Maarif-ul-Quran - Al-Haaqqa : 52
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَسَبِّحْ : پس تسبیح بیان کیجئے بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ : اپنے رب عظیم کے نام کی
اب بول پاکی اپنے رب کے نام کی جو ہے سب سے بڑا۔
فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ ، اس سے پہلی آیتوں میں یہ بتلایا گیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے جو کچھ ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور وہ تقویٰ اختیار کرنے الوں کے لئے تذکرہ اور نصیحت ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سبق طعی اور یقینی امور کو جانتے ہوئے تم میں بہت سے آدمی اس کی تکذیب بھی کرتے رہیں گے جس کا نتیجہ آخرت میں ان کی حسرت ویاس اور عذاب دائمی ہوگا اور آخر میں فرمایا وانہ لحق الیقین یعنی یہ بات بالکل حق اور یقینی ہے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ سب کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا فسبح باسم ربک العظیم جس میں اشارہ ہے کہ آپ ان معاذ کفار کی باتوں پر دھیان نہ دیں اور ان سے مغموم نہ ہوں بلکہ اپنے رب عظیم کی تسبیح و تقدیس کو اپنا مشغلہ بنالیں کہ یہی ان سب غموں سے نجات کا ذریعہ ہے اور یہ ایسا ہے جیسا دوسری جگہ قرآن کریم میں فرمایا ہے (آیت) ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون فسبح بحمد ربک وکن من السجدین۔ یعنی ہم جانتے ہیں کہ آپ ان کفار کی بیہودہ گفتگو سے دل تنگ ہوتے ہیں اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے رب کی حمد میں مشغول ہوجائیں اور سجدہ گزاروں میں شامل ہوجائیں ان کی باتوں کی طرف التفاق نہ کریں۔
ابو داؤد میں حضرت عقبہ ابن عامر جہنی کی روایت ہے کہ جب یہ آیت فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو اپنے رکوع میں رکھو اور جب آیت سبح اسم ربک الاعلی نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس کو اپنے سجدہ میں رکھو۔ اسی لئے باجماع امت رکوع اور سجدے میں یہ دونوں تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔ جمہور کے نزدیک ان کا پڑھنا اور تین مرتبہ تکرار کرنا سنت ہے۔ بعض حضرات نے واجب بھی کہا ہے۔
تمت سورة الحاقہ بحمد اللہ تعالیٰ
Top