کو دوڑتی ہوئے چلتی ہے ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے داہنے خوشخبری ہے تم کو آج کے دن باغ ہیں کہ نیچے بہتی ہیں جن کے نہریں سدا رہو ان میں یہ جو ہے یہی ہے بڑی مراد ملنی
خلاصہ تفسیر
(وہ دن بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جس دن آپ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا ہوگا (یہ نور پل صراط پر سے گزرنے کے لئے ان کے ہمراہ ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ بائیں طرف بھی ہوگا، کذا فی الدر المنثور، تو تخصیص داہنی طرف کی شاید اس لئے ہو کہ اس طرف نور زیادہ قوی ہو اور نکتہ اس تخصیص میں شاید یہ ہو کہ یہ علامت ہو ان کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جانے کا اور سامنے نور ہونا تو ایسے موقع پر عادت عامہ ہے اور ان سے کہا جاوے گا کہ) آج تم کو بشارت ہے ایسے باغوں کی جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے (اور) یہ بڑی کامیابی ہے (ظاہر یہ ہے کہ یہ بات بھی اسی وقت کہی جاوے گی اور اس وقت بطور خبر دینے کے کہی جا رہی ہے اور بُشْرٰىكُمُ کہنے والے غالباً فرشتے ہیں، لقولہ تعالیٰ تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا الخ باحق تعالیٰ خود اس خطاب سے مشرف فرما دیں اور یہ وہ دن ہوگا) جس روز منافق مرد اور منافق عورتیں مسلمانوں سے (پل صراط پر) کہیں گے کہ (ذرا) ہمارا انتظار کرلو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں (یہ اس وقت ہوگا جبکہ مسلمان اپنے اعمال و ایمان کی برکت سے بہت آگے بڑھ جاویں گے اور منافقین جو کہ پل صراط پر مسلمانوں کے ساتھ چڑھائے جاویں گے پیچھے اندھیرے میں رہ جاویں گے، خواہ ان کے پاس پہلے ہی سے نور نہ ہو، یا جیسا کہ در منثور کی ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس بھی قدرے نور ہو اور پھر وہ گل ہوجاوے اور حکمت عطاء نور میں یہ ہو کہ دنیا میں ظاہری اعمال کے اعتبار سے وہ مسلمانوں کے ساتھ رہا کرتے تھے مگر باعتبار اعتقاد کے دل سے جدا تھے، اس لئے ان کو اولاً ان اعمال ظاہری کی وجہ سے نور مل جاوے مگر پھر دل میں ایمان و تصدیق نہ ہونے کے سبب وہ نور مفقود ہوجاوے، و نیز ان کے خداع اور دھوکہ کی جزا بھی یہی ہے کہ اول ان کو نور مل گیا پھر خلاف گمان مفقود ہوگیا، غرض وہ مسلمانوں سے ٹھہرنے کو کہیں گے) ان کو جواب دیاجاوے گا (یہ جواب دینے والے خواہ فرشتے ہوں یا مومنین ہوں) کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر (وہاں سے) روشنی تلاش کرو (حسب روایت در منثور اس پیچھے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ظلمت شدیدہ کے بعد پل صراط پر چڑھنے کے وقت نور تقسیم ہوا تھا یعنی نور تقسیم ہونے کی جگہ وہ ہے وہاں جا کرلو، چناچہ وہ ادھر جاویں گے جب وہاں بھی کچھ نہ ملے گا، پھر ادھر ہی آویں گے) پھر (مسلمانوں کے پاس نہ پہنچ سکیں گے بلکہ) ان (فریقین) کے درمیان میں ایک دیوار قائم کردی جاوے گی جس میں ایک دروازہ (بھی) ہوگا (جس کی کیفیت یہ ہے کہ) اس کے اندرونی جانب میں رحمت ہوگی اور بیرونی جانب کی طرف عذاب ہوگا (حسب روایت در منثور یہ دیوار اعراف ہے اور اندرونی جانب سے مومنین کی طرف والی جانب اور بیرونی جانب سے مراد کافروں کی طرف والی جانب اور رحمت سے مراد جنت اور عذاب سے مراد دوزخ ہے اور شاید یہ دروازہ بات چیت کے لئے ہو یا اسی دروازہ میں سے جنت کا راستہ ہو اور زیادہ تحقیق اعراف کی سورة اعراف کے رکوع پنجم میں گزری ہے، غرض جب ان میں اور مسلمانوں میں دیوار حائل ہوجاوے گی اور یہ خود تاریکی میں رہ جاویں گے تو اس وقت) یہ (منافق) ان (مسلمانوں) کو پکاریں گے کہ کیا (دنیا میں) ہم تمہارے ساتھ نہ تھے (یعنی اعمال اور طاعات میں تمہارے شریک رہا کرتے تھے، تو آج بھی رفاقت کرنا چاہئے) وہ (مسلمان) کہیں گے کہ (ہاں) تھے تو سہی لیکن (ایسا ہونا کس کام کا کیونکہ محض ظاہر میں ساتھ تھے اور باطنی حالت تمہاری یہ تھی کہ) تم نے اپنے کو گمراہی میں پھنسا رکھا تھا اور (وہ گمراہی یہ تھی کہ تم پیغمبر اور مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے اور ان پر حوادث واقع ہونے کے) تم منتظر (اور متمنی) رہا کرتے تھے اور (اسلام کے حق ہونے میں) تم شک رکھتے تھے اور تم کو تمہاری بیہودہ تمناؤں نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا، یہاں تک کہ تم پر خدا کا حکم آپہنچا (مراد بیہودہ تمناؤں سے یہ ہے کہ اسلام مٹ جاوے گا اور یہ کہ ہمارا مذہب حق ہے اور موجب نجات ہے اور مراد حکم خدا سے موت ہے، یعنی عمر بھر ان ہی کفریات پر مصر رہے توبہ بھی نہ کی) اور تم کو دھوکہ دینے والے (یعنی شیطان) نے اللہ کے ساتھ دھوکہ میں ڈال رکھا تھا (وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم پر مواخذہ نہ کرے گا حاصل مجموعہ کا یہ ہے کہ ان کفریات کی وجہ سے تمہاری معیت ظاہریہ نجات کے لئے کافی نہیں) غرض آج نہ تم سے کوئی معاوضہ لیا جاوے گا اور نہ کافروں سے (یعنی اول تو معاوضہ دینے کے واسطے تمہارے پاس کوئی چیز ہے نہیں، لیکن بالفرض اگر ہوتی بھی تب بھی مقبول نہ ہوتی کیونکہ دار الجزاء ہے دار العمل نہیں اور) تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے وہی تمہاری (ہمیشہ کے لئے) رفیق ہے اور وہ (واقعی) برا ٹھکانا ہے (یہ قول فالیوم الخ یا تو مومنین کا ہو یا حق تعالیٰ کا اس تمام تر بیان سے ثابت ہوگیا کہ جس ایمان میں طاعات ضروریہ کی کمی ہو وہ گو کالعدم نہیں، لیکن کامل بھی نہیں، اس لئے اگلی آیات میں اس کی تکمیل کے لئے بصورت عتاب کے مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیں کہ) کیا ایمان والوں (میں سے جو لوگ طاعات ضروریہ میں کمی کرتے ہیں جیسے گناہ گار مسلمانوں کی حالت ہوتی ہے تو کیا ان) کے لئے (اب بھی) اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کی نصیحت کے اور جو دین حق (منجانب اللہ) نازل ہوا ہے (کہ وہی نصیحت خداوندی ہے) اس کے سامنے جھک جاویں (یعنی دل سے عزم پابندی طاعات ضروریہ و ترک معاصی کا کرلیں اور اس کو خشوع بمعنی سکون اس لئے کہا کہ دل کا حالت مطلوبہ پر رہنا سکون ہے اور معصیت کی طرف جانا مشابہ حرکت کے ہے) اور (خشوع بالمعنی المذکور میں دیر کرنے سے جس کا حاصل توبہ میں دیر کرنا ہے وہ) ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان کے قبل کتاب (آسمانی) ملی تھی (یعنی یہود و نصاریٰ کہ انہوں نے بھی برخلاف مقتضائے اپنی کتابوں کے شہوات و معاصی میں انہماک شروع کیا) پھر (اسی حالت میں) ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا (اور توبہ نہ کی) پھر (اس توبہ نہ کرنے سے) ان کے دل (خوب ہی) سخت ہوگئے (کہ ندامت و ملامت اضطراری بھی نہ ہوتی تھی) اور (اس کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسی قساوت کی بدولت) بہت سے آدمی ان میں سے (آج) کفار ہیں (کیونکہ معصیت پر اصرار اور اس کو اچھا سمجھنا اور نبی برحق کی عداوت اکثر سبب کفر بن جاتا ہے، مطلب یہ کہ مسلمان کو جلدی توبہ کرلینا چاہئے، کیونکہ بعض اوقات پھر توبہ کی توفیق نہیں رہتی اور بعض اوقات کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے، آگے فرماتے ہیں کہ اگر تم لوگوں کے دلوں میں معاصی سے کوئی خرابی کم و بیش پیدا ہوگئی ہو تو اس کو اس وہم کی بناء پر توبہ سے مانع نہ سمجھو کہ اب توبہ سے کیا اصلاح ہوگی بلکہ) یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ (کی ایسی شان ہے کہ وہ) زمین کو اس کے خشک ہوئے پیچھے زندہ کردیتا ہے (بس اسی طرح توبہ کرنے پر اپنی رحمت سے قلب مردہ کو زندہ اور درست کردیتا ہے، پس مایوس نہ ہونا چاہئے کیونکہ) ہم نے تم سے (اس کے) نظائر بیان کردیئے ہیں تاکہ تم سمجھو (نمونہ سے مراد جیسا مدارک میں ہے احیاء ارض ہے اور شاید جمع لانا بوجہ تکرار وقوع کے ہو، آگے فضیلت انفاق مذکورہ بالا کی ارشاد ہے یعنی) بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور یہ (صدقہ دینے والے) اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں وہ صدقہ (باعتبار ثواب کے) ان کے لئے بڑھا دیا جائے گا اور (مضاعفتہ کے ساتھ) ان کے لئے اجر پسندیدہ (تجویز کیا گیا) ہے (تفسیر اس کی ابھی گزر چکی ہے) اور (آگے فضیلت ایمان مذکورہ بالا کی ارشاد ہے کہ) جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر (پورا) ایمان رکھتے ہیں (یعنی جن میں ایمان اور تصدیق اور پابندی اطاعت مکمل درجہ میں ہو) ایسے ہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں (جس کا بیان سورة نساء کے رکوع نہم میں آ چکا ہے، یعنی یہ مراتب کمال ایمان کامل ہی کی بدولت نصیب ہوتے ہیں اور شہید کا حاصل باذل نفس فی اللہ ہے، یعنی جو اپنی جان کو اللہ کی راہ میں پیش کر دے گو قتل نہ ہو کیونکہ وہ اختیار سے خارج ہے) ان کے لئے (جنت میں) ان کا اجر (خاص) اور (صراط پر) ان کا نور (خاص) ہوگا اور (آگے کفار کا ذکر فرماتے ہیں کہ) جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا یہی لوگ دوزخی ہیں۔
معارف و مسائل
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ ، یعنی وہ دن یاد رکھنے کے قابل ہے جس دن آپ مومن مرد اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف ہوگا الخ۔
اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے اور یہ نور عطا ہونے کا معاملہ پل صراط پر چلنے سے کچھ پہلے پیش آئے گا، اس کی تفصیل ایک حدیث میں ہے جو حضرت ابو امامہ باہلی سے مروی ہے، ابن کثیر نے اس کو بحوالہ ابن ابی حاتم نقل کیا ہے، حدیث طویل ہے جس میں ابو امامہ کا دمشق میں ایک جنازہ میں شریک ہونا اور فارغ ہونے کے بعد لوگوں کو موت اور آخرت کی یاد دلانے کے لئے موت اور قبر پھر حشر کے کچھ حالات بیان فرمانا مذکور ہے، اس کے چند جملوں کا ترجمہ یہ ہے کہ۔
" پھر تم قبروں سے میدان حشر کی طرف منتقل کئے جاؤ گے، جس میں مختلف مراحل اور مواقف ہوں گے، ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ بحکم خداوندی کچھ چہرے سفید اور روشن کردیئے جاویں گے اور کچھ چہرے کالے سیاہ کردیئے جاویں گے، پھر ایک مرحلہ ایسا آوے گا کہ میدان حشر میں جمع ہونے والے سب لوگوں پر جن میں مومن و کافر سب ہوں گے، ایک شدید ظلمت اور اندھیری طاری ہوجائے گی، کسی کو کچھ نظر نہ آئے گا، اس کے بعد نور تقسیم کیا جائے گا ہر مومن کو نور عطا کیا جائے گا (ابن ابی حاتم ہی کی دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ مومن میں یہ نور بقدر ان کے اعمال کے تقسیم ہوگا، کسی کا نور مثل پہاڑ کے، کسی کا کجھور کے درخت کے مثل، کسی کا قامت انسانی کے برابر ہوگا، سب سے کم نور اس شخص کا ہوگا جس کے صرف انگوٹھے میں نور ہوگا اور وہ بھی کبھی روشن ہوجائے گا کبھی بجھ جائے گا، ابن کثیر)
پھر حضرت ابوامامہ باہلی نے فرمایا کہ منافقین اور کفار کو کوئی نور نہ دیا جائے گا اور فرمایا کہ اسی واقعہ کو قرآن کریم نے ایک مثال کے عنوان سے اس آیت میں بیان فرمایا ہے
(اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىهَا ۭ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ) (النور40) اور فرمایا کہ مومنین کو جو نور عطا ہوگا (اس کا حال دنیا کے نور کی طرح نہیں ہوگا کہ جہاں کہیں نور ہو اس کے پاس والے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں) بلکہ جس طرح کوئی اندھا آدمی دوسرے بصیر آدمی کے نور بصر سے نہیں دیکھ سکتا اسی طرح مومنین کے اس نور سے کوئی کافر یا فاسق فائدہ نہیں اٹھا سکے گا (ابن کثیر)
حضرت ابو امامہ باہلی کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس موقف میں ظلمت شدیدہ کے بعد حق تعالیٰ کی طرف مومن مردوں اور مومن عورتوں میں نور تقسیم ہوگا اسی وقت سے کافر اور منافق اس نور سے محروم رہیں گے، ان کو کسی قسم کا نور ملے ہی گا نہیں۔
مگر طبرانی نے حضرت ابن عباس سے ایک مرفوع روایت یہ نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ۔
پل صراط کے پاس اللہ تعالیٰ ہر مومن کو نور عطا فرما دیں گے اور ہر منافق کو بھی مگر جس وقت یہ پل صراط پر پہنچ جائیں گے تو منافقین کا نور سلب کرلیا جائے گا (ابن کثیر)
اس سے معلوم ہوا کہ منافقین کو بھی ابتداء میں نور دیا جائے گا، مگر پل صراط پر پہنچ کر یہ نور سلب ہوجاوے گا، بہرحال خواہ ابتداء ہی سے ان کو نور نہ ملا ہو یا مل کر بجھ گیا ہو، اس وقت وہ مومنین سے درخواست کریں گے کہ ذرا ٹھہرو ہم بھی تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھا لیں کیونکہ ہم دنیا میں بھی نماز، زکوٰة، حج، جہاد سب چیزوں میں تمہارے شریک رہا کرتے تھے، تو ان کو اس درخواست کا جواب نامنظوری کی شکل میں دیا جائے گا، جس کا بیان آگے آتا ہے اور منافقین کے مناسب حال تو یہی ہے کہ پہلے ان کو بھی مسلمانوں کی طرح نور ملے پھر اس کو سلب کرلیا جائے جس طرح وہ دنیا میں خدا و رسول کو دھوکا دینے کی ہی کوشش میں لگے رہے تھے، ان کے ساتھ قیامت میں معاملہ بھی ایسا ہی کیا جائے گا جیسے کسی کو دھوکہ دینے کے لئے کچھ روشنی دکھلا کر بجھا دی جائے، جیسا کہ ان کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ " یعنی منافقین اللہ کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ ان کو دھوکہ دینے والا ہے " امام بغوی نے فرمایا کہ اس دھوکہ سے یہی مراد ہے کہ پہلے نور دے دیا جائے گا مگر عین اس وقت جب نور کی ضرورت ہوگی سلب کرلیا جائے گا اور یہی وہ وقت ہوگا جبکہ مومنین کو بھی یہ اندیشہ لگ جائے گا کہ کہیں ہمارا نور بھی سلب نہ ہوجائے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہمارے نور کو آخر تک پورا کردیئے جس کا ذکر اس آیت میں ہے (يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۚ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا الایتہ) (مظہری)
مسلم، احمد اور دار قطنی میں حضرت جابر بن عبداللہ کی مرفوع حدیث میں بھی آیا ہے کہ شروع میں مومن و منافق دونوں کو نور دیا جائے گا پھر پل صراط پر پہنچ کر منافقین کا نور سلب ہوجائے گا۔
اور تفسیر مظہری میں ان دونوں روایتوں کی تطبیق اس طرح بیان کی ہے کہ اصل منافقین جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں تھے ان کو تو شروع ہی سے کفار کی طرح کوئی نور نہ ملے گا، مگر وہ منافقین جو اس امت میں بعد رسول اللہ ﷺ کے ہوں گے جن کو منافقین کا نام تو اس لئے نہیں دیا جاسکے گا کہ وحی کا سلسلہ رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوچکا اور کسی کے بارے میں بغیر وحی قطعی کے یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ دل سے مومن نہیں، صرف زبان کا اقرار ہے، اس لئے امت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی کو منافق کہے، علم میں منافق ہیں گو ظاہر میں ان کی منافقت نہیں کھلی ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوگا کہ شروع میں ان کو بھی نور دے دیا جائے گا بعد میں سلب کرلیا جائے۔
اس قسم کے منافقین امت کے وہ لوگ ہیں جو قرآن و حدیث میں تحریف کر کے ان کے معانی کو بگاڑتے اور اپنے مطلب کے موافق بناتے ہیں، نعوذ باللہ منہ۔
میدان حشر میں نور اور ظلمت کے اسباب
اس جگہ تفسیر مظہری میں قرآن و حدیث سے محشر کی ظلمت و نور کے اسباب بھی بیان کردیئے ہیں جو علمی تحقیقات سے زیادہ اہم ہیں وہ نقل کرتا ہوں (لعل اللہ تعالیٰ یرزقنا نوراً)
(1) ابوداؤد و ترمذی نے حضرت بریدہ اور ابن ماجہ نے حضرت انس سے یہ مرفوع حدیث روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ۔ " خوشخبری سنا دو ان لوگوں کو جو اندھیری راتوں میں مسجد کی طرف جاتے ہیں، قیامت کے روز مکمل نور کی " اور اسی مضمون کی روایات حضرت سہل بن سعد، زید بن حارثہ، ابن عباس، ابن عمر، حارثہ ابن وہب، ابوامامہ، ابوالدردا، ابوسعید، ابوموسیٰ ، ابوہریرہ، عائشہ صدیقہ وغیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی منقول ہیں (مظہری)
(2) مسند احمد اور طبرانی میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
(من حافظ علی الصلوات کانت لہ نورا و برھانا ونجاة یوم القیمة و من لم یحافظ علیھا لم یکن لہ نورا ولابرھانا ولا نجاة و کان یوم القیامة مع قارون وھامان و فرعون) جو شخص پانچوں نمازوں کی محافظت کرے گا (یعنی ان کے اوقات اور آداب کو پابندی کے ساتھ بجا لائے گا) اس کے لئے یہ نماز قیامت کے روز نور اور برہان اور نجات بن جائے گی اور جو اس پر محافظت نہ کرے گا تو اس کے لئے نور ہوگا نہ برہان اور نہ نجات اور وہ قارون اور ہامان اور فرعون کے ساتھ ہوگا۔
(3) اور طبرانی نے حضرت ابوسعید سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو سورة کہف پڑھے گا قیامت کے روز اس کے لئے اتنا نور ہوگا جو اس کی جگہ سے مکہ مکرمہ تک پھیلے گا اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے روز سورة کہف پڑھے گا قیامت کے روز اس کے قدموں سے آسمان کی بلندی تک نور چمکے گا۔
(4) امام احمد نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کی ایک آیت بھی تلاوت کرے گا وہ آیت اس کے لئے قیامت کے روز نور ہوگی۔
(5) دیلمی نے حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنا پل صراط پر نور کا سبب بنے گا۔
(6) طبرانی نے حضرت عبادہ بن صامت سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حج وعمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے لئے جو سر منڈایا جاتا ہے تو اس میں جو بال زمین پر گرتا ہے وہ قیامت کے روز نور ہوگا۔
(7) مسند بزار میں حضرت ابن مسعود سے مرفوعاً روایت ہے کہ منیٰ میں جمرات کی رمی کرنا قیامت کے روز نور ہوگا۔
(8) طبرانی نے بسند جید حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ جس شخص کے بال حالت اسلام میں سفید ہوجاویں وہ اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا۔
(9) بزار نے بسند جید حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد میں ایک تیر بھی پھینکے گا اس کے لئے قیامت میں نور ہوگا۔
(10) بیہقی نے شعب الایمان میں بسند منقطع حضرت ابن عمر سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ بازار میں اللہ کا ذکر کرنے والے کو اس کے ہر بال کے مقابلے میں قیامت کے روز ایک نور ملے گا۔
(11) طبرانی نے حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی مصیبت و تکلیف کو دور کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے پل صراط پر نور کے دو شعبے بنا دے گا جس سے ایک جہان روشن ہوجائے گا جس کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔
(12) بخاری و مسلم نے حضرت ابن عمر سے اور مسلم نے حضرت جابر سے اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عمر سے اور طبرانی نے ابن زیاد سے روایت کیا ہے کہ ان سب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (ایاکم والظلم فانہ ھو الظلمت یوم القیمة) یعنی تم ظلم سے بہت بچو، کیونکہ ظلم ہی قیامت کے روز ظلمات اور اندھیری ہوگی۔
نعوذ باللہ من الظلمات و نسالہ النور التام یوم القیامتہ
Top