Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ
: اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا)
الطَّيْرَ
: پرندے
فَقَالَ
: تو اس نے کہا
مَا لِيَ
: کیا ہے
لَآ اَرَى
: میں نہیں دیکھتا
الْهُدْهُدَ
: ہدہد کو
اَمْ كَانَ
: کیا وہ ہے
مِنَ
: سے
الْغَآئِبِيْنَ
: غائب ہونے والے
اور انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کہ کیا سبب ہے کہ ہدہد نظر نہیں آتا ؟ کیا کہیں غائب ہوگیا ہے
قصہء سوم ملکہء سبا بروایت ھد ھد قال اللہ تعالیٰ وتفقد الطیر فقال مالی لا اری الھد ھد۔۔۔ الی۔۔۔ واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین۔ (ربط) اب ان آیات میں ملکہ سبا کا قصہ ذکر کرتے ہیں جو بظاہر اس سورت کا تیسرا قصہ ہے مگر درحقیقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دوسرا قصہ ہے سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تین قسم کے لشکر تھے ایک آدمیوں کا اور ایک جنوں کا اور ایک پرندوں کا۔ جو روانگی کے وقت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت پر سایہ کرتے تھے۔ ایک دن سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کے ایک لشکر کی جانچ پڑتا کی تو اس نے ہد ہد کو نہ پایا جو ہد ہدوں کا سردار تھا۔ فرمایا جب وہ آئے گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیوں غیر حاضر تھا اگر اس نے کوئی معقول وجہ بیان کی تو خیر ورنہ اس کو ذبح کر ڈالوں گا۔ ہد ہد۔ سلیمان (علیہ السلام) کا مہندس (انجینئر) تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) جب بیابان میں ہوتے تو اس کو طلب فرماتے۔ ہد ہد زمین پر چونچ رکھ کر بتلا دیتا کہ پانی اتنی گہرائی پر ہے تو زمین کھود کر پانی نکال لیا جاتا۔ جنوں کو حکم دیتے وہ کھول کر پانی نکال لیتے۔ سلیمان (علیہ السلام) ایک بیابان میں تھے کہ ہد ہد کو نہ دیکھا تو دریافت فرمایا۔ چناچہ جب وہ حاضر ہوا تو اس سے دریافت کیا اس نے بتایا کہ ملک سبا میں ایک ملکہ ہے جس کا نام بلقیس ہے میں نے اس ملکہ کو اور اس کی قوم کو سورج کا سجدہ کرتے دیکھا ہے اس خطہ کے لوگ مذہباً مجوسی تھے۔ شرک اور کواکب پرستی میں مبتلا تھے۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اس خطہ کا حال معلوم نہ تھا۔ ہد ہد سے سن کر یہ حال معلوم ہوا۔ تو ملکہ سبا کے نام دعوت اسلام کا ایک خط لکھا کہ تو غیر اللہ کی پرستش چھوڑ دے اور مسلمان ہو کر میرے حضور میں حاضر ہوجا اور یہ خط دے کر ہد ہد کو روانہ کیا کہ یہ خط لے جا کر ملکہ سبا کو پہنچا دے گویا کہ بارگاہ نبوت سے ایک جانور کی سفارت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے مقرر کیا جارہا ہے یہ بارگاہ نبوت ہے۔ بادشاہت جس کی خادم اور غلام ہے ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ہد ہد سلیمان (علیہ السلام) کا مہندس یعنی انجینئر تھا۔ زمین پر چونچ مار کر بتلا دیتا تھا کہ پانی اتنی گہرائی پر ہے اس کے بتلانے پر سلیمان (علیہ السلام) زمین کھدوا کر حسب ضرورت پانی نکلوا لیتے تھے۔ سبحان اللہ ایک پرند ہے جو بارگاہ نبوت کا مہندس یعنی انجینئر ہے اب اسی پرند کو سفیر بنا کر دوسرے ملک میں بھیجا جا رہا ہے اب ان آیات میں تفصیل کے ساتھ اسی قصہ کو بیان کرتے ہیں جو ایک اعتبار سے کرشمہ قدرت ہے اور ایک اعتبار سے کرشمہ نبوت ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور کسی مقام پر سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کا یعنی اڑنے والی فوج کا جائزہ لیا تو ہد ہد کو نہ پایا تو فرمایا کہ مجھے ہوا کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ کیا میری نظر خطا کر رہی ہے یا وہ غائبین میں سے ہے یعنی وہ غیر حاضر ہے اس لئے دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ میں اس کو سخت سزا دوں گا جس سے دوسرے پرندوں کو عبرت ہو یعنی اس کے بال وپر کاٹ دوں گا یا اس کو قفس میں بند کر دوں گا یا میں اس کو ذبح کر ڈالوں گا یا میرے سامنے کوئی واضح دلیل اور معقول عذر لے کر آئے تو پھر میں اس کو چھوڑ دونگا۔ پس کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی ہد ہد حاضر ہوگیا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تجھے کہاں دیر ہوئی تو اس نے عرض کیا کہ میں وہ بات معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ معلوم نہیں یعنی میری غیر حاضری کسی غفلت کی بنا پر نہیں بلکہ آپ ہی کی خدمت اور مصلحت کے لئے تھی اور میں اس وقت آپ کے پاس شہر سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں جس کا انتظام مقاصد نبوت سے اور لوازم سلطنت سے ہے وہ خبر یہ ہے کہ تحقیق میں نے ملک سبا میں ایک عورت کو لوگوں پر سلطنت کرتے پایا کہ وہ لوگوں پر بادشاہی کر رہی ہے اور اس ملکہ کو سلطنت کے متعلق ہر چیز دی گئی ہے اور اس ملکہ کا تخت بڑا عظیم الشان ہے جو سونے کا ہے اور جو اہرت اور موتیوں سے جڑا ہوا ہے یہ تو اس کی دنیاوی شان و شوکت کا حال ہے اور اس کے دین کا حال یہ ہے کہ میں نے اس ملکہ کو اور اس کی قوم کو اس حال میں پایا کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ بلقیس اور اس کی قوم مجوسی تھی جو سورج کو پوجتی تھی اور شیطان نے ان کے اعمال بد کو ان کی نظروں میں اچھا کر کے دکھلایا ہے پس اس طرح شیطان نے ان کو راہ حق سے روک دیا ہے پس وہ لوگ راہ یاب ہوتے نظر نہیں آتے۔ شیطان نے ان کے اعمال بد کو مزین کردیا ہے کہ سارا عالم آفتاب سے روشن اور منور ہے لہٰذا وہ اس قابل ہے کہ اس کو سجدہ کیا جائے۔ آفتاب کے سجدہ کو ان کی نظروں میں خوب کر کے دکھایا ہے اور اس بات کو خوب کر کے دکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہ کریں جو معبود حقیقی ہے جس کی شان یہ ہے کہ وہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین سے نباتات اگاتا ہے یہ تو اس کی قدرت کا حال ہے اور اس کے علم کا حال یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے کہ جن کو تم چھپاتے ہو اور جن کو ظاہر کرتے ہو پس ایسی چیز کو پوجنا چاہئے جس کی قدرت اور اس کا علم کامل اور محیط ہو اور سورج کو پوجنا بیکار ہے جسے نہ علم ہے اور نہ قدرت ہے۔ اللہ کے سوا کوئی لائق الوہیت اور مستحق عبادت نہیں وہ مالک ہے عرش عظیم کا۔ بلقیس کے تخت کو اس کے عرش عظیم سے کیا نسبت۔ ہد ہد کا مطلب یہ تھا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم کفر اور شرک میں مبتلا ہے۔ اور توحید سے منحرف ہے ایسی قوم سے جہاد اور قتال واجب ہے۔ حیوانات کو اور چرند اور پرند کو اللہ کی معرفت حاصل ہے وہ توحید اور شرک کو خوب سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہد ہد نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان کئے جن سے اللہ کے کمال قدرت اور کمال علم کو ثابت کیا۔ فائدہ (1) ہد ہد کے قصہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیا کرام کا علم محیط نہیں۔ اس جزئی واقعہ کی اطلاع ہد ہد نے دی جس کا پہلے سے سلیمان (علیہ السلام) کو علم نہ تھا۔ فائدہ (2) یہ آیت سجدہ ہے اس کے پڑھنے والے اور سننے والے پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ جب ہد ہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بلقیس کے حال کی خبر دے دی تو سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی بات سن کر یہ فرمایا کہ اچھا ہم دیکھیں گے اور اس بات کی تحقیق کریں گے کہ تو اپنے قول میں سچا ہے یا جھوٹوں میں سے ہے اور فرمایا کہ فی الحال تو میرا یہ خط لے کر جا اور لے جا کر ان کے سامنے ڈال دے پھر ان کے سامنے خط ڈال کر ذرا ان سے علیحدہ ہوجانا پھر دیکھنا کہ آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں چناچہ ہد ہد سلیمان (علیہ السلام) کا سر بمہر خط لے کر بلقیس کے پاس پہنچا اور دریچہ سے اس کے کمرہ میں داخل ہوا تو اس کو سوتے ہوئے دیکھا۔ ہد ہد نے اس خط کو اس کے سینہ پر رکھ دیا اور حسب ہدایت ثم تولی عنہم۔ ادب اور احترام کے ساتھ ایک طرف ہوگیا۔ ملکہ بیدار ہوگئی دیکھا کہ ایک سر بمہر خط اس کے سینہ پر رکھا ہوا ہے اور ایک پرند ادب واحترام کے ساتھ قریب میں کھڑا ہوا ہے۔ یہ واقعہ دیکھ کر حیران رہ گئی اور ڈر گئی دل میں ہول اور خوف سما گیا۔ خط کو اٹھایا اور اس کی مہر کھول کر اس کو پڑھا۔ تفسیر ابن کثیر ص 361 ج 3۔ اور ارکان دولت کو جمع کیا اور بولی اے اشراف قوم اور اے ارکان دولت میری طرف ایک بزرگ خط یعنی گرامی نامہ ڈالا گیا ہے جس کا حال عجیب ہے کہ اس کو ایک پرند لے کر آیا ہے اور وہ پرند نہایت مہذب اور مودب ہے کہ خط کو میرے سینہ پر رکھ کر ایک طرف کھڑا ہوگیا اور اس خط کا مضمون بھی عجیب ہے تحقیق وہ خط سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے ہے جس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے اور اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ میرے مقابلہ میں تکبر اور سر کشی نہ کرو اور خدا کا فرمانبردار ہو کر گردن جھکائے ہوئے میرے سامنے حاضر ہوجاؤ یہ خط کمال فصاحت اور بلاغت کے ساتھ غایت درجہ مختصر تھا اور باوجود کمال اختصار کے تمام مقاصد کو شامل تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میں ذات الٰہی اور اس کی صفات کاملہ کو بیان کیا بعد ازاں تکبر اور سرکشی کی ممانعت فرمائی جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور پھر اسلام کا حکم دیا جو تمام فضائل اور شمائل اور خیرات وبرکات کو جامع ہے۔ امام قشیری (رح) فرماتے ہیں کہ اس کتاب کو کتاب کریم اس لئے کہا کہ اس گرامی نامہ کا مضمون اللہ کے نام سے شروع ہوا ہے اور اس میں مالک الملک کی اطاعت اور فرمانبرداری کی دعوت دی گئی ہے اور اس میں اپنے لئے ملک اور سلطنت کی طمع کا کوئی شائبہ اور رائحہ بھی نہیں۔ نظم اے نام تو بہترین سر آغاز بےنام تو نامہ کے کنم آغاز آرائش نامہا است نامت آسائش سینہاست کلامت غرض یہ کہ ملکہء بلقیس نے جب یہ دیکھا کہ اس کتاب کریم کو ایک پرندہ لے کر آیا ہے جو نہایت شائستہ اور ادب سے آراستہ ہے تو سمجھ گئی کہ پرند جس کے مطیع اور فرمانبردار ہوں وہ شاہان عالم کی قسم کی بادشاہ نہیں وہ کوئی خاص برگزیدہ ہستی ہے اس لئے اس نے ارکان دولت کو جمع کر کے سلیمان (علیہ السلام) کا یہ گرامی نامہ سنایا تمام دربار ہل گیا اور گھبرا اٹھے۔ ملکہء بلقیس نے کہا اے سرداران قوم اور اشراف ملک اس معاملہ میں مجھ کو فتویٰ دو ۔ یعنی مشورہ دو ۔ ملاء کے معنی اشراف قوم کے ہیں ملؤ سے مشتق ہے جس کے معنی بھر دینے کے ہیں چونکہ یہ لوگ اپنی عزت و ثروت کی وجہ سے اپنی قوم کی آنکھوں میں بھرے ہوئے اور سمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے اشراف قوم کے لئے لفظ ملاء استعمال ہوتا ہے اور فتویٰ کے معنی حکم قوی کے ہیں کہ جو کسی مشکل کے حل اور سلجھانے کے لئے دیا جائے لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ ملکہ بلقیس نے اہل دربار سے یہ کہا کہ اے اشراف قوم مجھے اس مشکل میں ایسی محکم رائے دو جس سے یہ مشکل حل ہوجائے اور یہ عقدہ کھل جائے اور کہا تم کو معلوم ہے کہ گزشتہ زمانہ سے لے کر اب تک ہمیشہ میری یہ شان اور عادت رہی ہے کہ میں کسی معمولی بات کا بھی قطعی فیصلہ نہیں کیا کرتی جب تک تم لوگ حاضر نہ ہوجاؤ یعنی میں نے تو کسی معمولی اور حقیر کام میں بھی بغیر تمہارے مشورہ کے قطعی فیصلہ نہیں کیا اور یہ معاملہ تو بہت اہم ہے ارکان سلطنت ملکہ کے جواب میں بولے کہ ہم بڑی قوت والے ہیں اور سخت لڑائی لڑنے والے ہیں یعنی ہم کو قوت اور طاقت بھی حاصل ہے اور ہمت و شجاعت اور لشکری کثرت بھی حاصل ہے جنگ اور سامان جنگ کا ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہم مقابلہ کے لئے ہر طرح حاضر اور مستعد ہیں اگر آپ ہم کو حکم دیں تو ہم ان سے لڑنے کے لئے تیار ہیں اور حکم اور اختیار سب آپ کے حوالہ ہے پس آپ جو حکم دینا چاہیں اس کو سوچ لیں ہم حضور کے تابع فرمان ہیں ہم آپ کے حکم کی اطاعت کریں گے خواہ صلح کیجئے یا جنگ کیجئے۔ نظم اگر جنگ خواہی نبرد آوریم دل دشمنان را بدرد آوریم وگر صلح جوئی ترا بندہ ایم بتسلیم حکمت سرافگندہ ایم مطلب یہ تھا کہ ہم جنگ کے لئے تیار ہیں آگے آپ کو اختیار ہے ارکان دولت کا میلان جنگ کی طرف تھا۔ مگر ملکہ نے جنگ میں تعجیل مناسب نہ سمجھی بلکہ صلح اور جنگ کے بین بین ایک صورت اختیار کی۔ بہرحال بلقیس نے ارکان دولت کے جواب سے سمجھ لیا کہ یہ لوگ جنگ پر آمادہ ہیں تو یہ رائے اس کو پسند نہ آئی اور بولی کہ فی الحال لڑنا مصلحت نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ تحقیق بادشاہوں کا طریقہ یہ ہے کہ بادشاہ لوگ جب کسی شہر میں بارادۂ جنگ داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو خراب اور برباد کر ڈالتے ہیں اور معززین کو ذلیل کرتے ہیں۔ بستی کو لوٹتے ہیں اور رعایا کو قید کرتے ہیں تاکہ ان کی حکومت قائم ہو اور اگر تم نے سلیمان (علیہ السلام) سے جنگ کی تو ممکن ہے کہ یہ بھی ایسا کریں اس لئے بےضرورت لڑائی میں پڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا اور سر دست مناسب یہ ہے کہ میں ان کی طرف ایک تحفہ اور ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لے کر آتے ہیں قاصدوں کی واپسی کے بعد دوبارہ غور کرلیا جائے گا میرے پاس ان سے زیادہ مال و دولت ہے مجھے اس کی حاجر نہیں کہ فورا ان کی طاعت قبول کرلوں۔ ہدیہ بھیج کر سلیمان (علیہ السلام) کو آزماتی ہوں کہ وہ نبی ہے یا بادشاہ ہے اگر وہ بادشاہ ہے تو میرا ہدیہ قبول کرلے گا۔ اور جنگ کا ارادہ ملتوی کر دے گا اور اگر نبی ہے تو میرا ہدیہ قبول نہیں کرے گا اور جب تک ہم اس کا دین قبول نہ کرلیں وہ کبھی ہم سے راضی نہیں ہوگا چناچہ ملکہ بلقیس نے بڑے بیش قیمت ہدیے اور تحفے بھیجے جن کی تفصیل کتب تفاسیر میں مذکور ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے سب کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ ملکہ بلقیس نے قسم قسم کے جواہرات اور موتی اور سونے اور چاندی کی اینٹیں بھیجیں جنہیں دیکھ کر آدمی حیران رہ جائے مگر سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس کے ہدیہ اور تحفہ کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی۔ وہ اللہ کے نبی تھے ان کی نظر میں تمام دنیا کا سونا اور چاندی اور جواہرات سب ہیچ تھے۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ پھر جب وہ ایلچی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ملکہ کی طرف سے تحفے اور ہدیے پیش کئے تو آپ نے اس کی طرف کچھ توجہ نہیں کی بلکہ اس حرکت پر ناخوشی اور ناگواری کا اظہار کیا اور فرمایا کیا تم لوگ مجھے اس دنیائے فانی کے مال سے مدد دینا چاہتے ہو سو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو عطا کیا ہے کہ جن وانس اور چرند اور پرند کو میرے لئے مسخر کیا ہے وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے جو تم کو دیا ہے تمہارے پاس صرف تھوڑی سی دنیا ہے اور بحمد اللہ میرے پاس دین اور دنیا سب کچھ ہے بلکہ تم ہی اپنے اس ہدیہ پر خوش رہو۔ یہ ہد یہ تمہاری خوشی کے لائق ہے میری خوشی تو اس میں ہے کہ تم اسلام لے آؤ اور خدا کے سامنے گردن ڈال دو ۔ بعد ازاں قاصدوں کے سردار کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا تو مع ان تحفوں اور ہدیوں کے اپنی ملکہ اور ارکان دولت کی طرف واپس لوٹ جا ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں اور صاف فرما دیا کہ اب اگر وہ ایمان لے آویں تو فبہا۔ ورنہ ہم ان پر ضرور ایسے لشکروں کے ساتھ چڑھائی کریں گے جن کے مقابلہ کی ان میں طاقت نہیں اور ہم ان کو ملک سے ذلیل کر کے نکال دیں گے اور حکومت وسلطنت سے دستبردار ہونے کے بعد ذلیل و خوار ہوں گے مسلمانوں کی رعیت بن کر رہنا ہوگا۔ جب قاصد واپس ہوئے اور سبا پہنچ کر ملکہ کو بتلایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تمام ہدیے اور تحفے واپس کر دئیے ہیں اور ان کا پیغام پہنچایا کہ یا تو اسلام لے آؤ ورنہ فوج کشی کے لئے تیار ہوجاؤ تو ملکہ اور تمام ارکان دولت کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص کوئی بادشاہ نہیں بلکہ خدا کا کوئی برگزیدہ بندہ ہے خدا کی طاقت اور قوت سے بول رہا ہے اس کے مقابلہ میں کسی قوت اور طاقت کا زور نہیں چل سکتا سلامتی اس کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے۔ چناچہ ملکہ بڑے سازوسامان کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں اطاعت کے ارادہ سے حاضری کے لئے روانہ ہوگئی۔ سلیمان (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی کے یا کسی اور ذریعہ سے یہ معلوم ہوگیا کہ ملکہء بلقیس ملک سبا سے اسلام میں داخل ہونے کے ارادہ سے روانہ ہوگئی تو یہ چاہا کہ بلقیس کا تخت جس کو وہ سات قفلوں میں مقفل کر کے آرہی ہے اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے میرے سامنے حاضر کردیا جائے تاکہ ملکہ یہاں آکر اپنے تخت کو دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ شخص دنیاوی بادشاہوں کی طرح محض بادشاہ نہیں بلکہ قدرت خداوندی اس کی پشت پناہ ہے اور یہ شخص خداوند قدیر کا برگزیدہ اور فرستادہ ہے جس کے ہاتھ پر ایسے عجائب قدرت کا ظہور ہو رہا ہے چناچہ سلیمان (علیہ السلام) نے اہل دربار سے فرمایا اے اہل دربان کون شخص تم میں سے ایسا ہے کہ بلقیس کا تخت میرے سامنے لا کر حاضر کر دے قبل اس کے کہ وہ لوگ مسلمان ہو کر میرے پاس آویں وہ عرش یمن میں تھا اور سلیمان (علیہ السلام) اس وقت بیت المقدس میں تھے۔ مقصود یہ تھا کہ بلقیس پر حق تعالیٰ کی کمال قدرت کا اور سلیمان (علیہ السلام) کی نبوت کا معجزہ ظاہر ہوجائے اور اس غیبی کرشمہ کو دیکھ کر ملکہ یہ سمجھ جائے کہ بارگاہ نبوت کے سامنے بڑی سے بڑی سلطنت اور بڑی سے بڑی شان و شوکت ہیچ ہے اور دنیا سے اس کا دل بیزار ہوجائے اور تخت اور سلطنت سے اس کا دل خالی ہوجائے اس لئے تخت مذکور کے منگوانے کا ارادہ فرمایا۔ جنوں میں ایک دیو نے کہا کہ میں اس تخت کو آپ کے پاس لا موجود کروں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی اس جگہ سے اٹھیں اور بیشک میں اس پر قادر ہوں اور امانت دار ہوں یعنی میں اس تخت کو آپ کے دربار برخاست کرنے سے پہلے لے آؤں گا اور جو جواہرات اس میں لگے ہوئے ہیں ان میں خیانت نہیں کروں گا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے بھی زیادہ جلدی چاہتا ہوں تو بولا وہ شخص جس کے پاس آسمانی کتاب کا علم تھا اور اسم اعظم جانتا تھا کہ مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں اس تخت کو آپ کے پاس لا کر رکھ دوں قبل اس کے کہ آپ نگاہ آپ کی طرف واپس آئے یعنی آپ نظر اٹھا کر جہاں تک دیکھ سکتے ہیں دیکھئے اور آپ کی نظر اپنی جگہ واپس آنے سے پہلے ہی میں اس تخت کو آپ کے سامنے حاضر کر دوں گا اللہ نے مجھے اتنی قوت اور قدرت دی ہے کہ میں اس کو اس قدر جلد لاسکتا ہوں اور امین ہوں اللہ نے مجھ کو امانت کی صفت بھی عطا کی ہے میں اس تخت کے لعل و جواہر میں کسی قسم کی خیانت نہ کروں گا یہ شخص اولیاء اللہ میں سے تھا اللہ ہی کو معلوم ہے کہ وہ کون سی کتاب تھی اور کون سا علم تھا اس کی تحقیق ناممکن اور مجال ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ اس شخص کا نام آصف بن برخیا تھا جو سلیمان (علیہ السلام) کا صحابی اور ان کا وزیر تھا۔ جو کتب الٰہیہ کا عالم تھا اور اسماء الٰہیہ کے خواص اور تاثیرات سے واقف تھا۔ دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 364 ج 3 و روح المعانی ص 183 ج 19۔ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اچھا۔ اس نے عرض کیا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور نبی کے بیٹے ہیں آپ اللہ سے دعا فرمائیے آپ اگر اللہ سے دعا کریں گے تو حاضر ہوجائے گا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی تو فورا تخت حاضر ہوگیا۔ دیکھو زاد المسیر ص 175 ج 6۔ پس سلیمان (علیہ السلام) نے جب اس تخت کو طرفۃ العین میں اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ سب میرے پروردگار کا فضل اور احسان ہے کہ اس طرح طرفۃ العین میں میرے ایک خادم کے ذریعہ تخت میرے سامنے لا کر رکھ دیا گیا یہ محض اس کا فضل ہے جس میں اسباب ظاہری کو بالکل دخل نہیں تخت کا اس طرح یکدم حاضر ہوجانا سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ تھا اور ان کے ایک صحابی کی کرامت تھی اور یہ امر کوئی محال نہیں بلقیس کا تخت بیشک ایک بڑا جسم تھا مگر کرہ آفتاب سے تو بڑا نہ تھا پس جو خدا کرہ شمس کو ایک لمحہ میں ہزاروں میل کی حرکت دے سکتا ہے تو اسے ایک تخت کو حرکت دینا کیا مشکل ہے کیونکہ تخت کو آفتاب سے وہ نسبت بھی نہیں جو ذرہ کو آفتاب سے ہے الغرض سلیمان (علیہ السلام) نے اس تخت کو سامنے رکھا ہوا دیکھ کر کہا کہ یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ تاکہ میرا امتحان کرے کہ میں اس کی نعمت کا شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔ اور جو شخص شکر کرے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرے گا کیونکہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اور عاقبت میں اس کا صلہ بہشت ہے اور جو ناشکری کرے تو وہ میرے پروردگار کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ میرا پروردگار بےنیاز اور بےپرواہ ہے اسے کسی کے شکر کی حاجت نہیں اور وہ بڑا کرم کرنے والا ہے بلا کسی استحقاق کے کرم کرتا ہے۔ تخت کا اس طرح طرفتۃ العین میں حاضر ہوجانا سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ تھا اور ان کے صحابی کی کرامت تھی کیونکہ صحابی کو یہ مرتبہ اپنے نبی کی متابعت سے ملا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ خود سلیمان (علیہ السلام) اس تخت کو لے آتے لیکن اللہ تعالیٰ ے یہ کام ان کے خادم کے ہاتھ سے کرایا تاکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مزید اعزاو اکرام کا سبب بنے کہ یہ شخص اللہ کا اس درجہ مقبول بندہ ہے کہ اس کے خادم ایسے ہیں جن سے ایسی کرامتیں ظہور میں آرہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس طرح تخت کا سامنے لا کر رکھ دیا جانا اللہ کی عظیم نعمت تھی سلیمان (علیہ السلام) اسی وقت نعمت سے منعم کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس کے شکر میں مشغول ہوگئے۔ اور یہ بتلا گئے کہ منعم حقیقی کو ہمارے شکر کی حاجت نہیں وہ تو غنی کریم ہے ہم جو شکر کررہے ہیں وہ اپنے فائدہ کے لئے کر رہے ہیں اور جو نعمت مل رہی ہے وہ محض اس کا کرم ہے خدا پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ فائدہ : اور طرفۃ العین میں اس طرح تخت کا حاضر ہوجانا عقلاً محال نہیں اور موجودہ سائنس کی تحقیق پر اجسام کی تیز رفتاری کی کوئی حد مقرر نہیں ابھی تک تو بندہ کی قدرت کا بھی صحیح اندازہ نہیں ہوسکا کہ کہاں تک پہنچے گی تو خدائے قادر مطلق کی قدرت کی کون حد مقرر کرسکتا ہے۔ پس جب وہ تخت ملکہ بلقیس کے پہنچنے سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حضور میں پہنچ گیا تو فرمایا کہ تخت کی وضع اور ہیئت کو بلقیس کے امتحان کے لئے بدل ڈالو تاکہ دیکھیں کہ آیا وہ اپنے تخت کو پہچان لیتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جو اس قسم کے تغیر وتبدل سے شناخت نہیں کرسکتے دیکھیں کہ اس کی عقل کی رسائی ہوتی ہے یا نہیں۔ نکتہ : عرش اور تخت۔ سلطنت اور بادشاہت کی صورت ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس تخت کی ہیئت بدلنے کا حکم دیا۔ اشارہ اس طرف تاکہ سابق سلطنت کی ہیئت اب بدل چکی ہے۔ کفر کی گزشتہ سلطنت ختم ہوئی اب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے بلقیس کو یہ جدید سلطنت عطا کی جا رہی ہے کہ جو اسلامی ہے اور سلیمان (علیہ السلام) کے زیر سایہ ہے نجاشی (رح) شاہ حبشہ کے مسلمان ہوجانے سے آنحضرت ﷺ نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا۔ اسی طرح سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس کے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے اس کی سلطنت اور بادشاہت کو برقرار رکھا۔ پس جب بلقیس آگئی اور سلیمان (علیہ السلام) کے حضور میں پہنچ گئی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے جس کو تو اپنے محل میں چھوڑ کر اور جس پر قفل لگا کر آئی ہے اور جس پر پہرے لگا کر آئی ہے تو بلقیس نے بہت ہوشیاری سے جواب دیا اور بولی گویا کہ وہی ہے نہ یہ کہا بعینہ وہی ہے اور نہ یہ کہا کہ یہ وہ نہیں۔ گویا کی قید اس لئے لگائی کہ بہمہ وجوہ وہی نہ تھا کیونکہ اس کی ہیئت بدلی ہوئی تھی اس سے اس کی عقل اور فراست ثابت ہوئی کہ اہل دربار میں سے کوئی اس کو جھٹلا نہ سکے اگر وہ یہ کہہ دیتی کہ ایسا ہی ہے یا ایسا نہیں ہے تو لوگوں کو اس کے جھٹلانے کا موقع مل جاتا اس لئے اس نے یہ جواب دیا کہ گویا یہ وہی تخت ہے اور بعد ازاں یہ کہا اور ہم کو اس معجزہ سے پہلے ہی آپ (علیہ السلام) کی نبوت اور حقانیت کا اور خدا کی قدرت کا کہ وہ جہاں چاہے کسی کے تخت کو منتقل کر دے علم ہوچکا تھا ہمیں اس معجزہ کی چنداں حاجت نہ تھی۔ ہم کو آپ کی نبوت کا اور خدا کی قدرت اور وحدانیت کا پہلے ہی یقین ہوگیا تھا اور ہم دل سے مسلمان ہوچکے تھے یہ بھی اس کے فہم اور فراست کی دلیل ہے کہ اس نے معجزہ دیکھنے سے پہلے سمجھ لیا کہ یہ برگزیدہ ہستی خدا کا نبی ہے اور حاضری سے پہلے اس کی تصدیق کی اور اسلام لے آئی اور اب تک تو جو ایمان لانے میں دیر ہوئی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت نے اور جھوٹے معبودوں کی پرستش نے اور قومی تقلید نے اس کو ایمان لانے سے باز رکھا۔ بیشک اب سے پہلے کافروں کی قوم سے تھی۔ قوم کو دیکھا کفر اور شرک میں مبتلا تھی مگر عاقل تھی جب تنبیہ کی گئی تو متنبہ ہوگئی اس کے بعد سلیمان (علیہ السلام) نے چاہا کہ بلقیس پر شان نبوت اور شان معجزہ کرامت تو ظاہر ہوچکی ہے لہٰذا اب اس کو سلطنت کی بھی شان و شوکت دکھلانی چاہئے تاکہ اس پر یہ واضح ہوجائے کہ میری سلطنت اس کی سلطنت کے سامنے ہیچ ہے چناچہ ایک شیش محل تیار کرایا اور اس کا فرش صاف اور شفاف شیشہ کا بنوایا اور اس کے نیچے پانی بھر کر اس میں مچھلیاں چھوڑ دیں۔ چناچہ صحن میں پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب پانی ہے۔ درمیان صحن کے سلیمان (علیہ السلام) کا تخت رکھا گیا اور بلقیس کو اندر بلایا گیا بلقیس جب دروازہ پر پہنچی تو کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو پھر جب بلقیس نے اس صحن کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ گہرا پانی ہے یعنی پانی کا حوض ہے اس لئے اس نے اندر گھسنے کے لئے اپنے پائنچے اوپر اٹھائے اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھولیں سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کہ تحقیق یہ محل ہے جو سفید شیشوں سے جڑا ہوا ہے پانی نہیں اس سے اس کو اپنی عقل کا قصور معلوم ہوا۔ اور یہ پتہ چلا کہ جس شاہانہ سازوسامان پر مجھ کو ناز تھا یہاں اس سے ہزار درجہ بڑھ کر موجود ہے اور عجب نہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس شیشہ کے فرش سے اس کو متنبہ کیا ہو کہ آفتاب اور ستاروں کی چمک کو دیکھ کر ان کو خدا سمجھ لینا ایسا ہی دھوکہ ہے جیسا کہ آدمی شیشہ کی چمک کو دیکھ کر پانی گمان کرے۔ کسراب بقیعۃ۔ تحسبہ الظمان ماء۔ شیشہ پانی نہ تھا بلکہ پانی کا مظہر تھا۔ اسی طرح آفتاب اور ماہتاب نور الٰہی کا مظہر اور آئینہ ہیں۔ معاذ اللہ خدا نہیں اس پر بلقیس بولی کہ اے میرے پروردگار بیشک میں نے سورج کو پوج کر اپنی جان پر ظلم کیا کہ اس کی ظاہری چمک کر دیکھ کر اس کو معبود بنا لیا اور اب میں کفر اور شرک سے تائب ہو کر سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بن گئی تاکہ اللہ کے نبی کی معیت اور مرافقت سے مجھ کو دین اور دنیا اور مزید نعمتیں ملیں۔ غرض یہ کہ ملکہ سبا مسلمان ہوگئی اور مسلمان ہونے کے بعد واپس چلی ہوگئی۔ یہاں تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ ہوا باقی ملکہ سبا کے اسلام لانے کے بعد کیا ہوا تو قرآن و حدیث میں اس کی کوئی تصریح نہیں البتہ علماء تفسیر وسیر میں یہ مشہور (ف 1) ہے کہ ملکہ سبا کے اسلام لانے کے بعد سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے نکاح فرما لیا۔ ملکہ سبا غیر شادی شدہ تھی۔ اور نکاح کے بعد اس کو اپنے ملک جانے کی اجازت دے دی اور گاہے گاہے خود وہاں تشریف لے جاتے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ لطائف ومعارف حق جل شانہ نے اس قصہ میں سلیمان (علیہ السلام) کے جن معجزات اور کرامات کا ذکر فرمایا اس قسم کے معجزات نبی اکرم ﷺ کو بھی حق تعالیٰ نے عطا فرمائے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بھی منطق الطیر کا علم عطا فرمایا۔ جانوروں کا آپ ﷺ سے کلام کرنا اور اونٹ کا آپ ﷺ سے شکایت کرنا اور درختوں اور پتھروں کا آپ ﷺ سے کلام کرنا۔ اور آپ کو السلام علیک یا رسول اللہ کہنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اور اس قسم کی کرامتوں کا نمونہ فاروق اعظم ؓ کو بھی عطا ہوا۔ حضرت عمر ؓ کا عین خطبہ میں یا ساریۃ الجبل الجبل کہنا اور حضرت ساریہ ؓ کا میدان کارزار میں حضرت عمر ؓ کی آوازسننا روایات معتبرہ سے ثابت ہے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک بار زلزلہ آیا تو حضرت عمر ؓ نے زمین پر پاؤں مارا اور کہا کہ اے زمین میں تجھ پر عدل اور انصاف کئے ہوئے ہوں اور تو حرکت کر رہی ہے زمین فورا ساکن ہوگئی اور دریائے نیل کے نام حضرت عمر ؓ کے ایک پر چہ لکھنے کا بھی واقعہ مشہور ہے۔ دریائے نیل خشک ہوگیا تھا حضرت عمر ؓ کا یہ پر چہ ڈالتے ہی جاری ہوگیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
Top