Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
تو تم کھاؤ اس جانور میں سے جس پر نام لیا گیا ہے اللہ کا اگر تم کو اس کے حکموں پر ایمان ہے
ربط آیات
اوپر وَاِن تَطِع کے الفاظ میں اہل اضلال کے اتباع سے مطلقاً منع فرمایا تھا آگے باقتضائے ایک واقعہ کے ایک خاص امر میں اتباع کرنے سے منع فرماتے ہیں، وہ خاص واقعہ مذبوح وغیر مذبوح کی حلت کا ہے، واقعہ یہ ہے کہ کفار نے مسلمانوں کو شبہ ڈالنا چاہا کہ اللہ کے مارے ہوئے جانور کو تو کھاتے نہیں ہو اور اپنے مارے ہوئے یعنی ذبیحہ کو کھاتے ہو، اخرجہ ابو داود والحکم عن ابن عباس ؓ (بعض مسلمانوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں یہ شبہ نقل کیا، اس پر یہ آیتیں لَمُشرِکُونَ تک نازل ہوئیں، رواہ ابو داؤد والترمذی عن ابن عباس ؓ کذا فی اللباب۔
حاصل جواب یہ ہے کہ تم مسلمان ہو اللہ کے احکام کا التزام کئے ہوئے ہو، اور اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کی تفصیل بتلا دی ہے، پس اس پر چلتے رہو، حلال و حرام ہونے کا اور حرام پر حلال ہونے کا شبہ مت کرو، اور مشرکین کے وساوس کی طرف التفات نہ کرو۔
اور تحقیق اس جواب کی یہ ہے کہ اصول کے اثبات کے لئے دلائل عقلیہ درکار ہیں اور بعد ثابت ہوجانے اصول کے اعمال و فروع میں صرف دلائل نقلیہ کافی ہیں، عقلیات کی ضرورت نہیں، بلکہ بعض اوقات مضر ہے کہ اس سے شبہات کے دروازے کھلتے ہیں کیوں کہ روبرو واقناعیات و خطابیات کا تبرعاً پیش کردینا مضائقہ نہیں، لیکن جب یہ بھی نہ ہو بلکہ مجادلہ ہو تو اپنے کام میں لگنا چاہئے، اور معترض کی طرف التفات نہ کرنا چاہئے، ہاں اگر معترض کسی فرع کا عقلی قطعی دلیل کے مخالف ہونا ثابت کرنا چاہئے تو اس کا جواب بذمہ مدعی حق ہوگا، مگر مشرکین کے شبہ میں اس کا احتمال ہی نہیں، اس لئے اس جواب میں صرف مسلمانوں کو بقاعدہ مذکورہ بالا خطاب ہے، کہ ایسی خرافات پر نظر مت کرو، حق کے معتقد اور عامل رہو، اس بناء پر اس مقام میں مشرکین کے شبہ کا جواب صراحةً مذکور نہ ہونا محل شبہ نہیں ہوسکتا، مگر اس پر بھی اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے، جہاں کُلُوا میں ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ اور لَا تَاْكُلُوْا میں لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ مذکور ہے، اور یہ عادت سے اور دوسرے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ ذبح کے وقت ہوگا اور لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ کے تحقیق کی دو صورتیں ہوں گی، عدم ذبح جو نجس خون کو نکال کر نجات سے پاک کردیتا ہے، اور وہ نجاست ہی سبب ممانعت تھی، دوسرے اللہ کا نام لینا کہ مفید برکت ہے جو کہ حیوانات دمویہ میں شرط حلت ہے، اور کسی چیز کے وجود کے لئے مانع کا دور کرنا شرط کا وجود دونوں امر ضروری ہیں، پس اس مجموعہ سے حلّت ثابت ہوگی۔
خلاصہ تفسیر
(اور جب اوپر کفار کے اتباع کا مذموم ہونا معلوم ہوگیا) سو جس (حلال) جانور پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام (بلا شرکت) لیا جاوے اس میں سے (بےتکلّف) کھاؤ (اور اس کو مباح و حلال سمجھو) اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو (کیونکہ حلال و حرام جاننا بخلاف ایمان ہے) اور تم کو کون امر (از قبل عقیدہ) اس کا باعث ہوسکتا ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام (بلا شرکت) لیا گیا ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے (دوسری آیت میں) ان سب جانوروں کی تفصیل بتلا دی ہے، جن کو تم پر حرام کیا ہے، مگر وہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑجاوے تو حلال ہیں (اور اس تفصیل میں یہ مذبوح علی اسم اللہ داخل نہیں پھر اس کے کھانے میں اعتقاداً کیوں انقباض ہو) اور (ان لوگوں کے شبہات کی طرف اصلاً التفات نہ کرو کیونکہ) یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی (کہ ان ہی میں سے یہ بھی ہیں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی) اپنے غلط خیالات (کی بنا پر) بلا کسی سند کے گمراہ کرتے (پھرتے) ہیں (لیکن آخر کہاں تک خیر مناویں گے) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حد (ایمان) سے نکل جانے والوں کو (جن میں یہ بھی ہیں) خوب جانتا ہے (پس یکبارگی سزا دے گا) اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو (مثلاً حلال و حرام اعتقاد کرنا باطنی گناہ ہے جیسا کہ اس کا عکس بھی) بلا شبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب (قیامت میں) سزا ملے گی اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر (بطریق مذکور) اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو (جیسا کہ مشرکین ایسے جانوروں کو کھاتے ہیں) اور (ان لوگوں کے شبہات اس لئے قابل التفات نہیں کہ) یقینا شیاطین (جن) اپنے (ان) دوستوں (اور پیرو وں) کو (یہ شبہات) تعلیم کر رہے ہیں تاکہ یہ تم سے (بیکار) جدال کریں (یعنی اول تو یہ شبہات نص کے خلاف، دوسرے غرض محض جدال اس لئے قابل التفات نہیں) اور اگر تم (خدانخواستہ) ان لوگوں کی اطاعت (عقائد یا افعال میں) کرنے لگو تو یقینا تم مشرک ہوجاؤ (کہ خدا کی تعلیم پر دوسرے کی تعلیم کو ترجیح دو جہاں برابر سمجھنا بھی شرک ہے، یعنی ان کی اطاعت ایسی بری چیز ہے اس لئے اس کے مقدمات یعنی التفات سے بھی بچنا چاہئے)۔

معارف و مسائل
مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ میں ذبح اختیاری اور ذبح اضطراری یعنی تیر و باز اور کتے کا شکار جب کہ اس کے چھوڑنے کے وقت بسم اللہ پڑھی جاوے، اور ذکر حقیقی و ذکر حکمی سب داخل ہے، پس امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جس پر بسم اللہ سہواً ترک کردی جائے وہ حکماً مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ میں داخل ہے، البتہ عمداً ترک کرنے سے امام صاحب کے نزدیک حرام ہوتا ہے۔
Top