Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جو یقین کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
الذین یظنون انھم ملقوا ربھم وانھم الیہ راجعون۔ جن کو خیال ہے کہ ہم یقینا خدا سے ملنے والے ہیں اور بلاشبہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یعنی صبر اور نماز حقیقت میں دشوار نہیں کہ جس کا بجا لانا ناممکن ہو۔ ہاں ان لوگوں پر جو خدا سے ملنے کی امید نہیں رکھتے نماز ان پر بہت شاق اور گراں ہے وہ اس کو محض مشقت اور محنت خیال کرتے ہیں مگر ان خاشعین پر جو عذاب الیم سے ڈرتے ہیں اور ثواب عظیم اور نعیم مقیم کی امید رکھتے ہیں ان پر نماز شاق اور گراں تو کیا ہوتی ان کے لیے تو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی فرت اور مسرت ہے۔ : جو علم اور ادراک ان علامات سے حاصل ہو جو نہ حسی ہوں اور نہ بدیہی لغت میں اس کو ظن کہتے ہیں کبھی دلائل اور براہین کے انضمام سے اس میں قوت پیدا ہوجاتی ہے جو جزم اور یقین کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی اس درجہ ضعیف ہوجاتا ہے کہ شک اور وہم کے قریب پہنچ جاتا ہے اس لیے لفظ ظن کبھی یقین کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور کبھی شک کے معنی میں اور کبھی گمان غالب کے معنی۔ اس آیت میں اگر ظن سے یقین کے معنی مراد لیے جائیں جیسا کہ مجاہد اور ابو العالیہ اور قتادہ وغیرہم سے منقول ہے تو آیت کے یہ معنی ہونگے کہ نماز ان لوگوں پر شاق اور گراں نہیں جو خدا سے ملنے کا یقین رکھتے ہیں اور ظن کے معنی گمان اور خیال کے لیے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ جس شخص کو خدا کی ملاقات اور اس کی جزاء اور سزا کا گمان اور خیال بھی ہوجائے تو اگر عقل سلیم رکھتا ہے تو صبر اور نماز اور معاصی سے پرہیز اور طاعات خداوندی کا بجالانا اس کو شاق اور گراں نہیں بلکہ سہل اور آسان ہوگا۔ مریض کو جن لذائذ وطیبات کے استعمال سے ضرر کا گمان اور خیال بھی ہوجاتا ہے ان سے پرہیز کرنا اس کو دشوار نہیں معلوم ہوتا اور تلخ سے تلخ دوا کا استعمال کہ جس سے صحت اور شفا کی امید ہو آسان اور سہل معلوم ہوتا ہے۔ بعض عارفین فرماتے ہیں کہ الذین یظنون انھم ملقوا ربھم کے یہ معنی ہیں کہ وہ خاشعین نماز پڑھتے وقت یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے ان تعبداللہ کانک تراہ۔ عبادرت کر اللہ کی اس طرح کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر تم کو نفس کا تزکیہ اور اس کی اصلاح مقصود ہے تو صبر اور نماز سے اس بارے میں مدد حاصل کرو۔ اور اگر یہ طریق تم کو دشوار معلوم ہوتا ہے تو دوسرا طریق یہ ہے کہ تم نعمائے الٰہیہ کا مراقبہ کیا کرو اور سوچا کرو کہ حق تعالیٰ شانہ نے ہم پر کیا کیا نعمتیں برسائیں اور باوجود ہماری نافرمانیوں کے ہم پر کیا کیا احسانات ہوتے رہے۔ اس تفکر اور مراقبہ کا اثر یہ ہوگا کہ قلب میں حق جل شانہ کی محبت کا ولولہ اور جوش پیدا ہوگا۔ الانسان عبدالاحسان۔ انسان بندہ ہے احسان کا جہاں یہ جوش اور ولولہ پیدا ہو مقصد حاصل ہوگیا۔ ہر آنکہ عشق یکے دردلش گرفت قرار۔ روا بود کہ تحمل کند جفائے ہزار عشق آن شعلست کوچوں برفروخت ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت اس لیے آئندہ آیت میں پھر ان نعمتوں کے یاد کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جن نعمتوں کو پہلے اجمالاً یاد دلایا تھا اب ان کو تفصیلا بیان فرماتے ہیں۔
Top