Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 155
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا١ۚ فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَ١ؕ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا١ۚ اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَ١ؕ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُ١ؕ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ
وَاخْتَارَ : اور چن لئے مُوْسٰي : موسیٰ قَوْمَهٗ : اپنی قوم سَبْعِيْنَ : ستر رَجُلًا : مرد لِّمِيْقَاتِنَا : ہمارے وعدہ کے وقت کے لیے فَلَمَّآ : پھر جب اَخَذَتْهُمُ : انہیں پکڑا ( آلیا) الرَّجْفَةُ : زلزلہ قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب لَوْ شِئْتَ : اگر تو چاہتا اَهْلَكْتَهُمْ : انہیں ہلاک کردیتا مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَاِيَّايَ : اور مجھے اَتُهْلِكُنَا : کیا تو ہمیں ہلاک کریگا بِمَا : اس پر جو فَعَلَ : کیا السُّفَهَآءُ : بیوقوف (جمع) مِنَّا : ہم میں سے اِنْ هِىَ : یہ نہیں اِلَّا : مگر فِتْنَتُكَ : تیری آزمائش تُضِلُّ : تو گمراہ کرے بِهَا : اس سے مَنْ : جس تَشَآءُ : تو چاہے وَتَهْدِيْ : اور تو ہدایت دے مَنْ : جو۔ جس تَشَآءُ : تو چاہے اَنْتَ : تو وَلِيُّنَا : ہمارا کارساز فَاغْفِرْ : سو ہمیں بخشدے لَنَا : اور تو وَارْحَمْنَا : ہم پر رحم فرما وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہترین الْغٰفِرِيْنَ : بخشنے والا
اور چن لئے موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر مرد ہمارے وعدہ کے وقت پر لانے کو، پھر جب ان کو زلزلہ نے پکڑا تو بولا اے رب میرے اگر تو چاہتا تو پہلے ہی ہلاک کردیتا ان کو اور مجھ کو کیا ہم کو ہلاک کرتا ہے اس کام پر جو کیا ہماری قوم کے احمقوں نے یہ سب تیری آزمائش ہے بچلاوے اس میں جس کو تو چاہے اور سیدھا رکھے جس کو چاہے تو ہی ہے ہمارا تھامنے والا سو بخش دو ہم کو اور رحمت کر ہم پر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے
ستر بنی اسرائیل کا انتخاب اور ان کی ہلاکت کا واقعہ
چوتھی آیت میں ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے کہ موسیٰ ؑ نے جب اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات لاکر بنی اسرائیل کو دی تو اپنی کجروی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے کہنے لگے کہ ہمیں یہ کیسے یقین آئے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے، ممکن ہے آپ اپنی طرف سے لکھ لائے ہوں، ان کو اطمینان دلانے کے لئے موسیٰ ؑ نے دعا کی تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہوا کہ اس قوم کے منتخب آدمیوں کو آپ کوہ طور پر لے آئیں تو ہم ان کو بھی خود اپنا کلام سنا دیں گے جس سے ان کو یقین آجائے، موسیٰ ؑ نے ان میں سے ستر آدمیوں کا انتخاب کیا اور کوہ طور پر لے گئے، حسب وعدہ انہوں نے اپنے کانوں اللہ تعالیٰ کا کلام سن لیا، مگر جب یہ حجت بھی پوری ہوگئی تو کہنے لگے ہمیں کیا معلوم یہ آواز اللہ تعالیٰ ہی کی ہے یا کسی اور کی، ہم تو جب یقین کریں جب کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں، ان کا یہ سوال چونکہ ہٹ دھرمی اور جہالت پر مبنی تھا، اس پر غضب الہی متوجہ ہوا، ان کے نیچے سے زلزلہ آیا اور اوپر سے بجلی کی کڑک آئی جس سے یہ بیہوش ہو کر گر گئے اور بظاہر مردہ ہوگئے، سورة بقرہ میں اس جگہ صاعقہ کا لفظ آیا ہے اور یہاں رجفہ کا، صاعقہ کے معنی بجلی کی کڑک اور رجفہ کے معنی زلزلہ کے ہیں، اس میں کوئی بعد نہیں کہ دونوں چیزیں جمع ہوگئی ہوں۔
بہرحال یہ لوگ ایسے ہو کر گرگئے جیسے مردے ہوتے ہیں خواہ حقیقة مر ہی گئے ہوں یا ظاہر میں مردہ نظر آتے ہوں، حضرت موسیٰ ؑ کو اس واقعہ سے سخت صدمہ پہنچا، اول تو اس لئے کہ یہ لوگ اپنی قوم کے منختب لوگ تھے، دوسرے اس لئے کہ اب اپنی قوم میں جاکر کیا جواب دیں گے وہ یہ تہمت لگائیں گے کہ موسیٰ ؑ نے ان سب کو کہیں لے جاکر قتل کرادیا ہے اور اس تہمت کے بعد یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کر ڈالیں گے اس لئے اللہ جل شانہ سے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں جانتا ہوں کہ اس واقعہ سے آپ کا مقصود ان کو ہلاک کرنا نہیں کیونکہ اگر یہ مقصود ہوتا تو اب سے پہلے بہت سے واقعات تھے جن میں یہ ہلاک کئے جاسکتے تھے، فرعون کے ساتھ غرق کردیئے جاتے یا گوسالہ پرستی کے وقت سب کے سامنے ہلاک کردیئے جاتے اور آپ چاہتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ ہلاک کردیتے مگر آپ نے یہ نہیں چاہا تو معلوم ہوا کہ اس وقت بھی ان کا ہلاک کرنا مقصود نہیں بلکہ سزا دینا اور تنبیہ کرنا مقصود ہے اور کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ہم سب کو چند بیوقوفوں کے عمل کی وجہ سے ہلاک کردیں۔
اس جگہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا اس لئے ذکر کیا کہ ان ستر آدمیوں کی اس طرح غائبانہ ہلاکت کا نتیجہ یہی تھا کہ موسیٰ ؑ اپنی قوم کے ہاتھوں ہلاک کئے جائیں۔
پھر عرض کیا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ محض آپ کا امتحان ہے جس کے ذریعہ آپ بعض لوگوں کو گمراہ کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شکایت و ناشکری کرنے لگیں، اور بعض کو ہدایت پر قائم رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں میں بھی آپ کے فضل سے آپ کے حکیم ہونے کا علم رکھتا ہوں لہذا اس امتحان میں مطمئن ہوں اور آپ ہی تو ہمارے خبرگیراں ہیں، ہم پر مغفرت اور رحمت فرمائیے اور آپ سب معافی دینے والوں سے زیادہ معافی دینے والے ہیں اس لئے ان کی اس گستاخی کو بھی معاف کر دیجئے۔ چناچہ وہ سب لوگ صحیح سالم اٹھ کھڑے ہوئے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ستر آدمی جن کا ذکر اس آیت میں ہے وہ نہیں جنہوں نے ارنا اللہ جھرة کی درخواست کی تھی اور اس پر صاعقہ کے ذریعہ ہلاک کئے گئے تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو خود تو گوسالہ پرستی میں شریک نہ تھے مگر قوم کو اس حرکت سے روکنے کی کوئی کوشش بھی نہ کی تھی اس کی سزا میں ان پر زلزلہ آیا اور بیہوش ہوگئے، واللہ اعلم۔
بہر حال یہ لوگ حضرت موسیٰ ؑ کی دعا سے زندہ ہو کر کھڑے ہوگئے۔
Top