Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ
: اور وزن
يَوْمَئِذِ
: اس دن
الْحَقُّ
: حق
فَمَنْ
: تو جس
ثَقُلَتْ
: بھاری ہوئے
مَوَازِيْنُهٗ
: میزان (نیکیوں کے وزن
فَاُولٰٓئِكَ
: تو وہی
هُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: فلاح پانے والے
اور تول اس دن ٹھیک ہوگی پھر جس کی تولیں بھاری ہوئیں سو وہی ہیں نجات پانے والے
خلاصہ تفسیر
اور اس روز (یعنی قیامت کے دن اعمال و عقائد کا) وزن واقع ہونے والا ہے (تاکہ عام طور پر ہر ایک کی حالت ظاہر ہوجائے) پھر (وزن کے بعد) جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) بھاری ہوگا (یعنی وہ مومن ہوگا) سو ایسے لوگ (تو) کامیاب ہوں گے (یعنی نجات پائیں گے) اور جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا (یعنی وہ کافر ہوگا) تو یہ لوگ وہ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کی حق تلفی کیا کرتے تھے، اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی، اور ہم نے تمہارے لئے اس (زمین) میں سامان زندگی پیدا کیا (جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ تم اس کے شکریہ میں فرمانبردار و اطاعت شعار ہوتے، لیکن) تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو (مراد اس سے اطاعت ہے اور کم اس لئے فرمایا کہ تھوڑا بہت نیک کام تو اکثر لوگ کر ہی لیتے ہیں، لیکن بوجہ ایمان نے ہونے کے وہ قابل اعتبار نہیں)۔
معارف و مسائل
پہلی آیت میں ارشاد ہے والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ یعنی بھلے برے اعمال کا وزن ہونا اس دن حق و صحیح ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ وزن اور تول تو ان چیزوں کا ہوا کرتا ہے جن میں کوئی بوجھ اور ثقل ہو۔ انسان کے اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ان کا کوئی جسم اور جزم ہی نہیں، جس کا تول ہو سکے، پھر اعمال کا وزن کیسے ہوگا، کیونکہ اول تو مالک الملک قادر مطلق ہر چیز پر قادر ہے، یہ کیا ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم نہ تول سکیں حق تعالیٰ بھی نہ تول سکیں، اس کے علاوہ آج کل تو دنیا میں وزن تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد ہوچکے ہیں، جن میں نہ ترازو کی ضرورت ہے، نہ اس کے پلوں کی اور نہ ڈندی کی اور کانٹے کی، آج تو ان نئے آلات کے ذریعہ وہ چیزیں بھی تولی جاتی ہیں جن کے تولنے کا آج سے پہلے کسی کو تصور بھی نہ تھا، ہوا تولی جاتی ہے، برقی رو تولی جاتی ہے، سردی گرمی تولی جاتی ہے، انکا میٹر ہی ان کی ترازو ہوتا ہے، اگر حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انسانی اعمال کا وزن کرلیں تو اس میں کیا استبعاد ہے، اس کے علاوہ خالق کائنات کو اس پر بھی قدرت ہے کہ ہمارے اعمال کو کسی وقت جوہری وجود اور کوئی شکل و صورت عطا فرمادیں، حدیث رسول اللہ ﷺ کی بہت سی روایات اس پر شاہد بھی ہیں کہ برزخ اور محشر میں انسانی اعمال خاص خاص شکلوں اور صورتوں میں آئیں گے، قبر میں انسان کے اعمال صالحہ ایک حسین صورت میں اس کے مونس بنیں گے، اور برے اعمال سانپ بچھو بن کر لپٹیں گے، حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مال کی زکوٰة نہیں ادا کی وہ مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی قبر میں پہنچ کر اس کو ڈسے گا، اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔
اسی طرح معتبر احادیث میں ہے کہ میدان حشر میں انسان کے اعمال صالحہ اس کی سواری بن جائیں گے، اور برے اعمال بوجھ بن کر اس کے سر پر لادے جائیں گے۔
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قرآن مجید کی سورة بقرہ اور سورة آل عمران میدان حشر میں دو گہرے بادلوں کی شکل میں آکر ان لوگوں پر سایہ کریں گی جو اس سورتوں کے پڑھنے والے تھے۔
اسی طرح کی بیشمار روایات حدیث مستند اور معتبر طریقوں سے منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان سے گزر جانے کے بعد ہمارے یہ سارے اعمال نیک و بد خاص خاص شکلیں اور صورتیں اختیار کرلیں گے، اور ایک جوہری وجود کے ساتھ میدان حشر میں موجود ہوں گے۔
قرآن مجید کے بھی بہت سے ارشادات سے اس کی تائید ہوتی ہے، ارشاد ہے(آیت) ووجدوا ما عملوا حاضرا، ”یعنی لوگوں نے دنیا میں جو کچھ عمل کیا تھا اس کو وہاں حاضر و موجود پائینگے“۔ ایک آیت میں فرمایا (آیت) من یعمل مثقال ذرة خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ ”یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی نیکی کرے گا تو قیامت میں اس کو دیکھے گا، اور ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کرے گا تو قیامت میں اس کو بھی دیکھے گا“۔ ظاہر ان حالات سے یہی ہے کہ انسان کا عمل جوہری وجود کے ساتھ اس کے سامنے آئے گا، ان میں بھی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں کہ اعمال کی جزاء کو موجود پائے گا اور دیکھے گا۔
ان حالات میں ظاہر ہے کہ ان اعمال کا تولا جانا کوئی بعید یا مشکل امر نہیں رہتا، مگر چونکہ تھوڑی سی عقل و فہم کا مالک انسان اس کا عادی ہے کہ سارے امور کو اپنی موجودہ حالت اور کیفیت ظاہری پر قیاس کرتا ہے، اور سب چیزوں کو اسی کے پیمانہ سے جانچتا ہے، قرآن کریم نے اس کے اسی حال کو اس طرح بیان فرمایا ہے، (آیت) یعلمون ظاھرا من الحیوۃ الدنیا وھم عن الاخرۃ ھم غفلون ”یعنی یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ایک ظاہری پہلو کو جانتے ہیں وہ بھی پورا نہیں، اور آخرت سے بالکل غافل ہیں، ظاہر حیات دنیا میں تو زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، مگر حقائق اشیاء سے جن کا صحیح انکشاف آخرت میں ہونے والا ہے یہ لوگ بالکل بیخبر ہیں۔
آیت مذکورہ میں اسی لئے اہتمام کرکے یہ فرمایا گیا والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ، تاکہ یہ ظاہر میں انسان آخرت میں وزن اعمال سے انکار نہ کر بیٹھے، جو قرآن کریم سے ثابت اور پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔
قرآن مجید میں بروز قیامت وزن اعمال ہونے کا مسئلہ بہت سی آیات میں مختلف عنوانوں سے آیا ہے اور روایات حدیث اس کی تفصیلات میں بیشمار ہیں۔
وزن اعمال کے متعلق ایک شبہ اور جواب
وزن اعمال کے متعلق جو تفصیلی بیان رسول کریم ﷺ کی احادیث میں آیا ہے اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ متعدد روایات حدیث میں آیا ہے کہ محشر کی میزان عدل میں سب سے بڑا وزنی کلمہ لَا الہٰ الاَّ اللہ ُ مُحَمَّد رَسُول اللہ کا ہوگا، جس پلے میں یہ کلمہ ہوگا وہ سب سے بھاری رہے گا۔
ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، بیہقی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں میری امت کا یک آدمی ساری مخلوق کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے نامہ اعمال لائے جاویں گے، اور ان میں سے ہر نامہ اعمال اتنا طویل ہوگا کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے، اور یہ سب نامہ اعمال برائیوں اور گناہوں سے لبریز ہوں گے، اس شخص سے پوچھا جائے گا کہ ان نامہائے اعمال میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح ہے یا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تم پر کچھ ظلم کیا ہے اور خلاف واقعہ کوئی بات لکھ دی ہے ؟ وہ اقرار کرے گا کہ اے میرے پروردگار ! جو کچھ لکھا ہے سب صحیح ہے، اور دل میں گھبرائے گا کہ اب میری نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اس وقت حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا، ان تمام گناہوں کے مقابلہ میں تمہاری ایک نیکی کا پرچہ بھی ہمارے پاس موجود ہے، جس میں تمہارا کلمہ اَشُہَدُ اَن لَّآ اِلٰہ الاَّ اللہ وَاَشہد اَنَّ مُحَمدُّ اَعَبدُہ وَرَسُولُہ لکھا ہوا ہے وہ عرض کرے گا کہ اے پروردگار ! اتنے بڑے سیاہ نامہ اعمال کے مقابلہ میں یہ چھوٹا سا پرچہ کیا وزن رکھے گا، اس وقت ارشاد ہوگا کہ تم پر ظلم نہیں ہوگا، اور ایک پلّہ میں وہ سب گناہوں سے بھرے ہوئے نامہ اعمال رکھے جائیں گے، دوسرے میں یہ کلمہ ایمان کا پرچہ رکھا جائے گا تو اس کلمہ کا پلّہ بھاری ہوجائے گا اور سارے گناہوں کا پلّہ ہلکا ہوجائے گا، اس واقعہ کو بیان کرکے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوسکتی (مظہری)
اور مسند، بزار اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نوح ؑ کی وفات کا وقت آیا تو اپنے لڑکوں کو جمع کرکے فرمایا کہ میں تمہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور زمین ایک پلّہ میں اور کلمہ لا الہ الا اللہ دوسرے پلّہ میں رکھ دیا جائے تو کلمہ کا پلّہ بھاری رہے گا، اسی مضمون کی روایات حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابو الدرداء ؓ سے معتبر سندوں کے ساتھ کتب حدیث میں منقول ہیں (مظہری)۔
ان روایات کا مقتضا تو یہ ہے کہ مومن کا پلّہ ہمیشہ بھاری ہی رہے گا، خواہ وہ کتنے بھی گناہ کرے، لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات اور بہت سی روایات حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی حسنات اور سیّئات کو تولا جائے گا کسی کی حسنات کا پلّہ بھاری ہوگا، کسی کے گناہوں کا، جس کی حسنات کا پلّہ بھاری رہے گا وہ نجات پائے گا، جس کی سیئات اور گناہوں کا پلّہ بھاری ہوگا اس کو عذاب ہوگا۔
مثلاً قرآن مجید کی ایک آیت میں سے
(آیت) ونضع الموازین القسط لیوم تا حٰسبین۔
”یعنی ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کرینگے اس لئے کسی شخص پر ادنیٰ ظلم نہیں ہوگا جو بھلائی یا برائی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی نے کی ہے وہ سب میزان عمل میں رکھی جائے گی، اور ہم حساب کے لئے کافی ہیں“۔
اور سورة قارعہ میں ہے
فاما من ثقلت موازینہ تا ھاویہ۔
”یعنی جس کا نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا وہ عمدہ عیش میں رہے گا، اور جس کا پلّہ نیکی کا ہلکا ہوگا اس کا مقام دوزخ ہو گا“۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ جس مومن کا پلّہ حسنات کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جنت میں اور جس کا پلّہ گناہوں کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جہنم میں بھیج دیا جائے گا (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مظہری)۔
اور ابوداؤد میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ منقول ہے کہ اگر کسی بندہ کے فرائض میں کوئی کمی پائی جائے گی تو رب العالمین کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندہ کے کچھ نوافل بھی ہیں یا نہیں، اگر نوافل موجود ہیں تو فرضوں کی کمی کو نفلوں سے پورا کردیا جائے گا۔ (مظہری)
ان تمام آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ مومن مسلمان کا پلّہ بھی کبھی بھاری کبھی ہلکا ہوگا، اس لئے بعض علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں وزن دو مرتبہ ہوگا، اول کفر و ایمان کا وزن ہوگا، جس کے ذریعہ مؤ من، کافر کا امتیاز کیا جائے گا۔ اس وزن میں جس کے نامہ اعمال میں صرف کلمہ ایمان بھی ہے اس کا پلّہ بھاری ہوجائے گا، اور وہ کافروں کے گروہ سے الگ کردیا جائے گا، اور اسی کے مطابق اس کو جزاء و سزاء ملے گی، اس طرح تمام آیات اور روایات کا مضمون اپنی اپنی جگہ درست اور مربوط ہوجاتا ہے (بیان القرآن)
وزن اعمال کس طرح ہوگا
بخاری و مسلم میں بروایت ابوہریرہ ؓ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض موٹے فربہ آدمی آئیں گے جن کا وزن اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا، اور اس کی شہادت میں آپ ﷺ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی، فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا، ”یعنی قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قرار نہ دیں گے“ (مظہری)۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مناقب میں یہ حدیث آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان کی ٹانگیں ظاہر میں کتنی پتلی ہیں لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قیامت کی میزان عدل میں ان کا وزن احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوگا۔
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث جس پر امام بخاری نے اپنی کتاب کو ختم کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں مگر میزان عمل میں بہت بھاری ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہیں، اور وہ کلمے یہ ہیںسبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ سبحان اللہ کہنے سے میزان عمل کا آدھا پلّہ بھر جاتا ہے، اور الحمد للہ سے باقی آدھا پورا ہوجاتا ہے۔
اور ابوداؤد، ترمذی، ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو الدرداء ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میزان عمل میں حسن خلق کے برابر کوئی عمل وزنی نہیں ہوگا۔
اور حضرت ابوذر غفاری ؓ سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ایسے دو کام بتاتا ہوں جن پر عمل کرنا انسان کے لئے کچھ بھاری نہیں، اور میزان عمل میں وہ سب سے زیادہ بھاری ہوں گے، ایک حسن خلق، دوسرے زیادہ خاموش رہنا، یعنی بلا ضرورت کلام نہ کرنا۔
اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے کتاب الزہد میں بروایت حضرت حازم ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مرتبہ جبرئیل امین تشریف لائے تو وہاں کوئی شخص خوف خدا تعالیٰ سے رو رہا تھا، تو جبرئیل نے فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال کا تو وزن ہوگا مگر خدا و آخرت کے خوف سے رونا ایسا عمل ہے جس کو تولا نہ جائے گا، بلکہ ایک آنسو بھی جہنم کی بڑی سے بڑی آگ کو بجھا دے گا (مظہری)۔
ایک حدیث میں ہے کہ میدان حشر میں ایک شخص حاضر ہوگا، جب اس کا نامہ اعمال سامنے آئے گا تو وہ نیک اعمال کو بہت کم پاکر گھبرائے گا کہ اچانک ایک چیز بادل کی طرح اٹھ کر آئے گی اور اس کے نیک اعمال کے پلّے میں گر جائے گی، اور اس کو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرے اس عمل کا ثمرہ ہے جو تو دنیا میں لوگوں کو دین کے
احکام و مسائل
بتلاتا یا سکھاتا تھا، اور یہ تیری تعلیم کا سلسلہ آگے چلا تو جس جس شخص نے اس پر عمل کیا ان سب کے عمل میں تیرا حصہ بھی لگایا گیا (مظہری عن ابن المبارک)۔
طبرانی نے بروایت جابر ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کی میزان عمل میں سب سے پہلے جو عمل رکھا جائے گا وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا نیک عمل ہے۔
اور امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی روشنائی جس سے انہوں نے علم دین اور احکام دین لکھے ہیں اور شہیدوں کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون کے وزن سے بڑھ جائے گا۔
اس طرح کی روایات حدیث قیامت کے وزن اعمال کے سلسلہ میں بہت ہیں، یہاں چند کو اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ان سے خاص خاص اعمال کی فضیلت اور قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان تمام روایات حدیث سے وزن اعمال کی کیفیت مختلف معلوم ہوتی ہے، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کرنے والے انسان تولے جائیں گے، وہ اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے ہلکے بھاری ہوں گے، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے، اور بعض سے ثابت ہوتا ہے کہ خود اعمال مجسّم ہوجائیں گے وہ تولے جائیں گے، امام تفسیر ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے یہ سب روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ وزن مختلف صورتوں سے کئی مرتبہ کیا جائے، اور ظاہر ہے کہ پوری حقیقت ان معاملات کی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور عمل کرنے کے لئے اس حقیقت کا جاننا ضروری بھی نہیں، صرف اتنا کافی ہے کہ ہمارے اعمال کا وزن ہوگا، نیک اعمال کا پلّہ ہلکا رہا تو عذاب کے مستحق ہوں گے، یہ دوسری بات ہے کہ حق تعالیٰ کسی کو خود اپنے فضل و کرم سے یا کسی نبی یا ولی کی شفاعت سے معاف فرما دیں اور عذاب سے نجات ہوجائے۔
جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ بعض لوگوں کو صرف کلمہ ایمان کی بدولت نجات ہوجائے گی اور سب گناہ اس کے مقابلہ میں معاف ہوجائیں گے، یہ اسی استثنائی صورت سے متعلق ہیں جو عام ضابطہ سے الگ مخصوص فضل و کرم کا مظہر ہے۔
ان دونوں آیتوں میں جن کی تفسیر ابھی بیان ہوئی گناہگاروں کو میدان حشر کی رسوائی عذاب الٓہی سے ڈرایا گیا تھا، تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر فرما کر حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب اس طرح دی گئی کہ ہم نے تم کو زمین پر پوری قدرت اور تصرف مالکانہ عطا کیا، اور پھر اس میں تمہارے لئے سامان عیش حاصل کرنے کے ہزاروں راستے کھول دئیے، گویا رب العالمین نے زمین کو انسان کی تمام ضروریات سے لے کر تفریحی سامان تک کا عظیم الشان گودام بنادیا ہے، اور تمام انسانی ضروریات کو اس کے اندر پیدا فرما دیا ہے، اب انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ اس گودام سے اپنی ضروریات کو نکالنے اور ان کے استعمال کرنے کے طریقوں کو سیکھ لے، انسان کے ہر علم و فن اور سائنس کی نئی سے نئی ایجاد کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ خالق کائنات کی پیدا کی ہوئی چیزیں جو زمین کے گودام میں محفوظ ہیں، ان کو سلیقہ کے ساتھ نکالے اور صحیح طریقہ سے استعمال کرے، بیوقوف اور بدسلیقہ آدمی جو اس گودام سے نکالنے کا طریقہ نہیں جانتا، یا پھر نکال کر اس کے استعمال کا طریقہ نہیں سمجھتا وہ ان کے منافع سے محروم رہتا ہے، سمجھ دار انسان دونوں چیزوں کو سمجھ کر ان سے نفع اٹھاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ساری ضروریات انسانی حق تعالیٰ نے زمین میں ودیعت رکھ دی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر حال میں حق تعالیٰ کا شکر گزار ہو مگر وہ غفلت میں پڑ کر اپنے خالق ومالک کے احسانات کو بھول جاتا ہے، اور انہی اشیاء میں الجھ کر رہ جاتا ہے، اسی لئے آخر آیت میں بطور شکایت کے ارشاد فرمایاقَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ”یعنی تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو“۔
Top