Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے اہل ایمان (گفتگو کے وقت پیغمبر خدا ﷺ سے) راعنا نہ کہا کرو اُنْظُرْنا کہا کرو اور خوب سن رکھو اور کافروں کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے
شناعت بست ودوم (22) متضمن بتلقین احباب بآداب خطاب قال تعالیٰ یا ایہا الذین امنوا۔۔۔ الی۔۔۔ وللکفرین عذاب الیم (ربط): گزشتہ آیات میں یہود کے اتباع سحر کا ذکر تھا آئندہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سحر کا اتباع یہودیوں کی طبیعتوں میں اس درجہ راسخ اور پختہ ہوگیا ہے کہ ان کی گفتگو اور مخاطبت بھی سحر کے اثر سے خالی نہیں۔ جس طرح سحر ایک ملمع سازی اور حقیقت کی پردہ پوشی ہے اسی طرح ان کا کلام بھی سحر لسانی ہوتا ہے صورت اس کی تعظیم و تکریم ہے اور حقیقت اس کی اہانت اور تحقیر ہے حقارت پر عظمت کی ملمع کاری کر کے بات کرتے ہیں۔ چناچہ جب آنحضرت ﷺ سے ہم کلام ہوتے تو راعنا سے خطاب کرتے جس کے ظاہری معنی نہایت عمدہ ہیں کہ آپ ہماری رعایت کیجئے اور ہمارے حال پر توجہ فرمائیے۔ لیکن جن معنی کا وہ ارادہ کرتے وہ نہایت فاسد اور گندہ ہیں۔ یہود یہ لفظ بول کر احمق یا چرواہے کے معنی مراد لیتے۔ بہت سے مسلمانوں کو ان فاسد معنی کا علم نہ تھا انہوں نے یہ سمجھ کر کہ علماء اہل کتاب حضرات انبیاء کے آداب سے بخوبی واقف ہیں جب علماء یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ کلمۂ تعظیم ہے اس لیے مسلمانوں نے بھی اس لفظ کا استعمال شروع کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ایمان والو ایمان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ تلبیس اور دھوکہ سے بچو اگرچہ تمہارا ارادہ دھوکہ کا نہ ہو تم آنحضرت ﷺ سے خطاب کے وقت راعنا کا لفظ نہ کہو جس میں فاسد معنی کا ایہام ہے بلکہ اس کے بجائے لفظ انظرنا کہو یعنی ہم پر نظر عنایت فرمائیے اور ہم پر شفقت اور توجہ فرمائیے اور آپ جو ارشاد فرمائیں اس کو نہایت غور سے سنو کہ دوبارہ سوال اور ایسے موہم الفاظ کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئے اور کافروں کے لیے بڑا دردناک عذاب ہے کہ جو اس قسم کے الفاظ سے رسول اور اہل ایمان کو ایذا پہنچاتے ہیں اور رسول کی ایذاء اور تحقیر بلاشبہ کفر ہے۔ 1 ۔ قرآن کریم میں اٹھاسی جگہ اس امت کے مسلمانوں کو یا ایہا الذین امنوا سے خطاب کیا گیا ہے ان میں سے یہ پہلا موقعہ ہے کتب سابقہ میں صرف انبیاء کو خطاب ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ شرف عطاء فرمایا کہ قرآن کریم میں براہ راست اس امت کو مخاطب بنایا۔ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے درخواست کی کہ مجھ کو کچھ نصیحت فرمائیے فرمایا کہ جب تو قرآن پڑھے اور یا ایہا الذین امنوا کے خطاب کو سنے تو فوراً اپنے کانوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا اور قلب کو حاضر کرنا اللہ تعالیٰ بلا واسطہ تجھ سے خطاب فرما رہا ہے اور کسی اچھی چیز کا حکم دیتا ہے یا کسی بری چیز سے منع کرتا ہے (رواہ عبداللہ بن احمد فی زوائد المسند والبیہقی فی شعب الایمان) 2 ۔ جس لفظ کے استعمال سے فاسد معنی کا ایہام ہوتا ہو اس کا استعمال نہ کرنا چاہئے اگرچہ متکلم کی نیت صحیح ہو۔ 3 ۔ نبی کی اشارۃً اور کنایۃً تحقیر بھی کفر ہے اس لیے کہ یہود صراحۃً آپ کی تحقیر نہیں کرتے تھے۔ راعنا کہہ کر اشارۃً اور کنایۃً آپ کی تحقیر کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو کافر فرمایا۔
Top