Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
بیان حرمت اعراض وعدول از فیصلہ خدا و رسول ﷺ کہ ایں نوعے است از انواع ایذاء رسول ﷺ قال اللہ تعالیٰ وما کان لمومن ولامومنۃ۔۔۔ الی۔۔۔ وکان اللہ بکل شیء علیما۔ (ربط) گذشتہ آیات میں مسلمین اور مسلمان اور مومنین اور مومنات کے لئے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا اب ان آیات میں یہ بتلاتے ہیں کہ ایمان اور اسلام یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ اور سپرد کر دے اور خدا اور رسول جو حکم دیں۔ دل وجان سے بسرو چشم اس کو قبول کرے اور بجالائے مرد ہو یا عورت ہو جب خدا کا رسول کوئی حکم دے تو ایمان اور اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے سامنے سر جھکا دیں غرض یہ کہ اس آیت میں خدا و رسول کے فیصلہ سے اعراض اور عدول کو حرام اور ممنوع قرار دیا اس لئے کہ وہ ایمان اور اسلام کے منافی ہے علاوہ ازیں خدا و رسول کے فیصلہ سے اعراض و انحراف یہ ایک قسم کی ایذا بھی ہے اور اس سورت کے اہم مقاصد میں سے یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تعظیم اور اطاعت کی فرضیت اور آپ ﷺ کی ایذا کی حرمت کو بیان کیا جائے اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں اور منافقوں کی ایذاؤں کا ذکر کر کے ان کا جواب دیا اور اسی ذیل میں حق تعالیٰ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح کا قصہ ذکر فرمایا اور اس بارے میں منافقین نے جو حضور پر نور ﷺ پر طعن وتشنیع کر کے آپ ﷺ کو ایذاء پہنچائی تھی اس کا جواب دیا۔ اصل قصہ یہ تھا کہ حضرت زینب ؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور قریش کے اعلیٰ خاندان سے تھیں آنحضرت ﷺ نے یہ چاہا کہ ان کا نکاح زید بن حارثہ ؓ سے کردیں۔ یہ زید دراصل عرب سے تھے لیکن لڑکپن میں کوئی ظالم ان کو پکڑ کر لایا اور غلام بنا کر ان کو مکہ کے بازار میں بیچ دیا۔ حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو خرید لیا اور بعد چندے آنحضرت ﷺ کو ہبہ کردیا آنحضرت ﷺ نے ان کو آزاد کردیا اور بیٹوں کی طرح ان کی پرورش کی حتی کہ ان کو زید ؓ بن محمد ﷺ کہہ کر پکارنے لگے آنحضرت ﷺ نے چاہا کہ زید ؓ کا زینب ؓ سے نکاح ہوجائے مگر حضرت زینب ؓ اور ان کے بھائی اس پر راضی نہ ہوئے ان کا گمان یہ تھا کہ زید ؓ نسبی اور خاندانی حیثیت سے کم ہیں اور زینب ؓ خاندانی حیثیت سے بلند ہیں۔ اس لئے ان کے گھر والے اس نکاح پر راضی نہ ہوئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد کسی کو اس میں چون وچرا کا اختیار نہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو پھر گھر والے نکاح پر راضی ہوگئے اور حضرت زینب ؓ کا زید بن حارثہ ؓ سے نکاح ہوگیا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو زینب ؓ اور ان کے بھائی کو انکار کی گنجائش نہ رہی اور انہوں نے اس منگنی کو منظور کرلیا اور آنحضرت ﷺ نے زید ؓ کا حضرت زینب ؓ سے نکاح کردیا۔ یہ تو پہلا مرحلہ تھا اور دوسرا مرحلہ یہ پیش آیا کہ نکاح تو ہوگیا مگر باہم مزاج میں موافقت اور موانست نہ ہوئی دن بدن کشیدگی بڑھتی گئی حضرت زینب ؓ کی طبیعت پر اثر یہ تھا کہ میں جس حسب ونسب اور خاندان کی ہوں تو میں ایک ایسے شخص کی بی بی بن کر کیسے رہوں جس پر ایک بار غلامی کا دھبہ لگ چکا ہے وہ زید ؓ کو اپنا ہمسر نہ سمجھتی تھیں جب کبھی کوئی بات پیش آتی تو زید ؓ آنحضرت ﷺ سے آکر زینب ؓ کی تیز زبانی کی شکایت کرتے تو آپ ﷺ ان کی تسلی کرتے اور کہتے کہ اپنی بی بی کو اپنے پاس رہنے دو اور اللہ سے ڈرو اور طلاق نہ دو ۔ شریعت کے حکم کے مطابق آپ ﷺ نے ان کو تسلی دی اور مشورہ دیا۔ بالآخر جب کشمکش نے طول کھینچا تو زید ؓ نے آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ( ﷺ ) میں زینب ؓ کو طلاق دینا چاہتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا۔ طلاق مت دو جہاں تک ہو سکے نباہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔ مگر زید ؓ نہ مانے اور آخرت طلاق دے ہی دی۔ آنحضرت ﷺ نے تو بحکم شریعت زید ؓ یہی مشورہ دیا کہ طلاق نہ دو اور نباہ کرو اس لئے کہ ایسی صورت میں شریعت کا یہی حکم ہے مگر بذریعہ وحی آپ ﷺ کو بتلا دیا گیا کہ زید ؓ زینب ؓ کو طلاق دیں گے اور اس طلاق کے بعد زینب ؓ کا آپ ﷺ سے نکاح ہوگا جیسا کہ امام زین العابدین (ف 1) سے مروی ہے۔ 1 رواہ الحکیم الترمذی وغیرہ عن علی بن الحسین ؓ ما اوحی اللہ تعالیٰ بہ الیہ ان زینب سیطلقھا زید ویتزوجھا بعد (علیہ السلام) والی ھذا ذھب اھل التحقیق من المفسرین کالزھری وبکر بن العلاء القشیری والقاضی ابی بکر بن العربی وغیرہم۔ روح المعانی ص 23 ج 22۔ اور امام قرطبی اپنی تفسیر میں امام زین العابدین (رح) کے اس قول کو نقل کر کے لکھتے ہیں۔ قال علماء نا رحمۃ اللہ علیہم ھذا القول احسن ما قبل فی تفسیر ھذہ الایۃ وھو الذی علیہ اھل التحقیق من المفسرین والعلماء الراسخین کالزھری والقاضی بکر بن العلاء القشیری والقاضی ابی بکر بن العربی وغیرہم دیکھو تفسیر قرطبی ص 190 ج 14 تفسیر سورة احزاب۔ ایک پریشانی تو آپ ﷺ کو نکاح زینب ؓ کے وقت پیش آئی تھی اب آپ ﷺ کو ایک دوسری پریشانی لاحق ہوگئی کہ جب زید ؓ کی طلاق کے بعد زینب ؓ میرے نکاح میں آئیں گی تو جاہل اور منافقین یہ طعنہ دیں گے کہ دیکھو اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا اس بارے میں اگلی آیتیں نازل ہوئیں یعنی واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناس۔۔۔ الی۔۔۔ وکان امر اللہ مفعولا۔ ہر شخص بمقتضائے بشریت لوگوں کی کہا سنی سے ڈرا ہی کرتا ہے اگرچہ وہ بات جائز اور مباح ہی کیوں نہ ہو آپ ﷺ بمقتضائے بشریت لوگوں کی طعن وتشنیع سے ڈرے اور شرم کے مارے اس پیشین گوئی کو دل میں پوشیدہ رکھا کسی پر ظاہرہ کیا مگر امر تقدیری پورا ہو کر رہتا ہے وکان امر اللہ مفعولا چناچہ وہ پورا ہوا کہ زید ؓ اور زینب ؓ میں موافقت نہ ہوئی اور نوبت طلاق کی آئی اس کے بعد بحکم خداوندی وہ آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تسلی دی کہ آپ ﷺ مخالفین اور منافقین کے طعنوں اور بدگونیوں سے نہ ڈریں اس وقت اللہ کی حکمت اور مصلحت یہی ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ متبنی کا حکم بیٹے جیسا نہیں اس کی بیوی طلاق یا موت کے بعد اس پر حلال ہے۔ وکان امر اللہ مفعولا سے بتلا دیا کہ امر تقدیری پورا ہو کر رہتا ہے اور ہو کر رہے گا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور کسی ایماندار مرد اور عورت کے لئے ایمان لانے کے بعد یہ امر کسی طرح زیبا اور روا نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو پھر ان کو اپنے کام میں کوئی اختیار باقی رہے کہ چاہے تو اس کام کو کریں اور نہ چاہے تو نہ کریں۔ بلکہ بسرو چشم قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے ایمان کی حقیقت ہی یہی ہے کہ اپنے اختیار کو نبی کے اختیار کے تابع کر دے بلکہ اس میں فنا کر دے اور جو شخص حکم وجوبی کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور حکم عدولی کرے گا تو وہ صریح گمراہی میں جا پڑا یہ آیت زینب ؓ بنت حجش اور ان کے بھائی عبد اللہ بن حجش ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جیسا کہ ہم تمہید میں ذکر کرچکے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے جب اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ ؓ کے نکاح کا پیام اپنی پھوپھی زاد بہن سے دیا تو زینب ؓ نے اور ان کے بھائی نے اس پیغام کے قبول کرنے سے عذر کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد مومن اور مومنہ کو اپنے کام میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا بلکہ ان پر واجب ہے کہ اپنے اختیار کو خدا اور اس کے رسول کے اختیار کے تابع کریں اور خدا و رسول ﷺ کے حکم کے بعد کسی عار کی پروانہ کریں۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت زینب ؓ اور ان کے بھائی نکاح پر راضی ہوگئے اور حضرت زید ؓ کے ساتھ ان کا نکاح ہوگیا اللہ اور اس کے رسول کو منظور یہ تھا کہ حسب ونسب کا فخر اور خاندانی امتیاز نکاح کی راہ میں حائل نہ ہوا کریں حق تعالیٰ کو منظور یہ تھا کہ خاندانی خود داری اور غرور کا خاتمہ ہو۔ اس لئے یہ حکم نازل ہوا کہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے بعد کسی کو چون وچرا کی مجال نہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو زینب ؓ اور عبد اللہ ؓ کو کوئی مفر نہ رہا اور پیام کو منظور کرلیا اور زینب ؓ کا زید ؓ سے نکاح ہوگیا اور اس کے نکاح کے بعد جو بات پیش آئی وہ یہ تھی کہ زید ؓ اور زینب ؓ کے درمیان میں موافقت نہ ہوئی اگرچہ حضرت زینب ؓ زید ؓ کے نکاح میں تو آگئیں مگر زید ؓ ان کی نظر میں ذلیل اور حقیر رہے اس لئے گھر میں لڑائی رہتی۔ زید ؓ حضور پر نور ﷺ سے زینب ؓ کی بےاعتنائی کا شکوہ کرتے آپ ﷺ ان کو تسلی دیتے یہاں تک کہ زید ؓ نے ان کے طلاق کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے پیغمبر آپ اس وقت کو یاد کریں کہ جب آپ اس شخص کو جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ انعام کیا کہ اس کو اسلام کی دولت سے نوازا اور آپ ﷺ کی خدمت سے اس کو عزت بخشی اور آپ نے بھی اس پر انعام اور احسان کیا کہ اس کی پرورش کی اور اس کو آزاد کیا اور اپنی متبنی بنا لیا اور اپنی پھوپھی زاد بہن سے اس کا نکاح کردیا لیکن نکاح کے بعد مزاجی موافقت نہ ہوئی اور آپس میں لڑائی جھگڑے کی نوبت آئی تو زید ؓ نے آکر آپ ﷺ سے عرض حال کیا اور کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ زینب ؓ کو طلاق دوں تو آپ ﷺ نے بطور فہمائش و مشورہ اپنے پروردہ احسان یعنی زید ؓ سے یہ کہنے لگے کہ تو اپنی بیوی (زینب ؓ کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور طلاق دے کر اس کو تکلیف نہ پہنچا اور اس کی تنک مزاجی پر نظر نہ کر۔ شاید آئندہ چل کر یہ منافرت مبدل بہ موانست ہوجائے اور اللہ سے ڈر اور طلاق دینے میں جلدی نہ کر۔ یہ نکاح بحکم خداوندی ہوا ہے اور میرے اصرار سے ہوا ہے لہٰذا طلاق میں عجلت کسی طرح مناسب نہیں ظاہری شریعت اور ازدواجی مصلحت کے لحاظ سے اور زوجین کی خیر خواہی اور حسن معاشرت کے اعتبار سے حضور پر نور ﷺ کا یہ مشورہ بالکل درست تھا لیکن پنہائی اور اندرونی طور پر بات دوسری تھی جس کا اظہار سے اس وقت مصلحت نہ تھا وہ یہ کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی کے بتلا دیا گیا تھا کہ زید عنقریب زینب ؓ کو طلاق دیں گے اور ان کے طلاق دینے کے بعد ہم خود زینب ؓ کو تمہارے نکاح میں دیں گے اور آپ ﷺ کی ازواج طاہرات میں داخل کریں گے جس میں ہماری حکمتیں اور مصلحتیں ہیں چناچہ اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں اور اے نبی آپ اپنے دل میں وہ بات چھپاتے تھے جس کو اللہ تعالیٰ بعد میں ظاہر کرنے والا تھا یعنی زید ؓ کے طلاق دینے کے بعد زینب ؓ تمہاری ازواج میں ہوگی آپ ﷺ نے اللہ کی اس خبر کو دل میں پوشیدہ رکھا اور کسی کو اس خبر پر مطلع نہ کیا اور آپ بمقتضائے بشریت لوگوں کے طعن سے اور عار سے اور ملامت سے ڈرتے تھے کہ لوگ یہ کہیں گے کہ اپنے بیٹے کی جورو کو اپنے گھر میں رکھ لیا اور خدا نے جو بات آپ ﷺ کو بذریعہ وحی کے بتلا دی تھی کہ وہ تیری بی بی ہوگی آپ ﷺ اس کے اظہار سے شرماتے تھے حالانکہ اللہ زیادہ لائق اور حقدار ہے اس بات کہ تو اس سے ڈرے اور شرماوے جانب حق کی رعایت۔ جانب خلق کی رعایت سے احق ہے اور بلاشبہ نبی کریم (علیہ السلام) تمام عالم میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والے اور شرمانے والے تھے اس لئے کہ خوف و خشیت کا دارومدار علم اور معرفت پر ہے۔ کما قال تعالیٰ انما یخشی اللہ من عبادہ العلموء اور حدیث میں ہے انا اعلمکم اللہ واخشاکم میں سب سے زیادہ خدا کو جاننے والا اور اس سے ڈرنے والا ہوں۔ پس جب زید ؓ نے اپنی زوجہ سے اپنی حاجت پوری کرلی یعنی اس کو طلاق دے دی اور عدت بھی گذر گئی کیونکہ شوہر بیوی کو طلاق جب ہی دیتا ہے کہ جب اس کو بیوی کی حاجت نہ رہے تو زید ؓ کے طلاق دے دینے کے بعد ہم نے اپنی ولایت خاصہ سے آسمان پر فرشتوں کی موجودگی میں زینب ؓ سے آپ کا نکاح کردیا اور بذریعہ وحی کے پہلے ہی آپ ﷺ سے نکاح کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا اور جس وعدہ خداوندی کو آپ ﷺ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یعنی زوجنکھا نازل کر کے اس کو ظاہر کردیا اور سب کو اس سے آگاہ کردیا اور بتلا دیا کہ زید ؓ کے طلاق دے دینے کے بعد ہم نے اپنی ولایت خاصہ سے آسمان میں فرشتوں کی موجودگی میں آپ ﷺ کا نکاح زینب ؓ سے کردیا ہم ولی نکاح ہیں اور جبریل (علیہ السلام) اور دیگر فرشتے اس کے گواہ ہیں اور آسمانوں میں اس کا اعلان کردیا یہ ایسا قطعی نکاح ہے جس میں فسخ کا احتمال نہیں اور ہم نے یہ نکاح اس لئے کیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے متبناؤں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے جب وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرلیں یعنی دل پھرجانے کے بعد ان کو طلاق دے دیں اور عدت بھی گذر جائے تو وہ ان سے نکاح کرسکتے ہیں بخلاف حقیقی بیٹے کے کہ اس کی جورو نفس عقد سے اس کے باپ پر حرام ہوجاتی ہے خواہ قبل از صحبت طلاق دے یا بعد از صحبت بہر صورت وہ باپ پر حرام ہوجاتی ہے اور جو کام خدا چاہتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں یہ مقدر ہوچکا تھا کہ زینب ؓ ایک دن آپ ﷺ کے نکاح میں آئے گی اور ازواج مطہرات میں سے ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ جو مقدر کردیتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ہمارا منشا یہ تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ منہ بولا بیٹا۔ نسبی فرزند کے حکم میں نہیں اور متبنی کی بیوی سے اس کے طلاق دینے کے بعد نکاح درست ہے۔ لہٰذا زینب ؓ کو اس طرح سے آپ ﷺ کے نکاح میں دینے سے ہماری مصلحت یہ ہے کہ جاہلیت کی اس رسم کا قلع قمع ہوجائے اس لئے اول ہم نے زور دے کر زینب ؓ کا نکاح زید ؓ سے کرایا اور پھر زید ؓ کے طلاق دے دینے کے بعد زینب ؓ کو آپ ﷺ کے نکاح میں دیا تاکہ جاہلیت کی رسم کا قلع قمع ہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ متبنی کی زوجہ سے پردہ واجب ہے اور نسبی فرزند کی زوجہ سے باپ کا پردہ نہیں اللہ تعالیٰ نے نبی کو حکم دیا کہ آپ ﷺ اپنے متبنی کی مطلقہ بیوی سے نکاح کریں تاکہ مسلمانوں کو اس قسم کے نکاح میں انقباض اور توحش نہ رہے اور تیری ذات سے یہ حکم شرعی جاری اور نافذ ہوتا کہ اور مسلمان اگر اپنے منہ بولے بیٹوں کی زوجات مطلقات سے نکاح کرنا چاہیں تو ان کو تنگی پیش نہ آئے اور چونکہ مقصود اصلاح تھی اس لئے خود پیغمبر کو حکم ہوا کہ تم زینب ؓ سے نکاح کرو اس سے اس رسم بد کی اصلاح بھی ہوجائے گی اور زینب ؓ کی دلجوئی بھی ہوجائے گی اور زینب ؓ کو جو زید ؓ کے نکاح میں آنے کا صدمہ اور رنج تھا وہ آپ ﷺ کی زوجیت میں آنے سے دور ہوجائے گا صلہ رحمی اور حق قرابت اور حسن معاشرت کا اقتضا بھی تھا کہ آپ ﷺ اپنی پھوپھی زاد بہن کو اپنے ازواج مطہرات میں شامل کر کے ان کے رنج وغم کو دور کردیں۔ بحمد للہ گذشتہ تقریر سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ سے مراد یہ ہے کہ بذریعہ وحی آپ ﷺ کو پہلے سے بتلا دیا گیا تھا کہ زید ؓ اور زینب ؓ کو طلاق دیں گے اور ان کی طلاق کے بعد زینب ؓ آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں گی پس جو چیز آپ ﷺ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے وہ یہی نکاح کی پیشین گوئی تھی۔ جس کو بعد میں اللہ تعالیٰ نے زوجنا کھا سے ظاہر فرما دیا اور جس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس پیش آنے والے واقعہ کی خبر دی تو آپ ﷺ کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ آپ ﷺ اس کا اعلان بھی کردیں کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو کسی بات کا حکم دین اور وہ اس کی تعمیل نہ کرے۔ اور تخشی الناس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ اس پیش گوئی کے اظہار سے شرماتے تھے یا منافقین کی زبان طعن کی درازی سے ڈرتے تھے اور آپ ﷺ کا یہ خوف طبعی تھا لوگوں کے طعن اور ملامت کا ڈر اس کے چھپانے کا باعث بنا۔ اور اس آیت کے یہ معنی امام زین العابدین (رح) سے منقول ہیں جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدنیہ سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ ﷺ کو آگاہ کردیا تھا کہ وہ (زینب ؓ عنقریب آپ ﷺ کی زوجہ بنے گی اور تیرے نکاح میں آئے گی مگر آپ ﷺ کو یہ حکم نہیں دیا گیا تھا کہ تم ہماری اس پیش گوئی کا اعلان بھی کر دو بلکہ آپ ﷺ کو فقط ایک آئندہ پیش آنے والے امر کی خبر رہی اور یہ نہیں فرمایا کہ تم اس کا اعلان بھی کر دو ۔ پس بمقتضائے بشریت آپ ﷺ کو ایک قسم کی تشویش لاحق ہوئی اور شرم کے مارے اور مشرکین اور منافقین کے طعن کے ڈر سے آپ ﷺ کے ڈر سے آپ ﷺ نے اس کا اخفاء کیا جس کو بعد میں اللہ نے ظاہر کردیا۔ معاذ اللہ اگر حضرت زینب ؓ کی محبت کا اخفاء مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کرتا۔ حافظ عسقلانی (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کے یہ معنی امام زین العابدین (رح) اور سدی (رح) سے مروی ہیں اور حکیم ترمذی نے روایت مذکورہ بالا کی تحسین میں خوب بسط فرمایا ہے اور یہی معنی معتمد اور معتبر ہیں۔ دیکھو فتح الباری (ف 1) ص 403 ج 8۔ 1 اصل عبارت یہ ہے کہ جو اہل علم کے لئے ہدیہ کرتے ہیں۔ وقد اخرج ابن ابی حاتم ھذہ القصۃ من طریق السدی فساقھا سیاقا واضحا حسنا ولفظہ بلغنا ان ھذہ الایۃ نزلت فی زینب ؓ بن حارثۃ مولاہ فکرھت ذلک ثم انھا رضیت بما صنع رسول اللہ ﷺ فزوجھا ایاہ۔ ثم اعلم اللہ عزوجل نبیہ ﷺ بعد انھا من ازواجہ فکان یستحی ان یامر بطلاقھا وکان لا یزال یکون بین زید وزینب ما یکون من الناس فامرہ رسول اللہ ﷺ ان یمسک علیہ زوجہ وان یتقی اللہ وکان یخشی الناس ان یعیبوا علیہ ویقولوا تزوج امراۃ ابنہ وکان قد تبنی زید او عندہ من طریق علی بن زید عن علی بن الحسین بن علی قال اعلم اللہ تعالیٰ نبیہ ﷺ ان زینب ستکون من ازواجہ قبل ان یتزوجھا فلما اتاہ زید یشکوھا الیہ وقال لہ اتق اللہ وامسک علیک زوجک قال اللہ تعالیٰ قد اخبرتک انی مزوجکھا وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وقد اطنب الترمذی الحکیم فی تحسین ھذہ الروایۃ وقال انھا من جو اھر العلم المکنون وکانہ لم یقف علی تفسیرا لسدی اور دتہ منھا ھو المعتمد والحاصل ان الذی کان یخفیہ النبی ﷺ ھو اخبار اللہ ایاہ انھا ستصیر زوجتہ والذی کان یحملہ علی اخفاء ذلک خشیۃ قول الناس تزوج امراۃ ابنہ اراد اللہ ابطال ما کان اھل الجاھلیۃ علیہ من احکام التبنی بامرلا ابلغ فی الابطال منہ وھو تزوج امراۃ الذی یدعی ابنا ووقوع ذلک من امام المسلمین لیوکون ادعی لقبولہم وانما وقع ذلک من امام المسلمین لیوکون ادعی لقبولہم وانما وقع الخبط فی تاویل متعلق الخشیۃ واللہ اعلم۔ فتح الباری ص 403 ج 8۔ تفیسر سورة الاحزاب۔ اس تمام تفصیل سے یہ امر بخوبی واضح ہوگیا کہ بد باطنوں کا یہ کہنا کہ تخفی فی نفسک ما اللہ مبنیہ سے زینب ؓ کی محبت کا دل میں چھپانا مراد ہے قطعا غلط ہے اور سر تا پا دروغ بےفروغ ہے۔ معاذا اللہ اگر زینب ؓ کی محبت کا اخفا مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور ظاہر فرماتے اس بارے میں جو روایتیں نقل کی جاتی ہیں وہ ہرگز ہرگز قابل اعتماد نہیں حسب ارشاد باری ما اللہ مبدیہ اللہ نے کسی آیت میں اس محبت کا اعلان اور اظہار نہیں فرمایا بلکہ زوجنا کھا سے اس نکاح کی پیش گوئی کا اظہار فرما دیا جس کی آپ ﷺ کو پہلے خبر دی تھی۔ اور علاوہ ازیں کہ یہ قصہ بالکل بےاصل اور موضوع ہے خلاف عقل بھی ہے اس لئے کہ حضرت زینب ؓ آپ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں لڑکپن سے آپ ﷺ کے سامنے آتی تھیں اور بارہا آپ ﷺ نے ان کو دیکھا تھا اور ابھی تک پردہ کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا تو کیا آنحضرت ﷺ نے حضرت زینب ؓ کو زید ؓ کے نکاح کے بعد پہلی بار دیکھا تھا کہ دیکھ کر ان کے حسن و جمال پر مائل ہوگئے زید ؓ کے نکاح سے پہلے بار بار دیکھا تھا اگر آپ ﷺ کو ان کا حسن و جمال پسند ہوتا تو پہلے ہی بار خاندان پر زور دے کر زید ؓ سے کیوں نکاح کرایا آپ ﷺ ہی کے اصرار سے اعزاء و اقارب زید ؓ سے نکاح کرنے پر بمشکل راضی ہوئے۔ جب آپ ﷺ کے کہنے سے آپ ﷺ کے غلام سے نکاح کردیا تو اگر آپ ﷺ اپنے نکاح کا پیغام دیتے تو کیوں نہ راضی ہوتے۔ اس وقت تو حضرت زینب ؓ کا نکاح بھی نہ ہوا تھا اور ان سے نکاح کرنے میں کسی قسم کا مانع بھی نہ تھا اور بعض کتابوں میں جو اس قسم کی روایتیں نقل کی جاتی ہیں کہ جب آپ ﷺ کی نظر حضرت زینب ؓ پر پڑی تو آپ ان پر فریفتہ ہوگئے (جن پر دشمنان اسلام کے اعتراضات کی بنیاد ہے) وہ سب بےاصل اور ناقابل اعتبار اور ناقابل التفات ہیں مزید تفصیل اگر درکار ہو تو سیرۃ المصطفی مصنفہ ناچیز ص 33 ج 3 دیکھیں۔ اب آگے منافقین اور مشرکین کے طعن کا جواب دیتے ہیں کہ زینب ؓ سے آپ ﷺ کا نکاح بحکم خداوندی ہوا اور نبی پر اس چیز کے کرنے میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر اور مقدر کردیا۔ جیسا کہ سنت الٰہی ان انبیا میں جاری رہی جو آپ سے پہلے گذرے یعنی انبیاء سابقین میں بھی دستور جاری رہا کہ اللہ نے ان کو جس چیز کا حکم دیا اس کو پورا کردیا اور لوگوں کی ملامت اور طعن کی پروانہ کی اور خدا کا اندازہ پہلے ہی سے ٹھہر چکا ہوتا ہے اس کے خلاف نہیں ہوسکتا اور حکم خدا وندی کا پہنچانا اور اس کا پھیلانا اگلے پیغمبروں کی سنت ہے جن کی صفت یہ ہے کہ وہ انبیاء اللہ کے احکام اور پیام اپنی امتوں کو ٹھیک ٹھیک پہنچایا کرتے تھے اور تبلیغ احکام میں کسی کے طعن اور تشنیع اور ملامت اور عار دلانے کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور صرف اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور سوائے خدا کے اور کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ خدا کا حکم ایک طرف اور سارا جہان ایک طرف اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے وہ خود آپ ﷺ کے دشمنوں کے ضرر کو دفع کردے گا لہٰذا اس نکاح کے بارے میں آپ ﷺ پر جو طعن کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے دفع میں کفایت کرے گا یہ سب آپ ﷺ کی تسلی کے لئے فرمایا کہ انبیا سابقین کا طریقہ بھی یہی رہا ہے کہ وہ پیغام رسالت کے پہنچانے میں کسی سے نہیں ڈرتے لہٰذا آپ ﷺ بھی مخالفین کے طعن کی پروانہ کریں اور نہ کسی کی ایذا سے ڈریں اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے طاعنین کو سزا دینے کے لئے کافی ہے۔ نکتہ : جاننا چاہئے کہ اس آیت میں تبلیغ احکام کے وقت غیر اللہ سے خوف کی نفی کی گئی ہے رہا یہ امر کہ انبیا کو کسی سے طبعی خوف نہیں ہوتا سو اس کی نفی نہیں کی گئی ورنہ طبعی طور پر موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا فرعون کی ایذا سے ڈرنا قرآن کریم میں مذکور ہے۔ قالا ربنا اننا نخاف ان یفرط علینا او ان یطغی سو اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی اور یہ فرمایا۔ لا تخافا اننی معکما اسمع واری اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جب عصا کا معجزہ عطا ہوا اور عصا اژدہا بن کر چلنے لگا تو موسیٰ (علیہ السلام) ڈر کر بھاگنے لگے۔ کما قال تعالیٰ فلما راھا تھتز کانھا جان ولی مدبرا ولم یعقب یموسی اقبل ولا تخف انک من الامنین۔ لا تخف انک انت الاعلی اور یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا انی اخاف ان یاکلہ الذئب۔ اور حضور پر نور ﷺ کو جب دشمنوں کی طرف سے خوف لاحق ہوا تو آپ ﷺ کی تسلی کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ واللہ یعصمک من الناس معلوم ہوا کہ لا یخشون احدا میں طبعی خوف کی نفی مراد نہیں بلکہ عقلی خوف کی نفی مراد ہے۔ نکتہ دیگر : نیز جاننا چاہئے کہ حضور پر نور ﷺ کو منافقین کی جانب سے بد زبانی کا ڈر بھی شروع شروع ہی میں تھا لیکن جب آپ ﷺ کو یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سنت حقہ کا اجراء اور نفاذ میری ہی ذات سے مقدر فرمایا ہے تو دل سے وہ ڈر بھی جاتا رہا چناچہ جب زینب ؓ کی عدت پوری ہوگئی تو آنحضرت ﷺ نے خود زید ؓ ہی کو اپنے سے نکاح کا پیغام دے کر زینب ؓ کے پاس بھیجا (تا کہ یہ امر واضح ہوجائے کہ یہ جو کچھ ہوا وہ زید ؓ کی رضا مندی سے ہوا) حضرت زید ؓ آپ ﷺ کے نکاح کا پیغام لے کر حضرت زینب ؓ کے گھر گئے اور دروازہ کی طرف پشت کر کے کھڑے ہوئے (حالانکہ اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا مگر یہ ان کا کمال درع اور کمال تقویٰ تھا) اور پس پردہ کھڑے ہو کر کہا۔ اے زینب ؓ تم کو بشارت ہو مجھے رسول اللہ ﷺ نے تم سے اپنے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ زینب ؓ نے فی البدیہہ جواب دیا کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتی جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ (یعنی استخارہ) نہ کرلوں۔ اسی وقت اٹھیں اور گھر میں جو ایک جگہ مسجد کے نام سے عبادت کے لئے مخصوص کر رکھی تھی وہاں جا کر مشغول استخارہ ہوگئیں۔ نکتہ دیگر : چونکہ حضرت زینب ؓ نے اپنے اس نکاح کے بارے میں کسی مخلوق سے مشورہ نہیں کیا بلکہ خدائے عزوجل سے مشورہ چاہا جو اہل ایمان کا اصل ولی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ولایت خاصہ سے آسمان پر فرشتوں کی موجودگی میں آنحضرت ﷺ کا نکاح زینب ؓ سے کردیا آسمانوں میں تو اس نکاح کا اعلان ہو ہی گیا اب ضرورت ہوئی کہ زمین میں بھی اس نکاح کا اعلان ہو چناچہ جبرئیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ فلما قضی زید منھا وطرا زوجناکھا۔ پس جب زید ؓ زینب ؓ سے اپنی حاجت پوری کرچکے (اور ان کو طلاق دے دی اور عدت بھی گذر گئی) تو اے نبی کریم ہم نے (زینب کا) نکاح تم سے کردیا۔ آیت کے نازل ہونے سے تمام مکہ میں اس کا اعلان ہوگیا اور پیغام کے ذریعہ ایجاب و قبول پہلے ہی ہوچکا تھا اس لئے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اور (اس اعلان عام کے بعد) رسول اللہ ﷺ حضرت زینب ؓ کے مکان پر تشریف لے گئے اور بلا اذن مکان میں داخل ہوئے۔ رواہ مسلم واحمد والنسائی۔ (دیکھو فتح الباری ص 400 ج 8 کتاب التفسیر وزرقانی ص 245 ج 103) اور نکاح آسمانی اور حکم قرآنی خود بلا واسطہ ان کو پڑھ کر سنایا۔ چونکہ اس واقعہ کا چرچا گھر گھر میں تھا تو یہ ناممکن ہے کہ حضرت زینب ؓ کو جو خود صاحب واقعہ تھیں ان کو اس آیت کے نزول کی خبر نہ پہنچی ہو۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت کے بعد آنحضرت ﷺ نے قاصد کے ذریعہ حضرت زینب ؓ کو یہ اطلاع کرادی کہ تمہارے نکاح کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں چناچہ حضرت زینب ؓ کو جب یہ خبر پہنچی تو سجدہ شکر ادا کیا رواہ ابن سعد بسند ضعیف عن عباس ؓ ۔ دیکھو اصابہ ص 313 ج 4 وزرقانی ص 246 ج 38۔ اور چونکہ یہ نکاح آسمان میں ہوا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس نکاح کے ولیمہ میں جس قدر اہتمام۔ وہ کسی دوسرے کے نکاح کے ولیمہ میں نہیں کیا۔ اور ام المومنین زینب ؓ کو اپنے اس نکاح آسمانی پر بڑا فخر تھا ایک ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کہا کہ تم سب کا نکاح تو تمہارے اولیا نے کیا اور میرا نکاح اللہ نے آسمان پر کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ اللہ نے میرا عذر یعنی میری برات اور طہارت ونزاہت آسمان سے نازل کی۔ نکتہ دیگر : امام ابو القاسم سہیلی (رح) نے یہاں ایک نکتہ ذکر فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں زید ؓ بن حارثہ کا نام تو صراحت کے ساتھ ذکر کیا۔ اور اکابر صحابہ (رضوان اللہ علیہ اجمعین) حتی کہ ابوبکر صدیق ؓ کا نام بھی صراحۃً ذکر نہیں کیا سو اس میں نکتہ یہ ہے کہ زید بن حارثہ ؓ کو پہلے زید ؓ بن محمد کہا جاتا تھا اور یہ نسبت ان کے لئے فخر عظیم اور شرف فخیم تھی پھر جب اللہ تعالیٰ نے ادعوہم لاباء ہم کا حکم نازل فرمایا تو اس وقت لوگ ان کو زید بن محمد ﷺ کی بجائے زید ؓ بن حارثہ کہنے لگے تو ظاہر ہے کہ اس نسبت کے قطع ہوجانے سے زید ؓ کو کس قدر صدمہ ہوا ہوگا، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو صدمہ دینا نہیں چاہتا پس اللہ تعالیٰ قرآن میں صراحۃً ان کا نام ذکر کر کے ان کو جو عزت و کرامت بخشی جو آپ کے سوا کسی کو نہیں بخشی گئی اور آپ کو وہ خصوصیت عطا ہوئی کہ جو آپ کے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئی۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب ابی بن کعب ؓ سے یہ فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہ سورت تجھے پڑھ کر سناؤں تو ابی بن کعب ؓ نے عرض کیا کہ کیا حق سبحانہ وتعالیٰ نے میرا نام لیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں تو ابی بن کعب ؓ فرط مسرت سے رونے لگے پس اندازہ لگا لو کہ زید ؓ بن حارثہ کو قرآن میں اپنا نام مذکور ہونے سے کس قدر خوشی ہوئی ہوگی جس کو اہل دنیا دن رات تلاوت کرتے رہتے ہیں اور اہل جنت بھی اس کی تلاوت کرتے رہیں گے۔ نیز حق جل شانہ کا اپنے کلام قدیم میں زید ؓ کی نسبت یہ فرمانا للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ اس بات کی دلیل ہے کہ زید ؓ کا ازل ہی میں مورد انعام الٰہی اور مورد انعام نبوی ہونا لکھا جا چکا ہے اس لفظ میں ان کے قطعی جنتی ہونے کی بشارت ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ نکتہ دیگر : متعلقہ ب آیت الذین یبلغون رسلت اللہ ویخشونہ ولا یخشون احدا الا اللہ۔ ابطال تقیہ (1) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام تقیہ نہیں کرتے۔ صاف صاف اللہ کا پیام پہنچاتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے اگر انبیا تقیہ کرتے کافروں کے ہاتھوں مصیبتیں نہ اٹھاتے۔ (2) چناچہ سورة حجر میں ہے فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشرکین یعنی اے نبی صاف صاف اور کھول کر دین کی باتیں سنا دو اور مشرکین کی ایذا رسانیوں کا دھیان نہ کرو۔ اور تقیہ صاف صاف کہنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ گول مول کہنے کے لئے ہوتا ہے۔ (3) دوسرے پارہ کے نصف میں یہ آیت گذر چکی ہے ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستہم الباساء والضراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین امنوا معہ متی نصر اللہ الا ان نصر اللہ قریب۔ باساء اور ضرا اور طرح طرح کی بلاؤں کا پہنچنا اسی صورت میں ہے کہ جب تقیہ نہ کیا جائے اور علی الاعلان حق کو ظاہر کیا جائے۔ (4) اور آل عمران چوتھے پارہ میں یہ آیت گذر چکی ہے۔ وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر فما وھنوا لما اصابہم فی سبیل اللہ وما ضعفوا وما استکانوا واللہ یحب الصابرین۔ اور ظاہر ہے کہ تقیہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب آدمی ضعیف ہوجائے اور کافروں کے سامنے جھک جائے اور جہاد اور صبر بھی مقاتلہ اور مقابلہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ تقیہ کی صورت میں نہ جہاد کی ضرورت ہے اور نہ صبر کی۔ (5) حق جل شانہ کا ارشاد ہے وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین انبیاء خدا کے احکام پہنچانے کے لئے بھیجے جاتے ہیں نہ کہ تقیہ کرکے احکام کو چھپانے کے لئے انبیاء کی حق گوئی میں ذرہ برابر دریض نہیں کیا بلکہ اسی کی وجہ سے اپنی جان ومال اور عزت اور آبرو کو خدا کی راہ میں پامال کردیا۔ معاذ اللہ معاذ اللہ اگر انبیاء کرام تقیہ کرلیتے تو ان کو ہجرت کی ضرورت نہ پیش آتی۔ حضرت علی ؓ اگر تقیہ کرلیتے تو حضرت معاویہ ؓ سے لڑنے کی ضروت نہ پیش آتی اور امام حسین ؓ اگر تقیہ کرلیتے اور زبان سے یزید کی حکومت کا کلمہ پڑھ لیتے تو جان کی جان بچتی اور الٹی عزت و کرامت اور مال و دولت ان کو ملتی اور حضرت امیر ؓ اگر تقیہ کر کے قاتلان عثمان ؓ کو حضرت معاویہ ؓ کے حوالہ کردیتے تو خلافت کی خلافت بنی رہتی اور دین کو ترقی ہوتی اور باغی اور مفسد اگر قتل ہوجائے تو کوئی حرج نہ تھا۔ (6) قرآن صبر کے فضائل سے بھرا پڑا ہے اور تقیہ میں نہ ایذا ہے اور نہ صبر کی ضرورت ہے۔ قال تعالیٰ والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنوا وعملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصو بالصبر۔ ان اللہ مع الصبرین۔ ان اللہ یحب الصابرین۔ (7) پیغمبروں کے بھیجنے سے مقصود اور غرض اظہار دین ہے نہ کہ اخفا دین جیسا کہ سورة توبہ اور سورة فتح میں ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ اگر تقیہ جائز اور درست ہو تو دین کا ظہور کیسے ہو۔ (8) نیز قرآن اور حدیث تبلیغ دین اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم سے بھرے پڑے ہیں۔ کما قال تعالیٰ یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ۔ ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔ (9) نیز اسی سورت کے شروع میں ولا تطع الکافرین والمنافقین کہ کافروں اور منافقوں کے کہنے پر نہ چلنا اس میں بھی تقیہ کی ممانعت کی طرف اشارہ ہے۔ 10) اس کے بعد ودع اذاہم و توکل علی اللہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اظہار حق میں کافروں کی دشمنی اور ایذا رسانی کی پروانہ کرنا فتلک عشرۃ کاملۃ۔ لیکن اس ناچیز کو ڈر ہے کہ کہیں شیعہ حضرات یہ نہ کہہ دیں کہ یایھا النبی اتق اللہ میں نبی ﷺ کو تقیہ کا حکم دیا گیا ہے۔ بہر حال یہ اہل سنت وجماعت کا مذہب اور اس کے دلائل کا بیان ہوا۔ اور شیعہ یہ کہتے ہیں کہ انبیا اور ائمہ کے لئے بھی تقیہ جائز ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ حضرت انبیا اور ائمہ اپنے توہمات کے بھروسہ پر کفار وفساق کے ہمرنگ بنے رہے اور بوجہ خوف اعدا ہمیشہ فرائض و ضروریات دین کو چھپاتے رہے۔ اور ان بزرگوں نے ساری عمر تقیہ میں گذار دی اور دین اور مذہب کو کسی پر ظاہر نہ کیا۔ نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات اور یہ نہ سمجھا کہ آخر پھر انبیا کی بعثت سے اور ائمہ کی امامت سے کیا فائدہ ہوا۔ اطلاع : بقدر ضرورت تقیہ کا ابطال ہم سورة توبہ کی اس آیت ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کی تفسیر میں کرچکے ہیں۔ اگر مزید تفصیل درکار ہے تو ہدیۃ الشیعہ مصنفہ مولانا محمد قاسم از ص 120 تا 145 دیکھیں۔ طاعنین کا طعن کا جواب یہاں تک اپنے متبنی کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرنے کا حکم اور اس کی حکمت بیان کی اب اس کے بعد طاعنین کے طعن کا جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ منافقین کا یہ طعن کہ محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا جب درست ہوتا کہ جب محمد ﷺ کسی کے باپ ہوتے لیکن سب کو معلوم ہے کہ محمد ﷺ باجود کثرت ازواج واولاد تمہارے مردوں میں سے کسی کے نسبی باپ نہیں۔ اور آپ ﷺ کے جو تین فرزند تولد ہوئے۔ قاسم ؓ اور طیب ؓ اور طاہر ؓ ۔ وہ سب صغر سنی میں انتقال کر گئے۔ بلوغ کو نہیں پہنچے اور ماریہ قبطیہ ؓ سے جو ابراہیم ؓ سے جو ابراہیم ؓ پیدا ہوئے وہ حالت شیر خوارگی ہی میں انتقال کر گئے آپ ﷺ کا کوئی فرزند زندہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ رجل ہو یعنی مرد عاقل وبالغ ہو پھر آپ ﷺ زید ؓ کے باپ کیسے ہوسکتے لہٰذا کسی کی یہ مجال نہیں کہ یہ کہہ سکے کہ محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ نسبی اور جسمانی حیثیت سے آپ ﷺ کو کسی کی ابوت (پدری) حاصل نہیں لیکن آپ کو ایک دوسری قسم کی ابوت حاصل ہے جس کو حرمت مصاہرت میں دخل نہیں اور نہ اس پر نکاح کی حلت اور حرمت کا مدار ہے وہ دوسری قسم کی ابوت۔ روحانی ابوت ہے یعنی آپ ﷺ سب کے روحانی باپ ہیں جو تعظیم اور احترام میں نسبی باپ سے کہیں بڑھ کر ہیں کیونکہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور ہر رسول امت کا روحانی باپ ہوتا ہے جیسا کہ اسی سورت کے شروع میں گذرا۔ النبی اولی بال مومنین من انفسہم اور ایک قرات میں وھو اب لہم آیا ہے اور روحانی باپ محبت اور شفقت میں نسبی باپ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے سب آپ ﷺ کے بیٹے ہیں آپ ﷺ کو بیٹا بنانے کی ضرورت نہیں اور اس روحانی ابوت میں آپ ﷺ تمام رسولوں سے افضل اور اکمل ہیں اس لئے کہ آپ آخری نبی ہیں نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوگئی اور آپ ﷺ کی آمد سے قصر نبوت کی تکمیل ہوگئی آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت عطا نہیں ہوگا۔ اللہ کے علم میں اور اللہ کے نزدیک جو نبی تھے وہ سب ختم ہوگئے اب قیامت تک آپ ﷺ ہی کی نبوت کا دور دورہ رہے گا جیسا کہ انجیل یوحنا کے چودھویں باب میں ہے۔ قال عیسیٰ للحواریین واطلب لکم من ابی ویعطیکم فار قلیط لیکون معکم دائما الی الابد۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریین سے کہا کہ میں مانگوں گا اپنے باپ سے تمہارے واسطے کہ وہ بخشے اور عطا کرے تم کو ایک فارقلط تاکہ رہے وہ تمہارے ساتھ ہمیشہ ابد تک۔ خلاصہ خلام یہ کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور خدا کے آخری نبی ہیں آپ ﷺ کی ذات بابرکات سلسلہ نبوت کی آخری لڑی اور آخری کڑی ہے آپ ﷺ کی بعثت سے نبوت کا دائرہ پورا ہوگیا اور آپ ﷺ جسمانی اور نسبی حیثیت سے کسی مرد کے باپ نہیں البتہ آپ ﷺ روحانی باپ ہیں اور روحانی باپ اور جسمانی باپ کے احکام الگ الگ ہیں اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا۔ اس نے اپنے علم و حکمت سے نبوت کو آپ ﷺ پر ختم فرمایا۔ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ۔ یعنی اللہ خوب جانتا ہے جہاں وہ اپنی نبوت اور رسالت کو رکھتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ کون شخص اس لائق ہے کہ اس پر نبوت کو ختم کیا جائے اس نے اپنے علم و حکمت سے آپ ﷺ کو خاتم النبین بنایا یعنی آپ ﷺ کو آخری نبی بنایا اور جب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں رسول بدرجہ اولیٰ نہیں اس لئے کہ مقام رسالت مقام نبوت سے اخص ہے ہر رسول تو نبی ہے مگر ہر نبی رسول نہیں یعنی رسول اور نبی میں عام خاص مطلق کی نسبت ہے نبی عام ہے اور رسول خاص ہے۔ پس یہ آیت قدسی اس بارے میں نص قطعی اور محکم ہے کہ آنحضرت ﷺ خدا تعالیٰ کے آخری نبی ہیں آپ ﷺ خدا تعالیٰ کے آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور یہی مضمون بکثرت احادیث صحیحہ اور صریحہ اور متواترہ سے ثابت ہے کہ نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوگئی اور آپ ﷺ کے بعد جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ بلاشبہ کذاب اور دجال ہے اور یہ احادیث صحیحہ اور صریحہ بخاری اور مسلم اور تمام کتب حدیث میں مذکور ہیں جن میں سے حافظ ابن ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں دس حدیثیں ذکر کی ہیں اور بقیۃ السلف اور حجۃ الخلف حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیو بند کے ارشاد اور ہدایت کے مطابق محب محترم وعالم معظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیو بندی سابق مفتی دارالعلوم دیوبند نے ہدیۃ المہدیین ایک جامع رسالہ عربی زبان میں مرتب فرمایا جس میں ختم نبوت کے متعلق جس قدر احادیث کا ذخیرہ فراہم ہوسکتا تھا اس میں جمع کردیا۔ جزاہ اللہ تعالیٰ عن الاسلام والمسلمین۔ جو اہل علم کے لئے قابل دید ہے اور ختم نبوت کے عنوان سے اردو میں بھی مفتی محمد شفیع صاحب نے ایک مبسوط کتاب تحریر فرمائی جو عوام کے لئے غایت درجہ مفید ہے۔ جس شخص کو تفصیل درکار ہو تو مولانا محمد شفیع صاحب دیوبندی کی مفصل اور مبسوط کتاب دیکھے اور جس شخص کو اختصار مدنظر ہو وہ اس ناچیز کی مختصر تالیف مسک الختام فی ختم النبوۃ علی سیدالانام علیہ افضل الصلاۃ والسلام دیکھے جو مکتبہ صدیقیہ ملتان سے شائع ہوئی ہے۔ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ برادران اسلام کی تسلی اور تشفی کے لئے اجمالا ان صحابہ کرام (رضون اللہ علیہم اجمعین) اور تابعین کے نام شمار کر دئیے جائیں جن سے ختم نبوت کی احادیث مروی اور منقول ہیں۔ ابوبکر الصدیق ؓ عمر بن الخطاب ؓ علی بن ابی طالب ؓ عبد اللہ بن عباس ؓ عبد اللہ بن عمر ؓ ابی بن کعب ؓ حذیفہ بن الیمان ؓ ابوہریرہ ؓ ابو سعید خدری ؓ جابر بن عبد اللہ ؓ ابو حازم ؓ جبیر بن مطعم ؓ سعد بن ابی وقاص ؓ ثوبان ؓ عبادۃ بن الصامت ؓ عطا بن یسار ؓ عرباض بن ساریہ ؓ عقبۃ بن عامر ؓ ابو موسیٰ الاشعری ؓ ام کرز ؓ ابو امامۃ الباہلی ؓ سفینۃ ؓ ابن زمل الجہنی ؓ ضحاک بن نوفل ؓ ابو ذر غفاری ؓ معاذ بن جبل ؓ سہل بن سعد ؓ حبشی بن جنادہ ؓ اسماء بنت عمیس ؓ زید بن ابی ادنی ؓ ابو قبیلہ ؓ عقیل بن ابی طالب ؓ ابو الفضل ؓ نافع ؓ عوف بن مالک ؓ ابو بکرۃ ؓ ابو مالک الاشعری ؓ ابو عبیدہ ؓ عصمۃ بن مالک ؓ عمر بن قیس ؓ سلمان الفارسی ؓ تمیم الداری ؓ نعیم بن مسعود ؓ عبیداللہ بن عمرو اللیثی ؓ نعمان بن بشیر ؓ محمد بن حزم الانصاری ؓ بہربن حکیم ؓ عبد الرحمن بن سمرۃ ؓ ابو قتادہ ؓ قتادہ ؓ عبد اللہ بن ثابت ؓ الحسن ؓ انس ؓ عائشہ ؓ عبد اللہ بن عمروبن العاص ؓ مغیرۃ بن شعبۃ ؓ عفان بن مسلم ؓ ابو معاویہ ؓ سلمۃ بن اکوع ؓ عکرمہ بن اکوع ؓ ابو الدرداء ؓ زبیر العوام ؓ ام ہانی ؓ زبیر ؓ ۔ ؓ وعنا معہم برحمتک یا ارحم الراحمین کذا فی ھدیۃ المہدیین ص 102۔ خلاصہء کلام یہ کہ حق جل شانہ کا یہ ارشاد ولکن رسول اللہ وخاتم النبین۔ نص صریح اور محکم ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا اور یہی بات احادیث متواترہ سے ثابت ہے اور اسی پر تمام سلف اور خلف کا اور تمام امت کا اجماع قطعی ہے جس میں ذرہ برابرتاویل کی بھی گنجائش نہیں۔ لطائف ومعارف (1) حق جل شانہ نے اس آیت میں آنحضرت ﷺ کا خاتم النبیین ہونا بیان فرمایا جو حضور پر نور ﷺ کے ان خاص فضائل اور خصائص میں سے ہے جو آپ ﷺ کے سوا اور کسی نبی کو یہ فضیلت عطا نہیں کی گئی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے۔ عن ابی ہریرہ ان رسول اللہ ﷺ قال فضلت علی الانبیا بست اعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجدا و طھورا و ارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون۔ (رواہ مسلم و بخاری۔ ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمام انبیاء پر چھ چیزوں کی وجہ سے فضیلت دی گئی۔ (1) مجھ کو ایسے جامع کلمات عطا کئے گئے کہ لفظ تو بہت کم اور معنی بہت زیادہ۔ (2) میری مدد اللہ نے اس طرح فرمائی کہ دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈال دیا۔ (3) مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھا۔ (4) تمام زمین میرے لئے جائے سجود اور ذریعہ طہارت بنا دی گئی۔ (5) مجھ کو تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔ یعنی میری بعثت تمام عالم کے لئے ہے کسی خاص قوم کے لئے نہیں۔ (6) میں خاتم النبیین ہوں مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مسلم و بخاری ) مطلب یہ ہے کہ خاتم النبیین ہونا آپ ﷺ کی خاص خصوصیت اور فضیلت ہے اب قیامت تک آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں عطا ہوگی اس لئے کہ آپ ﷺ کا دین اور آپ ﷺ کی شریعت کامل ہے اور تمام گزشتہ ادیان اور شرائع کی ناسخ ہے اب قیامت تک آپ ﷺ کی امت کے علما انبیا بنی اسرائیل کی طرح آپ ﷺ ہی کی شریعت سے عالم کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور آنحضرت ﷺ نے ختم نبوت کی فضیلت کو ایک مثال سے واضح فرمایا چناچہ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون ویعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ وانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین۔ رواہ البخاری ومسلم وغیرہما۔ میری مثال اور گزشتہ پیغمبروں کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص نے نہایت عمدہ مکان بنایا اور اس کو خوب آراستہ و پیراستہ کیا مگر اس کے ایک کونے پر ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی اور لوگ اس مکان کے اردگرد آکر گھومنے لگے اور تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ لگا دی گئی کہ مکان بالکل مکمل ہوجاتا آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس قصر نبوت کی آخری اینٹ میں ہوں جس سے وہ محل پورا ہوا۔ اور میں خاتم النبیین ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ قصر نبوت بالکل مکمل ہوچکا ہے اب اس میں کسی تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کی اینٹ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ (2) ذکر اختلاف قرات در آیت ختم نبوت آیت مذکورہ میں جو لفظ خاتم النبیین آیا ہے اس کو بعض قراء نے بفتح تا پڑھا ہے جس کے معنی مہر کے ہیں یعنی آپ ﷺ سب نبیوں کی مہر ہیں آپ کی آمد سے نبوت پر مہر لگ گئی اور پیغمبری آپ ﷺ پر ختم ہوگئی۔ خط پر مہر جب لگتی ہے کہ جب کتابت تمام ہوجاتی ہے اسی طرح آپ ﷺ کی ذات بابرکات نبوت پر مہر ہے اس لئے کہ آپ کی آمد سے نبوت ختم ہوگئی اور آئندہ کے لئے نبوت کا دروازہ بند ہوگیا۔ اور بعض قراء نے خاتم بکسرتا پڑھا ہے جس کے معنی آخر کے ہیں یعنی آپ ﷺ آخر الانبیاء ہیں۔ بہرحال جو بھی قرات لی جائے بہر صورت معنی یہی ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا۔ مہر دروازہ بند کرنے کے ہی لئے لگائی جاتی ہے کہ اندر کی چیز باہر نہ آسکے اور باہر کی چیز اندر نہ جاسکے۔ کما قال تعالیٰ ختم اللہ علی قلوبہم اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی کہ کفر اندر بند ہوگیا کہ وہ کفر اب اندر سے باہر نہیں آسکتا اور باہر سے کوئی ہدایت ان کے دل میں داخل نہیں ہوسکتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ اروح وقد ختمت علی فوادی بحبک ان یحل بہ سوا کا اے محبوہ میں چلتا پھرتا ہوں مگر میرا حال یہ ہے کہ نے میرے دل پر اپنی محبت کی ایسی مہر لگا دی ہے کہ تیری محبت تو دل کے اندر سے باہر نہیں نکل سکتی اور باہر سے کسی اور کی محبت دل کے اندر داخل نہیں ہوسکتی۔ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قرات میں اس طرح آیا ہے۔ من رجالکم ولکن نبیا ختم النبیین بصیغہ ماضی آیا ہے اور مطلب یہ ہے لیکن آپ ﷺ ایسی نبی ہیں جنہوں نے تمام نبیوں کو ختم کردیا۔ یہ قرات عبد اللہ بن مسعود ؓ کی ہے جو تفسیر قرطبی ص 197 ج 14 میں مذکور ہے۔ اس قرات نے ملاحدہ اور زنا وقہ کی تمام تاویلات کو ختم کردیا جس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ آپ ﷺ نے تمام انبیا کو ختم کردیا آپ ﷺ سب نبیوں کے خاتم ہیں آپ کے بعد قیامت تک کسی قسم کا کوئی نبی آنے والا نہیں اور آپ ﷺ پر مطلقا نبوت ختم ہوگئی۔ مستقلہ ہو یا غیر مستقلہ تشریعیہ ہو یا غیر تشریعیہ۔ اور جب نبوت ختم ہوگئی تو رسالت کا ختم ہونا بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا اس لئے کہ عام کی نفی خاص کی نفی کو مستلزم ہے۔ (3) لفظ ” خاتم “ کی تشریح لفظ خاتم کلام عرب میں دو معنی میں مستعمل ہوتا ہے جن میں سے ایک معنی تو حقیقی ہیں اور ایک معنی مجازی ہیں خاتم کے حقیقی معنی آخر کے ہیں جو سب کے بعد ہو اور خاتم کے معنی مجازی افضل اور اکمل کے ہیں اور اکمل اور افضل اس شے کو کہتے ہیں کہ جس پر کوئی کمال اور کوئی فضیلت ختم ہوجائے اور وہ شے اس فضل و کمال میں بےمثال ہو کوئی اس کا مثل اور ثانی نہ ہو۔ اسی طرح آیت میں لفظ خاتم النبیین کو سمجھ کہ آنحضرت ﷺ کو جو خاتم النبیین کہا گیا وہ دونوں معنی کے اعتبار سے درست ہے آپ ﷺ کے اعتبار سے بھی آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کی ذات والا صفات فضائل و کمالات کا بھی منتہی ہے کہ تمام کمالات آپ ﷺ پر ختم ہیں۔ کمالات نبوت میں کوئی آپ ﷺ کا مثل اور ثانی نہیں اسی معنی کو عارف رومی (رح) فرماتے ہیں۔ بہر ایں خاتم شدست او کہ بجود مثل ادنے بودنے خواہند بود حضور پر نور ﷺ اس لئے خاتم النبیین کے لقب سے ملقب ہوئے کہ فیض رسانی میں نہ گزشتہ زمانہ میں کوئی آپ ﷺ کا مثل ہوا اور نہ آئندہ زمانہ میں کوئی آپ ﷺ کا مثل ہوگا یعنی آپ ﷺ کمالات نبوت میں بےمثل اور لاثانی ہیں۔ مولانا روم (رح) کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ پر ختم نبوت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آپ نبوت و رسالت میں یکتا اور بےمثل ہیں یعنی آپ ﷺ نبوت و رسالت میں اس درجہ حد کمال کو پہنچے کہ اب اس پر زیادتی اور فوقیت متصور نہیں۔ چونکہ در صنعت برداستاد وست نے تو گوئی ختم صنعت برتواست جیسے کوئی استاد فن اور ماہر فن کسی صنعت اور فن میں کامل ہوتا ہے تو کیا اس وقت یہ نہیں کہتے کہ اس پر یہ صنعت ختم ہوگئی۔ اسی طرح سمجھو کہ حضور پر نور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے ایک معنی تو وہ ہیں کہ جو سب کے نزدیک ظاہر اور باہر اور مسلم ہیں حضور ﷺ آخری نبی ہیں۔ آخر زمانہ میں سب انبیا کے بعد مبعوث ہوئے اور جو اس کا انکار کرے وہ بلاشبہ کافر اور ملعون اور مرتد ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ نبوت و رسالت میں سب سے افضل واکمل ہیں یعنی کمالات نبوت کے خاتم ہیں آپ ﷺ پر نبوت کے تمام کمالات ختم ہوگئے۔ جیسے استاد سب پر فائق ہوتا ہے اسی طرح حضور پر نور ﷺ بھی تمام انبیاء پر فائق ہیں اور سب سے افضل اور اکمل ہیں اور آپ ﷺ کی نبوت اور شریعت اس درجہ کامل ہے کہ اس کے بعد کسی نبوت اور شریعت کی ضرورت باقی نہیں قیامت تک آنے والوں کی ہدایت کے لئے آپ ﷺ کی شریعت کافی اور وافی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خاتم کا اطلاق آخر زمانی پر بھی آتا ہے خاتم کے پہلے معنی حقیقی ہیں اور دوسرے معنی مجازی ہیں اور ان دونوں معنی میں کوئی تضاد اور منافات نہیں کہ ایک کے اثبات سے دوسرے کی نفی لاز آئے بلکہ خاتمیت بمعنی جامعیت واکملیت۔ زمانا ختم نبوت کو مستلزم ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت اور شریعت ایسی جامع اور کامل ہے کہ اس کے بعد اخیر زمانہ عالم تک کسی نبوت اور شریعت کی ضرورت نہیں اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خاتم النبیین ہوں۔ لا نبی بعدی اور فرمایا لو کان موسیٰ بن عمران حیالما وسعہ الا اتباعی یعنی میرے بعد تو کسی کو کیا نبوت اور شریعت ملتی مجھ سے پہلے جن کو نبوت اور شریعت مل چکی ہے بالفرض اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرے اتبار کے سوا چارہ نہ ہوتا اور اخیر زمانہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نزول کے بعد آپ ﷺ ہی کی شریعت کا اتباع کریں گے اور آپ کا نزول رسول ہونے کی حیثیت سے نہ ہوگا بلکہ حکم عدل مقسط ہونے کی حیثیت سے ہوگا۔ نبوت حضور پر نور ﷺ پر ختم ہوگئی اور آپ ﷺ کو جو شریعت کاملہ عطا کی گئی وہ قیامت تک عالم کی ہدایت کے لئے کافی ہے علماء امت آپ ﷺ کی شریعت کے ذریعہ لوگوں کی تربیت کرتے رہیں گے چونک آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ ( ﷺ ) کے بعد منصب نبوت میں کوئی آپ ﷺ کا وارث نہیں۔ البتہ علماء امت آپ کے علم کے وارث ہوں گے علماء نبی تو نہ ہوں گے البتہ انبیاء بنی اسرائیل کی طرح لوگوں کو آپ ﷺ کی شریعت کی تعلیم وتبلیغ کرتے رہیں گے۔ اور اہل سنت وجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آپ ﷺ دونوں طرح اور دونوں معنی میں خاتم النبیین ہیں زمانہ کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں اور مرتبہ اور کمال کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں اور جو حضور پر نور ﷺ کے خاتم النبیین اور آخری نبی ہونے کا انکار کرے وہ بلاشبہ کافر اور مرتد ہے۔ اور صدیق اکبر ؓ کا مدعیان نبوت سے جہاد و قتال کرنا اور ان کو اپنی تیغ بےدریغ کا لقمہ بنانا مسلمات میں سے ہے بلکہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد امت محمدیہ ہے جو پہلا اجماع منعقد ہوا وہ مدعیان نبوت کے قتل پر ہوا اور کسی سے یہ سوال نہیں کیا گیا کہ تو تشریعی یا غیر تشریعی یا ظلی یا بروزی نبوت کا مدعی ہے۔ عارف رومی (رح) نے مثنوی میں جابجا ختم نبوت کو بیان فرمایا کسی جگہ تو مشہور ومعروف معنی کے اعتبار سے آپ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا بیان کیا کہ آپ ﷺ تمام کمالات اور مراتب عالیہ کے خاتم ہیں اور منصب نبوت و رسالت میں کوئی آپ ﷺ کا مثل اور ثانی نہیں۔ اور لیجئے عارف رومی (رح) مثنوی میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ ﷺ کمالات نبوت کے خاتم ہیں۔ اسی طرح آپ ﷺ کمالات نبوت کے فاتح اور مبدا بھی ہیں۔ قفلہائے ناکشادہ ماندہ بود از کف انا فتحنا برکشود یعنی انبیاء سابقین جو علوم اور معارف کے قفل بےکھلے چھوڑ گئے تھے وہ صاحب انا فتحنا کے مبارک ہاتھ سے کھل گئے اشارہ اس طرف ہے کہ سورة انا فتحنا میں اگرچہ ظاہری اور حسی فتح مراد ہے یعنی فتح مکہ کے معنی مراد ہیں لیکن یہ لفظ فتح مکہ کے ساتھ خاص نہیں۔ فتح ظاہری کے ساتھ فتح معنوی اور فتح باطنی کو بھی شامل ہے اور اسی وجہ سے آپ ﷺ کا ایک لقب فاتح بھی ہوا کہ معنوی اور باطنی قفل آپ ﷺ کے ہاتھ سے کھلے اس کا یہ مطلب نہیں کہ انا فتحنا میں ظاہری فتح یعنی فتح مکہ مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس ظاہری فتح میں ایک معنوی اور باطنی فتح کی طرف بھی اشارہ ہے غرض یہ کہ عارف رومی (رح) کے نزدیک حضور پر نور ﷺ فاتح النبیین بھی ہیں۔ اور خاتم النبیین بھی ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ عارف رومی قدس سرہ السامی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ہر اعتبار سے خاتم ہیں۔ اور فضیلت کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں اور آپ ﷺ کا لقب خاتم النبیین فقط ختم زمانی اور تاخر زمانی میں منحصر نہیں بلکہ ختم زمانی کے ساتھ خاتمیت کمالات کو بھی شامل ہیں جو آپ ﷺ کی افضلیت اور اکملیت کی دلیل ہے۔ چونکہ زمانہ کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کا خاتم النبیین ہونا تمام امت کے نزدیک بلا کسی اختلاف کے مسلم تھا اس لئے عارف رومی (رح) نے عارفین کے طریقہ پر ختم نبوت کے ایک دوسرے معنی کی طرف اشارہ فرمایا جو غایت درجہ لطیف ہے۔ مولائے روم (علیہ السلام) کے کلام سے یہ اخذ کرلینا کہ مولانا خاتمیت زمانی کے منکر ہیں۔ اور بقا نبوت کے قائل ہیں سراسر حماقت اور نادانی ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص پر حماقت یا چالاکی اور عیاری ختم ہوچکی ہے جو ایسی عجیب عجیب باتیں کرتا ہے۔ عارف رومی (رح) نے مثنوی میں خاتمیت کے دو معنی بیان کئے ایک خاتمیت زمانیہ اور دوسرے خاتمیت بمعنی اکملیت و جامعیت کمالات نبوت۔ چونکہ پہلے معنی معروف اور مشہور اور مسلم تھے کہ اس کا انکار بلاشبہ کفر ہے اس لئے اس کی تفصیل نہیں فرمائی اور دوسرے معنی غیر مشہور تھے اس لئے دوسرے معنی کی زیادہ تفصیل فرمائی اور ختم نبوت کے ان دونوں معنوں میں منافات نہیں بلکہ تلازم ہے کہ خاتمیت بمعنی جامعیت کمالات کے لئے زمانا ختم نبوت لازم ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت اور شریعت قیامت تک ہدایت کے لئے کافی ہے۔ معاذ اللہ مولائے روم (رح) کا یہ مطلب نہیں کہ حضور پر نور ﷺ خاتم زمانی نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ خاتم مطلق ہیں زمانا بھی اور کمالا بھی اور دونوں معنوں میں کوئی منافات نہیں بلکہ تلازم ہے۔ حضرات اہل علم مزید تفصیل کے لئے بحر العلوم شرح مثنوی ص 14 دفتر ششم دیکھیں۔ اور ختم نبوت کے یہی معنی جن کو مولانا روم (رح) نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے حضرت مولانا محمد قاسم (رح) نے تحذیر الناس وغیرہ میں بیان کئے۔ جس پر مبتدعین نے بےسمجھے بےحد شور مچایا اور ملاحدہ نے اور مسیلمہء قادیان کے اذناب نے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے اس کو عقیدہ بقاء نبوت کی تائید میں پیش کیا۔ مسئلہ کی صحیح حقیقت وہ ہے جو ہم نے ناظرین کے سامنے پیش کردی ہے۔ دیکھو کلید مثنوی عشر اول از شرح مثنوی دفتر ششم مصنفہ حضرت حکیم الامت تھانوی ص 61 ومفتاح العلوم شرح مثنوی ص 57 ج 15 اور دیکھو وعظ النور ص 75 از مواعظ حضرت تھانوی حضرت مولانا قاسم صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جاننا چاہئے کہ حسب ارشاد نبوی ﷺ ان لکل ایۃ ظھرا وبطنا ہر آیت کے ایک ظاہری معنی ہوتے ہیں اور ایک باطنی معنی۔ سو حضور پر نور ﷺ کی خاتمیت کے بھی دو معنی ہوں گے ایک ظاہری معنی اور ایک باطنی معنی۔ سو خاتمیت زمانیہ اس آیت کا ظہر ہوگا یعنی باعتبار زمانہ کے سب سے اخیر زمانہ میں سب انبیا کے بعد آپ ﷺ مبعوث ہوئے اور خاتمیت کا بطن یعنی باطنی معنی یہ ہوں گے کہ حضور پر نور ﷺ پر نبوت و رسالت کے تمام کمالات ختم ہیں اور آپ ﷺ کی ذات بابرکات تمام کمالات کا منتہی ہے دیکھو ! جو بہ اربعین ص 83 جس طرح روشنیوں کا سلسلہ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام کمالات کا سلسلہ آنحضرت ﷺ کی ذات والا صفات پر ختم ہوجاتا ہے۔ حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری غرض یہ کہ حسب ارشاد نبوی ہر آیت کا ایک ظہر ہے یعنی ظاہر ہے اور ایک بطن ہے بمعنی باطن ہے اور ظاہر اور باطن دونوں متلازم ہیں ایک کو دوسرے سے جدا کرنا حقیقت کے نفی اور انکار کے مترادف ہے۔ ہر ظاہر کے نیچے ایک باطن ہے اور وہ باطن جب تک اس ظاہر کے ماتحت رہے تو وہ اس کا باطن ہے اور اگر اس کے تحت سے نکل جائے تو پھر وہ اس کا باطن نہیں۔ ظہر اور بطن مل کر شے واحد بنتا ہے الگ الگ ہوجانے کے بعد کوئی بھی باقی نہیں رہتا باطنی معنی وہی معتبر ہیں کہ جو شریعت کے ظہر (ظاہر) کے تحت ہوں اور اگر شریعت کے ظہر کے تحت سے نکل جائیں یا اس کے اوپر ہوجائیں تو وہ معتبر نہیں خوب سمجھ لو۔ جاری ہے (بقیہ اگلی آیت میں)
Top