Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ
: اور
لَا تُفْسِدُوْا
: نہ فساد مچاؤ
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
بَعْدَ
: بعد
اِصْلَاحِهَا
: اس کی اصلاح
وَادْعُوْهُ
: اور اسے پکارو
خَوْفًا
: ڈرتے
وَّطَمَعًا
: اور امید رکھتے
اِنَّ
: بیشک
رَحْمَتَ
: رحمت
اللّٰهِ
: اللہ
قَرِيْبٌ
: قریب
مِّنَ
: سے
الْمُحْسِنِيْنَ
: احسان (نیکی) کرنیوالے
اور مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اس کو ڈر اور توقع سے بیشک اللہ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا(آیت) وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا اس میں دو لفظ متضاد اور متقابل آئے ہیں صلاح اور فساد، صلاح کے معنی درستی اور فساد کے معنی خرابی کے آتے ہیں، امام راغب رحمة اللہ علیہ نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ فساد کہتے ہیں کسی چیز کے اعتدال سے نکل جانے کو خواہ یہ نکلنا تھوڑا سا ہو یا زیادہ، اور ہر فساد میں کمی بیشی کا مدار اسی اعتدال سے خروج پر ہے، جس قدر خروج بڑھے گا فساد بڑھے گا فساد کے معنی خرابی پیدا کرنا اور اصلاح کے معنی درستی کرنا ہے اس لئے وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا کے معنی یہ ہوئے کہ ”زمین میں خرابی نہ پیدا کرو بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی درستی فرما دی ہے“۔
امام راغب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کی اصلاح کرنا اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ اس کو اول ہی ٹھیک ٹھیک اور درست پیدا فرمایا، جیسے (آیت) واصلح بالہم دوسرے یہ کہ اس میں جو فساد آگیا تھا اس کو دور کردیا، جیسے (آیت) یصلح لکم اعمالکم، تیسری یہ کہ اس کو صلاح کا حکم دیا جائے، اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین کی اصلاح و درستی فرما دی تو اس کے بعد تم اس میں فساد اور خرابی نہ ڈالو، اس میں زمین کی درستی کرنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، ایک ظاہری درستی کہ زمین کو کھیتی اور درخت اگانے کے قابل بنایا، اس پر بادلوں سے پانی برسا کر زمین سے پھل پھول نکالے، انسان اور دوسرے جانداروں کے لئے زمین سے ہر قسم کی ضروریات زندگی اور آسائش کے سامان پیدا فرمائے۔
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ زمین کی باطنی اور معنوی اصلاح فرمائی، اس طرح کہ زمین پر اپنے رسول اپنی کتابیں اور ہدایات بھیج کر اس کو کفر و شرک اور گمراہی سے پاک کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں مفہوم یعنی ظاہری اور باطنی ہر طرح کی اصلاح اس آیت میں مراد ہو، تو اب معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو ظاہری اور باطنی طور پر درست فرما دیا ہے، اب تم اس میں اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے فساد نہ مچاؤ، اور خرابی پیدا نہ کرو۔
زمین کی درستی اور خرابی کیا ہے اور لوگوں کے گناہوں کا اس میں کیا دخل ہے
جس طرح اصلاح کی دو قسمیں ظاہری اور باطنی ہیں اسی طرح فساد کی بھی دو قسمیں ہیں، زمین کی ظاہری اصلاح تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا جسم بنایا ہے کہ نہ پانی کی طرح نرم ہے جس پر قرار نہ ہوسکے، اور نہ پتھر لوہے کی طرح سخت ہے جس کو کھودا نہ جاسکے، ایک درمیانی حالت میں رکھا گیا ہے، تاکہ انسان اس کو نرم کرکے اس میں کھیتی اور درخت اور پھول پھل اگاسکے، اور کھود کر اس میں کنویں اور خندقیں، نہریں بنا سکیں، مکانات کی بنیادیں مستحکم کرسکیں، پھر اس زمین کے اندر اور باہر ایسے سامان پیدا فرما دیئے جن سے زمین کی آبادی ہو، اس میں سبزی اور درخت اور پھول پھل اگ سکیں، باہر سے ہوا، روشنی، گرمی، سردی پیدا کی، اور پھر بادلوں کے ذریعے اس پر پانی برسایا جس سے درخت پیدا ہو سکیں، مختلف ستاروں اور سیاروں کی سرد گرم کرنیں ان پر ڈالی گئیں جن سے پھولوں پھلوں میں رنگ اور رس بھرے گئے، انسان کو فہم و عقل عطا کی گئی، جس کے ذریعہ اس نے زمین سے نکلنے والے کام مواد لکڑی، لوہا، تانبہ، پیتل، ایلومینیم وغیرہ کے جوڑ توڑ لگا کر مصنوعات کی ایک نئی دنیا بنا ڈالی، یہ سب زمین کی اصلاح ظاہری ہے جو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے فرمائی۔
اور اصلاح باطنی و روحانی کا مدار ذکر اللہ، تعلق مع اللہ اور اس کی اطاعت پر ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اول تو ہر انسان کے قلب میں ایک مادّہ اور جذبہ خدا کی اطاعت اور یاد کا رکھ دیا ہے (آیت) فالھمھا فجورھا وتقوھا، اور انسان کے گردوپیش کے ہر ذرے ذرے میں اپنی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبہ کے ایسے مظاہر رکھے کہ ان کو دیکھ کر معمولی فہم و ادراک رکھنے والا بھی بول اٹھے کہ (آیت) فتبرک اللّٰہ احسن الخلقین، اس کے علاوہ اپنے رسول بھیجے کتابیں نازل فرمائیں جن کے ذریعہ مخلوق کا رشتہ خالق کے ساتھ جوڑنے کا پورا انتظام فرمایا۔
اس طرح گویا زمین کی مکمل اصلاح ظاہری اور باطنی ہوگئی، اب حکم یہ ہے کہ ہم نے اس زمین کو درست کردیا ہے تم اس کو خراب نہ کرو۔
جس طرح اصلاح کی دو قسمیں ظاہری اور باطنی بیان کی گئی ہیں اسی طرح اس کے بالمقابل فساد کی بھی دو قسمیں ظاہری اور باطنی ہیں، اور اس ارشاد ربانی کے ذریعہ دونوں ہی کی ممانعت کی گئی ہے۔
اگرچہ قرآن اور رسول کریم ﷺ کا اصل وظیفہ اور فرض منصبی اصلاح باطنی ہے، اور اس کے بالمقابل فساد باطنی سے روکنا ہے، لیکن اس دنیا میں ظاہر و باطن کے اصلاح و فساد میں ایک ایسا ربط ہے کہ ایک کا فساد دوسرے کے فساد کا موجب بن جاتا ہے، اس لئے شریعت قرآن نے جس طرح باطنی فساد کے دروازے بند کئے ہیں اسی طرح ظاہری فساد کو بھی منع فرمایا چوری ڈاکہ، قتل اور بےحیائی کے تمام طریقے دنیا میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کا فساد پیدا کرتے ہیں، اس لئے ان چیزوں پر خصوصیت سے پابندیاں اور سخت سزائیں مقرر فرمائی، اور عام گناہوں اور جرائم کو بھی ممنوع قرار دیا، کیونکہ ہر جرم و گناہ کہیں ظاہری فساد کا موجب ہوتا ہے کہیں باطنی فساد کا، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ظاہری فساد باطنی فساد کا سبب بنتا ہے، اور ہر باطنی فساد ظاہری فساد کا موجب ہوتا ہے۔
ظاہری فساد کا باطنی کے لئے مستلزم ہونا تو اس لئے ظاہر ہے کہ وہ اطاعت احکام الٓہیہ کی خلاف ورزی ہے، اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہی کا دوسرا نام فساد باطنی ہے، البتہ فساد باطنی کس طرح فساد ظاہری کا سبب بنتا ہے، اس کا پہچاننا کسی قدر غور و فکر کا محتاج ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ سارا جہان اور اس کی ہر چھوٹی بڑی چیز سب مالک الملک و الملکوک کی بنائی ہوئی اور اس کے تابع فرمان ہے، جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگے تو دنیا کی ساری چیزیں در پردہ انسان کی نافرمان ہوجاتی ہیں، جس کو بظاہر انسان اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا، لیکن ان چیزوں کے آثار و خواص اور نتائج و فوائد میں غور کرنے سے بدیہی طور پر اس کا ثبوت مل جاتا ہے۔
ظاہر میں تو یہ دنیا کی ساری چیزیں انسان کے استعمال میں رہتی ہیں، پانی اس کے حلق میں اترے تو پیاس بجھانے سے انکار نہیں کرتا، کھانا اس کی بھوک رفع کرنے سے نہیں رکتا، لباس اور مکان اس کی سردی گرمی کی آسائشوں کو مہیا کرنے سے انکار نہیں کرتا۔
لیکن عواقب اور نتائج کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز اپنا کام پورا نہیں کر رہی، کیونکہ اصل مقصد ان تمام چیزوں اور ان کے استعمال کا یہ ہے کہ انسان کو آرام و راحت میسر آئے، اس کی پریشانی اور تکلیف دور ہو اور بیماریوں کو شفاء ہو۔
ان دنیا کے حالات پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ آج کل سامان راحت اور سامان شفاء کی زائد از قیاس فراوانی کے باوجود انسانوں کی اکثریت انتہائی پریشانیوں اور بیماریوں کا شکار ہے، نئے نئے امراض، نئی نئی مصیبتیں برس رہی ہیں، کوئی بڑے سے بڑا انسان اپنی جگہ مطمئن اور آسودہ نہیں ہے، بلکہ جوں جوں یہ سامان بڑھتے جاتے ہیں اسی انداز سے مصائب و آفات اور امراض اور پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“
آج کا انسان جس کو برق و بھاپ اور دوسری مادی رنگینیوں نے مسحور بنا رکھا ہے، ذرا ان چیزوں سے بلند ہو کر سوچے تو اس کو معلوم ہوگا کہ ہماری ساری کوششیں اور ساری مصنوعات و ایجادات ہمارے اصل مقصد یعنی اطمینان و راحت کے حاصل کرنے میں فیل اور ناکام ہیں، اس کی وجہ بجز اس معنوی اور باطنی سبب کے نہیں ہے کہ ہم نے اپنے رب اور مالک کی نافرمانی اختیار کی تو اس کی مخلوقات نے معنوی طور پر ہم سے نافرمانی شروع کردی
چوں از وگشتی ہمہ چیز از تو گشت
کہ ہمارے لئے حقیقی آرام و راحت مہیا نہیں کرتی، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند
یعنی دنیا کی یہ سب چیزیں اگرچہ ظاہر میں بےجان و بےشعور نظر آتی ہیں، مگر حقیقت میں اتنا ادراک ان میں بھی ہے کہ مالک کے تابع فرمان کام کرتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب غور سے دیکھا جائے تو ہر گناہ اور خدا تعالیٰ سے غفلت اور اس کی ہر نافرمانی دنیا میں نہ صرف باطنی فساد پیدا کرتی ہے بلکہ ظاہری فساد بھی اس کا لازمی ثمرہ ہوتا ہے، اسی کو مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے
ابرنا یداز پئے منع زکوٰة وززنا افتد و بااندر جہات
اور یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جس پر قرآن و حدیث ناطق ہے، لیکن سزا کا ہلکا سا نمونہ اس دنیا میں امراض، وباؤ ں، طوفانوں، سیلابوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔
اس لئے (آیت) وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا کے مفہوم میں جیسے وہ جرائم اور گناہ داخل ہیں جن سے ظاہری طور پر دنیا میں فساد پیدا ہوتا ہے اسی طرح ہر نافرمانی اور خدا تعالیٰ سے غفلت و معصیت بھی اس میں شامل ہے، اسی لئے آیت مذکورہ میں اس کے بعد فرمایا وادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا یعنی اللہ تعالیٰ کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ، یعنی اس طرح کہ ایک طرف دعا کے ناقابل قبول ہونے کا خوف لگا ہو اور دوسری طرف اس کی رحمت سے پوری امید بھی لگی ہوئی ہو، اور یہی امید و بیم طریق استقامت میں روح انسانی کے دو بازو ہیں، جن سے وہ پرواز کرتی اور درجات عالیہ حاصل کرتی ہے۔
اور ظاہر اس عبارت سے یہ ہے کہ امید وبیم دونوں مساوی درجہ میں ہونا چاہئے، اور بعض علماء نے فرمایا کہ مناسب یہ ہے کہ حیات اور تندرستی کے زمانہ میں خوف کو غالب رکھے، تاکہ اطاعت میں کوتاہی نہ ہو، اور جب موت کا وقت قریب آئے تو امید کو غالب رکھے، کیونکہ اب عمل کی طاقت رخصت ہوچکی ہے، امید رحمت ہی اس کا عمل رہ گیا ہے۔ (بحر محیط)
اور بعض محققین نے فرمایا کہ اصل مقصد دین کے صحیح راستہ پر قائم رہنا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مداومت کرنا ہے، اور مزاج و طبائع انسانوں کے مختلف ہوتے ہیں، کسی کو غلبہ خوف سے یہ مقام استقامت اور دوام اطاعت حاصل ہوتا ہے، کسی کو غلبہ محبت ورجا سے سو جس کو جس حالت سے اس مقصد میں مدد ملے اس کو حاصل کرنے کی فکر کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دعا کے دو آداب اس سے پہلی آیت میں بتلائے گئے، ایک عاجزی اور تضرع کے ساتھ ہونا، دوسرے خفیہ و آہستہ ہونا، یہ دونوں صفتیں انسان کے ظاہر جسد سے متعلق ہیں، کیونکہ تضرع سے مراد یہ ہے کہ اپنی ہیئت بوقت دعا عاجزانہ، فقیرانہ بنالے، متکبرانہ یا بےنیاز نہ ہو، اور خفیہ ہونے کا تعلق بھی منہ اور زبان سے ہے۔
اس آیت میں دعا کے لئے دو آداب باطنی اور بتلائے گئے، جن کا تعلق انسان کے دل سے ہے وہ یہ کہ دعا کرنے والے کے دل میں اس کا خطرہ بھی ہونا چاہئے کہ شاید میری دعا قبول نہ ہو، اور امید بھی ہونی چاہئے کہ میری دعا قبول ہوسکتی ہے، کیونکہ اپنی خطاؤں اور گناہوں سے بےفکر ہوجانا بھی ایمان کے خلاف ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ سے مایوس ہوجانا بھی کفر ہے، قبولیت دعا کی جب ہی توقع کی جاسکتی ہے جب کہ دونوں حالتوں کے درمیان درمیان رہے۔
پھر آخر میں فرمایا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ”یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت قریب ہے نیک عمل کرنے والوں سے“۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اگرچہ بوقت دعا خوف اور امید دونوں ہی حالتیں ہونی چاہیئں، لیکن ان دونوں حالتوں میں سے امید ہی کی جانب راجح ہے، کیونکہ رب العالمین اور رحیم الرحماء کے جو دو احسان میں نہ کوئی کمی ہے نہ بخل، وہ برے سے برے انسان بلکہ شیطان کی بھی دعا قبول کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہونے کے لئے محسن یعنی نیک عمل ہونا درکار ہے۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض آدمی لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، اور اپنی ہیئت فقیرانہ بناتے ہیں، اور اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں، مگر ان کا کھانا بھی حرام ہے اور پینا بھی حرام ہے، اور لباس بھی حرام کا ہے، سو ایسے آدمی کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (مسلم، ترمذی، عن ابی ہریرہ)
اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بندہ کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی نہ کرے، صحابہ کرام نے دریافت کیا، جلد بازی کا کیا مطلب ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ یوں خیال کر بیٹھے کہ میں اتنے عرصہ سے دعا مانگ رہا ہوں اب تک قبول نہیں ہوئی، یہاں تک کہ مایوس ہو کر دعا چھوڑ دے (مسلم، ترمذی)
اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگو تو اس حالت میں مانگو کہ تمہیں اس کے قبول ہونے میں کوئی شک نہ ہو۔
مراد یہ ہے کہ رحمت خدا وندی کی وسعت کو سامنے رکھ کر دل کو اس پر جماؤ کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی، یہ اس کے منافی نہیں کہ اپنے گناہوں کے شامت کے سبب یہ خطرہ بھی محسوس کرے کہ شاید میرے گناہ دعاء کی قبولیت میں آڑے آجائیں۔ و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ نبینا وسلم۔
Top