Ahsan-ul-Bayan - Maryam : 57
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی (جمع) فِيْ جَنّٰتٍ : باغات میں وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں (عیش کر رہے) ہوں گے
انعام واکرام مطیعین وآثار ایمان وتقوی درحیات مومنین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” ان المتقین فی جنت وعیون ....... الی ..... مثل ما انکم تنطقون “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں قیامت کا ذکر تھا اور معاندین کے انکار قیامت پر تنبیہ وتہدید تھی اور عذاب خداوندی سے آگاہ کیا گیا تھا تو اب ان آیات میں معاندین ومنکرین کے بالمقابل اہل ایمان وتقوی کے کچھ احوال اور انکی ایمانی زندگی کا رنگ بیان کرتے ہوئے حق تعالیٰ کی طرف سے جن انعامات سے ان کو نوازا جائے گا اس کا اجمالی بیان ہے تو فرمایا جارہا ہے۔ بیشک تقوی والے اللہ کے فضل وانعام سے باغات اور چشموں میں ہوں گے جو چشمے اور نہریں ان کے محلوں کے نیچے سے بہہ رہی ہونگی بڑی فرحت اور خوشنودی کے ساتھ۔ لینے والے ہونگے ان نعمتوں کو جو ان کے رب نے ان کو عطا کیں اور یہ انعامات خدواندی اور اعزاز واکرام اس بناء پر ان کے لئے ہوگا کہ بیشک اس سے پہلے وہ عالم دنیا میں نیکیاں کرنے والے تھے وہ ایسے محسن۔ 1 حاشیہ (محسنین کے ترجمہ میں اختیار کردہ الفاظ سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ صفت احسان بمعنی احسان فی العبادۃ ہے جو اخلاص اور کمال عبادت کا نام ہے اور یہ بھی مراد ہے کہ احسان بمعنی انعام وانفاق فی سبیل اللہ ہو کہ علاوہ زکوٰۃ کے وہ صدقات نافلہ اور انفاق فی سبیل اللہ کی صورت میں لوگوں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اور نیکو کار اور اللہ رب العزت کی محبت اور ذوق عبادت میں مخمور تھے کہ بہت ہی کم رات کے حصہ میں ایسا ہوتا کہ وہ سوتے ہیں اور باوجود عبادت کے اس ذوق وشوق اور انہماک کے وہ اپنے کو خطا وار ہی سمجھتے ہوئے صبح کے وقتوں میں اپنے رب سے معافی ہی مانگتے ہیں اور ان کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ ان مالوں میں حق ہے مانگنے والوں کا اور محتاج وتنگدست لوگوں کا اور خود اپنی رضا و خوشنودی طبع سے مساکین وتنگ دستوں کا ایک حصہ مقرر کر رکھا ہے گویا کہ یہ اہل اللہ اس حصہ مال کو ان کا حق سمجھ کر ادا کررہے ہیں اور یہ خوبیاں اور محاسن خدا پر ایمان اور آخرت پر یقین کی صفت پر مبنی ہیں سو خدا پر ایمان اور آخرت پر یقین کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لئے روئے زمین کی نشانیاں تو بہت ہی عظیم وبلند ہیں، اور خود تمہارے اندر بیشمار دلائل ونشانیاں ہیں جن سے خدا کی قدرت پر کامل ایمان اور آخرت پر یقین حاصل ہوسکتا ہے تو کیا تمہیں یہ نشانیاں نظر نہیں آتی ہیں احسان وانفاق فی سبیل اللہ سے نفس میں ہرگز یہ خطرہ اور وسوسہ پیدا نہ ہونے دیا جائے کہ ہمارے مال میں کمی آجائے گی اور پھر ہم کہاں سے کھائیں گے اور آسمان میں رزق ہے جو تمہارے واسطے لکھ دیا گیا ہے اور وہ تم کو ہر حال میں ملے گا اور وہ ہر نعمت تم کو ملے گی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ صدقہ اور خیرات کی برکات میں سے ہے کہ ایک کا ثواب اور بدلہ دس گنا سے سات سو گناتک ملے گا اور صدقات کی برکت دنیا میں بھی رزق اور مال کو کثیر کرے گی اور آخرت میں بھی اجر وثواب کا مستحق بنائے گی سو قسم ہے آسمان و زمین کے رب کی یہ بات حق اور قطعی ہے جیسا کہ تم بولتے ہو اور تم کو اپنے بولنے میں کوئی شبہ اور شک نہیں اسی طرح اللہ کا وعدہ بھی یقینی اور حق ہے اس میں بھی ہرگز کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ اہل ایمان وتقوی کے خصوصی اوصاف : ان آیات میں اہل ایمان وتقوی کے خصوصی احوال واوصاف بیان فرماتے گئے جو انکے واسطے بارگاہ خداوندی میں اعزاز واکرام کا باعث ہیں اس پہلے بیان کردہ گروہ کے برعکس جو اپنی نافرمانی اور سرکشی کے باعث خدا کے قہر وغضب اور عذاب کا مستحق بنا تو پہلی چیز تو یہ ذکر فرمائی گئی کہ وہ باغات اور چشموں میں ہوں گے جو ان کے سکون و راحت کی دلیل ہے دوسری چیز یہ فرمائی گئی ہے (آیت) ” اخذین مآ اتاھم “ کہ اللہ کے انعامات مسلسل ان پر ہورہے ہوں گے جو ان کو بڑی خوشی دیتے ہوں گے عطاء الہی کے قبول کرنے میں اس کے بندوں کو کس قدر لذت ہوتی ہے وہ اس سے ظاہر ہے پھر اس کا راز بیان کیا جارہا ہے کہ یہ انعام واکرام ان کے ایثار وسخاوت اور انفاق فی سبیل اللہ اور ذوق عبادت کے باعث ہے کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزاردیں اور بستروں پر پہلو بھی نہ ٹیکیں اور پھر اس درجہ کمال عبادت کے باوجود خشیت خداوندی کا یہ عالم کہ صبح کے اوقات میں استغفار میں مصروف ہوں جیسے کہ قصور وار گڑ گڑا کر معافی مانگتا ہو ان حضرات کو معرفت حق میں بھی درجہ اعلی واکمل حاصل ہے کہ زمین کی نشانیوں اور خود اپنی ذات کی نشانیوں یعنی دلائل آفاق اور دلائل انفس سے اپنے عجز وذلت کو اور خالق کائنات کی عزت و عظمت کو خوب پہچان رہے ہوں پھر یہ کہ سائلین اور تنگ دستوں کو دیکر فخر و غرور یا احسان جتانا تو درکنار ان کا طرز اور انداز زندگی تو یہ بتاتا ہے کہ گویا انہوں نے اپنے اوپر اپنا حق سمجھ رکھا ہے نیز خدا پر اعتماد وبھروسہ اس درجہ کہ نہ تنگی کا خطرہ نہ مستقبل کا فکر بلکہ یہ اعتماد و اعتقاد کہ ہمارا رزق آسمانوں پر اللہ کے پاس محفوظ ہے وہ ہمیں ضرور ملے گا اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ آخرت کا یقین، غرض یہ ہیں وہ اوصاف جو اہل ایمان وتقوی کے ان آیات میں نظر آتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رح) نے (آیت) ” کانوا قلیلا من الیل ما یھجعون “۔ کی تفسیر میں بیان کیا کہ احنف بن قیس ؓ اس آیت کو پڑھ کر فرمایا کرتے ہیں تو اس آیت کا مصداق اپنے کو نہیں پاتا (غایۃ تواضع کے باعث ) عبدالرحمن بن زید بن اسلم ؓ بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے ایک شخص نے میرے والد سے کہا اے ابواسامہ ؓ قرآن کریم نے جس قوم کا ذکر کیا ہے (آیت) ” کانوا قلیلا من الیل “۔ میں وہ صفت ہم اپنے میں نہیں پاتے ہم تو خدا کی قسم تھوڑا حصہ بھی رات کا قیام نہیں کرتے فرماتے ہیں میرے والد نے جواب دیا اچھا ہے اس شخص کے لیے جب اونگھ آئی تو سوگیا اور جب بیدار ہوا تو خدا کا تقوی اختیار کیا۔ حسن بصری (رح) نے احنف بن قیس ؓ سے نقل کیا وہ فرماتے تھے میں اپنے عمل جب اہل جنت کے اعمال سے موازنہ کرتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت بلند مرتبہ لوگ ہیں اور ایک ایسی قوم ہیں کہ ہمارے اعمال انکے درجے تک نہیں پہنچ سکتے لیکن جب اپنے اعمال کا اہل جہنم کے اعمال سے موازنہ کرتے ہیں تو الحمد للہ ہم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائے ہیں اسلئے بس ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ ہم اس گروہ میں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبھم خلطوا عملا صالحا واخر سیئا عسی اللہ ان یتوب علیہم “۔ تو اس وجہ سے امید یہی ہے کہ اللہ رب العزت ہم اپنی رحمت و عنایت کے ساتھ توجہ کرتے ہوئے درگزر فرمائے گا ، غرض یہ اوصاف وہی ہیں جن کا ذکر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ ﷺ کی طرف جوق در جوق رجوع کرنے لگے میں بھی انہی میں سے ایک تھا آپ ﷺ کی مجلس میں جس وقت پہنچا اور آپ کے چہرہ انور پر نظر پڑی تو ایک ہی نظر سے یقین کرلیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا سب سے پہلی چیز جو میں نے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سنی وہ تھی، یایھا الناس اقشوا السلام واطعموا الطعام وفی روایۃ وصلوا الارحام وصلوا باللیل والناس نیام تدخلوا الجنۃ بسلام۔ کہ اے لوگو ! کثرت سے سلام کیا کرو (محتاجوں کو) کھانا کھلایا کرو صلہ رحمی کرو اور رات کے ان حصوں میں نماز پڑھو جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں بس تم جنت میں سلامتی و عافیت کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔ اور حدیث اختصام۔ حاشیہ (جامع ترمذی ابواب صلوۃ اللیل۔ 12) ملاء اعلی میں ہے جب درجات کا سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے یہی کلمات ارشاد فرمائے افشاء السلام واطعام الطعام والصلوۃ باللیل والناس نیام۔ المحروم کی تفسیر : المحروم کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں حافظ ابن کثیر (رح) نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور مجاہد (رح) سے نقل کیا کہ یہ وہ شخص ہے کہ جس کا بیت المال میں کوئی حصہ نہ ہو اور نہ اس کے پاس کسب معاش کا کوئی ذریعہ ہو جس سے وہ اپنا گزارہ کرسکے ام ال مومنین حضرت عائشہ ؓ سے بھی تقریبا یہی مفہوم نقل کیا گیا۔ سعید بن المسیب (رح) اور عطاء (رح) بیان کرتے ہیں محروم وہ شخص ہے جس کا مال ضائع ہوگیا ہو قتادہ (رح) اور زھری (رح) سے منقول ہے اس تنگ دست کو محروم کہتے ہیں جو لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتا ہو اور اس پر اس حدیث کو بیان کیا کرتے۔ لیس المسکین بالطواف الذی تردہ اللقمۃ واللقمتان والتمرۃ والتمرتان ولکن المسکین الذی لایجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ۔ کہ مسکین یہ گشت کرنے والا سائل نہیں ہے کہ اس کو ایک لقمہ دو لقمے دردر بھٹکا رہے ہوں اور ایک کھجور دو کھجوریں ایک در سے دوسرے در پر لیجارہی ہوں مسکین تو درحقیقت وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی سہارا نہ ہو اور نہ اسکی حالت وظاہری طور و طریق سے سمجھا جاتا ہو کہ وہ مسکین محتاج شخص ہے کہ اس کو صدقہ ہی دے دیا جائے۔ (آیت) ” وفی السمآء رزقکم “۔ کی تفسیر میں بعض حضرات نے بیان کیا کہ یہ بارش ہے جس سے اللہ بندوں کا رزق پیدا فرماتا ہے بعض مفسرین نے نقل کیا کہ کسی اعرابی نے یہ آیت سنی (آیت) ” فو رب السمآء والارض “۔ تو گھبرا کر کہنے لگا۔ سبحان اللہ یہ کون ہے جس نے خداوند رب جلیل کو غصہ دلایا یہاں تک کہ اس کو قسم تک کھانے کی نوبت آئی کیا ایسا بھی ہے کوئی کہ خدا کی بات کو سن کر فورا ہی تصدیق نہ کرے حتی کہ وہ قسم کھا کر اپنی بات کو مؤکد وثابت فرمائے۔
Top