Maarif-ul-Quran - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
لوگو تم (سب) خدا کے محتاج ہو اور خدا بےپروا سزاوار (حمد و ثنا) ہے
ذکر فقرواحتیاج بشرواستغنا خداوند بر وبحر قال اللہ تعالی۔ یایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ۔۔۔ الی۔۔۔ فکیف کان نکیر۔ (ربط) اوپر سے منکرین توحید کا رد چلا آرہا ہے اب یہ بتلاتے ہیں کہ یہ لوگ متکبر اور مغرور ہیں اور دراہم معدودہ کے نشہ کے میں چور ہیں اور خدا کی پکڑ سے بےفکر ہیں اور اس کی یاد سے دور ہیں۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ کل عالم اپنے وجود میں اور اپنی بقاء میں اللہ کا محتاج ہے اور خاص کر انسان تو سب سے زیادہ حاجتوں میں جکڑا ہوا ہے اور خداوند ذوالجلال۔ غنی مطلق اور بےنیاز مطلق ہے جب چاہے پکڑ سکتا ہے اللہ کو نہ کسی کے مال و دولت کی حاجت ہے اور نہ کسی کی عبادت کی حاجت ہے۔ وہ سب سے بےنیاز ہے پس اگر تم کو دنیا اور آخرت کی عزت مطلوب ہے تو اس کا ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ بندہ سر سے پیر تک حاجتوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ خدائے برحق کے تعلق ہی سے اس کو عزت حاصل ہوسکتی ہے چناچہ فرماتے ہیں اے لوگو تمام مخلوقات میں تم ہی سب سے زیادہ اللہ کے محتاج ہو آسمان سے بارش اور زمین سے نباتات اور ہوا اور پانی کے بغیر تم زندہ نہیں رہ سکتے اور کمال احتیاج کمال ذلت کی دلیل ہے ہر مخلوق اللہ کی محتاج ہے مگر انسان کے برابر کوئی محتاج نہیں دنیا سے اگر انسان معدوم ہوجائے تو کسی مخلوق کا کوئی نقصان نہیں لیکن اگر ہوا اور پانی اور حیوانات اور نباتات میں سے کسی چیز کی کمی ہوجائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا پس تمام مخلوقات میں سے کمال احتیاط انسان ہی میں منحصر ہے اور کمال حاجت کمال ذلت کی دلیل اور علامت ہے اور اللہ ہی ہر طرح بےنیاز ہے۔ اسے تمہاری عبادت اور بندگی کی بھی حاجت نہیں۔ اور وہ ہر طرح ستودہ ہے اور کمال بےنیازی اور کمال ستودگی۔ یہی کمال عزت بنے کہ تمام مخلوق ہر حال میں اس کی محتاج ہے اور اس کے سامنے ذلیل و خوار ہے وہ غنی مطلق اگر چاہے تو تم کو صفحہ ہستی سے لے جائے اور تم سب کو عدم اور فنا کے گھاٹ اتار دے اور تمہارے بدلہ میں دوسری مخلوق لے آوے جو اللہ کی اطاعت کرے اور تمہاری طرح اس کی نافرمانی نہ کرے اور یہ بات اللہ پر کچھ دشوار نہیں بلکہ بہت آسان ہے جس مخلوق کو چاہے۔ مٹائے اور جس کو چاہے، پیدا کرے۔ لہٰذا تم کو اس عزیز مطلق کے قہر اور غضب سے ڈرنا چاہئے اور خوب سمجھ لو کہ قیامت کے دن تمہاری محتاجی اور لاچارگی میں اور اضافہ ہوجائے گا۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کے بوجھ کو نہیں اٹھائے گا۔ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ خدا کے قہر اور غضب کے بوجھ کو اٹھاسکے دنیا میں تو دوسرے کا بوجھ اٹھانا ممکن ہے مگر آخرت میں یہ ممکن نہیں اور اگر کوئی نفس جو اپنے گناہوں سے مر رہا ہو کسی دوسرے کو اپنا بوجھ ہٹانے کے لئے پکارے تو اس میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا۔ اگرچہ وہ اس کا قرابتی ہو کوئی کسی کا جواب بھی نہ دے گا۔ ہر ایک اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار ہوگا حتی کہ اولاد بھی ماں باپ سے عذر کرے گی کہ ہم میں آپ کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں۔ فائدہ : اور قرآن و حدیث میں جو یہ آیا ہے جو دوسروں کو گمراہ کرے گا اور وہ اس کے کہنے سے گنہگار ہوگا تو اس کے گناہ کا بوجھ بھی ان کی گردن پر لادا جائے گا سو وہ درحقیقت دوسرے کا بوجھ نہیں بلکہ اپنے اغواء اور بہکانے کا بوجھ ہے جس کو یہ اٹھاے گا اور یہ بوجھ اسی کے فعل کا ہے۔ قال تعالیٰ ولیحملن اثقالہم واثقالا مع اتقالہم مضلین پر دوہرا بوجھ ہوگا ایک اپنے ذاتی گناہوں کا اور دوسرا بوجھ دوسروں کے اضلال اور اغوا کا۔ خلاصہ کلام یہ کہ آپ ﷺ کی یہ ہدایت اور نصیحت اگرچہ انذار کامل ہے یعنی پورا ڈرانا ہے مگر ان ضدی اور عنادی لوگوں کے حق میں موثر اور کار گر نہیں جو آخرت کے منکر ہیں جز ایں نیست کہ آپ کا انداز یعنی آپ ﷺ کا ڈرانا اور نصیحت کرنا انہیں لوگوں کے حق میں مفید ہے جو اپنے پروردگار سے غائبانہ ڈرتے ہیں اور ٹھیک ٹھیک نماز ادا کرتے ہیں ایسے لوگ گناہوں کے بوجھ سے پاک اور ہلکے ہوجاتے ہیں اور جو شخص ایمان لا کر اور اعمال صالحہ کر کے پاکی حاصل کرے تو وہ اپنے ہی نفع کے لئے پاکی حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ تو غنی حمید ہے اس کو اس کی پاکی سے کوئی نفع نہیں اور سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اس وقت ایمان اور عمل صالح کا فائدہ حاصل ہوگا جو کفر اور معصیت سے پاک ہوگا وہ جنت میں جاسکے گا اور جس نے دنیا میں اللہ کے سامنے عاجزی اور مسکنت کی ہوگی اس کو وہاں عزت حاصل ہوگی اب آئندہ آیت میں مومن اور کافر کی مثال بیان فرماتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں چناچہ فرماتے ہیں اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے یعنی جیسے اندھا اور بینا یکساں نہیں اسی طرح مومن اور کافر بھی یکساں نہیں جیسے نابینا سیاہی اور سفیدی کے فرق کے ادراک سے قاصر ہے اسی طرح کافر حق اور باطل کے فرق کے ادراک سے قاصر ہے۔ بینا اور نابینا اگرچہ بہت سے اوصاف ہیں ایک دوسرے کے شریک ہیں لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جیسے عالم اور جاہل میں فرق ہے اسی طرح مومن اور کافر میں بھی فرق ہے اور نہ تاریکیاں اور روشنی برابر ہیں یعنی باطل اور حق برابر نہیں اور نہ سایہ اور دھوپ برابر ہیں یعنی ثواب اور عقاب برابر نہیں اور زندہ مردے برابر نہیں مومن روح ایمان سے زندہ ہے اور کافر روح ایمان سے خالی ہونے کی وجہ سے مردہ اور بےجان ہے۔ اور مردوں کو زندہ کرنا اور ان کو سنانا خدا کی قدرت میں تو ہے مگر بندہ کی قدرت میں نہیں بیشک اللہ جس کو چاہے سنائے اور ہدایت دے اور اے نبی آپ میں یہ قدرت نہیں کہ آپ ﷺ ان لوگوں کو سنائیں جو قبروں میں مردہ پڑے ہوئے ہیں۔ نبی کا کام یہ ہے کہ اللہ کا پیغام کافروں کے کان تک پہنچا دے باقی کافروں کے مردہ دلوں کا زندہ کرنا یہ نبی کی قدرت میں نہیں۔ اے نبی آپ تو فقط ڈرانے والے اور خدا کی خبر پہنچانے والے ہیں۔ ایمان کی روح کسی کے دل میں ڈال کر اس کو زندہ کردینا اور اس کو سنا دینا اور منوا دینا یہ آپ ﷺ کے اختیار میں نہیں یہ ہمارا کام ہے اگر یہ لوگ آپ ﷺ کی بات کو نہ مانیں تو غم نہ کریں۔ باقی احادیث میں جو مردوں کو سلام اور کلام کا خطاب آیا ہے سو اس کی حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے اور قبر میں جو پڑا ہے وہ اس کا دھڑے ہے وہ نہیں سنتا۔ (باقی مفصل بحث سورة نمل کے اخیر میں گذر چکی ہے وہاں دیکھ لی جائے ) ابتدائے کلام میں مومن اور کافر کو اعمی اور بصیر کے ساتھ تشبیہ دی یہ تشبیہ باعتبار باطن کے تھی اور اخیر آیت میں زندہ اور مردہ کے ساتھ تشبیہ دی اور یہ تشبیہ پہلی تشبیہ سے زیادہ بلیغ ہے۔ اس تمام کلام سے مقصود آنحضرت ﷺ کی تسلی اور تسکین ہے کہ آپ ﷺ کا کام کلام حق کو ان کے کانوں تک پہنچا دینا ہے باقی دل میں اتارنا یہ ہمارا کام ہے تحقیق ہم نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا۔ جن کے دل زندہ ہیں یا جن میں زندی کی کچھ رمق باقی ہے وہ کچھ سن لیں گے اور آپ ﷺ کو بشیر ونذیر بنا کر بھیجنا یہ کوئی عجیب بات نہیں آپ سے پہلے کوئی امت ایسی نہیں کہ جس میں خدا کی طرف سے کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔ پھر ان میں بھی بکثرت کافر گذرے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی امت میں بھی جو مردہ دل ہیں وہ ایمان نہ لاویں گے۔ اور اگر قریش مکہ آپ کی تکذیب کریں تو نہ تعجب کیجئے اور نہ غم کیجئے ان سے پہلے لوگ بھی پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں ان کافروں کے پاس بھی ان کے رسول واضح معجزات اور اللہ کی طرف سے چھوٹے چھوٹے صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے مگر ان کی قوموں نے کفر بھی کیا تو پھر پکڑا میں نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا پس دیکھ لو کہ میرا عذاب ان پر کیسا ہوا ان آیات سے مقصود آپ ﷺ کی تسلی ہے کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے سے رنجیدہ نہ ہوں ہر پیغمبر کی آمد کے بعد لوگ دو گروہ ہوگئے۔ بعضے ایمان لائے اور بعضوں نے تکذیب کی اور اپنے انجام کو پہنچے ان سب کے بعد ہم نے آپ ﷺ کو یہ کتاب منیر (قرآن کریم) دی اگر یہ لوگ اس کی تکذیب سے باز نہ آئے تو ہوسکتا ہے کہ ان کا بھی وہی انجام ہو۔
Top