Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے یعقوب کی اولاد میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی
تفصیل انعامات و عنایات خداوند جلیل وشرح جنایات وتقصیرات قوم بنی اسرائیل وحکم مراقبہ عنایات و ملاحظہ جنایات کہ در حیاء حکم اکسیر دارد قال تعالیٰ یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم۔۔ الی۔۔ ولاتعثوا فی الارض مفسدین۔ (ربط): گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کو اجمالی طور پر اپنی نعمتیں یاد دلائیں اب آئندہ آیات میں ان کی تفصیل ہے جو دور تک چالی گئی اور تفصیل میں سب سے پہلی نعمت تفضیل کو ذکر فرمایا اس لیے کہ تفضیل علی العالمین سب سے افضل نعمت ہے پھر لطف یہ کہ اپنے الطاف و عنایات کے بعد ان کی جنایات اور تقصیرات کو ذکر فرمایا اس لیے کہ جب ایک طرف خداوند کریم کی عنایتوں کو دیکھیں گے اور ددوسری طرف اپنی جنایات اور تقصیرات کو دیکھیں گے تو لامحالہ حق تعالیٰ سے شرمائیں گے اور اس وقت ان کا یہ حال ہوگا اور قال بھی ہوگا۔ شکر نعمتہائے تو چندان کہ نعمتہائے تو عذر تقصیرات ما چندان کہ تقصیرات ما اور حیاء ایمان کا ایک درمیانی اور مرکزی شعبہ ہے جس پر ایمان کے باقی شعبے گھومتے ہیں چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم اے ابنی اسرائیل یاد کرو تم میری ان خاص خاص نعمتوں کو جن کا مینے خاص تم پر انعام کیا اور پھرا پنی جنایتوں پر نظر کرو کہ کیا ان نعمتوں کا یہی حق تھا جو تم کر رہے ہو اور ہماری اس تذکیر اور یاد دہانی کی نعمت کو بھی یاد کرو کہ ہم نے تم کو خواب غفلت سے جگایا۔ انعام اول وانی فضلتکم علی العلمین۔ اور سلسلہ انعاما میں سب سے پہلے اس بات کو یا کرو کہ میں نے تم کو اس زمانہ میں جہان والوں پر فضیلت دی کہ دنیا کی بادشاہت کے ساتھ دین کی بادشاہت بھی تم کو دی یعنی تمہارے خاندان میں پیغمبری بھی دی کما قال تعالیٰ جعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا واتاکم ما لم یؤت احد من العلمین وقال تعالیٰ ولقد اخترناہم علی العلمین حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمہارے ہی خاندان سے انبیاء مبعوث ہوتے رہے اور توریت اور انجیل اور زبور سب تمہارے ہی خاندان میں نازل ہوئی۔ تمہارا ہی خاندان نبوت رسالت اور امامت اور حکمت کا مخزن رہا۔ غرض یہ کہ اس وقت تک تم ہی کو تمام عالم پر بزرگی اور برتی اور فضیلت حاصل رہی اب وقت آیا کہ وہ نبی آخر الزمان ظاہر ہوں جن کی تمام انبیاء ومرسلین حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام خبر دیتے چلے آئے لہذا اگر تم کو اپنی فضیلت اور بزرگی کو باقی رکھنا منظور ہے تو فوراً محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لاؤ اور دل وجان سے ان کی اعانت اور امداد کرو۔ اور جس طرح قارون اور سامری نے حضرت موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) کی مخالفت کر کے خاندان یعقوبی کے شرف کو ضائع کیا تم بھی قارون اور سامری کی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کر کے اپنی فضیلت اور بزرگی اور اپنے شرف اور منصب کو ضائع نہ کرو۔ اگر تم محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاتے ہو تو اپنی سابق فضیلت اور گزشتہ منصب پر قائم ہو بلکہ تم سے دو اجر کا وعدہ ہے اور اگر تم ایمان لانے سے انحراف کرتے ہو تو سمجھ لو کہ تم اپنے منصب سے معزول ہو۔ حضرت یعقوب (علیہ الصلوۃ والسلام) کے وقت سے اس وقت تک بنی اسرائیل ہی سب سے افضل اور اشرف تھے۔ یہ وقت خطاب مضمون کلام سے خارج ہے گزشتہ زمانہ سے لیکر اس وقت خطاب تک بنی اسرائیل کا ان فضیلتوں میں کوئی شریک اور سہیم نہیں رہا اور یہ وقت خطاب مضمون کلام سے خارج ہے۔ گزشتہ فضیلت اور گزشتہ شرف کو باقی رکھنا ہے تو اس نبی برحق کی دعوت کو قبول کرو۔ مگر افسوس ان لوگوں نے اس دعوت کو ٹھکرایا اور مغضوب علیہم اور ضالین کے نام سے موسوم ہوئے اور جو لوگ ایمان لائے وہ خیر الامم کے لقب سے سرفراز ہوئے اس تقریر سے یہ شبہ رفع ہوگیا کہ اس آیت سے بنی اسرائیل کا امت محمدیہ سے افضل ہونا لازم آتا ہے جواب یہ ہے کہ آیت میں اس وقت کی تفصیل کا ذکر نہیں گزشتہ زمانہ کی تفصیل کا ذکر ہے وقت خطاب مضمون کلام سے خارج ہے۔ آئندہ ان کے ایک شبہ کا جواب دیتے ہیں کہ اگر تم کو یہ خیال ہے کہ باوجود نہ ایمان لانے کے قیامت کے دن ہم اپنے آباؤ اجداد کی شفاعت سے نجات پاجائیں گے تو سمجھ لو کہ قیامت کے دن نمرود اور فرعون سامری اور قارون کی طرح انبیاء اللہ سے انحراف کرنے والوں کے لیے کوئی شفاعت نہ ہوگی چناچہ ارشاد ہے۔ واتقوا یوما لاتجزی نفس عن نفس شیئا ولا یقبل منہا شفاعۃ ولا یؤخذ منہا عدل ولا ھم ینصرون۔ اور ڈرو تم اس دن سے کہ ایک نفس دوسرے نفس کے کچھ بھی کام نہ آئیگا اور نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش اور نہ اس کی طرف سے کوئی فدیہ لیا جائے اور نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔ البتہ اہل ایمان کی مدد کی جائے گی انسان جب کسی بلا میں گرفتار ہوتا ہے تو شفاعت وسفارش فدیہ دیکر رستگار ہونا چاہتا ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنے اعوان وانصار کو جمع کر کے آمادۂ پکار ہوتا ہے اور ولا ھم ینصرون سے یہی مراد ہے کہ تماہرا کوئی حامی اور مددگار بھی نہ ہوگا۔ جو تم کو زور قور قوت کے ذریعے سے عذاب سے چھڑائے۔ : جو لوگ مال کی محبت میں زیادہ گرفتار ہوتے ہیں وہ یہ چاہا کرتے ہیں کہ جس طرح ممکن ہو سفارش سے کام چل جائے۔ مال نہ خرچ کرنا پڑے اور بعض عزت اور وجاہت کے دلدادہ ہوتے ہیں ان کو مال خرچ کرنا آسان ہوتا ہے اس لیے حق جل شانہ نے اس مقام پر شفاعت کو فدیہ پر مقدم فرمایا اور اسی پارہ کے اخیر میں فدیہ کو شفاعت پر مقدم فرمایا حیث قال ولا یقبل منہا عدل ولا تنفعہا شفاعۃ تاکہ دونوں قسم کی طرف اشارہ ہوجائے۔ تنبیہ : اس آیت شریفہ میں مطلق شفاعت کی نفی نہیں کی گئی بلکہ فرعون اور ہامان کی طرح انبیاء اللہ سے انحراف کرنے والوں کی شفاعت کی نفی مقصود ہے عصاۃ مومنین یعنی گنہاگار مسلمانوں کی شفاعت جو دیگر آیات اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے اس کی نفی مقصود نہیں تفصیل اگر درکار ہے تو تفسیر کبیر کی مراجعت فرمائیں۔ نیز ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے خلاف کوئی شخص اپنی وجاہت سے سفارش نہ کرسکے گا اور آیت من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ میں لفظ اذن اس کی دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ کی اجازت سے سفارش ہوسکے گی۔
Top