Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں
اصلاح نفس کا طریقہ اور حب مال اور جب جاہ کا علاج واستعینوا بالصبر والصلوۃ۔ اور اگر تم حب دنیا اور ہوا ہوس کے مہلک مرض میں مبتلا ہوگئے ہو تو شہوات اور لذات سے پرہیز کرو اور اس کے معالجہ کے لیے یہ دوائیں استعمال کرو یعنی صبر سے مدد طلب کرو یعنی نفس کو صبر اور قناعت کا خوگر اور ترک لذات اور شہوات کا عادی بناؤ تاکہ دنیا کی محبت دل سے زائل ہو۔ اور حق اور باطل میں تمیز کرسکو مرض کا ازالہ جب ہی ممکن ہے کہ اول مضرات سے پورا پورا پرہیز ہو اور پھر دوا کا استعمال ہو۔ اسی طرح باطنی امراض کے ازالہ کے لیے صبر، بمنزلہ پرہیز کے ہے اور شکر بمنزلہ دوا کے ہے چناچہ حدیث میں ہے کہ الایمان نصفان نصف فی الصبر ونسف فی الشکر۔ ایمان کے دو حصے ہیں ایک صبر اور دوسرا شکر۔ یعنی ایمان کی صحت اور سلامتی دو چیزوں پر موقوف ہے ایک صبر پر یعنی مضرات سے پرہیز کرنے اور دوم دواء شکر کے استعمال پر۔ جب تک پرہیز کامل نہ وہو اس وقت تک دوا پورا نفع نہیں کرتی اس لیے اول پرہیز یعنی صبر کا حکم دیا اور پھر دوا کے استعمال کا حکم دیا یعنی نماز کا کہ حمد وثناء تسبیح و تقدیس رکوع و سجود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اعلی درجہ کا شکر ہے۔ بر مراد نفس تا گردی اسیر صبر بگزین و قناعت پیشہ گیر یعنی اگر تم کو اجر اور معاوضہ ہی مطلوب ہے تو حطام دنیا اور دراہم معدودہ پر کیوں گرے جاتے ہو آؤ صبر کرو تاکہ بارگاہ خداوندی سے تم کو بےحساب اور بیشمار اجر ملے۔ کما قال تعالی۔ انما یوفی الصبروان اجرھم بغیر حساب۔ اور اگر تم عزت اور وجاہت کے طالب ہو تو عزت اور وجاہت کو ان کے پاس کہاں ڈھونڈتے ہو۔ عزت کی اگر تلاش ہے تو اس عزیز مقتدر کے پاس تلاش کرو جس کی شان یہ ہے۔ تعز من تشاء وتذل من تشاء عزیزے کہ از درگہش سر بتافت بہر در کہ شد ہیچ عزت نیافت پس اگر تم عزت کے متلاشی ہو تو آؤ اور اس ذوالجلال والاکرم کی بارگاہ بےنیاز پر جبین نیاز کو خم کرو تاکہ دنیا اور آخرت کی عزتیں تم کو حاصل ہوں۔ یعنی نماز پڑھو۔ نماز کی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ فحشاء اور منکر سے بچاتی ہے حق جل شانہ کی محبت اور عظمت کو اور دنیا کی نفرت اور آخرت کی رغبت کو دل میں راسخ کرتی ہے۔ مخلوق سے تعلق کو قطع کرتی ہے اور خالق ذوالجلال سے تعلق کو مستحکم اور مضبوط کرتی ہے۔ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں حذیفۃ بن الیمان ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو جب کوئی امر پیش آتا تو فوراً گھبرا کر نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ اور مسند احمد اور سنن نسائی میں صہیب رومی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا کہ حضرات انبیاء کو جب کوئی پریشانی پیش آتی تو نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ عبداللہ ابن عباس ؓ ایک مرتبہ سفر میں تھے کہ بیٹے کی وفات کی خبر دی گئی تو سواری سے اترے اور دو رکعت نماز پڑھی اور انا للہ وانا لیہ راجعون پڑھا اور یہ فرمایا کہ ہم نے ویسے ہی کیا جیسا اللہ نے ہم کو حکم کو حکم دیا۔ اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ واستعینوا بالصبر والصلوۃ (اخرجہ سعید ابن منصور وابن المنذر والحاکم وغیرھم) ضرورت اور پریشانی کے وقت جو نماز پڑھی جائے وہ صلوۃ الحاجۃ کہلاتی ہے اس آیت میں اسی صلوۃ الحاجۃ کی طرف اشارہ ہے۔ وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین۔ اور تحقیق وہ یعنی صبر اور صلاۃ سے استعانت اور استمداد البتہ بہت شاق اور گراں ہے مگر انہیں پر جن کے دل خدا کے خوف سے پگھلے جاتے ہیں۔
Top