Tafseer-e-Mazhari - Al-Haaqqa : 52
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَسَبِّحْ : پس تسبیح بیان کیجئے بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ : اپنے رب عظیم کے نام کی
سو تم اپنے پروردگار عزوجل کے نام کی تنزیہ کرتے رہو
فسبح باسم ربک العظیم . یعنی اللہ کو کسی مفتری کی افتراء پر رضامند رہنے اور نا مناسب اوصاف کے ساتھ موصوف ہونے سے پاک قرار دو اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی کا شکر ادا کرو (مطلب یہ کہ سبح کا مفعول محذوف ہے اور اسم سے پہلے اذکر محذ وف ہے یعنی عظمت والے اللہ کے نام کا ذکر کرو اور اس ذکر کے ساتھ اس کی پاکی کا اقرار کرو۔ ) بعض نے کہا : تسبیح سے نماز مراد ہے یعنی اللہ کی یاد اور اس کے حکم کے ذکر کے ساتھ نماز پڑھو۔ بعض کا قول ہے کہ باء زائد ہے اور لفظ اسم بھی زائد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کرو۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے مروی ہے کہ جب آیت : فسبح باسم ربک العظیم (رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسکو اپنے رکوع میں (داخل) کرلو اور جب سبح اسم ربک الاعلٰی نازل ہوئی تو فرمایا : اس کو اپنے سجدہ میں (داخل) کرلو۔ (ابوداؤد ‘ ابن ماجہ) حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلٰی پڑھتے تھے اور جب آیت رحمت پر پہنچتے تو ٹھہر کر دعا کرتے اور آیت عذاب پر پہنچتے تو ٹھہر کر پناہ مانگتے۔ (ترمذی ‘ ابوداؤد ‘ دارمی) ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ نسائی اور ابن ماجہ نے آیت رحمت اور آیت عذاب پر ٹھہرنے اور دعا کرنے اور پناہ مانگنے کا ذکر نہیں کیا۔ عون بن عبداللہ نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی رکوع کرے اور تین بار رکوع میں ” سبحان ربی العظیم “ کہہ لے تو اس کا رکوع پورا ہوگیا اور یہ کمترین (مقدار) ہے اور جب سجدہ کرے اور سجدہ میں تین بار ” سبحان ربی العلٰی “ کہہ لے تو اس کا سجدہ ہوگیا اور یہ قلیل ترین (تعداد) ہے۔ ترمذی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ عون نے حضرت ابن مسعود کو نہیں پایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : دو لفظ ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں۔ وزن میں بھاری ہیں ‘ رحمن کو محبوب ہیں (وہ دو لفظ یہ ہیں) ” سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم “۔ (بخاری و مسلم) حضرت جابر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو : ” سبحان اللہ العظیم وبحمدہ “ کہتا ہے ‘ اس کے لیے جنت کے اندر ایک کھجور کا درخت بو دیا جاتا ہے۔ (ترمذی) مسئلہ جمہور کے نزدیک رکوع اور سجدہ میں تسبیح پڑھنی سنت ہے اور تکمیل کا ادنیٰ درجہ تین بار ہے ‘ امام احمد (رح) ان تسبیحات کو واجب کہتے ہیں ‘ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کو اپنے رکوع میں (داخل) کرلو۔ یہ امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابن مسعود کی حدیث میں بھی تکمیل رکوع کو اس سے وابستہ کیا گیا ہے۔ جمہور امر کو ندب (استحباب) کے لیے قرار دیتے ہیں۔ قیام سے رکوع پھر رکوع سے قیام کے بعد سجود پھر سجدہ سے سر اٹھا کر جلسہ پھر جلسہ سے سجدہ پھر سجدہ کے بعد قیام غرض ہر رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال کے وقت تکبیر کہنے میں بھی یہی اختلاف ہے۔ جمہور کے نزدیک سنت ہے اور امام احمد (رح) کے نزدیک واجب ہے۔ اسی طرح قومہ میں سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کہنا بھی مختلف فیہ ہے۔ جمہور کے نزدیک سنت اور امام احمد (رح) کے نزدیک واجب ہے۔ ہاں ! جلسہ کے اندر رب اغفرلی پڑھنے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے وجوب کا کوئی قائل نہیں ‘ واللہ اعلم۔ الحمد اللہ کہ سورة الحاقۃ کی تفسیر ختم ہوئی
Top