Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 111
وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ يَدْخُلَ : ہرگز داخل نہ ہوگا الْجَنَّةَ : جنت اِلَّا : سوائے مَنْ کَانَ : جو ہو هُوْدًا : یہودی اَوْ نَصَارٰى : یا نصرانی تِلْکَ ۔ اَمَانِيُّهُمْ : یہ۔ ان کی جھوٹی آرزوئیں قُلْ : کہہ دیں هَاتُوْا : تم لاؤ بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور (یہودی و عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جانے کا، یہ ان لوگوں کے خیالات باطل ہیں (اے پیغمبر ﷺ ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو
شناعت بست وہفتم (27) قال تعالیٰ ۔ وقالوا لن یدخل الجنۃ۔۔۔ الی۔۔۔ ولا ھم یحزنون۔ اے مسلمانو ! یہ اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ تم کو دھوکہ دینے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ جنت میں سوائے یہود اور نصاری کے ہرگز کوئی داخل نہ ہوگا تم کو فریب دیکر اور بہشت کا شوق دلا کر اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں تم ہرگز ان کی طرف مائل نہ ہونا۔ اور نہ ان کی بات کی طرف التفات کرنا۔ یہ سب ان کی خالی آرزوئیں اور دل کے بہلانے کی باتیں ہیں جن پر نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی۔ آپ ان سے کہدیجئے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ جنت میں ہمارے سوا کوئی نہیں جائے گا تو اپنی کوئی دلیل پیش کرو بغیر دلیل کے کوئی دعوی مسموع نہیں۔ البتہ جو امر دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے ثابت ہے اور تمام اہل حق کے نزدیک مسلم ہے وہ یہ ہے کہ : جو شخص اپنے وجہ یعنی اپنی ذات کو خدا تعالیٰ کے سپرد کردے اور اس کے حکمون خے سامنے گردن ڈال دے کہ اللہ کا جو حکم بھی جس وقت پہنچے اس کو سنے اور سر اور آنکھوں پر رکھے اور بیچون وچرا اس کو مانے اور اس اطاعت اور فرمانبرداری میں مخلص اور نیکو کار ہو یعنی جب اللہ کی عبادت کرے تو اس طرح کرے گویا کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے تو ایسے شخص کو اللہ کے یہاں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اجر ملے گا اور نہ ان پر آئندہ کا کچھ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ پر غمگین ہونگے۔ حاصل کلام یہ کہ جنت میں وہ شخص داخل ہوگا جس میں یہ دو صفتیں پائی جائیں۔ اول اسلام لوجہ اللہ اور دوسری احسان۔ اسلام سے تصحیح عقائد مراد ہے اور احسان سے اعمال حسنہ اور ان لوگوں میں یہ دونوں صفتیں مفقود ہیں۔ پیغمبر وقت پر ایمان نہیں لائے اور جو احکام پہلے حکمون خے نسخ کے لیے نازل ہوئے ان کو قبول نہیں کیا اور ظاہر ہے کہ ناسخ آجانے کے بعد حکم منسوخ پر عمل کرنے والا مطیع اور فرمانبردار نہیں ہوسکتا اور نہ احسان عمل ان کو نصیب ہوا۔ اللہ کی شریعت میں تحریف کی اور اللہ پر جھوٹ بولا ایسی حالت میں دخول جنت کی توقع خیال خام ہے البتہ مسلمانوں نے اللہ کی آخری شریعت کو اخلاص کے ساتھ قبول کیا وہ جنت کے مستحق ہیں۔ خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ جو خاصان خدا کے انتساب ہی کو مدار نجات سمجھے ہوئے ہیں وہ آگاہ ہوجائیں کہ محض یہ تمنائیں ذریعۂ نجات نہیں ہوسکتیں۔ ایمان اور اعمال صالحہ شرط نجات اور مغفرت ہیں۔ اور یہ دونوں ان میں مفقود ہیں۔
Top