Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
(اے پیغمبر) ﷺ جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا اور جو (صدق و خلوص) انکے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
بیعت الرضوان و فضائل اہل بیعت مع بشارت انعام خداوندی بعطاء غنائم و غلبہ اہل ایمان : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” لقد ؓ عن ال مومنین ....... الی ...... بکل شیء علیما “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں ان اعراب ومتخلفین کا ذکر تھا جو جھوٹے عذر اور حیلے بہانے کرکے حدیبیہ کے سفر سے پیچھے رہ گئے تھے انکی باطنی گندگی اور قبائح کے ذکر کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف سے جس وعید اور تنبیہ کے وہ مستحق تھے بیان کی گئی تھی اب اس گروہ کے بالمقابل ان مخلصین ومطیعین اور جانثاروں کا ذکر فرمایا جارہا ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی کہ ہم زندگی کے آخری سانس تک رسول خدا ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور آخری دم تک ہر طرح کی مددواعانت کرتے رہیں گے اور اطاعت وفرماں برداری سے قدم ہرگز پیچھے نہ ہٹائیں گے حق تعالیٰ شانہ نے ایسے مخلصین کا ذکر اپنی رضا و خوشنودی کے اعلان سے فرمایا ارشاد ہے۔ بیشک اللہ خوش ہوا ان ایمان والوں سے جبکہ وہ بیعت کررہے تھے آپ ﷺ سے اے ہمارے پیغمبر اس درخت کے نیچے جو ایک کی کر کا درخت تھا مقام حدیبیہ میں جہاں کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے بیعت کا اعلان فرمایا تھا اور صحابہ ؓ نے اس درخت کے نیچے بیعت کا سلسلہ شروع کیا پھر جان لیا اللہ نے اس چیز کو جو انکے دلوں میں تھا۔ 1 حاشیہ (یعنی ظاہری احوال سے اندیشہ اور خطرے کے ساتھ حسن نیت صدق واخلاص توکل واعتماد اور حب اسلام کے ساتھ، علامہ ابوحیان (رح) فرماتے ہیں کہ صلح کی شرائط سے قبل میں جو آثار رنج وغم تھے وہ بھی مراد ہیں۔ 12) اخلاص و ایمان اور ایثار و جہاد کے جذبات سے تو اتارا ان پرسکون و اطمینان اور انعام دیا انکو ایک نزدیک فتح کا اور بہت سی غنیمتوں کا جن کو وہ حاصل کریں گے اور اللہ تعالیٰ بڑی ہی عزت و حکمت والا ہے کہ اسکے ارادہ اور عطاء کو کوئی طاقت روکنے والی نہیں اور وہ اپنی حکمت سے جب چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اس لئے اگر اس نے مقام حدیبیہ میں فتح اور غنائم کے بجائے معاہدہ اور صلح کو مقدر فرما دیا تو یہ اس کی شان حکیمی ہے کہ فتح وغنائم کو قریب وقت کے لئے مؤخر کردیا جو فتح خیبر کی صورت میں فورا ہی ظاہر ہوئی جیسا کہ تفصیل گذر چکی وعدہ کیا ہے اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا جن کو تم آئندہ لوگے جس کا ایک حصہ خیبر کی غنیمتیں ہیں سو جلدی پہنچا دی تم کو یہ غنیمت اور روک دیئے لوگوں کے ہاتھ تم سے کہ مقام حدیبیہ میں کفار قریش تم پر حملہ نہ کرسکے ورنہ اس حالت میں کہ تم صرف چودہ سو یا پندرہ سو تھے بےسروسامان وطن سے دور تو اس حالت میں کفار مکہ اگر حملہ کردیتے تو ظاہر اسباب بڑی پریشانی اور تکلیف کے تھے تو یہ کس قدر انعام ہوا اور اللہ کی رحمت ہوئی اور یہ سب کچھ اس وجہ سے بھی کیا گیا کہ ایک نشانی ہوجائے ایمان والوں کے لئے اللہ کی قدرت ایمان پر خصوصی عنایات خداوندی کی اور تم کو صراط مستقیم پر چلائے جس کا نتیجہ یہ ہوگا اللہ رب العزت کے وعدوں اور اس کی لامحدود طاقت پر بھروسہ ہمیشہ قائم رہے گا اور اس وقت کی فتح کے علاوہ ایک اور فتح بھی اللہ نے تمہارے واسطے کردی ہے جس پر تم ابھی قادر نہیں ہوئے ہو جس کا اللہ نے احاطہ کرلیا ہے اور وہ اس کے قابو میں ہے اور اللہ تو ہر چیز پوری قدرت رکھنے والا ہے اس لئے جس غنیمت اور فتح کو مسلمانوں کے واسطے اللہ نے طے کردیا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کو اللہ کے قابو سے نہیں نکال سکتی، اور اس صورت میں کہ اللہ نے ایمان والوں کے واسطے فتح و کامیابی طے کردی ہو اگر قتال کرتے کافر تم سے تو پیٹھ پھیرتے شکست کھاتے ہوئے پھر نہ پاتے اپنا کوئی حمایتی اور نہ مددگار تم ہی غالب ہوتے اور فتح و کامرانی حاصل ہوتی اور ان کافروں کو کسی کی حمایت ومدد عذاب خداوندی سے نہ بچا سکتی مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کا یہی تقاضا ہوا کہ فی الحال مقابلہ اور قتال نہ ہو اور معاہدہ وصلح ہی ہوجاتے اور اس صلح کی ان برکات سے مسلمان مستفید ہوں جو مستقبل میں ان کے واسطے مقدر کردی گئیں۔ اللہ کا طریقہ یہ ہے جو اسی طرح پہلے سے چلا آرہا ہے اور اے مخاطب تو اللہ کے طریقہ اور قانون میں ہرگز تبدیلی نہ پائے گا کہ جب بھی اہل حق اور اہل باطل کا کسی فیصلہ کن مرحلہ پر مقابلہ ہو تو آخرکار حق کو فتح ہوتی ہے اور اہل باطل مغلوب ومقہور ہوتے ہیں اللہ کی یہ سنت ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بس شرط صرف اتنی ہے کہ اہل حق مضبوطی کے ساتھ حق پر قائم رہیں اور اللہ کے اس قانون کو کوئی دوسرا ہرگز تبدیل نہیں کرسکتا اور وہی ہے جس نے روک دیا تھا ان کافروں کے ہاتھوں کو تم سے جب کہ قریش مکہ کی کچھ ٹولیاں حدیبیہ کے مقام میں چوری چھپے حملہ آور ہونے کے ارادہ سے مسلمانوں تک پہنچ گئی تھیں اور تمہارے ہاتھ روک دئے ان سے سرزمین مکہ میں بعد اس کے کہ تم کو ان پر غلبہ و (کامیابی) بھی دے دیا تھا اور اس قسم کی چند ٹولیاں شرپسندوں کی جو آنحضرت ﷺ اور بعض صحابہ ؓ پر خفیۃ حملہ کرنے کی نیت سے آئے تھے صحابہ ؓ نے ان کو پکڑ بھی لیا تھا اور زندہ گرفتار کرکے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش بھی کردیا تھا تھا اور اللہ دیکھنے والا ہے ان تمام کاموں کو جو تم کرتے ہو تو اس نے تمہارے اس حلم اور تحمل و درگزر کو بھی دیکھ لیا ہے اور وہ یقیناً ایسے صبر و تحمل کا بہتر بدلہ دے گا اور خدا تعالیٰ کے علم اور نظروں سے مجرم ونافرمان چھپے ہوئے نہیں ہیں خدا کو خوب معلوم ہے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانور کو جو بندھا ہوا تھا اس بات سے کہ وہ اپنے حلال ہونے کی جگہ تک پہنچ جاتے یعنی حرم تک جہاں قربانیاں لے جا کر ذبح کی جاتی ہیں اور اگر نہ ہوتے کچھ مرد ایمان والے اور کچھ عورتیں ایمان والی جن کو تم نہ جانتے تھے تو اس صورت میں اگر قتال و جہاد کا حکم دے دیا جاتا تو خطرہ تھا کہ تم ان کو پیس ڈالتے پھر تم پر انکی وجہ سے کوئی خرابی اور مصیبت پیش آجاتی بیخبری کے ساتھ تو اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو اس وقت اللہ کی طرف سے حکم قتال ہوجاتا لیکن ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کہ مکہ میں بہت سے مومن مرد اور عورتیں موجود تھے جنکے ایمان کا تم کو علم نہ ہوتا اور قتال کی نوبت آجاتی تو وہ بھی لاعلمی میں پس جاتے اور ایمان والوں کا مارا جانا بلاشبہ ایک بہت بڑی خرابی اور تکلیف تھی جو تم پر واقع ہوتی تو اس مصلحت کے باعث اللہ نے معاہد اور صلح کی صورت پر اپنے پیغمبر ﷺ کو آمادہ کردیا تاکہ اللہ داخل کرے اپنی رحمت میں جس کو چاہے کیونکہ یہ ایک بےمثال تحمل اور صبر کا مظاہرہ تھا یقیناً ایسی مہربانی اور حلم کا بدلہ ضرور ملتا اور وہ یہی کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل کرلے اگر وہ مسلمان مرد اور عورتیں ایک طرف جدا ہوجاتے تو ہم عذاب دیتے ان اہل مکہ میں سے کافروں کو بڑا ہی درد ناک عذاب طبعی طور پر کافروں کی بےجا ضد اور عناد کی روش مسلمانوں کو متاثر اور مشتعل بنا سکتی تھی اور طبعا ضد کا جواب ضد ہی سے دیا سکتا تھا لیکن یہ خدا کا کس قدر عظیم انعام ہے کہ ایسے وقت مسلمانوں کو خدا نے صبر و تحمل کا حوصلہ دیا جب کہ رکھی کافروں نے حمیت اور ضد اپنے دلوں میں جاہلیت کے زمانہ جیسی ضد نادانی کی لیکن اللہ نے سکون کی کیفیت اتاری اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر باوجودیکہ سخت اضطراب اور بےچینی کا عالم تھا اور صحابہ ؓ جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے مخمور تھے اور قائم رکھا ان پر تقوی۔ 1 حاشیہ (کلمۃ التقوی کی تفسیر کلمہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ ہے اس پر قائم رہنا سچے فرمانبردار اور پکے موحد کا کام ہے اور ایسا ہی فرمانبردار شخص رسول خدا ﷺ کے حکم پر اپنے تمام جذبات ورجحانات کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور عین جوش و خروش کے ووقت صرف اللہ رب العزت اور اور اسکے رسول ﷺ کی خوشنودی کے لیے اپنے تمام طبعی جذبات قربان کر ڈالتا ہے نہ اس کو اپنی عزت وذلت کا سوال رہتا ہے نہ وقار کا مسئلہ حائل ہوتا ہے حدیث میں کلمۃ التقوی کی تفسیر اسی وجہ سے ” لاالہ الا اللہ “۔ سے کی گئی ہے کہ تمام تر تقوی اور طہارت کی بنیاد یہی ہے جس کو اللہ رب العزت نے حضرات صحابہ ؓ کی زندگیوں کے ساتھ لازم کردیا اور اس کا حق ادا کرنے کے واسطے بھی ان کو چن لیا۔ 12) کا کلمہ کہ وحی الہی اور فرمان رسول ﷺ کے سامنے صحابہ ؓ سراپا پیکر تقوی بن گئے اور حقیقت یہ ہے کہ وہی اس کے لائق تھے اور اس کے اہل تھے اس کے کام کے اور اس کے ثمرات کے مستحق تھے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کہ اللہ سے ڈر کر اسکی نافرمانی سے باز رہے اور حرم وکعبہ کا ادب ہر حال میں ملحوظ رکھا، تو اللہ نے تقوی اور طہارت کا یہ وصف اصحاب رسول ﷺ کی زندگیوں کے ساتھ لازم کردیا کہ ان کی حیات اور عمل تقوی اور تقوی کے تقاضوں سے جدا نہیں ہوسکتا اور کل امت میں وہی اس کے سب سے زیادہ مستحق اور اس کا حق ادا کرنے کے اہل تھے کہ جن کو خدا نے اپنی حکمت اور علم محیط سے چن لیا تھا اور بیشک اللہ تو ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے وہی جانتا ہے کہ کس کے واسطے تقوی لازمہ حیات بنایا جاسکتا ہے اور کس کو تقوی کا پورا حق ادا کرنے کے واسطے منتخب کیا جاسکتا ہے۔ سبب بیعت الرضوان : اس بیعت کا نام اس آیت مبارکہ کی وجہ سے بیعت الرضوان ہوا جس میں حق تعالیٰ نے ان اہل بیعت حضرات صحابہ ؓ سے اپنی رضا مندی و خوشنودی کا اعلان فرمایا سفر حدیبیہ اور صلح ومعاہدہ کی تفصیل ابتداء سورة فتح میں گزر چکی اور یہ کہ بیعت کس طرح واقع ہوئی روایات سیرت اور کتب احادیث سے بیعت الرضوان کا جو سبب معلوم ہوا اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ کے مقام میں پہنچ کر خراچ بن امیتہ الضمری ؓ کو بطور قاصد اہل مکہ کی طرف بھیجا یہ پیغام دیکر کہ آپ ﷺ صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی ارادہ مقابلہ یا قتال کا نہیں خراش بن امیہ ؓ جب اہل مکہ کے پاس پہنچے تو ان لوگوں نے ان کا اونٹ ذبح کرڈالا اور خود ان کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن قریش کے کچھ لوگوں کے روکنے پر وہ اس بات سے باز رہے اس واقعہ پر آنحضرت ﷺ نے عمر فاروق ؓ کو مکہ مکرمہ بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو عمر فاروق ؓ کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ اہل مکہ مجھ سے کس قدر عداوت اور غیظ وغضب رکھتے ہیں اور مجھے یہ توقع نہیں کہ اہل مکہ اگر میرے ساتھ کوئی زیادتی کریں گے تو میرا کوئی مددگار ہوگا اس وجہ سے مناسب ہے کہ آپ ﷺ عثمان بن عفان ؓ کو بھیجیں وہاں ان کا مضبوط قبیلہ ہے اور وہ لوگ ان کی قدر بھی کرتے ہیں اس پر آنحضرت ﷺ نے عثمان بن عفان ؓ کو بلایا اور انکو قریش مکہ کی طرف قاصد بنا کر روانہ فرمایا یہی پیغام دیکر کر کہ ہم لوگ صرف عمرہ کرنے ہی آئے ہیں اور ان کو اسلام کی بھی دعوت دینا اور یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں جو مسلمان مرد اور عورتیں مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں انکے پاس جاکر ان کو بشارت سنا دینافتح و کامیابی کی اور یہ بھی بتا دینا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ مکہ میں اپنا دین غالب فرمائے گا۔ حضرت عثمان ؓ مکہ روانہ ہوگئے راستہ میں ابان بن سعید العاص مل گیا اس نے اپنی سواری سے اتر کر۔ حضرت عثمان غنی ؓ کو اس پر بٹھایا اور انکو اپنی پناہ دے کر قریش کو اس کی اطلاع کی کہ عثمان ؓ میری پناہ میں ہیں ان لوگوں نے حضرت عثمان ؓ سے بھی کہا کہ اگر چاہو تو بیت اللہ کا طواف بھی کرسکتے ہو لیکن یہ بات کہ تم سب مکہ میں داخل ہوسکو یہ ممکن نہیں ہے عثمان غنی ؓ نے جواب دیا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بغیر طواف بیت اللہ کرلوں اس پر قریش کے لوگوں نے حضرت عثمان ؓ کو قید کرلیا آنحضرت ﷺ کو کسی نے یہ کہا کہ عثمان ؓ تو قتل کردیئے گئے اس خبر کے ملنے پر آپ ﷺ نے لوگوں کو اعلان کرایا کہ قریش سے اس کا انتقام لینا ہے اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کی بیعت کا حکم لے کر اترے کہ آپ ﷺ صحابہ ؓ سے بیعت لیں آپ ﷺ کے اعلان فرمانے سے سب صحابہ ؓ حضور ﷺ کے گرد جمع ہوگئے اور درخت کے نیچے سلسلہ بیعت شروع ہوگیا ہر ایک اس پر بیعت کررہا تھا کہ ہم میدان جہاد سے کسی بھی حالت میں ہرگز نہ بھاگیں گے۔ 1 حاشیہ (صحیح بخاری، تفسیر روح المعانی۔ احکام القرآن للقرطبی۔ ) حضرت معقل بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اس درخت کی شاخیں ہاتھ سے تھامے ہوئے تھا تاکہ رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ انور شاخوں سے نہ چھپے۔ 2 حاشیہ (صحیح مسلم ) اور سب سے پہلے اس روز جس شخص نے بیعت کی وہ ابو سنان وہب بن محصن ؓ ، عکاشہ بن محصن ؓ کے بھائی تھے ،۔ بیہقی (رح) نے دلائل النبوۃ میں شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ہے آنحضرت ﷺ نے جس وقت اعلان بیعت فرمایا تو انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں بیعت کرلوں آپ ﷺ نے فرمایا کس چیز پر بیعت کرے گا (یعنی جانتا بھی ہے ؟ ) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جو کچھ آپ ﷺ کے دل میں ہے بس اسی پر میں بیعت وعہد کرتا ہوں خواہ میں اس وقت اس کو جانوں یا نہ جانوں یعنی جو بھی کچھ حکم ہوگا بس قبل اس کے کہ ہو معلوم ہو میں اس کی اطاعت وفرماں برداری کیلئے عہد کرتا ہوں۔ بیعت الرضوان میں ایک بیٹے کی اپنے باپ سے سبقت : بیعۃ الرضوان میں عام بیعت کے دوران حضرت عمر فاروق ؓ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور صحابہ بیعت کرتے جاتے تھے صحیح بخاری میں نافع ؓ کی روایت۔ 3 حاشیہ (صحیح بخاری جلد 2۔ کتاب التفسیر۔ 12) سے یہ تفصیل معلوم ہوئی کہ اس بیعت میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے والد عمر بن الخطاب ؓ سے سبقت کرنے والے تھے اور انہوں نے والد سے پہلے بیعت کی جسکی صورت یہ ہوئی کہ عمر فاروق ؓ کا ایک گھوڑا کسی انصاری کے پاس تھا انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر ؓ کو انصاری شخص سے گھوڑا لانے کے واسطے بھیجا مقصد یہ تھا کہ اگر جہاد کی نوبت آجائے تو اس پر قتال کرسکیں عین اسی وقت آنحضرت ﷺ نے بیعت الرضوان کا سلسلہ شروع فرمادیا تھا اور عمر فاروق ؓ کو خبر بھی نہ تھی کہ بیعت شروع ہوگئی تو عبداللہ بن عمر ؓ فورا درخت کے نیچے پہنچ گئے اور فورا بیعت کرکے پھر گھوڑا لینے کے واسطے گئے، اور آکر اپنے والد عمر فاروق ؓ کو بتایا کہ حضور ﷺ درخت کے نیچے کھڑے لوگوں سے بیعت لے رہے ہیں اور میں بیعت کر آیا ہوں یہ سنتے ہی عمر فاروق ؓ دوڑے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور پھر رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ تھامے کھڑے رہے اور بیعت کا سلسلہ جاری رہا اس سلسلہ بیعت میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان ﷺ جو کہ اس وقت مکہ میں محصور تھے ان کی بیعت اس شان کے ساتھ فرمائی۔ کہ اپنا ایک ہاتھ پھیلا یا اور پھر دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایا کہ اے لوگو ! دیکھ لو یہ عثمان ؓ کی بیعت ہے اور اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر مارا اور جس طرح بیعت میں ایک ہاتھ سے دوسرا ہاتھ پکڑا جاتا ہے اسی طرح اپنے ہاتھ سے دوسرا دست مبارک پکڑا۔ عراقی لوگوں نے حضرت عثمان غنی ؓ کی شان عظمت پر جب جرح وتنقید اور طعن وتشنیع کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے حضرت عثمان ؓ پر الزامات اور تہمتوں کی ایک فہرست تیار کی ہوئی تھی اور طے شدہ منصوبہ کے مطابق ہر مجمع میں ایک یہ بات بھی کہتے کہ عثمان ؓ وہ ہیں جو بیعۃ الرضوان میں غیرحاضر رہے تو ایک عراقی نے عبداللہ بن عمر ؓ کے سامنے بھی ان الزامات کو دھراتے ہوئے پوچھا بتاؤ کیا عثمان ؓ وہ شخص نہیں ہیں جنہوں نے بیعت الرضوان میں حضور ﷺ سے بیعت نہیں کی فرمایا میں تجھے اسکی حقیقت بتاتا ہوں اور یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمانے لگے اس بیعت میں جو لوگ حاضر تھے تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے بیعت کی تھی مگر جب عثمان ؓ کی بیعت کی نوبت آئی تو حضور ﷺ نے خود اپنے ہاتھ کو عثمان ؓ کے ہاتھ کے قائم مقام بنایا خدا کی قسم ہم سب کی بیعت سے افضل اور بڑھ کر عثمان ؓ کی بیعت تھی۔ سعید بن المسیب (رح) سے ایک تلمیذ سعید بن قتادہ (رح) نے دریافت کیا مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اصحاب حدیبیہ جنہوں نے اس درختوں کے نیچے بیعت کی چودہ سو تھے فرمایا مجھے تو حضرت جابر ؓ نے یہ بتایا ہے کہ وہ پندرہ سو تھے بعض روایات میں تعداد اس سے کم اور بعض میں اس سے زائد بیان کی گئی لیکن ائمہ محدثین کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ سو کی تعداد راجح ہے۔ شجرۂ مبارکہ جس کے نیچے بیعت الرضوان ہوئی : سیرت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت کی کر کا تھا جسکے نیچے یہ بیعت لی گئی جس کا نام ” بیعت الرضوان “۔ ہے اور قرآن کریم نے ان مقدس نفوس سے اپنی خوشنودی کا اعلان فرمایا بعض روایات وتاریخی نقول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اس درخت کی تعظیم و تکریم کرنے لگے اور وہاں آکر نفلیں بھی پڑھئے عمر فاروق ؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس درخت کو کاٹ دینے کا حکم فرمایا اس اندیشہ سے کہ کہیں اس درخت کی پرستش نہ ہونے لگے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں طارق بن عبد الرحمن (رح) سے یہ منقول ہے کہ ایک دفعہ حج کیلئے جارہا تھا تو میں نے مقام حدیبیہ سے گزرتے ہوئے ایک جماعت کو دیکھا کہ اس میدان میں نماز پڑھ جارہا تھا تو میں نے مقام یہ کون سی مسجد ہے (کہ اس جگہ نماز پڑھی جارہی ہے) لوگوں نے بتایا کہ یہ وہ درخت ہے جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے بیعت الرضوان لی تھی یہ سن کر میں حضرت سعید بن المسیب (رح) کے پاس حاضر ہوا اور انکو یہ بتایا تو انہوں نے فرمایا میرے والد نے مجھ سے یہ بیان کیا تھا کہ ہم جب آئندہ سال عمرۃ القضاء کے وقت وہاں پہنچے تو ہم اس درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی یہ قصہ سنا کر سعید بن المسیب (رح) کہنے لگے کہ (عجیب بات ہے) رسول اللہ ﷺ کے صحابہ تو اس درخت کو نہ پہچان سکے اور اس پر ان کو قدرت نہ ہوتی اور تم نے اس کو پہچان لیا اب خود ہی سمجھ لو کہ یہ کیا بات ہے۔ (تعبیر ” ؓ عن ال مومنین “ کی بلاغت ونکتہ) علامہ آلوسی (رح) اپنی تفسیر روح المعانی میں رضا کے معنی ” خوشنودی “ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ لفظ رضا کا استعمال کلام عرب میں متعدد صورتوں سے ہوتا ہے کبھی بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے مثلا کہا جائے، رضیت زیدا۔ اور کبھی عن اور با کے ساتھ مثلا، رضیت زید ا باحسانہ اور کبھی لام کے ساتھ مثلا رضیت لک۔ علماء عربیہ فرماتے ہیں ” ب “۔ کے ساتھ استعمال سببیت کے معنی ظاہر کرتا ہے، باحسانہ کہنے کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس کے احسان کی خوش ہوا۔ اور جہاں بغیر صلہ کے استعمال ہو تو محض ذات بحیثیت ذات رضا کے معنی ہوں گے اور جس جگہ، ب، کا صلہ اور ذات دونوں کو جمع کیا جائے مثلا، رضیت باللہ ربا۔ تو ذات سے خوشنودی کی نوعیت کو بتانا ہوگا یعنی اللہ رب العزت کے ساتھ خوشنودی بحیثیت اس کی ربوبیت اور بندگی ہے اور جب عن کے ساتھ استعمال ہوگا تو یہ ظاہر کرنا مقصود ہوگا کہ رضا اور خوشنودی کس چیز سے واقع ہوئی اور رضا و خوشنودی کا منشا کیا ہوگا تو یہ ظاہر کرنا مقصود ہوگا کہ رضا اور خوشنودی کس چیز سے واقع ہوئی اور رضا و خوشنودی کا منشا کیا ہے تو اس موقعہ پر (آیت ) ” لقد ؓ عن ال مومنین “۔ کا عنوان اس پر دلالت کررہا ہے کہ ان اصحاب رسول اللہ ﷺ سے اللہ کی خوشنودی ان کے ایمان واخلاص کی وجہ سے واقع ہوئی اور یہی ایمان واخلاص اس رضاء الہی کا منشاء بنا جب کہ یہ عمل بیعت انکے ایمان کامل کے ثبوت پر ظاہر ہورہا ہے جب کہ اس درخت کے نیچے بیعت ہورہی تھی تو یہ عنوان بلیغ ترین عنوان ہوا بہ نسبت اسکے کہ، ؓ بیعتھم “۔ کیونکہ اس میں صرف اس عمل پر ہی خوشنودی کا اظہار ہوتا اب یہاں اس کے بالمقابل عمل کو ظرف بنایا گیا اور خوشنودی کا محل صرف صحابہ کی ذات قرار دے گئی اور اس کا منشاء ان کا ایمان واخلاص بتایا گیا جس کی گواہی دینے والا خود اللہ رب العزت ہوا اب اس کے بعد ان حضرات میں سے کسی کے بھی ایمان واخلاص میں شبہ کرنا درحقیقت خدا تعالیٰ کی گواہی کو ٹھکرانا ہوگا۔
Top