Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 145
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ١ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا١ؕ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ
وَكَتَبْنَا : اور ہم نے لکھدی لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاَلْوَاحِ : تختیاں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مَّوْعِظَةً : نصیحت وَّتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی فَخُذْهَا : پس تو اسے پکڑ لے بِقُوَّةٍ : قوت سے وَّاْمُرْ : اور حکم دے قَوْمَكَ : اپنی قوم يَاْخُذُوْا : وہ پکڑیں (اختیار کریں) بِاَحْسَنِهَا : اس کی اچھی باتیں سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کا گھر
اور لکھ دی ہم نے اس کو تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور تفصیل ہر چیز کی، سو پکڑ لے ان کو زور سے اور حکم کر اپنی قوم کو کہ پکڑے رہیں اس کی بہتر باتیں عنقریب میں تم کو دکھلاؤں گا گھر نافرمانوں کا۔
سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ ، اس جگہ دار الْفٰسِقِيْنَ سے کیا مراد ہے، اس میں دو قول ہیں، ایک ملک مصر، دوسرا ملک شام، کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ کے فتح کرنے سے پہلے مصر پر فرعون اور اس کی قوم حکمران اور غالب تھی اس کی وجہ سے مصر کو دار الْفٰسِقِيْنَ اور ملک شام پر عمالقہ کا قبضہ تھا وہ بھی کافر فاسق تھے اس لئے اس وقت شام بھی دار الْفٰسِقِيْنَ تھا، ان دونوں میں سے اس جگہ کونسا ملک مراد ہے، اس میں اختلاف اس بنیاد پر ہے کہ غرق فرعون کے بعد بنی اسرائیل مصر میں واپس چلے گئے تھے یا نہیں، اگر اس وقت مصر میں واپس گئے اور مملکت مصر پر قابض ہوئے جیسا کہ آیت وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ سے اس کی تائید ہوئی تو مصر پر قبضہ اور غلبہ اس واقعہ تجلی طور سے پہلے ہوچکا ہے اس میں سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ کا مفہوم ملک شام متعین ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس وقت واپس نہیں گئے تو دونوں ملک مراد ہو سکتے ہیں۔
وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات کی تختیاں لکھی لکھائی حضرت موسیٰ ؑ کے سپرد کی گئی تھی، انہی تختیوں کے مجموعہ کا نام تورات ہے۔
Top