Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 83
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ۖ٘ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : ہم نے نجات دی اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : مگر امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ تھی مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہنے والے
پھر بچا دیا ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو مگر اس کی عورت کہ رہ گئی وہاں کے رہنے والوں میں ،
تیسری اور چوتھی آیتوں میں قوم سدوم کی اس کجروی اور بےحیائی کی سزا آسمانی کا ذکر ہے اور یہ کہ اس پوری قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا صرف لوط ؑ اور ان کے چند ساتھی عذاب سے محفوظ رہے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ آیا ہے یعنی ہم نے لوط اور ان کے اہل کو عذاب سے نجات دی۔ یہ اہل کون لوگ تھے۔ بعض حضرات مفسرین کا قول ہے کہ اہل میں دو لڑکیاں تھیں جو مسلمان ہوئی تھیں۔ بیوی بھی مسلمان نہ ہوئی تھی۔ قرآن مجید کی ایک دوسری (آیت) میں فما وجدنا فیہا غیر بیت من المسلمین مذکور ہے کہ ان تمام بستیوں میں ایک گھر کے سوا کوئی مسلمان نہ تھا۔ اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ لوط ؑ کے صرف گھر کے آدمی مسلمان تھے جن کو عذاب سے نجات ملی ان میں بھی بیوی داخل نہ تھی۔ اور مفسرین نے فرمایا کہ اہل سے مراد عام ہے اپنے گھر والے اور دوسرے متعلقین جو مسلمان ہوچکے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گنے چنے چند مسلمان تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عذاب سے بچانے کے لئے حضرت لوط ؑ کو حکم دے دیا کہ بیوی کے سوا دوسرے اہل و متعلقین کو لے کر آخر رات میں اس بستی سے نکل جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ کیونکہ جس وقت آپ بستی سے نکل جائیں گے تو بستی والوں پر فوراً عذاب آجائے گا۔
حضرت لوط ؑ نے حکم خدا وندی کی تعمیل کی اپنے اہل و متعلقین کو لے کر آخر شب میں سدوم سے نکل گئے۔ بیوی کے متعلق دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ وہ ساتھ چلی ہی نہیں دوسری یہ کہ کچھ دور تک ساتھ چلی مگر حکم خداوندی کے خلاف پیچھے مڑ کر بستی والوں کا حال دیکھنا چاہتی تھی تو اس کو عذاب نے پکڑ لیا۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات میں اس واقعہ کو مجمل اور مفصل بیان فرمایا گیا ہے۔ یہاں تیسری آیت میں صرف اتنا مذکور ہے کہ ہم نے لوط ؑ اور ان کے اہل و متعلقین کو عذاب سے نجات دے دی مگر ان کی بیوی عذاب میں رہ گئی۔ نجات دینے کی یہ صورت کہ یہ لوگ آخر رات میں بستی سے نکل جائیں اور مڑ کر نہ دیکھیں دوسری آیات میں مذکور ہے۔
Top