Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے آل یعقوب ! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو
تذکیر اجمالی انعامات خاصہ بر اسلاف یہود و امر ایشاں بایفاء عہود ونہی از دین فروشی وحق پوشی (یعنی) ان نعمتوں کا بیان جو خاص بنی اسرائیل پر مبذول ہوئیں (یعنی در جمیع حاجات و مصائب واللہ اعلم۔ فتح الرحمن) (ربط) شروع سورت میں حق تعالیٰ نے متقین اور کافرین اور منافقین کے اوصاف اور احوال بیان کیے۔ بعد ازاں یا ایہا الناس اعبدوا۔ میں خطاب عام فرمایا اور کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں کیا پھر توحید اور رسالت اور قیامت کے دلائل بیان کیے تاکہ عبادت کر کے آخرت کی تیاری کرسکیں بعد ازاں اپنے انعامات کو بیان کیا جو تمام بنی آدم کو عام اور شامل ہیں۔ اب عنان خطاب ایک خاص گروہ یعنی بنی اسرائیل کی طرف پھیرتے ہیں اور ان نعم خاصہ کو بیان کرتے ہیں جو خاص بنی اسرائیل پر مبذول ہوئیں اور منجملہ دیگر قبائل عرب۔ گروہ بنی اسرائیل کو اس لیے خطاب کے لیے مخصوص فرمایا کہ یہ سورت پہلی سورت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی اور مدینہ میں یہود ایک کثیر تعداد میں آباد تھے یہود کو اگرچہ اوس اور خزرج اور دیگر قبائل عرب کے مقابلہ میں عددی اکثریت حاصل نہ تھی لیکن یہود کو دیگر قبائل کے مقابلہ میں علمی تفوق اور امتیاز حاصل تھا یہ لوگ اہل کتاب اور اہل علم کہلاتے تھے اور خاندان نبوت سے تھے اور مشرکین عرب امی اور ان پڑھ تھے اور اہل علم اگر حق کو قبول کرلیں تو عوام پر اس کا بہت اثر پڑتا ہے اس لیے اس رکوع میں خاص بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا اور اولاً ان نعمتوں کو اجمالا یاد دلایا جو اس خاندان پر مبذول ہوئی تھیں۔ اور دوسرے رکوع سے ان کی تفصیل فرمائی جو دور تک چلی گئی اور مقصود یہ ہے کہ بنی اسرائیل ان نعمتوں کو یاد کر کے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے رب کریم اور منعم قدیم کے الطاف و عنایات کو یاد کر کے ایفاء عہد کے لیے دل وجان سے تیار ہوجائیں کیونکہ توریت میں نبی آخر الزماں کی بشارتیں اور صفتیں مذکور تھیں اور نبی آخر الزماں پر ایمان لانے کے عہد کا بھی ذکر تھا اور علماء یہود اس سے بخوبی واقف تھے اس لیے مناسب ہوا کہ اولا اہل علم کو اسلام کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ اور لوگ بھی ان کی تقلید سے راہ حق پر آجائیں اور ان کا اتباع اوروں کے لیے حجت بن جائے اور بنی اسرائی کے خطاب سے پہلے حضرت آدم کا قصہ ذکر کیا جس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ابلیس نے محض حسد اور تکبر کی وجہ سے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ اور اس کے بعد بنی اسرائیل کو یعنی یہود کو خطاب کیا تاکہ متنبہ اور خبردار ہوجائیں کہ تم کو تکبر اور حسد کا انجام معلوم لہذ تم کو چاہئے کہ تکبر اور حسد کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے اعراض نہ کرو۔ چناچہ فرماتے ہیں اے فرزندان یعقوب یاد کرو تم میری ان خاص نعمتوں کو جن کا میں نے خاص تم پر انعام کیا۔ (ہذہ ترجمۃ الاضافۃ التی فی قولہ تعالیٰ نعمتی لان الاضافۃ تفید الاختصاص فافھم 12) اسرائیل یعقوب (علیہ السلام) کا نام ہے جو اسراء اور ایل سے مرکب ہے۔ اسراء کے معنی بندہ یا برگزیدہ کے ہیں اور ایل اللہ کا نام ہے لہذا اسرائیل کے معنی عبداللہ یا صفوۃ اللہ کے ہوں گے۔ اور یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب تھا۔ بجائے یا بنی یعقوب کے یا بنی اسرائیل فرمانے میں ایک خاص لطافت ہے۔ وہ یہ کہ اس لقب کی طرف مضاف کرنے سیہ معنی ہونگے کہ اے اولاد ہمارے مطیع اور فرمانبردار اور برگزیدہ بندہ کی تم کو تو اتباع حق میں اپنے باپ کا نمونہ ہونا چاہئے۔ جس طرح کہتے ہیں یا ابن الکریم افعل کذا۔ اے کریم کے بیٹے ایسا کر۔ یا ابن الشجاع بارز الابطال۔ اے شجاع کے بیٹے بہادروں کا مقابلہ کر یا ابن العالم اطلب العلم۔ اے عالم کے بیٹے علم حاصل کر۔ پھر اس کے علاوہ تمہارے خاندان میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک چار ہزار نبی آئے۔ اس لیے تم کو پیغمبروں کی علامتیں خوب معلوم ہیں لہذ تم کو نبی اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کے اتباع میں کوئی تامل نہ ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم جب تک مکہ معظمہ میں تشریف فرما رہے اکثر مناظرہ اور مکالمہ قریش کے ساتھ رہتا تھا۔ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود سے مناظرہ اور مکالمہ شروع ہوا۔ یہود چونکہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے علماء کہلاتے تھے، تمام عرب کی نگاہیں ان پر لگی ہوئی تھیں کہ یہ لوگ اہل علم ہیں ان کے خاندان میں ہزاروں نبی ہوئے، انبیاء کی علامتوں سے خوب واقف ہیں۔ دیکھیں یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی تصدیق کرتے ہیں یا تکذیب اس لے حق تعالیٰ شانہ نے اپنے خاص خاص انعامات کو جو وقتاً فوقتاً بنی اسرائیل پر ہوتے رہے۔ یاد دلایا اس لیے کہ عام نعمتوں کا تذکرہ اتنا مفید اور موثر نہیں ہوتا۔ جتنا کہ خاص نتموں کا تذکرہ دل میں اثر رکھتا ہے اس لیے اولا اجمالی طور پر حق جل شانہ نے اس رکوع میں بنی اسرائیل پر اپنے خاص انعامات کا ذکر فرمایا تاکہ شرما کر ایمان لائیں اس کے بعد دوسرے رکوع میں تفصیلی طور پر اپنے انعامات کا اور بنی اسرائیل کی شرارتوں کو ذکر فرمایا تاکہ لوگ ان کی شرارتوں سے واقف ہوجائیں اور سمجھ لیں کہ ان کا قول اور فعل قابل اعتبار نہیں۔ اور پورا کرو تم اس عہد کو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں بھی پورا کرونگا اس عہد کو جو میں نے تم سے کیا ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس عہد سے وہ مراد ہے جو سورة مائدہ کی اس آیت میں مذکور ہے۔ ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل وبعثنامنھم اثنی عشر نقیبا وقال اللہ انی معکم لئن اقمتم الصلوہ واتیتم الزکوۃ وامنتم برسلی وعزرتموھم واقرضتم اللہ قرضا حسنا لاکفرن عنکم سیئاتکم ولادخلنکم جنات تجری من تحتھا الانہر۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس عہد سے وہ عہد مراد ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا کہ تمہارے بھائیوں میں سے یعنی بنی اسما عیل میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا عہد مراد ہے۔ اور اہل کتاب سے اللہ کا عہد یہ تھا کہ تم میں جو محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائیگا اس کو دو اجر ملیں گے جیسا کہ سورة قصص کی اس آیت میں ہے اولئک یؤتون اجرھم مرتین۔ ایک اجر حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پر ایمان لانے کی وجہ سے اور دوسرا اجر محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے۔ پس اے اہل کتاب تم محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاؤ اور اس سے نہ ڈرو کہ ایمان لانے سے تمہارے ہدیے اور نذرانے بند ہوجائیں گے اور قوم تمہاری مخالف ہوجائے گی اور درپئے ایذاء واضرار ہوجائے گی اور قوم تم کو اپنی جماعت سے نکال باہر کرے گی جس سے طرح طرح کے نقصان اٹھانے پڑیں گے بلکہ خاص مجھ سے ڈرو قوم تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی بھلائی اور برائی سب میرے ہاتھ میں ہے۔ ایمان لانے سے دنیا کی حقیر اور معمولی اور چند روزہ اور فانی ہی منافع فوت ہونگے مگر ایمان نہ لانے سے خدا کی رضا اور خوشنودی اور آخرت کے دائمی بیش بہا منافع فوت ہوجائیں گے۔ لکل شئی اذا فارقتہ عوض ولیس للہ ان فارقت من عوض جس چیز کو بھی چھوڑو اس کا عوض مل سکتا ہے مگر خدا کو چھوڑ کر اس کا عوض پانا ناممکن اور محال ہے اس لیے ارشاد ہوا مجھ سے ہی ڈرو امراء اور رؤساء سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا اور آخرت کے نفع اور ضرر کا مالک صرف میں ہی ہوں۔ وامنوا بما انزلت مصدقا لما معکم ولا تکونوا اول کافر بہ۔ اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے محمد ﷺ پر نازل کی در آنحالیکہ وہ کتاب اس توریت کے کتاب الٰہی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہے جو تمہارے پاس ہے۔ یعنی اول تو محض اس وجہ سے ایمان لے آنا چاہئے تھا کہ قرآن کو اللہ نے نازل کیا ہے جیسے تم توریت پر اس وجہ سے ایمان لائے کہ اللہ نے اس کو اتارا ہے اسی طرح یہ قرآن بھی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب ہے اسی طرح اس پر بھی ایمان لاؤ۔ علاوہ ازیں یہ کتاب اس توریت کی جو موسیٰ (علیہ السلام) پر اتاری گئی۔ اس کے منزل من اللہ اور کتاب الٰہی ہونے کی تصدیق کرتی ہے اس لحاظ سے بھی تم کو اس پر ایمان لانا چاہئے پھر یہ کہ توریت میں نبی آخر الزمان کے مبعوث ہونے کی پیشین گوئی کا تم کو بخوبی علم ہے لہذا تم کو چاہئے کہ سب سے پہلے حضور پر نور پر ایمان لاؤ اور دیدہ دانستہ سب سے پہلے قرآن کے منکر اور مکذب یعنی جھٹلانے والے نہ ہو کہ قیامت تک قرآن کریم کی تکذیب کرنے والوں کا وبال تمہاری گردن پر رہے۔ ( اشارۃ الی ان الضمیر فی قولہ بہ عائد الی القرآن الذی تقدم ذکرہ قولہ بما انزلت واختارہ ابن جریر وقیل الی محمد ﷺ ) اس لیے کہ ہجرت کے بعد پہلا فرقہ یہود کا ہے جو مدینہ اور خیبر میں رہتا تھا اور دوسرا فرقہ نصاری کا ہے جو زیادہ تر شام میں رہتا تھا۔ پس اگر یہود آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار کریں گے تو نصاری بھی ان کے دیکھا دیکھی انکار کریں گے اس لیے فرمایا کہ اے یہود تم پہلے کافر نہ بنو۔ : مشرکین مکہ اگرچہ اہل کتاب سے پہلے انکار اور تکذیب کرچکے تھے مگر وہ تکذیب جہالت اور نادانی پر مبنی تھی دیدہ و دانستہ حق پوشی نہ تھی۔ اہل کتاب حق سے خوب باخبر تھے۔ دیدہ و دانستہ حق کو چھپاتے تھے۔ اس لیے ارشاد ہوا۔ ولا تکونوا اول کافر بہ۔ یعنی اے اہل کتاب سب سے پہلے تم حق پوشی کرنے والے نہ بنو۔ اس لیے کہ کفر کی حقیقت پوشیدہ ہے۔ ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا وایای فاتقون۔ اور میری آیتوں کے عوض میں ایک نہایت قلیل اور حقیر معاوضہ لینے پر آمادہ اور راضی نہ ہوجاؤ۔ آخرت کے ضرر کو دنیا کے ضرر سے بڑھ کر جانو اور کثیر اور باقی کے مقابلہ میں قلیل اور فانی کو ہرگز ترجیح نہ دو ۔ حسن بصری ؓ فرماتے ہیں کہ ساری ہی دنیا کا کل ساز و سامان ثمن قلیل ہے۔ قال تعالیٰ ۔ تاع الدنیا قلیل دراہم معدودہ کی طمع میں میری آیتوں میں تحریف اور تبدیلی نہ کرو۔ اور خاص مجھ ہی سے ڈرو۔ عوام الناس سے مرعوب ہو کر حق سے اعراض نہ کرو۔ : ظاہر کا مقتضی یہ تھا کہ اس طرح فرماتے۔ لا تشتروا بایاتی متاعا قلیلا۔ میری آیات کے بدلے میں تھوڑا سامان مت خریدو اس لیے کہ عرف میں سامان خریدا جاتا ہے۔ ثمن اور قیمت نہیں خریدی جاتی لیکن بجائے اس کے ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا فرمانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ تمام دنیا کا سازوسامان بمنزلہ قیمت کے ہے اور اصل مقصود آخرت ہے اور یہ مسلم ہے کہ معاملہ میں مقصود بالذات قیمت نہیں ہوتی۔ اصل مقصود سامان ہوتا ہے اور قیمت اور زر ثمن مقصود کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ پس اشارہ اس طرح ہے کہ تم نے اپنی نادانی اور غلط فہمی سے ثمن اور قیمت کو مقصود بالذات سمجھ لیا اور باقی کو دیکر فانی کو خرید لیا۔
Top