Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 56
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ١ۚ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ١ۚ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ؕ۬ لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَۚ
قَالَ : (فرعون) نے کہا اٰمَنْتُمْ لَهٗ : تم ایمان لائے اس پر قَبْلَ : پہلے اَنْ : کہ میں اٰذَنَ : اجازت دوں لَكُمْ : تمہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكَبِيْرُكُمُ : البتہ بڑا ہے تمہارا الَّذِيْ : جس نے عَلَّمَكُمُ : سکھایا ت میں السِّحْرَ : جادو فَلَسَوْفَ : پس جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لو گے لَاُقَطِّعَنَّ : البتہ میں ضرور کاٹ ڈالوں گا اَيْدِيَكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَرْجُلَكُمْ : اور تمہارے پاؤں مِّنْ : سے۔ کے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے خلاف کا وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ : اور ضرور تمہیں سولی دوں گا اَجْمَعِيْنَ : سب کو
تمام بادشاہی اس دن اللہ کی ہوگی، وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، پھر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وہ نعمت کے باغوں میں ہوں گے۔
اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ : ”اَلْمُلْكُ“ کے الف لام کی وجہ سے ”تمام بادشاہی“ ترجمہ کیا ہے، یعنی دنیا میں تو عارضی طور پر لوگوں کو بھی بادشاہت مل جاتی ہے مگر اس دن کسی اور کی بادشاہی نہیں ہوگی، فرمایا : (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ) [ المؤمن : 16 ] ”آج کس کی بادشاہی ہے ؟ اللہ ہی کی جو ایک ہے، بہت دبدبے والا ہے۔“ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ۔۔ : دنیا میں ہر شخص، کافر ہو یا منافق یا مسلم، یہی سمجھ رہا ہے کہ وہ حق پر ہے، دوسرے سب غلط ہیں، اس کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کرے گا۔ دیکھیے سورة زمر (46) اس فیصلے کے نتیجے میں ایمان اور عمل صالح والے نعمت والے باغوں میں ہوں گے۔ ایمان اور عمل صالح اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تکریم تھی، بدلے میں ”جَنّٰتِ النَّعِيْمِ“ میں رہنے کی تکریم ملی۔
Top