Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
حکم دوم دربارہ نکاح یتامی۔ قال تعالی۔ وان خفتم۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ تعولوا۔ ربط) گزشتہ آیت میں یتیموں کے مالی ضرر پہنچانے کے متعلق ہدایت تھی اب اس آیت میں یتیم لڑکیوں کے نکاح کے متعلق ہدایت ہے اس لیے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یتیم لڑکیاں جس کی تربیت میں دی جاتی ہیں وہ لڑکی اس ولی کے مال میں بوجہ قرایت ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں تو اب دو صورتیں پیش آتیں ہیں کبھی تو یہ ہوتا کہ ولی کو اس یتیمہ کا مال اور جمال دونوں مرغوب ہوتے اور اس مال اور جمال کے لالچ میں اس سے تھوڑے سے مہر پر نکاح کرلیتا چونکہ یتیم لڑکی کا کوئی سرپرست نہیں ہوتا جو اس کے حقوق کی حفاظت کرتا اور اس کے حقوق کے لیے جھگڑے اس لیے یہ ولی اس کے مہر میں بھی کمی کردیتا اور بوجہ اس کی کمزوری کے اس کے دیگر حقوق زوجیت بھی پورے طور پر ادانہ کرتا اور کبھی یہ ہوتا کہ اس یتیم لڑکی کی صرت تو مرغوب نہ ہوتی مگر ولی یہ خیال کرتا کہ اگر دوسرے سے نکاح کردوں گا تو لڑکی کا مال میرے قبضہ سے نکل جائے گا اور میرے مال میں دوسرا شریک ہوجائے گا اس مصلحت سے اس یتیمہ سے نکاح تو جوں توں کرلیتا مگر منکوحہ سے کچھ رغبت نہ رکھتا اس پر یہ آیت اتری اور اولیاء کو ارشاد ہوا اگر تم کو اس بات کا ذرہ اھتمال بھی ہو اور اگر یقین ہو تو بدرجہ اولی کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے اور ان کے مہر اور حسن معاشرت میں تم سے کوتاہی ہوگی تو ایسی حالت میں تم کو ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کی اجازت نہیں بکہ ان کے علاوہ اور عورتوں سے نکاح کرلو جو تم کو مرغوب اور پسند ہوں ایک نہیں دو دو اور تین تین اور چار چار تک تم کو اجازت ہے مگر چار سے زیادہ کی اجازت نہیں یہ اجازت کی آخری حد ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو یہ ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی صورت میں ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ نہ کرسکو گے تو ان سے نکاح نہ کرو ان کے سو اور عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں عورتوں کی کمی نہیں اور اللہ کی طرف سے کوئی تنگی نہیں اور ایک سے لے کر چار تک تم کو اجازت ہے پس جب تم مجبور نہیں اور تمہاری ضرورت یتامی پر اٹکی ہوئی نہیں تو پھر بےضررت کیوں کسی کے حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہو کسی اور سے نکاح کرلو پس اگر تم کو ڈر ہو کہ کئی عورتوں میں عدل و انصاف نہ کرسکو گے تو تمہیں سہولت ہے اس لیے کہ باندیوں کے حقوق آزاد عورتوں کے برابر نہیں یہ حکم اس بات کے اور زیادہ قریب ہے کہ تم بےانصافی نہ کرو اور کسی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ اگر ایک ہی بیوی ہوگی تو تم اسی کی طرف متوجہ رہو گے اور اس کے حقوق کی ادائیگی تم پر سہل ہوگی اور اگر صرف لونڈیاں اور باندیاں ہوں گی تو ان کے حقوق آزاد عورتوں کے برابر نہیں لہذا ان سے نباہ کچھ مشکل نہیں۔ تمام علماء اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ مرد کو ایک وقت میں اپنے نکاح میں چار سے زیادہ عورتوں کو جمع کرنا درست نہیں زمانہ جاہلیت میں عورتوں کی کوئی تعداد مقرر نہ تھی ایک آدمی کے پاس دس دس اور آٹھ آٹھ عورتیں ہوا کرتی تھیں اس آیت میں اللہ نے اس کی حد مقرر کردی کہ چار عورتوں سے زیادہ نکاح درست نہیں اور ایسا ہی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ عبداللہ بن عباس اور جمہورعلماء کہتے ہیں کہ یہ آیت مقام امتنان اور احسان کے بارے میں ہے عورتوں سے نکاح کی اباحت اور اجازت اللہ کی منت کبری ہے پس اگر چار سے زیادہ جمع کرنا جائزہوتا تو اللہ اس کو ضرور ذکر فرماتے امام شافعی فرماتے ہیں کہ سنت نبوی نے اللہ کی مراد خوب واضح کردی کہ سوائے رسول اللہ کے کسی شخص کے لیے چار عورتوں سے زیادہ نکاح کرنا جائز نہیں۔ حافظ ابن کثیر امام شافعی کے اس قول کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ اسی پر تمام علماء کا اجماع ہے مگر شیعوں کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ چار سے نوتک بھی جمع کرنا درست ہے تفسیر ابن کثیر ص 459 ج 1۔ اور بعض شیعہ یہ کہتے ہیں کہ اباحت نکاح کے لیے کوئی حصر اور تعین نہیں اہل فہم ادنی تامل سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر عام اجازت مقصود ہوتی تو صرف ماطاب لکم من النساء کہہ دینا کافی تھا چار تک کی تحدید کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں یعنی فانکحوا میں تمام رجال عالم کو خطاب ہے اور ماطاب لکم من النساء میں تمام عالم کی عورتیں مراد ہیں اور مقصود کلام یہ ہے کہ اے رجال عالم یہ تمام عورتیں ہم نے تمہارے لیے پیدا کیں تم ان کو بطور نکاح وزوجیت آپس میں تقسیم کرلو مگر شرط اس اباحت اور نکاح کی یہ ہے کہ اس تقسیم میں مثنی اور ثلاث اور رباع کی قید کو ملحوظ رکھو کیونکہ مثنی وثلاث ورباع۔ ترکیب نحوی کے اعتبار سے ماطاب سے حال ہے اور حال عامل کی قید ہوتا ہے اور یہاں عامل فانکحوا ہے پس اباحت نکاح ان اقسام کے ساتھ مقید ہوگی چار کے اندر اندر اجازت ہوگی چار سے زائد ہونے کی صورت میں اجازت نہ رہے گی۔ جیسے کوئی امیر کسی جماعت سے یہ کہے کہ اقتسموا ہذہ البدرۃ درہمین دوہ میں وثلاثہ واربعۃ اربعۃ۔ یعنی اس تھیلی کے دراہم ودنانیر کو کو دو دو یا تین تین یا چار چار آپس میں تقسیم کرلو مطلب یہ ہوگا کہ تقسیم میں کسی شخص کو چار سے زیادہ لینے کی اجازت نہ ہوگی۔ اسی طرح اللہ نے اس آیت میں عالم کے تمام مردوں کو یہ اجازت دی ہے کہ تم عالم کی تمام عورتوں کو دو دو اور تین تین اور چار چار کرکے بطور نکاح آپس میں تقسیم کرلو اس تقسیم میں تم کو چار عورتیں تک لینے کی اجازت ہے اس سے زائد کی اجازت نہیں ہذا توضیح ما قالہ العلامہ الزمخشری فی الشاف وابوحیان فی البحر المحیط۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ۔ شبہ یہ ہے کہ جس طرح سورة فاطر کی آیت دربارہ، ملائکہ الی اجنحۃ مثنی وثلاث ورباع۔ آیت۔ میں مثنی ورباع کا ذکر تقید اور تحدید کے لیے نہیں اسی طرح ممکن ہے کہ آیت نکاح میں بھی مثنی وثلاث ورباع کا ذکر تحدید کے لیے نہ ہو۔ جواب۔ سورة فاطر کی آیت میں مثنی وثلاث ورباع۔ اجنحہ کی صفت ہے کہ فرشتے ایسے ایسے پیدا کیے گئے ہیں کہ اس آیت میں مثنی وثلاث ورباع کا ذکر محض بطور خبر آیا ہے کسی حکم کی قید نہیں جو ماعدا کی نفی پر دلالت کرے جیسا کہ تمام بلغاء کے نزدیک مسلم ہے کہ بعض اوصاف ذکر کرنے سے دوسرے اوصاف کے نفی پر استدلال کرنا غلط ہے بخلاف اس صورت کے کہ جب کوئی عدد معین کسی حکم کے تقید کے لیے ذکر کیا جائے تو وہ بلاشبہ تحدید پر دلا لت کرے گا اور یہ آیت عورتوں کے نکاح کے حکم کے بارے میں آئی ہے کہ تمہیں اس طرح کی اجازت ہے اور یہ اجازت چار چار تک ہے لہذا اس پر زیادتی جائز نہ ہوگی اور عورتوں سے نکاح کی اجازت اور اباحت کا حکم چار تک مقصود ہوگا۔ مسئلہ تعدد ازدواج۔ شریعت اسلامیہ غایت درجہ معتدل اور متوسط ہے افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے نہ تو عیسائیوں کے راہبوں اور ہندوؤں کے جوگیوں اور گسایوں کی طرح ملنگ بننے کی اجازت دیتی ہے اور نہ صرف ایک عورت ہی پر قناعت کرنے کو لازم گردانتی ہے بلکہ حسب ضرورت ومصلحت ایک سے چار تک اجازت دیتی ہے۔ چناچہ پادری لوگ بھی نظر عمیق کے بعد اسی کا فتوی دیتے ہیں جیسا کہ کتاب مسمی بہ اصلاح سہو مطبوعہ امریکن مشن پریس 1871 ء میں لکھتے ہیں کہ تعدد ازددواج بنی اسرائیل میں تھا اور خدا نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ برکت کا وعدہ کیا اور عارئین لوتھر نے فلپ کو دو جروں کی اجازت دی تھی منقول از تفسیر حقانی ص 166 ج 3۔ تاریخ عالم کے مسلمات میں سے ہے کہ اسلام سے پہلے تمام دنیا میں یہ رواج تھا کہ ایک شخص کئی کئی عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور یہ دستور تمام دنیا میں رائج تھا حتی کہ حضرات انبیاء بھی اس دستور سے مستثنی نہ تھے۔ حضرت ابراہیم کی دوبیبیاں تھیں حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ حضرت اسحاق کے بھی متعدد بیویاں تھیں حضرت موسیٰ کے بھی کئی بیویاں تھیں اور سلیمان (علیہ السلام) کے بیسوں بیویاں تھیں اور حضرت داوؤد (علیہ السلام) کے سو بیویاں تھیں اور توریت وانجیل و دیگر صحف انبیاء میں حضرات انبیاء کی متعدد ازواج کا ذکر ہے اور کہیں اس کی ممانعت کا ادنی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا صرف حضرت یحیٰی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایسے نبی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بالکل شادی نہیں کی ان کے فعل کو اگر استدلال میں پیش کیا جائے تو ایک شادی بھی ممنوع ہوجائے گی احادیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور نزول کے بعد شادی فرمائیں گے اور ان کے اولاد بھی ہوگی۔ غرض یہ کہ علماء یہود اور علماء نصاری کو مذہبی حیثیت سے تعدد ازواج پر اعتراض کا کوئی حق نہیں صرف ایک ہی بیوی رکھنے کا حکم کسی مذہب اور ملت میں نہیں نہ ہندوں کے شاستروں میں نہ توریت میں اور نہ انجیل میں صرف یورپ کارواج ہے نہ معلوم کس بنا پر یہ رواج رائج ہوا اور جب سے یورپ میں یہ رواج چلا اس وقت مغربی قوموں میں زناکاری کی اس درجہ کثرت ہوئی کہ پچاس فیصد آبادی غیر ثابت النسب ہے اور جن قوموں نے تعدد ازدواج کو برا سمجھا ہے وہی قومیں اکثر زناکاری میں مبتلا ہیں۔ اسلام سے بیشتر دنیا کے ہر ملک اور ہر خطہ میں کثرت ازدواج کی رسم خوب زور شور سے رائج تھی اور بعض اوقات ایک ایک شخص سو عمر تک عورتوں سے شادیاں کرلیتا تھا اسلام آیا اور اس نے اصل تعداد کو جائز قرار دیا مگر اس کی ایک حد مقرر کردی اسلام نے تعدد ازدواج کو واجب اور لازم قرار نہیں دیا بلکہ بشرط عدل و انصاف اس کی اجازت دی کہ تم کو چار بیویوں کی حد تک نکاح کی اجازت ہے اور اس چار کی حد سے تجاوز کی اجازت نہیں اس لیے کہ نکاح سے مقصود عفت اور تحصین فرج ہے چار عورتوں میں جب ہر تین شب کے بعد ایک عورت کی طرف رجوع کرے گا تو اس کے حقوق زوجیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا شریعت اسلامیہ نے غایت درجہ اعتدال اور توسط کو ملحوظ رکھا کہ نہ تو جاہلیت کی طرح غیر محدود کثرت ازدواج کی اجازت دی کہ جس سے شہوت رانی کا دروازہ کھل جائے اور نہ اتنی تنگی کی کہ ایک عورت سے زائد کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ بین بین حالت کو برقرار رکھا کہ چار تک اجازت دی تاکہ نکاح کی غرض وغایت یعنی عفت اور حفاظت نظر اور تحصین فرج اور تناسل اور اولاد بسہولت حاصل ہوسکے اور زنا سے بالکلیہ محفوظ ہوجائے اس لیے کہ بعض قوی اور توانا اور تندرست اور فارغ البال اور خوش حال لوگوں کو ایک بیوی سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بوجہ قوت اور توانائی اور اوپر سے فارغ البال اور خوش حالی کی وجہ سے چار بیویوں کے بلاتکلف حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ (بلکہ) ایسے قوی اور تواناجن کے پاس لاکھوں کی دولت بھی موجود ہے اگر وہ اپنے خاندان کی چار غریب عورتوں سے اس لیے نکاح کریں کہ ان کی تنگ دستی مبدل، بفراخی ہوجائے اور غربت کے گھرانہ سے نکل کر ایک راحت اور دولت کے گھر میں داخل ہوں اور اللہ کی نمعت کا شکر کریں تو امید ہے کہ ایسا نکاح اسلامی نقطہ نظر سے بلاشتبہ عبادت اور عین عبادت ہوگا اور قومی نقطہ نظر سے اعلی ترین قومی ہمدردی ہوگی جس دولت مند اور زمیندار اور سرمایہ دار کے خزانہ سے ہر مہینہ دس ہزار مزدوروں کو تنخواہیں ملتی ہوں اور دس ہزار خاندان اس کی اعانت اور امداد سے پرورش پاتے ہوں تو اگر اس کے خاندان کی چار عورتیں بھی اس کی حرم سرائے میں داخل ہوجائیں اور عیش و عشرت کے ساتھ ان کی عزت وناموس بھی محفوظ ہوجائے تو عقلا وشرعا اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ اگر کوئی بادشاہ یا صدر مملکت یا وزیر سلطنت یا کوئی صاحب ثروت و دولت بذریعہ اخبار یہ اعلان کرے کہ میں چار عورتوں سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور ہر عورت کو ایک ایک لاکھ مہردوں گا اور ایک ایک بنگلہ کا ہر ایک کو مالک بنادوں گا جو عورت مجھ سے نکاح چاہے وہ میرے پاس درخواست بھیج دے۔ (تو سب سے پہلے) ۔ انہی بیگمات کی درخواستیں پہنچیں گی جو آج تعدد ازدواج کے مسئلہ پر شور برپا کررہی ہیں یہی بیگمات سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنی بیٹیوں اور بھتیجیوں اور بھانجیوں کو لے کر امراء اور وزارء کے بنگلوں پر خود حاضر ہوجائیں گی اور اگر کوئی امیر اور وزیر ان کے قبول کرنے میں کچھ تامل کرے گا تو یہی بےگمات دل آویز طریقہ سے ان کو تعدد ازدواج کے فوائد اور منافع سمجھائیں گی۔ 2۔ نیز بسا اوقات ایک عورت امراض کی وجہ سے یا حمل اور تولد النسل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتی کہ مرد اس سے منتفع ہوسکے تو ایسی صورت میں مرد کے زنا سے محفوظ رہنے کی عقلا اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ اس کو دوسرے نکاح کی اجازت دی جائے۔ حکایت۔ ایک بزرگ کی بیوی نابینا ہوگئی تو انہوں نے دوسرا نکاح کیا تاکہ یہ دوسری بیوی پہلی بیوی نابینا کی خدمت کرسکے اہل عقل فتوی دیں کہ اگر کسی کی پہلی بیوی معذور ہوجائے اور دوسرا نکاح اس لیے کرے تاکہ دوسری بیوی پہلی بیوی کی خدمت کرسکے اور اس کے بچوں کی تربیت کرسکے کیا یہ دوسرا نکاح عین عبادت اور عین مروت اور عین انسانیت نہ ہوگا۔ 3۔ نیز بسا اوقات عورت امراض کی وجہ سے یا عقیم (بانجھ) ہونے کی وجہ سے توالدالنسل کے قابل نہیں رہتی اور مرد کو بقاء نسل کی طرف فطری رغبت ہے ایسی صورت میں عورت کو بےوجہ طلاق دے کر علیحدہ کرنا یا اس پر کوئی الزام لگا کر طلا دے دینا جیسا کہ دن رات یورپ میں ہوتا رہتا ہے یہ صورت بہتر ہے یا یہ صورت بہتر ہے کہ اس کی زوجیت اور اس کے حقوق کو محفوظ رکھ کر دوسرے نکاح کی اجازت دے دیں بتلاؤ کون سی صورت بہتر ہے اگر کسی قوم کو اپنی تعداد بڑھانی منظور ہو یا عام طور پر بنی نوع کی افزائش نسل مدنظر ہو تو سب سے بہتر یہی تدبیر ہوسکتی ہے کہ ایک مرد کئی شادیاں کرے تاکہ بہت سی اولاد پیدا ہو۔ 4۔ نیز عورتوں کی تعداد قدرتا اور عادۃ مردوں سے زیادہ ہے مرد بہ نسبت عورتوں کے پیدا کم ہوتے ہیں اور مرتے زیادہ ہیں لاکھوں مرد لڑائیوں میں مارے جاتے ہیں اور ہزاروں مرد جہازوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ہزاروں کانوں میں دب کر اور تعمیرات میں بلندیوں سے گر کر مرجاتے ہیں اور عورتیں پیدا زیادہ ہوتی ہیں اور مرتی کم ہیں پس اگر ایک مرد کو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں بالکل معطل اور بےکار رہیں کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے اور کس طرح عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں پس تعدد ازدواج کا حکم بےبس کس عورتوں کا سہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کانگہبان اور پاسبان ہے عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے کہ تم کو تکلیف سے بچایا اور راحت پہنچائی اور ٹھکانا دیا اور لوگوں کی تہمت اور بدگمانی سے تم کو محفوظ کردیا دنیا میں جب کبھی عظیم الشان لڑائیاں پیش آتی ہیں تو مرد ہی زیادہ مارے جاتے ہیں اور قوم میں بےکس عورتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو اس وقت ہمدرداں قوم کی نگاہیں اس اسلامی اصول کی طرف اٹھ جاتی ہیں ابھی تیس سال قبل کی بات ہے کہ جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک جن کے مذہب میں تعداد ازددواج جائز نہیں عورتوں کی بےکسی کو دیکھ کر اندر ہی اندر تعداد ازدواج کے جواز کا فتوی تیار کررہے تھے۔ جو لوگ تعدد ازدواج کو برا سمجھتے ہیں ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ملک میں عورتیں لاکھوں کی تعداد میں مردوں سے زیادہ ہوں تو ان کی فطری اور طبعی جذبات اور ان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کے پاس کیا حل ہے اور آپ نے ان بےکس عورتوں کی مصیبت دور کرنے کے لیے کیا قانون بنایا ہے افسوس اور صد افسوس کہ اہل مغرب اسلام کے اس جائز تعدد پر عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کے لاتعداد آشنائی کو تہذیب اور تمدن سمجھیں زنا جو کہ تمام انبیاء اور مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکماء کی حکمتوں میں قبیح رہا مغرب کے مدعیان تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اور تعدد ازدواج کہ جو تمام انبیاء ومرسلین اور حکماء اور عقلاء کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے ان مہذب قوموں کے نزدیک تعدد ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری جرم نہیں۔ 5۔ عورتیں۔ مرد سے عقل میں بھی نصف ہیں اور دین میں بھی نصف ہیں جس کا حاصل یہ نکلا کہ ایک عورت ایک مرد کاربع یعنی چوتھائی ہے اور ظاہر ہے کہ چار ربع مل کر ایک بنتے ہیں معلوم ہوا کہ چار عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں اس لیے شریعت نے ایک مرد کو چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی۔ ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت کی وجہ۔ 1۔ اگر ایک عورت چند مردوں میں مشترک ہو تو بوجہ استحقاق نکاح ہر ایک وقضا حاجت کا استحقاق ہوگا اور اس میں غالب اندیشہ فساد اور عناد کا ہے شاید ایک ہی وقت میں سب کو ضرورت ہو اور عجب نہیں کہ نوبت قتل تک پہنچے۔ ہندوؤں کے بعض فرقوں کے مذہب میں یہ جائز ہے کہ پانچ بھائی مل کر ایک عورت رکھ لیں بےغیرتوں کا مذہب بےغیرتی ہی کی باتیں بتلاتا ہے اسلام جیسا باغیرت مذہب ہرگز ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت کبھی کسی سے ہم آغوش اور ہم کنار ہو اور کبھی کسی سے۔ 2۔ مرد فطرتا حاکم ہے اور عورت محکوم ہے اس لیے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے جب تک مرد عورتوں کو آزاد نہ کرے تو عورت دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے جیسے باندی اور غلام باختیار خود قید سے نہیں نکل سکتے اسی طرح عورت باختیار خود قید نکاح سے نہیں نکل سکتی باندی اور غلاموں میں اگر اعتاق ہے تو عورتوں میں طلاق غرض یہ کہ جب مرد حاکم ہوا تو عقلا یہ تو جائز ہے کہ ایک حاکم کے ماتحت متعدد محکوم ہوں اور متعدد اشخاص کا ایک حاکم کے ماتحت رہنا نہ موجب ذلت و حقارت ہے نہ موجب صعوبت۔ بخلاف اس کے کہ ایک شخص متعدد حاکموں کے ماتحت ہو تو ایسی صورت میں کہ جب محکوم ایک ہو اور حاکم تعدد ہوں تو محکوم کے لیے عجب مصیبت کا سامنا کہ کس کس کی اطاعت کرے اور ذلت بھی ہے جتنے حاکم زیادہ ہوں گے اسی قدر محکوم میں ذلت بھی زیادہ ہوگی۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے ایک عورت کو دو یا چار خاوندوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی اس لیے کہ اس صورت میں عورت کے حق میں تحقیر وتذلیل بھی بہت ہے اور مصیبت بھی نہایت سخت ہے۔ نیز متعدد شوہروں کی خدمت بجالانا اور سب کو خوش رکھنا ناقابل برداشت ہے اس لیے شریعت نے ایک عورت کو دو یا چار مردوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی تاکہ عورت اس تذلیل وتحقیر اور ناقابل برداشت مشقت سے محفوظ رہے۔ 3۔ نیز اگر ایک عورت کے متعدد شوہر ہوں تو متعدد شوہروں کے تعلق سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ ان میں سے کس کی اولاد ہوگی اور ان کی تربیت کس طرح ہوگی اور ان کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی نیز وہ اولاد چاروں شوہروں کی مشترکہ ہوگی یا منقسمہ او تقسیم کس طرح ہوگی اگر ایک ہی فرزند ہوا تو چار باپوں میں کس طرح تقسیم ہوگا اور اگر متعدد اولاد ہوئی اور نوبت تقسیم کی آئی تو بوجہ اختلاف ذکورت وانوثت اور بوجہ تفاوت شکل و صورت اور بوجہ اختلاف قوت وصحت اور بوجہ تفاوت فہم و فراست موزانہ تو ممکن نہیں اس لیے کہ اس تفاوت کی وجہ سے تقسیم اولاد کا مسئلہ غایت درجہ پیچیدہ ہوگا اور نہ معلوم باہمی نزاع سے کیا کیا صورتیں اور فتنے رونما ہوں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) تعالیٰ کا کلام معرفت الیتام۔ حق جل شانہ کا ارشاد ہے، نساء کم حرث لکم۔ آیت۔ یعنی تمہاری عورتیں تمہارے کھیت ہیں اس سے صاف روش ہے کہ نکاح سے مقصود اولاد ہے کیونکہ کھیت سے مطلوب پیدوار ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کھیت کی پیدوار یہی اولاد ہے گہیوں چنا وغیرہ نہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیعوں کے نزدیک جو سارے جہان کے خلاف اپنی بی بی سے اغلام درست ہے کہ وہ کلام اللہ کے بھی مخالف ہے مگر اغلام سے تولد اولاد متصور نہیں مگر ہاں شاید شیعوں میں یہ کرامت ہو کہ نطفہ ادھر سے ادھر چلا جاتا ہو باقی رہا جملہ، فاتوا حرثکم انی شئتم۔ آیت۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اپنی زمین میں بیچ ڈالنے کے لیے شرق کی طرف سے جاؤ یا غرب کی طرف سے بہر حال تم کو اختیار ہے او اس سے ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ مقصود اصلی بونا ہے وہ دونوں طرف سے جانے میں برابر حاصل ہے اور پیدوار دونوں میں ایک طرح سے ہوگی ایسے ہی اس جملہ سے ہر عاقل یہی سمجھے گا کہ اپنی بییبوں سے الٹے سیدھے جس طرح چاہو صحبت کرو تولد اولاد میں دونوں صورتیں برابر ہیں یہ نہیں کہ سیدھی صحبت کیجئے تو بچا اچھا ہوا اور الٹی کیجئے تو احول (بھینگا) پیدا ہو جیسا کہ یہودی کہا کرتے تھے چناچہ اسی وہم فاسد کے ازالہ اور دفع کے لیے یہ ارشاد ہوا فاتواحرثکم انی شئتم۔ آیت۔ مگر علماء شیعہ کی خوش فہمی دیکھئے کہ بات کیا تھی اور کیا مطلب سمجھ گئے مگر وہ بھی کیا کریں اگر متعہ اور اغلام نہ ہوتا تو خواص تو متنفر تھے ہی عوام کالانعام بھی اس مذہب کو پسند نہ کرتے۔ علاوہ بریں ولد صالح کا باقیات صالحات میں سے ہونا بھی اولاد کے مقصود ہونے پر شاید ہے کیونکہ اگر شہوت رانی ہی مقصود اور اولاد مقصود نہ ہوتی تو ان کے حساب سے اولاد کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوتا اگر صالح ہوتی تو کیا اور فاسق ہوئی تو کیا اور علی ہذا القیاس سقی ماء غیر یعنی عورت حاملہ من الغیر سے جماع حرام نہ ہوتا چناچہ ظاہر ہے بہرحال مقصود اصلی نکاھ سے اولاد ہے شہوت رانی مقصود اصلی نہیں جیسے اکل غذاء سے بدل مایتحلل مقصود ہے اور بھوک مثل چپراسی سرکاری اس بیگار کے لیے متقاضی ہے ایسے ہی عورتوں سے اولاد مطلوب ہے اور شہوت جماع تقاضا جماع کے لیے ساتھ لگا دی گئی مگر جب اولاد مقصود ٹھہری چناچہ آیت مسطور اس پر شاہد ہے اور نیز عقل سلیم اس پر گواہ تو پھر ایک عورت کا زمانہ واحدہ میں دو یا زیادہ مردوں سے نکاح کی اجازت قرین عقل نہ ہوگی اس لیے کہ زمین کی پیدوار تو سب ایک سی ہوتی ہے اور اس کے سب دانے باہم متشابہ ہوتے ہیں خورش میں سب یکساں کسی کو کسی پر کچھ فوقیت نہیں اس لیے شرکت میں کوئی خرابی پیش نہیں آتی علی السویہ تقسیم ہوسکتی ہے پر اولاد میں اگر اشتراک تجویز کیا جائے تو ایک نزاع عظیم برپا ہوجائے اس یے کہ اول تو یہی کچھ ضرور نہیں کہ ایک سے زیادہ بچہ پیدا ہو اور دو تین پیدا بھی ہوئے تو کچھ ضرور نہیں کہ سب لڑکے ہی ہوں یا سب لڑکیاں ہی ہوں اور پھر سب ایک ہی نمبر کے عاقل وفاضل ہوں بلکہ عادت اللہ یوں ہی جاری ہے کہ جیسے پانچوں انگلیاں یکساں نہیں ہوتیں ایسی ہی تمام اولاد یکساں نہیں ہوتی تو پھر تقسیم اولاد کی کیا صورت ہوگی۔ خاص کر جب کہ بچہ ایک ہو اور عورت کے خاوند متعدد ہوں یا خاوند کا عدد تو زوج ہو اور اولاد کا عدد طاق ہو تو اور بھی دشواری ہوگی ہاں اگر اولاد کاٹنے پھاٹنے کے قابل ہوتی تو مثل غلہ مشترک پاجامہ مشترک کاٹ پھاٹ کر برابر کرلیتے اور نزاع دفع کرلیتے بامثل غلام عورت کا ہر وقت ایک حال رہتا اور یہ تفاوت احوال اور اختلاف کیفیا مزاجی نہ ہوتا تو ہفتہ وار یا ماہوار یا سال وار ایک خاوند کے پاس رہا کرتی مگر اول تو ہر دم اور ہر حال میں رحم زن نطفہ کو قبول نہیں کرتا دوسرے یہ کہ اختلاف احوال زن بسا اوقات اختلاف زکورت وانوثت اور عقلی اور بےعقلی کا سبب بن جاتا ہے چناچہ جو لوگ دقائق طبیہ اور حقائق موجبات اختلاف امزجہ اولاد سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وقت جماع جو کیفیت والدین اور خصوصا والدہ پر غالب ہوتی ہے وہی کیفیت اولاد کے حق میں خلق اور طبیعت بن جاتی ہے والدین کی کیفیت مزاجی کو اولاد کے اخلاق اور عقل میں داخل تام ہے الغرض بوجہ تفاوت احوال معلومہ یہ ممکن نہیں کہ غلام کی طرح عورت نوبت بنوبت ہر خاوند کے پاس رہا کرے کیونکہ خدمت غلام کوئی امر معین نہیں جو اس کی مقدار تعین نوبت میں ملحوظ رہے اس لیے وہاں وہ زمانہ جس میں خدمت معتد بہ تمام شرکاء کے نزدیک ادا کرسکے معین ہوسکے گا اور عورت میں خدمت فراش یعنی جماع کی مقدار نوبت کی تعین نہایت دشوار ہے علاوہ ازیں مرد میں ہر لحظہ حاجت الی الجماع کا احتمال ہے اور یہ حاجت بدون عورت کے رفع ہونا محال ہے بخلاف غلام کے اگر غلام موجود نہ ہو تو وہ اپنا کاروبار اپنے ہاتھ سے بھی انجام دے سکتا ہے اور جماع میں یہ متصور نہیں تو ان وجوہ سے زوجہ میں شرکت خلاف مصلحت ہوئی ملخص ازاجوبہ اربعین از ص 18 ج 2 تا ص 22 ج 2) ۔ الغرض شریعت نے ان فتنوں کا دروازہ بند کرنے کے لیے ایک عورت کے لیے متعدد مردوں سے نکاح کو ممنوع اور حرام قرار دیا۔
Top