Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 47
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہوتا اَنْ تُصِيْبَهُمْ : کہ پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا قَدَّمَتْ : اس کے سبب۔ جو بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ (ان کے اعمال) فَيَقُوْلُوْا : تو وہ کہتے رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَوْلَآ : کیوں نہ اَرْسَلْتَ : بھیجا تونے اِلَيْنَا : ہماری طرف رَسُوْلًا : کوئی رسول فَنَتَّبِعَ : پس پیروی کرتے ہم اٰيٰتِكَ : تیرے احکام وَنَكُوْنَ : اور ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور (اے پیغمبر ہم نے تم کو اس لئے بھیجا ہے کہ) ایسا نہ ہو کہ اگر ان (اعمال) کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں ان پر کوئی مصیبت واقع ہو تو یہ کہنے لگیں کہ اے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں ہوتے ؟
اتمام حجت وقطع معذرت ولو لا ان یصیبہم مصیبۃ۔۔۔ الی۔۔۔ ان اللہ لا یھدی القوم الظلمین۔ (ربط) گزشتہ آیات میں بعثت رسل اور نزول کتاب الٰہی کا ذکر تھا اب ان آیات میں اسی مسئلہ کو مدلل اور مبرہن کرتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ بعثت رسل اللہ کی حجت بالغہ ہے جس سے بندوں پر حجت پوری ہوجاتی ہے اور اسی ذیل میں کافروں کے چند حیلوں اور بہانوں کا ذکر کر کے جواب دیتے ہیں کہ بعثت رسل کے بعد کافر یہ عذر نہیں کرسکیں گے کہ ہم کو بلاوجہ کیوں عذاب دیا جا رہا ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ اللہ کا عذاب حجت پوری ہوجانے کے بعد آتا ہے اور بعثت رسل اللہ کی حجت بالغہ ہے جس سے حجت پوری ہوجاتی ہے اور مجرم کے لئے عذر کی گنجائش باقی نہیں رہتی چناچہ فرماتے ہیں اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ بداعمالیوں کی وجہ سے مصیبت پہنچنے کی وقت شاید یہ لوگ یہ کہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہماری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا کہ ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں سے ہوجاتے سو ان کی اس بات کا مقتضاء تو یہ تھا کہ رسول کے آنے کو نعمت عظمیٰ اور غنیمت کبریٰ سمجھتے اور اللہ کے نازل کردہ دین کو فورا قبول کرلیتے لیکن ان کی حالت تو اس کے برعکس ہوئی کہ جب ان کے پاس حق چل کر خود آگیا تو اس میں حیلے اور بہانے اور قسم قسم کے شبہ نکالنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ آپ کو ویسے معجزات کیوں نہ دئیے گئے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے پہلے دئیے گئے شاید ان کی مراد یہ تھی کہ عصا اور ید بیضا اور طوفان اور جراء اور قمل اور ضفادع جیسے معجزات آپ ﷺ کو کیوں نہیں دئیے گئے۔ اگر آپ ﷺ سے ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو ہم آپ پر ایمان لے آتے یا آپ کے اوپر بھی توریت کی طرح پورا قرآن ایک دم اترتا تو ہم ایمان لے آتے۔ یہ کیا بات ہے کہ دو دو اور چار چار آیتیں اترتی ہیں۔ کافروں کا یہ سوال جاہلانہ اور معاندانہ تھا اول تو یہ سوال سرے ہی سے غلط ہے اس لئے کہ تمام انبیاء کے معجزات کا متحد اور مماثل ہونا ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ ہر نبی کی کتاب اور اس کا صحیفہ پہلے نبی کی کتاب اور اس کے صحیفہ کے مماثل ہو اور نہ یہ ضروری ہے کہ ودسرے نبی کی کتاب کیفیت نزول میں پہلے نبی کی کتاب کے مماثل ہو کسی پر اللہ نے متفرقا کتاب نازل کی اور کسی پر مجتمعا اور دفعتا حالانکہ یہ کتاب یعنی قرآن کریم شرف اور عظمت میں اور علم و حکمت میں علوم وہدایت میں توریت اور انجیل سب سے بڑھ کر ہے۔ دیکھو تفسیر (ف 1) کبیر ص 483 ج 6۔ ایسی لاجواب کتاب پر ایمان لانے میں کیوں تردد کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ آئندہ آیت میں کافروں کے اس شبہ کا جواب دیتے ہیں کیا یہ لوگ اس چیز کا انکار نہیں کرچکے جو سابق میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی تھی یعنی یہ لوگ اب تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ مدعی رسالت واقعی خدا کا رسول ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کو اللہ نے عصا اور یدبیضا جیسے معجزے نہیں دئیے لیکن ذرا یہ بتائیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) یہی معجزات لے کر لوگوں کے پاس آئے جن کو اب سندرسالت کہا جا رہا ہے تو کیا ان لوگوں نے ان معجزات کا انکار نہ کیا تھا اور ان کو جھوٹا اور جادوگر نہیں کہا تھا اور اب قریش مکہ یہ کہتے ہیں کہ توریت اور قرآن دونوں ہی جادو ہیں جو باہم ایک دوسرے کے موافق ہیں۔ 1 اعلم ان الذی اقترحوہ غیر لازم لانہ لا یجب فی معجزات الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام ان تکون واحدۃ ولا فیما ینزل الیہم من الکتاب ان تکون علی وجہ و احداذ الصلاح قد یکون فی انزالہ مجموعا کالتوراۃ ومفرقا کالقران ثم ان اللہ تعالیٰ اجاب عن ھذہ الشبھۃ بقولہ اولم یکفروا بما اوتی موسیٰ من قبل۔ الخ تفسیر کبیر ص 483 ج 6۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں کہ مکہ کے کافر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سن کر کہنے لگے کہ اگر ویسا معجزہ اس نبی کے پاس ہوتا تو ہم اس کو مان لیتے جب یہود سے پوچھا اور توریت کی باتیں سنیں تو اس نبی کے موافق اور اپنی مرضی کے خلاف سنیں مثلا یہ کہ بت پرستی کفر ہے اور آخرت کا جینا حق ہے اور جو جانور اللہ کے نام پر ذبح نہ ہو وہ مردار ہے اور عرب میں ایک نبی آخرت الزمان آئیں گے جن کی یہ نشانیاں ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ تو جوش میں آکر کہنے لگے کہ دونوں یعنی توریت اور قرآن دونوں ہی جادو ہیں اور موسیٰ اور محمد (علیہما السلام) دونوں ہی جادوگر ہیں۔ (العیاذ باللہ) ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں (انتہی) اور ایک دوسرے کے دین کی باتیں ملتی جلتی ہیں اور یہ کہنے لگے کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں مانتے۔ نہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اور نہ محمد ﷺ کو اور نہ تو ریت کو اور نہ قرآن کو۔ کفار عرب کسی نبوت و رسالت کے قائل نہ تھے۔ اے نبی آپ ان کے جواب میں کہہ دیجئے کہ اگر یہ دونوں کتابیں تمہارے نزدیک جادو ہیں تو تم ان کے علاوہ کوئی اور کتاب اللہ کے پاس سے لے آؤ جو ہدایت میں ان دونوں سے بہتر اور بڑھ کر ہو۔ تاکہ میں اس پر چلوں اور اس کی پیروی کروں اگر تم اس دعوے میں سچے ہو میں تمہاری طرح معاند نہیں۔ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ لوگ قرآن کا مثل لانے سے عاجز ہیں پھر اس پر ایمان کیوں نہیں لاتے پس اگر یہ لوگ آپ کی بات کو نہ مانیں اور اس جیسی نہ تو کوئی کتاب لاسکیں اور نہ توریت اور قرآن کو مانیں پس یقین کرلیجئے کہ یہ لوگ ضدی اور عنادی ہیں سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چل رہے ہیں۔ حق واضح ہے مگر ان کا نفس نہیں مانتا اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے نفس کی خواہش پر چلے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا جو شخص بغیر دلیل کے نفس کی خواہشوں پر چلنے لگے وہ کیسے راہ یاب ہوسکتا ہے چناچہ آئندہ آیت میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کی ہدایت کا ارادہ نہیں فرماتا اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے اور قسم قسم کے خیالات آتے ہیں اور وہ راہ حق پر نہ چلنے کے لئے طرح طرح کے حیلے اور بہانے تراشتا ہے۔
Top