Urwatul-Wusqaa - An-Naba : 99
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠   ۧ
وَاعْبُدْ : اور عبادت کریں رَبَّكَ : اپنا رب حَتّٰى : یہانتک کہ يَاْتِيَكَ : آئے آپ کے پاس الْيَقِيْنُ : یقینی بات
اس کی بندگی میں لگے رہو یہاں تک کہ یقین تمہارے سامنے آجائے
تفسیر : آپ اللہ کی بندگی میں لگے رہئے یہاں تک کہ موت تمہارے پاس آجائے : 99۔ ” الیقین “ یقین سے مراد نصرت خداوندی بھی ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلہ میں آپ ﷺ کو دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس سے مراد موت بھی ہے کیونکہ اس کا آنا بھی یقینی امر ہے اور یہاں اس سے مراد یقینا موت ہی ہے یعنی اے پیغمبر اسلام ! عبادت کا یہ سلسلہ پورے ذوق وشوق کے ساتھ اس وقت تک جاری ہے جب تک اس دارفنا سے دارالبقاء کی طرف رحلت کا پیغام نہ آجائے ‘ جب تک آنکھ جھپک رہی ہے ، نبض چل رہی ہے ‘ میری یاد ہوتی رہے ‘ میرے ذکر اور عبادت کا چراغ روشن رہے اور بندگی کا حق بھی یہی ہے کہ تادم واپس دل اپنے معبود برحق کے ذکر اور عبادت کا چراغ روشن رہے ، اور بندگی کا حق بھی یہی ہے کہ تادم واپسیں دل اپنے معبود برحق کے ذکر سے سرشار رہے ۔ ” یقین “ سے مراد موت کتاب وسنت میں استعمال ہے ، چناچہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ (آیت) ” وکنا نکذب بیوم الدین حتی اتنا الیقین “۔ (المدثر 74 : 46 ‘ 47) ” اور ہم روز جزاء کو جھوٹ قرار دیتے تھے یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا “۔ یعنی مرتے دم تک ہم اس روشن پر قائم رہے یہاں تک کہ وہ یقینی چیز ہمارے سامنے آگئی ہے جس سے ہم غافل تھے یعنی وہ موت جس سے انسان دو چار ہونے کے بعد واپس نہیں آسکتا اور حدیث شریف میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ ، کی شہادت کے سلسلے میں لفظ یقین اسی یقین اسی معنی میں آیا ہے اما ھو فقد جاء الیقین اللہ وانی لا رجولہ الخیر “۔ (صحیح بخاری الجنائز) اور سارے مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ زیر نظر آیت میں ” الیقین “ سے مراد موت ہی ہے اور آیت سے محققین نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ آیت رد ہے ان مدعیان باطل کا جو کہتے ہیں کہ سلوک میں کوئی مرتبہ ایسا بھی آتا ہے جس میں تکلیفات شرعی ساقط ہوجاتی ہیں اور یہ اعتقاد والحاد محض ہے کیونکہ جب صاحب وحی الہی کو حکم یہ ہے کہ آپ اس وقت تک اللہ کی عبادت میں لگے رہو جب تک جسم میں جان موجود ہے تو کسی دوسرے کو کیسے اجازت ہو سکتی ہے کہ وہاب عبادت الہی سے آزاد رہے کہ اس سے شرعی حدود ساقط ہوجائیں ، ہاں ! جب خود پیغمبر اسلام ﷺ نے تین قسم کے لوگوں کو مرفوع القلم قرار دے دیا ہے تو ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا آدمی ہو سکتا ہے وہ ہیں ایک نابالغ بچہ اور دوسرا سویا ہوا اور تیسرا فاتر العقل پھر سلوک میں آنے والا بچہ اور سویا ہوا یہ تو ہو نہیں سکتے البتہ وہی ہو سکتے ہیں جو فاتر العقل ہوجائیں اور ان کی عقل درست نہ رہے اور انہی لوگوں کو ہماری زبان میں ” رند “ بھی کہا جاتا ہے اور علاوہ ازیں جو کچھ ہے وہ کفر والحاد ہے اسلام کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ نہیں اگرچہ ان کو ولی اللہ اور اللہ والے سمجھتے ہوں ۔ اللھم اعنا علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک حتی یاتینا الیقین ۔ اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد ۔ اور اس مضمون پر سورة الحجر ختم ہو رہی ہے ۔ 15 ، جون 1996؁۔
Top