Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اس کو ڈر اور توقع سے بیشک اللہ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا(آیت) وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا اس میں دو لفظ متضاد اور متقابل آئے ہیں صلاح اور فساد، صلاح کے معنی درستی اور فساد کے معنی خرابی کے آتے ہیں، امام راغب رحمة اللہ علیہ نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ فساد کہتے ہیں کسی چیز کے اعتدال سے نکل جانے کو خواہ یہ نکلنا تھوڑا سا ہو یا زیادہ، اور ہر فساد میں کمی بیشی کا مدار اسی اعتدال سے خروج پر ہے، جس قدر خروج بڑھے گا فساد بڑھے گا فساد کے معنی خرابی پیدا کرنا اور اصلاح کے معنی درستی کرنا ہے اس لئے وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا کے معنی یہ ہوئے کہ ”زمین میں خرابی نہ پیدا کرو بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی درستی فرما دی ہے“۔
امام راغب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کی اصلاح کرنا اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ اس کو اول ہی ٹھیک ٹھیک اور درست پیدا فرمایا، جیسے (آیت) واصلح بالہم دوسرے یہ کہ اس میں جو فساد آگیا تھا اس کو دور کردیا، جیسے (آیت) یصلح لکم اعمالکم، تیسری یہ کہ اس کو صلاح کا حکم دیا جائے، اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین کی اصلاح و درستی فرما دی تو اس کے بعد تم اس میں فساد اور خرابی نہ ڈالو، اس میں زمین کی درستی کرنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، ایک ظاہری درستی کہ زمین کو کھیتی اور درخت اگانے کے قابل بنایا، اس پر بادلوں سے پانی برسا کر زمین سے پھل پھول نکالے، انسان اور دوسرے جانداروں کے لئے زمین سے ہر قسم کی ضروریات زندگی اور آسائش کے سامان پیدا فرمائے۔
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ زمین کی باطنی اور معنوی اصلاح فرمائی، اس طرح کہ زمین پر اپنے رسول اپنی کتابیں اور ہدایات بھیج کر اس کو کفر و شرک اور گمراہی سے پاک کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں مفہوم یعنی ظاہری اور باطنی ہر طرح کی اصلاح اس آیت میں مراد ہو، تو اب معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو ظاہری اور باطنی طور پر درست فرما دیا ہے، اب تم اس میں اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے فساد نہ مچاؤ، اور خرابی پیدا نہ کرو۔
زمین کی درستی اور خرابی کیا ہے اور لوگوں کے گناہوں کا اس میں کیا دخل ہے
جس طرح اصلاح کی دو قسمیں ظاہری اور باطنی ہیں اسی طرح فساد کی بھی دو قسمیں ہیں، زمین کی ظاہری اصلاح تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا جسم بنایا ہے کہ نہ پانی کی طرح نرم ہے جس پر قرار نہ ہوسکے، اور نہ پتھر لوہے کی طرح سخت ہے جس کو کھودا نہ جاسکے، ایک درمیانی حالت میں رکھا گیا ہے، تاکہ انسان اس کو نرم کرکے اس میں کھیتی اور درخت اور پھول پھل اگاسکے، اور کھود کر اس میں کنویں اور خندقیں، نہریں بنا سکیں، مکانات کی بنیادیں مستحکم کرسکیں، پھر اس زمین کے اندر اور باہر ایسے سامان پیدا فرما دیئے جن سے زمین کی آبادی ہو، اس میں سبزی اور درخت اور پھول پھل اگ سکیں، باہر سے ہوا، روشنی، گرمی، سردی پیدا کی، اور پھر بادلوں کے ذریعے اس پر پانی برسایا جس سے درخت پیدا ہو سکیں، مختلف ستاروں اور سیاروں کی سرد گرم کرنیں ان پر ڈالی گئیں جن سے پھولوں پھلوں میں رنگ اور رس بھرے گئے، انسان کو فہم و عقل عطا کی گئی، جس کے ذریعہ اس نے زمین سے نکلنے والے کام مواد لکڑی، لوہا، تانبہ، پیتل، ایلومینیم وغیرہ کے جوڑ توڑ لگا کر مصنوعات کی ایک نئی دنیا بنا ڈالی، یہ سب زمین کی اصلاح ظاہری ہے جو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے فرمائی۔
اور اصلاح باطنی و روحانی کا مدار ذکر اللہ، تعلق مع اللہ اور اس کی اطاعت پر ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اول تو ہر انسان کے قلب میں ایک مادّہ اور جذبہ خدا کی اطاعت اور یاد کا رکھ دیا ہے (آیت) فالھمھا فجورھا وتقوھا، اور انسان کے گردوپیش کے ہر ذرے ذرے میں اپنی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبہ کے ایسے مظاہر رکھے کہ ان کو دیکھ کر معمولی فہم و ادراک رکھنے والا بھی بول اٹھے کہ (آیت) فتبرک اللّٰہ احسن الخلقین، اس کے علاوہ اپنے رسول بھیجے کتابیں نازل فرمائیں جن کے ذریعہ مخلوق کا رشتہ خالق کے ساتھ جوڑنے کا پورا انتظام فرمایا۔
اس طرح گویا زمین کی مکمل اصلاح ظاہری اور باطنی ہوگئی، اب حکم یہ ہے کہ ہم نے اس زمین کو درست کردیا ہے تم اس کو خراب نہ کرو۔
جس طرح اصلاح کی دو قسمیں ظاہری اور باطنی بیان کی گئی ہیں اسی طرح اس کے بالمقابل فساد کی بھی دو قسمیں ظاہری اور باطنی ہیں، اور اس ارشاد ربانی کے ذریعہ دونوں ہی کی ممانعت کی گئی ہے۔
اگرچہ قرآن اور رسول کریم ﷺ کا اصل وظیفہ اور فرض منصبی اصلاح باطنی ہے، اور اس کے بالمقابل فساد باطنی سے روکنا ہے، لیکن اس دنیا میں ظاہر و باطن کے اصلاح و فساد میں ایک ایسا ربط ہے کہ ایک کا فساد دوسرے کے فساد کا موجب بن جاتا ہے، اس لئے شریعت قرآن نے جس طرح باطنی فساد کے دروازے بند کئے ہیں اسی طرح ظاہری فساد کو بھی منع فرمایا چوری ڈاکہ، قتل اور بےحیائی کے تمام طریقے دنیا میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کا فساد پیدا کرتے ہیں، اس لئے ان چیزوں پر خصوصیت سے پابندیاں اور سخت سزائیں مقرر فرمائی، اور عام گناہوں اور جرائم کو بھی ممنوع قرار دیا، کیونکہ ہر جرم و گناہ کہیں ظاہری فساد کا موجب ہوتا ہے کہیں باطنی فساد کا، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ظاہری فساد باطنی فساد کا سبب بنتا ہے، اور ہر باطنی فساد ظاہری فساد کا موجب ہوتا ہے۔
ظاہری فساد کا باطنی کے لئے مستلزم ہونا تو اس لئے ظاہر ہے کہ وہ اطاعت احکام الٓہیہ کی خلاف ورزی ہے، اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہی کا دوسرا نام فساد باطنی ہے، البتہ فساد باطنی کس طرح فساد ظاہری کا سبب بنتا ہے، اس کا پہچاننا کسی قدر غور و فکر کا محتاج ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ سارا جہان اور اس کی ہر چھوٹی بڑی چیز سب مالک الملک و الملکوک کی بنائی ہوئی اور اس کے تابع فرمان ہے، جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگے تو دنیا کی ساری چیزیں در پردہ انسان کی نافرمان ہوجاتی ہیں، جس کو بظاہر انسان اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا، لیکن ان چیزوں کے آثار و خواص اور نتائج و فوائد میں غور کرنے سے بدیہی طور پر اس کا ثبوت مل جاتا ہے۔
ظاہر میں تو یہ دنیا کی ساری چیزیں انسان کے استعمال میں رہتی ہیں، پانی اس کے حلق میں اترے تو پیاس بجھانے سے انکار نہیں کرتا، کھانا اس کی بھوک رفع کرنے سے نہیں رکتا، لباس اور مکان اس کی سردی گرمی کی آسائشوں کو مہیا کرنے سے انکار نہیں کرتا۔
لیکن عواقب اور نتائج کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز اپنا کام پورا نہیں کر رہی، کیونکہ اصل مقصد ان تمام چیزوں اور ان کے استعمال کا یہ ہے کہ انسان کو آرام و راحت میسر آئے، اس کی پریشانی اور تکلیف دور ہو اور بیماریوں کو شفاء ہو۔
ان دنیا کے حالات پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ آج کل سامان راحت اور سامان شفاء کی زائد از قیاس فراوانی کے باوجود انسانوں کی اکثریت انتہائی پریشانیوں اور بیماریوں کا شکار ہے، نئے نئے امراض، نئی نئی مصیبتیں برس رہی ہیں، کوئی بڑے سے بڑا انسان اپنی جگہ مطمئن اور آسودہ نہیں ہے، بلکہ جوں جوں یہ سامان بڑھتے جاتے ہیں اسی انداز سے مصائب و آفات اور امراض اور پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“
آج کا انسان جس کو برق و بھاپ اور دوسری مادی رنگینیوں نے مسحور بنا رکھا ہے، ذرا ان چیزوں سے بلند ہو کر سوچے تو اس کو معلوم ہوگا کہ ہماری ساری کوششیں اور ساری مصنوعات و ایجادات ہمارے اصل مقصد یعنی اطمینان و راحت کے حاصل کرنے میں فیل اور ناکام ہیں، اس کی وجہ بجز اس معنوی اور باطنی سبب کے نہیں ہے کہ ہم نے اپنے رب اور مالک کی نافرمانی اختیار کی تو اس کی مخلوقات نے معنوی طور پر ہم سے نافرمانی شروع کردی
چوں از وگشتی ہمہ چیز از تو گشت
کہ ہمارے لئے حقیقی آرام و راحت مہیا نہیں کرتی، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند
یعنی دنیا کی یہ سب چیزیں اگرچہ ظاہر میں بےجان و بےشعور نظر آتی ہیں، مگر حقیقت میں اتنا ادراک ان میں بھی ہے کہ مالک کے تابع فرمان کام کرتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب غور سے دیکھا جائے تو ہر گناہ اور خدا تعالیٰ سے غفلت اور اس کی ہر نافرمانی دنیا میں نہ صرف باطنی فساد پیدا کرتی ہے بلکہ ظاہری فساد بھی اس کا لازمی ثمرہ ہوتا ہے، اسی کو مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے
ابرنا یداز پئے منع زکوٰة وززنا افتد و بااندر جہات
اور یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جس پر قرآن و حدیث ناطق ہے، لیکن سزا کا ہلکا سا نمونہ اس دنیا میں امراض، وباؤ ں، طوفانوں، سیلابوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔
اس لئے (آیت) وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا کے مفہوم میں جیسے وہ جرائم اور گناہ داخل ہیں جن سے ظاہری طور پر دنیا میں فساد پیدا ہوتا ہے اسی طرح ہر نافرمانی اور خدا تعالیٰ سے غفلت و معصیت بھی اس میں شامل ہے، اسی لئے آیت مذکورہ میں اس کے بعد فرمایا وادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا یعنی اللہ تعالیٰ کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ، یعنی اس طرح کہ ایک طرف دعا کے ناقابل قبول ہونے کا خوف لگا ہو اور دوسری طرف اس کی رحمت سے پوری امید بھی لگی ہوئی ہو، اور یہی امید و بیم طریق استقامت میں روح انسانی کے دو بازو ہیں، جن سے وہ پرواز کرتی اور درجات عالیہ حاصل کرتی ہے۔
اور ظاہر اس عبارت سے یہ ہے کہ امید وبیم دونوں مساوی درجہ میں ہونا چاہئے، اور بعض علماء نے فرمایا کہ مناسب یہ ہے کہ حیات اور تندرستی کے زمانہ میں خوف کو غالب رکھے، تاکہ اطاعت میں کوتاہی نہ ہو، اور جب موت کا وقت قریب آئے تو امید کو غالب رکھے، کیونکہ اب عمل کی طاقت رخصت ہوچکی ہے، امید رحمت ہی اس کا عمل رہ گیا ہے۔ (بحر محیط)
اور بعض محققین نے فرمایا کہ اصل مقصد دین کے صحیح راستہ پر قائم رہنا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مداومت کرنا ہے، اور مزاج و طبائع انسانوں کے مختلف ہوتے ہیں، کسی کو غلبہ خوف سے یہ مقام استقامت اور دوام اطاعت حاصل ہوتا ہے، کسی کو غلبہ محبت ورجا سے سو جس کو جس حالت سے اس مقصد میں مدد ملے اس کو حاصل کرنے کی فکر کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دعا کے دو آداب اس سے پہلی آیت میں بتلائے گئے، ایک عاجزی اور تضرع کے ساتھ ہونا، دوسرے خفیہ و آہستہ ہونا، یہ دونوں صفتیں انسان کے ظاہر جسد سے متعلق ہیں، کیونکہ تضرع سے مراد یہ ہے کہ اپنی ہیئت بوقت دعا عاجزانہ، فقیرانہ بنالے، متکبرانہ یا بےنیاز نہ ہو، اور خفیہ ہونے کا تعلق بھی منہ اور زبان سے ہے۔
اس آیت میں دعا کے لئے دو آداب باطنی اور بتلائے گئے، جن کا تعلق انسان کے دل سے ہے وہ یہ کہ دعا کرنے والے کے دل میں اس کا خطرہ بھی ہونا چاہئے کہ شاید میری دعا قبول نہ ہو، اور امید بھی ہونی چاہئے کہ میری دعا قبول ہوسکتی ہے، کیونکہ اپنی خطاؤں اور گناہوں سے بےفکر ہوجانا بھی ایمان کے خلاف ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ سے مایوس ہوجانا بھی کفر ہے، قبولیت دعا کی جب ہی توقع کی جاسکتی ہے جب کہ دونوں حالتوں کے درمیان درمیان رہے۔
پھر آخر میں فرمایا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ”یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت قریب ہے نیک عمل کرنے والوں سے“۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اگرچہ بوقت دعا خوف اور امید دونوں ہی حالتیں ہونی چاہیئں، لیکن ان دونوں حالتوں میں سے امید ہی کی جانب راجح ہے، کیونکہ رب العالمین اور رحیم الرحماء کے جو دو احسان میں نہ کوئی کمی ہے نہ بخل، وہ برے سے برے انسان بلکہ شیطان کی بھی دعا قبول کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہونے کے لئے محسن یعنی نیک عمل ہونا درکار ہے۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض آدمی لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، اور اپنی ہیئت فقیرانہ بناتے ہیں، اور اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں، مگر ان کا کھانا بھی حرام ہے اور پینا بھی حرام ہے، اور لباس بھی حرام کا ہے، سو ایسے آدمی کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (مسلم، ترمذی، عن ابی ہریرہ)
اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بندہ کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی نہ کرے، صحابہ کرام نے دریافت کیا، جلد بازی کا کیا مطلب ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ یوں خیال کر بیٹھے کہ میں اتنے عرصہ سے دعا مانگ رہا ہوں اب تک قبول نہیں ہوئی، یہاں تک کہ مایوس ہو کر دعا چھوڑ دے (مسلم، ترمذی)
اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگو تو اس حالت میں مانگو کہ تمہیں اس کے قبول ہونے میں کوئی شک نہ ہو۔
مراد یہ ہے کہ رحمت خدا وندی کی وسعت کو سامنے رکھ کر دل کو اس پر جماؤ کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی، یہ اس کے منافی نہیں کہ اپنے گناہوں کے شامت کے سبب یہ خطرہ بھی محسوس کرے کہ شاید میرے گناہ دعاء کی قبولیت میں آڑے آجائیں۔ و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ نبینا وسلم۔
Top