Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 57
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا : جو لوگ ٹھہراتے ہیں دِيْنَكُمْ : تمہارا دین هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ۔ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل وَالْكُفَّارَ : اور کافر اَوْلِيَآءَ : دوست وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھی ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو۔
اعادہ حکم سابق بعنوان دیگر۔ قال اللہ تعالی، یا ایھا الذین آمنوا لاتتخذو۔۔۔ الی۔۔۔ لایحب المفسدین۔ ربط) ۔ اس آیت میں دوسرے عنوان سے حکم سابق کا اعادہ ہے اور کفار کی محبت اور دوستی سے ممانعت کی جاتی ہے مگر عنوان دوسرا ہے جس میں ان کی شرارتوں اور قباحتوں کو بیان کرتے مثلا شعائر اسلام اذان وغیرہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور مسلمانوں کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے ہیں اخیر رکوع تک ان کے قبائح اور فضائح کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ایسے لوگوں سے ہرگز دوستی نہ کرو تاکید کے لیے حکم سابق کا اعادہ فرمایا اور قدرے ان کی شرارتوں اور قباحتوں کو بیان کیا اور یہ بتلایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور جن پر خدا کا غضب نازل ہو اور کچھ لوگ ان میں کے سور اور بندروں کی شکل میں مسخ کیے گئے اور یہ ایسے برے لوگ ہیں کہ کسی طرح لائق دوستی نہیں گذشتہ آیات میں خاص یہود اور نصاری سے موالات کی ممانعت تھی اور اس آیت میں عام کفار سے موالات کی ممانعت ہے جس میں یہود اور نصاری کے علاوہ مشرکین اور منافقین بھی داخل ہیں گویا کہ یہ حکم سابق کا تتمہ ہے چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ دین کی عزت و حرمت کو پورا پورا ملحوظ رکھو اور اس کی پوری حفاظت کرو اور دشمنان دین کی جو دین کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کرتے ہیں خوب سمجھ لو کہ ان کی موالات اور دوستی کے ساتھ دین محفوظ نہیں رہ سکتا اس لیے حکم دیا جاتا ہے کہ اے ایمان والو جن لوگوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے یعنی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی یہود اور نصاری ان کو اور دوسرے کافروں کو دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر تم ایمان دار ہو اس لیے کہ اندیشہ ہے کہ ان کی دوستی سے تمہاری اصلی دولت اور سعادت ابدیہ کا سرمایہ یعنی ایمان واسلام نہ ضائع ہوجائے اور جب تم لوگوں کو اذان کے ذریعہ نماز جیسی افضل العبادات اور اکمل القربات کی طرف پکارتے ہو تو وہ اس عبادت کو جس میں نماز اور اذان کی حقیقت نہیں سمجھتے اور بےعقل آدمی لائق محبت نہیں اگر ان کو ذرا عقل ہوتی تو سمجھتے کہ خالق کی عبادت اور بندگی اور اس کی تعظیم تکبیر اور اس کی توحید کا اظہار واعلان جس کی تمام کتب سماویہ اور انبیاء سابقین کی شریعتیں مصدق ہیں کس طرح قابل استہزاء اور تمسخر نہیں جب مسلمان اذان دیتے اور نماز پڑھتے تو یہود اور نصاری اور مشرکین اس کی ہنسی اڑاتے اور یہود کہتے کہ یہ لوگ کھڑے ہوتے ہیں خدا کرے کبھی کھڑے نہ ہوسکیں اور نماز پڑھنے لگے ہیں خدا کرے نہ پڑھ سکیں پھر اس پر قہقہہ لگاتے اور جب مسلمان رکوع اور سجدہ جاتے تو ہنستے اور ایک دوسرے کو اشارہ کرتے اور مدینہ میں ایک نصرانی تھا جب وہ موذن سے اشہد ان محمد رسول اللہ سنتا تو یہ کہتا کہ اللہ جھوٹے کو آگ میں جلائے ایک رات اس کی خادمہ آگ لارہی تھی اور وہ نصرانی اور اس کے گھر والے پڑے سور ہے تھے اتفاق سے اس کے ہاتھ میں سے اس آگ میں کا ایک شرارہ اڑ کر کہیں جاپڑا جس سے وہ گھر اور وہ نصرانی اور اس کے سب گھروالے جل کر خاکستر ہوگئے اس کی دعا کے مطابق خدا نے جھوٹے کو جلادیا۔ اور خدا تعالیٰ نے یہ دکھلا دیا کہ صادق امین کو جھوٹا بتلانے والا دوزخ میں جانے سے پہلے ہی کس طرح آگ میں جلایاجاسکتا ہے مطلب یہ کہ خداوند ذوالجلال کی بندگی اور اس بندگی کی طرف دعوت اور علان جو دنیوی اور اخروی خیر پر مشتمل ہے اور ہر دین میں اس کا بہتر ہونا مسلم ہے اس کا مذاق اڑانا ان کی بےعقلی کی دلیل ہے۔ آپ ان لوگوں سے جو نماز اور اذان جیسی بہترین عبادت اور دعوت خیر وصلاح و فلاح کی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں یہ کہہ دیجئے اے اہل کتاب تم ہم میں سوائے اس کے کیا عجیب پاتے ہو کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کتاب پر جو ہماری طرف نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو اس سے پہلے نازل ہوئیں یعنی ہم تمہاری طرح انبیاء میں تفریق نہیں کرتے اور یہی کہ تم میں کے اکثر بدکار ہیں اور اطاعت خداوندی سے خارج ہیں یعنی تم جو ہمارے دین پر ہنستے ہو اور تو اس میں کیا عجیب پاتے ہو اور ہمارے دین کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں جو تمام شریعتوں کالب لباب ہے اور تمام حکمتوں کا عطر ہے اور ان تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم سے پہلے نازل ہوئیں کیا یہ کوئی عب کی بات ہے جو تم اس پر ہنستے ہو، وان اکثرکم فاسقون۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم ہم میں سوائے اس کے اور کیا عب پاتے ہو کہ تم طریق مستقیم سے ہٹ گئے ہو توحید کے بجائے تثلیث کے قائل ہوگئے ہو اور حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنالیا اور اللہ کی کتابوں میں تم نے تحریف کر ڈالی اور ان معایب کو کمالات سمجھ لیا اور اس لیے اچھی باتیں تم کو بری معلوم ہوتی ہیں ورنہ واقع میں ہم میں اور ہمارے دین میں کوئی عیب نہیں ہے چونکہ تم بدکار ہو اور ہم تمہاری بدکاری سے علیحدہ ہیں اس لیے ہم تمہاری آنکھوں میں کھٹکتے ہیں تمہیں اپنے عیبوں پر نظر نہیں اور ہمارے کمالات اور محاسن تم کو عیوب نظر آتے ہیں اہل تثلیث اور اہل تجسیم کو اہل توحید اور اہل تنزیہ پر طنع وتشنیع کرنے کا کہاں سے حق حاصل ہوا۔ خلاصہ کلام یہ کہ وان اکثرکم فاسقون کا مطلب یہ ہے کہ تم نے معاملہ برعکس کیا ہوا ہے تمہیں اپنافسق اور طریق مستقیم سے انحراف تو معیوب نہیں معلوم ہوتا اور مسلمانوں کا طریق مستقیم پر چلنا اور خدا کی بندگی کرنا اور اس کی عظمت اور کبریائی اور توحید کی اذان اور اعلان تم کو معیوب نظر آتی ہے کیا یہ کمال ابلہی اور انتہائی دیدی دلیری نہیں۔ اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہود ونصاری کے معایب اور ان کے مضحکہ انگیز اقوال وافعال وحرکات کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں اے نبی آپ ان لوگوں سے جو مسلمانوں کو برا کہتے ہیں اور ان کے دین کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں یہ کہہ دیجئے آؤ میں تم کو ایسی قوم کا پتہ بتاتا ہوں جو خدا کے نزدیک باعتبار جزا اور سزا کے اس سے زیادہ برے ہیں یعنی تم اس دین اسلام اور مسلمانوں کو برا سمھتے ہو آؤ میں تم کو اس سے بھی برا بتاؤں جن کو اللہ کے یہاں بدلہ برا ملے گا وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب نازل کیا اور ان میں سے بعض کو بندر اور بعض کو سور بنادیا اور جنہوں نے شیطان اور معبود باطل کی پرستش کی مثلا جن لوگوں نے گوسالہ کو معبود بنایا یعنی واقعی برے وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر اپنا غضب نازل کیا اور ان کی نافرمانیوں کی بناء پر ان کو بندر اور سور کی شکل میں مسخ کیا اور جنہوں نے گوسالہ پرستی اور یابت پرستی کی یہی لوگ باعتبار مقام اور مکان یعنی مرتبہ اور ٹھکانہ کے بدترین خلائق ہیں اور سب سے زیادہ سیدھے راستہ سے بہکے ہوئے ہیں بلحاظ مکان بمعنی مرتبہ بھی سب سے برے ہیں اور مکان بمعنی جگہ بھی سب سے برے ہیں اور اس لیے کہ ان کا مکان دوزخ ہے جو سب سے برا مکان ہے لہذا تمہارے طعن اور استہزاء کی مستحق ایسی قوم ہوسکتی ہے جس کا یہ حال بیان کیا گیا اور وہ قوم خود تم ہی ہو نہ کہ مسلمان یہود میں سے جن لوگوں نے باوجود صریح ممانعت کے ہفتہ کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور وہ بندر اور سور بنادیے گئے تھے جس کی تفصیل انشاء اللہ سورة اعراف میں آئے گی اور اے مسلمانوا ان استہزاء کرنے والوں میں سے بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب تمہارے پاس آتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر ہی کو لے کر تمہاری مجلس میں داخل ہوئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ تمہاری مجلس سے نکل کر واپس چلے گئے اور یہ لوگ ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان میں داخل نہیں ہوئے تھے ان کا آمنا کہنا بالکل جھوٹ ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو دلوں میں کفر اور نفاق چھپائے ہوئے ہیں اور یہ آیت منافقین یہود کے بارے میں نازل ہوئی جو رسول اللہ کے پاس آکر جھوٹ موٹ کہہ دیتے تھے کہ ہم آپ پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کے دین پر راضی ہیں اور دل میں ان کے کفر بھرا ہوتا تھا اور اے نبی آپ ان یہودیوں میں سے بہت سے لوگوں کو گناہ اور ظلم و زیادتی اور حرام خوری یعنی رشوت میں دوڑتا ہوا دیکھیں گے کہ دو ڑدوڑ کر ان چیزوں کی طرف جاتے ہیں اور بصد شوق اور رغبت گناہوں کی طرف جھپٹتے ہیں اور حرام مال پر گرے پڑتے ہیں البتہ بہت ہی برے کام ہیں جو وہ کرتے ہیں یہ حال تو ان کے عوام کا تھا اب آگے ان کے خواص کا حال بیان کرتے ہیں کیوں نہیں منع کرتے ان کو خدا پرست یعنی درویش اور عالم گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے کیا ہی برا ہے وہ کام جو یہ خدا پرست اور عالم کرتے ہیں یعنی علماء اور فقراء کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے روکیں مگر وہ لوگ خاموش ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے یہ بہت برا کام ہے حضرت علی کرم اللہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگلے لوگ جو برباد ہوئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے برے کام اختیار کیے اور ان کے علماء نے انہیں منع نہ کیا حضرات اہل علم تفصیل کے لیے امام غزالی کی احیاء العلوم باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر دیکھیں۔ بارگاہ خداوندی میں یہود کی گستاخی کا ذکر اور اس کا رد۔ اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ یہود کی جسارت مخلوق سے گذر کر خالق کی حد تک پہنچ چکی ہے اور بارگاہ ربوبیت میں گستاخی کرنے سے بھی ان کو باک نہیں رہا خداوندذوالجلال کی شان میں ایسے واہی تباہی الفاظ بک دیتے ہیں کہ جنہیں سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں کبھی کہتے ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء۔ آیت۔ کبھی یہ الفاط منہ سے نکالتے ہیں یداللہ مغلولۃ خدا کا ہاتھ بندھ گیا یعنی معاذ اللہ خدا بخل کرنے لگا ابن عباس فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہود کو ہر طرح کی فارغ البالی اور عیش و عشرت عطا کر رکھی تھی جب انہوں نے نبی ﷺ کی نافرمانی کی اور آپ کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کی روزی تنگ کردی اس وقت فنحاص بن عاز وراء نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے اور اس پر یہ ایت نازل ہوئی اور یہود یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے یعنی اللہ بخل کرنے لگا ہے گویا کہ اس کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا ہے معاذاللہ۔ خدا تو اس سے پاک اور منزہ ہے انہیں کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں یعنی وہ خیر محروم کردیے گئے ہیں اللہ تو جو اد اور کریم مطلق ہے اس کے خزائن غیر محدود اور اس کا جود اور کرم لامتناہی ہے وہاں کسی چیز کی کمی نہیں ان کے تمرد اور طغیان کی پاداش میں اللہ نے ان کی جبلت میں ایسا جبن اور بخل ڈال دیا ہے جس سے ان کے ہاتھ بالکل بند ہوگئے ہیں اور اس گستاخانہ قول کی بناء پر یہ لوگ خدا کی رحمت سے دور پھینک دیے گئے ذلت اور مسکنت کی مہر لگادی گئی اور ان کا یہ قول کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے بالکل غلط ہے بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی وہ غایت درجہ کریم ہے دونوں ہاتھوں سے دیتا ہے اور چونکہ وہ حکیم بھی ہے وہ جس طرح چاہتا ہے وہ خرچ کرتا ہے اس کا جود وکرم حکمت اور مصلحت کے ساتھ ہے وہ جس کو چاہتا ہے فراخی دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگی دیتا ہے کماقال تعالی، ولوبسط اللہ الرزق۔۔ الی۔۔۔ مایشاء۔ آیت۔ پس یہود کو جو تنگی پیش آئی ہے معاذ اللہ اس کی علت بخل یا فیضان جود کی کمی نہیں بلکہ یہود بےبہبود کی معاندانہ تکذیب اور جحود کا وبال ہے جو ان کو چکھایا جارہا ہے وہ قابض اور باسط ہے کسی کو زیادہ ور کسی کو کم دیتا ہے یہ اس کی حکمت اور مشیت ہے یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر۔ اگر قبض ہے تو اس کی حکمت قاہرہ اور باہر سے ہے اور اگر بسط ہے تو اس کی رحمت وافرہ سے ہے الغرض حق جل شانہ کا یہ قول بل یداہ مبسوطتان اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غایت درجہ کریم ہے دونوں ہاتھوں سے دیتا ہے اس کے جو دو کرم کی کوئی حد اور نہایت نہیں شاہ عبدالقادر دہلوی نے اپنے فواہد میں یہ لکھا ہے کہ دوہاتھوں سے مہر اور قہر کا ہاتھ مراد ہے یعنی آج کل خدا کے مہر کا ہاتھ امت محمدیہ پر کھلا ہوا ہے اور قہر کا ہاتھ بنی اسرائیل پر کھلا ہوا ہے جیسا کہ اگلی آیتوں میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ فائدہ جلیلہ) ۔ اس قسم کی آیتیں جن میں اللہ کے منہ اور ہاتھ کا ذک رآتا ہے معاذ اللہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ بھی مخلوق کی طرح کوئی جسم ہے اور جسمانی اعضاء رکھتا ہے اس لیے کہ اللہ جسمانیت اور لوازم جسمانیہ سے پاک اور منزہ ہے سلف صالحین اور علماء محققین کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح خدا کی ذات اور وجود اور حیات اور علم اور سمع اور بصر وغیرہ تمام صفات بےچون چگون ہیں اس کی ذات وصفات کی کوئی نظیر اور مثال اور کیفیت اس کے سوا کچھ نہیں بیان کی جاسکتی۔ اے برتر از خیال و قیاس وگمان ودہم۔۔۔ وزہر گفتہ اندوشنیدیم وخواند ایم۔۔ دفتر تمام گشت وبپایاں رسید عمر۔۔ ماہمچناں در اول وصف تو ماندہ ایم۔ اس قسم کی آیات معلوم المعنی اور مجہول الکیف ہیں یعنی یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ید کے معی ہاتھ اور وجہ کے معنی منہ ہیں مگر یہ معلوم نہیں خہ اللہ کا ہاتھ اور منہ کس طرح کا ہے معاذ اللہ اگر اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا ہو تو جسمیت اور تشبیہ لازم آئے گا لہذا یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ جس طرح اللہ کی ذات اور اس کی حیات اور سمع وبصر اس کی شان اقدس کے لائق اور ہمارے ادراک اور بیان سے دراء الوراء ہے اسی طرح اس کی صفت ید اور صفت وجہ بھی دیگر صفات کی طرح بےمثل اور بےچون وچرا ہے اور اس سے وہی معنی مراد ہیں جو اس کی شان اقدس کے لائق ہوں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ کے لیے وجہ اور ید سمع اور بصر وساق اور قدم ثابت ہیں جیسے اس کی ذات والا صفات کے شایان شان ہیں اور اس کی حقیقت اور کیفیت کے درپے نہیں اور باایں ہمہ وہ کسی بات میں مخلوقات کے مشابہ نہیں لیس کمثلہ شئی وھو السمیع البصیر۔ اور مسارعت فی الاثم اور اکل سحت کی وجہ سے ان کی فطرت اس درجہ فاسد اور خراب ہوچکی ہے کہ البتہ وہ قرآن جو تیرے پروردگار کی طرف سے لوگوں کی شفاء اور ہدایت کے لیے تیری طرف اتارا گیا ہے وہ انمیں سے بہتروں کی نافرمانی اور سرکشی میں ترقی کا سبب بن جاتا ہے یعنی قرآن کریم تو شفاء اور ہدایت اور غذائے روح ہے مگر ان معاندین کی فطرت اس درجہ فاسد ہوچکی ہے کہ کلام الٰہی سن کر ان کو شفاء نہیں ہوتی بلکہ ان کی گمراہی اور سرکشی میں اور زیادتی ہوجاتی ہے اگر غذائے صالح کسی فاسد المعدہ کے معدہ میں پہنچ کر اس کے مرض کو زیادہ کردے تو اس میں غذائے صالح کا قصور نہیں مریض کے مزاج کی خرابی ہے یہی حال ان لوگوں کا ہے جب قرآن کی کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو وہ اس کا انکار کردیتے ہیں جس سے ان کے سابق کفر میں ایک اور جدید کفر کا اضافہ ہوجتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ، وننزل من القرآن ماھو شفاء۔۔۔۔ الی۔۔۔ خسارا۔ آیت۔ اور ہم نے اہل کتاب کے حسد اور بغض اور عناد کی سزا میں ان میں باہم قیامت تک ظاہر میں عداوت اور باطن میں بغض ڈال دیا ہے یعنی ہم نے یہود اور نصاری کے درمیان اور یہود کے مختلف فرقوں کے درمیان اور نصاری کے مختلف فرقوں کے درمیان عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے جو قیام تتک ان میں رہے گی چناچہ وہ جب کبھی نبی اکرم کے مقابلہ کے لیے لڑائی کی آگ سلگاتی ہیں تو اللہ بجھا دیتا ہے یعنی نبی ﷺ کے مقابلہ میں ان کو کامیابی نہیں ملتی اور اللہ یہودیوں کی تدبیروں کو چلنے نہیں دیتا۔ شاہ عبدالقادر صاحب فرماتے ہیں اللہ نے ان میں اتفاق نہیں رکھا جب آگ سلگاتے ہیں لڑائی کی یعنی فتنہ انگیزی کرتے ہیں کہ آپس میں سب کو ملا کر مسلمانوں سے لڑیں سو اللہ بجھا دیتا ہے آپس میں پھوٹ جاتے ہیں اور جب وہ لڑائی میں ناکام ہوجاتے ہیں تو اور طرح سے وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں یعنی محمد رسول اللہ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور اسلام کے مٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ور اللہ تعالیٰ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا اور ان کی فتنہ پردازی پر ان کو سزا ضرور دے گا پوری سزا تو آخرت میں ملے گی البتہ بطور تنبیہ کے دنیا میں رزق کی تنگی میں مبتلا کیا جاسکتا ہے۔ فائدہ) ۔ جاننا چاہیے کہ اس مضمون کے بیان کرنے سے اس جگہ مقصود نبی ﷺ کو دشمنوں کی طرف سے اطمینان دلانا ہے کہ یہ دشمن لوگ کسی صورت میں بھی آپ کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے پس اگر یہ حکم نبی ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے تو کوئی اشکال ہی نہیں اگر یہ حکم عام ہے اور آپ کے ساتھ مخصوص نہیں تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ جب تک مسلمان دین اسلام پر قائم رہیں گے اور اس کے رنگ میں رنگے رہیں گے اس وقت تک نصرت الٰہی کے مستحق رہیں گے اور جب ان کے دشمن ان کے خلاف آتش جنگ بھڑکائیں گے تو اللہ اس کو بجھا دے گا لیکن اگر خدانخواستہ خود مسلمان ہی دین سے کنارہ کش ہوجائیں اور مغضوب علیہم اور ضالین کے رنگ میں رنگے جائیں اور صرف نام کے مسلمان رہ جائیں تو ایسے ناموں کے مسلمانوں سے خدا کا وعدہ نہیں۔ وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ آیت۔
Top