Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور تول اس دن ٹھیک ہوگی پھر جس کی تولیں بھاری ہوئیں سو وہی ہیں نجات پانے والے
خلاصہ تفسیر
اور اس روز (یعنی قیامت کے دن اعمال و عقائد کا) وزن واقع ہونے والا ہے (تاکہ عام طور پر ہر ایک کی حالت ظاہر ہوجائے) پھر (وزن کے بعد) جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) بھاری ہوگا (یعنی وہ مومن ہوگا) سو ایسے لوگ (تو) کامیاب ہوں گے (یعنی نجات پائیں گے) اور جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا (یعنی وہ کافر ہوگا) تو یہ لوگ وہ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کی حق تلفی کیا کرتے تھے، اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی، اور ہم نے تمہارے لئے اس (زمین) میں سامان زندگی پیدا کیا (جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ تم اس کے شکریہ میں فرمانبردار و اطاعت شعار ہوتے، لیکن) تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو (مراد اس سے اطاعت ہے اور کم اس لئے فرمایا کہ تھوڑا بہت نیک کام تو اکثر لوگ کر ہی لیتے ہیں، لیکن بوجہ ایمان نے ہونے کے وہ قابل اعتبار نہیں)۔

معارف و مسائل
پہلی آیت میں ارشاد ہے والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ یعنی بھلے برے اعمال کا وزن ہونا اس دن حق و صحیح ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ وزن اور تول تو ان چیزوں کا ہوا کرتا ہے جن میں کوئی بوجھ اور ثقل ہو۔ انسان کے اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ان کا کوئی جسم اور جزم ہی نہیں، جس کا تول ہو سکے، پھر اعمال کا وزن کیسے ہوگا، کیونکہ اول تو مالک الملک قادر مطلق ہر چیز پر قادر ہے، یہ کیا ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم نہ تول سکیں حق تعالیٰ بھی نہ تول سکیں، اس کے علاوہ آج کل تو دنیا میں وزن تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد ہوچکے ہیں، جن میں نہ ترازو کی ضرورت ہے، نہ اس کے پلوں کی اور نہ ڈندی کی اور کانٹے کی، آج تو ان نئے آلات کے ذریعہ وہ چیزیں بھی تولی جاتی ہیں جن کے تولنے کا آج سے پہلے کسی کو تصور بھی نہ تھا، ہوا تولی جاتی ہے، برقی رو تولی جاتی ہے، سردی گرمی تولی جاتی ہے، انکا میٹر ہی ان کی ترازو ہوتا ہے، اگر حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انسانی اعمال کا وزن کرلیں تو اس میں کیا استبعاد ہے، اس کے علاوہ خالق کائنات کو اس پر بھی قدرت ہے کہ ہمارے اعمال کو کسی وقت جوہری وجود اور کوئی شکل و صورت عطا فرمادیں، حدیث رسول اللہ ﷺ کی بہت سی روایات اس پر شاہد بھی ہیں کہ برزخ اور محشر میں انسانی اعمال خاص خاص شکلوں اور صورتوں میں آئیں گے، قبر میں انسان کے اعمال صالحہ ایک حسین صورت میں اس کے مونس بنیں گے، اور برے اعمال سانپ بچھو بن کر لپٹیں گے، حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مال کی زکوٰة نہیں ادا کی وہ مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی قبر میں پہنچ کر اس کو ڈسے گا، اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔
اسی طرح معتبر احادیث میں ہے کہ میدان حشر میں انسان کے اعمال صالحہ اس کی سواری بن جائیں گے، اور برے اعمال بوجھ بن کر اس کے سر پر لادے جائیں گے۔
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قرآن مجید کی سورة بقرہ اور سورة آل عمران میدان حشر میں دو گہرے بادلوں کی شکل میں آکر ان لوگوں پر سایہ کریں گی جو اس سورتوں کے پڑھنے والے تھے۔
اسی طرح کی بیشمار روایات حدیث مستند اور معتبر طریقوں سے منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان سے گزر جانے کے بعد ہمارے یہ سارے اعمال نیک و بد خاص خاص شکلیں اور صورتیں اختیار کرلیں گے، اور ایک جوہری وجود کے ساتھ میدان حشر میں موجود ہوں گے۔
قرآن مجید کے بھی بہت سے ارشادات سے اس کی تائید ہوتی ہے، ارشاد ہے(آیت) ووجدوا ما عملوا حاضرا، ”یعنی لوگوں نے دنیا میں جو کچھ عمل کیا تھا اس کو وہاں حاضر و موجود پائینگے“۔ ایک آیت میں فرمایا (آیت) من یعمل مثقال ذرة خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ ”یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی نیکی کرے گا تو قیامت میں اس کو دیکھے گا، اور ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کرے گا تو قیامت میں اس کو بھی دیکھے گا“۔ ظاہر ان حالات سے یہی ہے کہ انسان کا عمل جوہری وجود کے ساتھ اس کے سامنے آئے گا، ان میں بھی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں کہ اعمال کی جزاء کو موجود پائے گا اور دیکھے گا۔
ان حالات میں ظاہر ہے کہ ان اعمال کا تولا جانا کوئی بعید یا مشکل امر نہیں رہتا، مگر چونکہ تھوڑی سی عقل و فہم کا مالک انسان اس کا عادی ہے کہ سارے امور کو اپنی موجودہ حالت اور کیفیت ظاہری پر قیاس کرتا ہے، اور سب چیزوں کو اسی کے پیمانہ سے جانچتا ہے، قرآن کریم نے اس کے اسی حال کو اس طرح بیان فرمایا ہے، (آیت) یعلمون ظاھرا من الحیوۃ الدنیا وھم عن الاخرۃ ھم غفلون ”یعنی یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ایک ظاہری پہلو کو جانتے ہیں وہ بھی پورا نہیں، اور آخرت سے بالکل غافل ہیں، ظاہر حیات دنیا میں تو زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، مگر حقائق اشیاء سے جن کا صحیح انکشاف آخرت میں ہونے والا ہے یہ لوگ بالکل بیخبر ہیں۔
آیت مذکورہ میں اسی لئے اہتمام کرکے یہ فرمایا گیا والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ، تاکہ یہ ظاہر میں انسان آخرت میں وزن اعمال سے انکار نہ کر بیٹھے، جو قرآن کریم سے ثابت اور پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔
قرآن مجید میں بروز قیامت وزن اعمال ہونے کا مسئلہ بہت سی آیات میں مختلف عنوانوں سے آیا ہے اور روایات حدیث اس کی تفصیلات میں بیشمار ہیں۔
وزن اعمال کے متعلق ایک شبہ اور جواب
وزن اعمال کے متعلق جو تفصیلی بیان رسول کریم ﷺ کی احادیث میں آیا ہے اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ متعدد روایات حدیث میں آیا ہے کہ محشر کی میزان عدل میں سب سے بڑا وزنی کلمہ لَا الہٰ الاَّ اللہ ُ مُحَمَّد رَسُول اللہ کا ہوگا، جس پلے میں یہ کلمہ ہوگا وہ سب سے بھاری رہے گا۔
ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، بیہقی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں میری امت کا یک آدمی ساری مخلوق کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے نامہ اعمال لائے جاویں گے، اور ان میں سے ہر نامہ اعمال اتنا طویل ہوگا کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے، اور یہ سب نامہ اعمال برائیوں اور گناہوں سے لبریز ہوں گے، اس شخص سے پوچھا جائے گا کہ ان نامہائے اعمال میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح ہے یا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تم پر کچھ ظلم کیا ہے اور خلاف واقعہ کوئی بات لکھ دی ہے ؟ وہ اقرار کرے گا کہ اے میرے پروردگار ! جو کچھ لکھا ہے سب صحیح ہے، اور دل میں گھبرائے گا کہ اب میری نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اس وقت حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا، ان تمام گناہوں کے مقابلہ میں تمہاری ایک نیکی کا پرچہ بھی ہمارے پاس موجود ہے، جس میں تمہارا کلمہ اَشُہَدُ اَن لَّآ اِلٰہ الاَّ اللہ وَاَشہد اَنَّ مُحَمدُّ اَعَبدُہ وَرَسُولُہ لکھا ہوا ہے وہ عرض کرے گا کہ اے پروردگار ! اتنے بڑے سیاہ نامہ اعمال کے مقابلہ میں یہ چھوٹا سا پرچہ کیا وزن رکھے گا، اس وقت ارشاد ہوگا کہ تم پر ظلم نہیں ہوگا، اور ایک پلّہ میں وہ سب گناہوں سے بھرے ہوئے نامہ اعمال رکھے جائیں گے، دوسرے میں یہ کلمہ ایمان کا پرچہ رکھا جائے گا تو اس کلمہ کا پلّہ بھاری ہوجائے گا اور سارے گناہوں کا پلّہ ہلکا ہوجائے گا، اس واقعہ کو بیان کرکے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوسکتی (مظہری)
اور مسند، بزار اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نوح ؑ کی وفات کا وقت آیا تو اپنے لڑکوں کو جمع کرکے فرمایا کہ میں تمہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور زمین ایک پلّہ میں اور کلمہ لا الہ الا اللہ دوسرے پلّہ میں رکھ دیا جائے تو کلمہ کا پلّہ بھاری رہے گا، اسی مضمون کی روایات حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابو الدرداء ؓ سے معتبر سندوں کے ساتھ کتب حدیث میں منقول ہیں (مظہری)۔
ان روایات کا مقتضا تو یہ ہے کہ مومن کا پلّہ ہمیشہ بھاری ہی رہے گا، خواہ وہ کتنے بھی گناہ کرے، لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات اور بہت سی روایات حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی حسنات اور سیّئات کو تولا جائے گا کسی کی حسنات کا پلّہ بھاری ہوگا، کسی کے گناہوں کا، جس کی حسنات کا پلّہ بھاری رہے گا وہ نجات پائے گا، جس کی سیئات اور گناہوں کا پلّہ بھاری ہوگا اس کو عذاب ہوگا۔
مثلاً قرآن مجید کی ایک آیت میں سے
(آیت) ونضع الموازین القسط لیوم تا حٰسبین۔
”یعنی ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کرینگے اس لئے کسی شخص پر ادنیٰ ظلم نہیں ہوگا جو بھلائی یا برائی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی نے کی ہے وہ سب میزان عمل میں رکھی جائے گی، اور ہم حساب کے لئے کافی ہیں“۔
اور سورة قارعہ میں ہے
فاما من ثقلت موازینہ تا ھاویہ۔
”یعنی جس کا نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا وہ عمدہ عیش میں رہے گا، اور جس کا پلّہ نیکی کا ہلکا ہوگا اس کا مقام دوزخ ہو گا“۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ جس مومن کا پلّہ حسنات کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جنت میں اور جس کا پلّہ گناہوں کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جہنم میں بھیج دیا جائے گا (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مظہری)۔
اور ابوداؤد میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ منقول ہے کہ اگر کسی بندہ کے فرائض میں کوئی کمی پائی جائے گی تو رب العالمین کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندہ کے کچھ نوافل بھی ہیں یا نہیں، اگر نوافل موجود ہیں تو فرضوں کی کمی کو نفلوں سے پورا کردیا جائے گا۔ (مظہری)
ان تمام آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ مومن مسلمان کا پلّہ بھی کبھی بھاری کبھی ہلکا ہوگا، اس لئے بعض علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں وزن دو مرتبہ ہوگا، اول کفر و ایمان کا وزن ہوگا، جس کے ذریعہ مؤ من، کافر کا امتیاز کیا جائے گا۔ اس وزن میں جس کے نامہ اعمال میں صرف کلمہ ایمان بھی ہے اس کا پلّہ بھاری ہوجائے گا، اور وہ کافروں کے گروہ سے الگ کردیا جائے گا، اور اسی کے مطابق اس کو جزاء و سزاء ملے گی، اس طرح تمام آیات اور روایات کا مضمون اپنی اپنی جگہ درست اور مربوط ہوجاتا ہے (بیان القرآن)
وزن اعمال کس طرح ہوگا
بخاری و مسلم میں بروایت ابوہریرہ ؓ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض موٹے فربہ آدمی آئیں گے جن کا وزن اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا، اور اس کی شہادت میں آپ ﷺ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی، فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا، ”یعنی قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قرار نہ دیں گے“ (مظہری)۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مناقب میں یہ حدیث آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان کی ٹانگیں ظاہر میں کتنی پتلی ہیں لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قیامت کی میزان عدل میں ان کا وزن احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوگا۔
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث جس پر امام بخاری نے اپنی کتاب کو ختم کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں مگر میزان عمل میں بہت بھاری ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہیں، اور وہ کلمے یہ ہیںسبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ سبحان اللہ کہنے سے میزان عمل کا آدھا پلّہ بھر جاتا ہے، اور الحمد للہ سے باقی آدھا پورا ہوجاتا ہے۔
اور ابوداؤد، ترمذی، ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو الدرداء ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میزان عمل میں حسن خلق کے برابر کوئی عمل وزنی نہیں ہوگا۔
اور حضرت ابوذر غفاری ؓ سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ایسے دو کام بتاتا ہوں جن پر عمل کرنا انسان کے لئے کچھ بھاری نہیں، اور میزان عمل میں وہ سب سے زیادہ بھاری ہوں گے، ایک حسن خلق، دوسرے زیادہ خاموش رہنا، یعنی بلا ضرورت کلام نہ کرنا۔
اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے کتاب الزہد میں بروایت حضرت حازم ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مرتبہ جبرئیل امین تشریف لائے تو وہاں کوئی شخص خوف خدا تعالیٰ سے رو رہا تھا، تو جبرئیل نے فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال کا تو وزن ہوگا مگر خدا و آخرت کے خوف سے رونا ایسا عمل ہے جس کو تولا نہ جائے گا، بلکہ ایک آنسو بھی جہنم کی بڑی سے بڑی آگ کو بجھا دے گا (مظہری)۔
ایک حدیث میں ہے کہ میدان حشر میں ایک شخص حاضر ہوگا، جب اس کا نامہ اعمال سامنے آئے گا تو وہ نیک اعمال کو بہت کم پاکر گھبرائے گا کہ اچانک ایک چیز بادل کی طرح اٹھ کر آئے گی اور اس کے نیک اعمال کے پلّے میں گر جائے گی، اور اس کو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرے اس عمل کا ثمرہ ہے جو تو دنیا میں لوگوں کو دین کے احکام و مسائل بتلاتا یا سکھاتا تھا، اور یہ تیری تعلیم کا سلسلہ آگے چلا تو جس جس شخص نے اس پر عمل کیا ان سب کے عمل میں تیرا حصہ بھی لگایا گیا (مظہری عن ابن المبارک)۔
طبرانی نے بروایت جابر ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کی میزان عمل میں سب سے پہلے جو عمل رکھا جائے گا وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا نیک عمل ہے۔
اور امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی روشنائی جس سے انہوں نے علم دین اور احکام دین لکھے ہیں اور شہیدوں کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون کے وزن سے بڑھ جائے گا۔
اس طرح کی روایات حدیث قیامت کے وزن اعمال کے سلسلہ میں بہت ہیں، یہاں چند کو اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ان سے خاص خاص اعمال کی فضیلت اور قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان تمام روایات حدیث سے وزن اعمال کی کیفیت مختلف معلوم ہوتی ہے، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کرنے والے انسان تولے جائیں گے، وہ اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے ہلکے بھاری ہوں گے، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے، اور بعض سے ثابت ہوتا ہے کہ خود اعمال مجسّم ہوجائیں گے وہ تولے جائیں گے، امام تفسیر ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے یہ سب روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ وزن مختلف صورتوں سے کئی مرتبہ کیا جائے، اور ظاہر ہے کہ پوری حقیقت ان معاملات کی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور عمل کرنے کے لئے اس حقیقت کا جاننا ضروری بھی نہیں، صرف اتنا کافی ہے کہ ہمارے اعمال کا وزن ہوگا، نیک اعمال کا پلّہ ہلکا رہا تو عذاب کے مستحق ہوں گے، یہ دوسری بات ہے کہ حق تعالیٰ کسی کو خود اپنے فضل و کرم سے یا کسی نبی یا ولی کی شفاعت سے معاف فرما دیں اور عذاب سے نجات ہوجائے۔
جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ بعض لوگوں کو صرف کلمہ ایمان کی بدولت نجات ہوجائے گی اور سب گناہ اس کے مقابلہ میں معاف ہوجائیں گے، یہ اسی استثنائی صورت سے متعلق ہیں جو عام ضابطہ سے الگ مخصوص فضل و کرم کا مظہر ہے۔
ان دونوں آیتوں میں جن کی تفسیر ابھی بیان ہوئی گناہگاروں کو میدان حشر کی رسوائی عذاب الٓہی سے ڈرایا گیا تھا، تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر فرما کر حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب اس طرح دی گئی کہ ہم نے تم کو زمین پر پوری قدرت اور تصرف مالکانہ عطا کیا، اور پھر اس میں تمہارے لئے سامان عیش حاصل کرنے کے ہزاروں راستے کھول دئیے، گویا رب العالمین نے زمین کو انسان کی تمام ضروریات سے لے کر تفریحی سامان تک کا عظیم الشان گودام بنادیا ہے، اور تمام انسانی ضروریات کو اس کے اندر پیدا فرما دیا ہے، اب انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ اس گودام سے اپنی ضروریات کو نکالنے اور ان کے استعمال کرنے کے طریقوں کو سیکھ لے، انسان کے ہر علم و فن اور سائنس کی نئی سے نئی ایجاد کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ خالق کائنات کی پیدا کی ہوئی چیزیں جو زمین کے گودام میں محفوظ ہیں، ان کو سلیقہ کے ساتھ نکالے اور صحیح طریقہ سے استعمال کرے، بیوقوف اور بدسلیقہ آدمی جو اس گودام سے نکالنے کا طریقہ نہیں جانتا، یا پھر نکال کر اس کے استعمال کا طریقہ نہیں سمجھتا وہ ان کے منافع سے محروم رہتا ہے، سمجھ دار انسان دونوں چیزوں کو سمجھ کر ان سے نفع اٹھاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ساری ضروریات انسانی حق تعالیٰ نے زمین میں ودیعت رکھ دی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر حال میں حق تعالیٰ کا شکر گزار ہو مگر وہ غفلت میں پڑ کر اپنے خالق ومالک کے احسانات کو بھول جاتا ہے، اور انہی اشیاء میں الجھ کر رہ جاتا ہے، اسی لئے آخر آیت میں بطور شکایت کے ارشاد فرمایاقَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ”یعنی تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو“۔
Top