Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 148
سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكْنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰى ذَاقُوْا بَاْسَنَا١ؕ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا١ؕ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ
سَيَقُوْلُ : جلد کہیں گے الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا : جن لوگوں نے شرک کیا (مشرک) لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَآ اَشْرَكْنَا : ہم شرک نہ کرتے وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا : اور نہ حَرَّمْنَا : ہم حرام ٹھہراتے مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے حَتّٰي : یہاں تک کہ ذَاقُوْا : انہوں نے چکھا بَاْسَنَا : ہمارا عذاب قُلْ : فرمادیجئے هَلْ : کیا عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ عِلْمٍ : کوئی علم (یقینی بات) فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا : تو اس کو نکالو (ظاہر کرو) ہمارے لیے اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیچھے چلتے ہو اِلَّا :إگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ : اور گر (نہیں) اَنْتُمْ : تم اِلَّا : صرف تَخْرُصُوْنَ : اٹکل چلاتے ہو
جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو (ہم سب شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک کرتے) اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ کر رہے۔ کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے ؟ (اگر ہے) تو اسے ہمارے سامنے نکالو۔ تم محض خیال کے پیچھے چلتے اور اٹکل کے تیر چلاتے ہو۔
مشرکین عرب کا اپنے شرک اور خود ساختہ تحریم کے متعلق ایک شبہ اور اس کا جواب قال اللہ تعالیٰ سیقول الذین اشرکوا لوشاء اللہ ما اشرکنا۔۔۔ الی۔۔۔ وھم بربھم یعدلون (ربط) اہل باطل کا طریقہ یہ ہے کہ جب دلیل اور برہان سے عاجز ہوجاتے ہیں تو ہٹ دھرمی کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اگر خدا کو ہماری ہدایت منظور ہوتی تو ہم ہدایت پاجاتے لہذا حق تعالیٰ اہل باطل کی اس آخری حجت کو نقل کر کے اس کا رد فرماتے ہیں کہ یہ مشرکین عرب عنقریب ایسا کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو از خود حرام کرتے مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے یہ کام خدا کو ناپسند ہوتے تو خدا ہم کو یہ افعال کرنے ہی نہ دیتا پس جب وہ ہمارے اور ہمارے ان افعال کے درمیان حائل نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ہمارے یہ افعال خدا کو پسند ہیں حق تعالیٰ ان کے اس شبہ کو نقل کر کے اس کا جواب دیتے ہیں وہ یہ ہے اسی طرح اگلے کافروں نے ہمارے پیغمبروں کی تکذیب کی اور ان کو جھٹلایا مطلب یہ ہے کہ یہ تکذیب کچھ انہی پر موقوف نہیں ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح انبیاء کی تکذیب کرتے آئے جب پیغمبروں نے اپنی امتوں کو کفر اور شرک سے منع کیا اور یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے کفر اور شرک کو اور ان قبائح کو حرام کیا ہے اور براہین عقلیہ اور نقلیہ سے توحید کو ثابت کردیا تو ان لوگوں نے بھی پہلوں کی طرح یہی کہا کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ان قبائح کے مرتکب ہوتے اور وہ لوگ برابر اپنی اسی تکذیب پر قائم رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ ہمارا یہ کفر اور شرک اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے غرض یہ کہ وہ اپنی اس تکذیب پر جمے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس تکذیب پر ہمارے عذاب کا مزہ چکھا یعنی ان کی اس تکذیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر ہمارا عذاب نازل ہوا اور شرک کی ان کو سزا ملی اور نبی اء کرام کے وعدہ اور پیشین گوئی کے مطابق ان پر عذاب نازل ہوا جس سے انبیاء کرام کے قول کی تصدیق ہوگئی اس وقت ان کی سمجھ میں یہ آیا کہ ہمارے یہ افعال اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں اگر ہمارے یہ افعال خدا کے نزدیک پسندیدہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہم کو عذاب کا مزہ نہ چکھاتا اور نہ ہم کو ہلاک کرتا اور نہ ہمارے مقابلہ میں اپنے رسولوں کو غلبہ دیتا اور نہ پیغمبروں کے ہاتھوں ہم کو ذلیل و خوار کرتا اور ظاہر ہے کہ سزا تو مجرم ہی کو ملتی ہے۔ شاہ عبدالقادر صاحب (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کافروں کا شبہ تھا کہ اگر ہمارے کام اللہ کو پسند نہ ہوتے تو ہم کو کرنے نہ دیتا اس کا جواب فرمایا کہ اگلوں کو گناہ پر کیوں پکڑا معلوم ہوا کہ وہ بھی ایک مدت (تک) ناپسند کام کرتے تھے اور اللہ نہ پکڑتا تھا آخر پکڑا (موضح القرآن) خدا تعالیٰ نے انبیاء کی تکذیب کے بعد فوراً ہی ان پر عذاب نازل نہیں کیا بلکہ ان کو مہلت دی اور باگ ڈھیلی چھوڑ دی کہ شاید سنبھل جائیں آخر جب ان کے جرم کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو ان کو پکڑا اور عذاب کا مزہ چکھا یا کہ عذاب ایسا ہوتا ہے اصل عذاب اور پورا عذاب تو بعد میں ہوگا اس وقت تو صرف آئندہ عذاب کا تھوڑا سا مزہ چکھایا جارہا ہے یہ نادان خدا تعالیٰ کی اس مہلت اور حلم اور برد باری اور چشم پوشی سے یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ ہمارے ان افعال سے راضی ہے اور ہمارا یہ شرک اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے جب ایک عرصہ کے بعد عذاب نازل ہوا اور اس جرم کی سزا ملی تب آنکھیں کھلیں کہ ہم تو مجرم تھے ورنہ اگر ہمارا شرک خدا کو پسند ہوتا تو ہم پر عذاب کیوں نازل کرتا ان نادانوں کی نطر خدا تعالیٰ کے ابتدائی حلم اور بردباری پر تو ہے لیکن جرائم کے آخری نتیجہ پر نظر نہیں کرتے خدا تعالیٰ کی پکڑ اور اس کا عذاب اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ افعال خدا تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں عزاب آنے پر ان کا سمجھا ہوا غلط نکلا اور انبیاء کرام کا فرمایا ہوا حق اور صدق نکلا خدا کے عذاب کو دیکھ کر ان کی سمجھ میں آیا کہ ہمارا یہ قول لوشاء اللہ ما اشرکنا بالکل لغو اور مہمل بلکہ دھوکہ اور فریب نفس تھا بسا اوقات حکومت کسی باغی اور مجرم کو باوجود اطلاع کے اور باوجود قدرت کے کسی مصلحت کی بناء پر پہلے ہی دن پھانسی نہیں دے دیتی اور کچھ روز کیلیے اس کی باگ ڈھیلی چھوڑدیتی ہے اور فورا گرفتاری کے احکام جاری نہیں کرتی تو کیا حکومت کی یہ بربداری اس امر کی دلیل بن سکتی ہے کہ حکومت کی نظر میں یہ فعل جرم ہی نہیں۔ اسی طرح خداوند احکم الحاکمین کافروں کو انبیاء کرام کی تکذیب پر فورا ہی نہ پکڑنا اس امر کی دلیل نہیں کہ خدا کے نزدیک کفر اور شرک کوئی جرم نہیں حکومت کا مجرم کو ڈھیل دینا اور فوری طور پر نہ پکڑنا قانونا یہ کسی فعل کے جواز کی دلیل نہیں ہوسکتی حجت اور دلیل حکومت کا قانون ہے قانون جس چیز کو ممنوع قرار دیگا وہ جرم ہوگا۔ پس اسی طرح سمجھو کہ حجت بالغہ قانون شریعت ہے جس چیز کو قانون شریعت ممنوع اور حرام قرار دے وہی جرم ہے جو اس کے خلاف ورزی کرے گا وہ مجرم ہوگا غرض یہ کہ کسی فعل کے جواز اور عدم جواز کی دلیل قانون شریعت ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی مشیت اور اس کے حلم اور مہلت کو کسی فعل کے جواز کے دلیل نہیں بنایا جاسکتا معلوم ہوا کہ مشرکین کی یہ دلیل بالکل مہمل ہے اس لیے کہ یہ دلیل تو چور اور قزاق بھی پیش کرسکتا ہے کہ اگر میری چوری اور قزاقی خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتی تو خدا مجھے چوری ہی نہ کرنے دیتا بلکہ ہر باطل پرست یہی دلیل پیش کرسکتا ہے۔ اب اس کے بعد مشرکین کے اس قول کا دوسری طرح سے رد کرتے ہیں اے نبی ! آپ ﷺ ان کے جواب میں یہ کہئے کہ کیا تمہارے پاس اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ اللہ تمہارے شرک اور اس تحریم سے راضی ہے اور تمہارے یہ افعال قبیحہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں اگر تمہارے پاس کوئی علم ہے تو تم اس علم کو ہمارے سامنے نکالو اور ظاہر کرو اور پیش کرو علم سے مراد دلیل عقلی اور وحی آسمانی ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس عقلی یا نقلی دلیل اس بات کی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے شرک سے راضی ہے تو اس کو ہمارے سامنے نکالو ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ کیسی دلیل ہے تم اس دعوے میں محض گمان اور خیال پر چل رہے ہو کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں اور تم نرا جھوٹ بولتے ہو کہ اللہ تمہارے شرک اور قبائح سے راضی ہے پس آپ ان سے کہدیجئے کہ اللہ ہی کی دلیل محکم ہے اور اس کی حجت پوری ہے اور تمہاری دلیل لغو اور مہمل ہے اس لیے کہ حجت بالغہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس چیز کا وہ امر کرے وہ پسندیدہ ہے اور جس سے وہ منع کرے وہ بری اور ناپسندیدہ ہے اشیاء کے حسن وقبح کا معیار اس کا امر ونہی ہے جس چیز کا وہ امر صادر کرے وہ چیز خدا کے نزدیک مستحسن اور پسندیدہ ہے اور جس چیز سے وہ نہی یعنی ممانعت کرے وہ قبیح ناپسندیدہ ہے خدا تعالیٰ کی قدرت اور مشیت کو افعال کے حسن وقبح کا معیار نہیں بنایا جاسکتا اس لیے کہ اس کی قدرت کاملہ اور مشیت شاملہ ہر خیر وشر کو شامل اور متناول ہے عالم کی کوئی حرکت اور سکون بغیر اس کے ارادہ اور مشیت کے ممن نہیں اس کی قدرت اور مشیت تمام اضداد کو حاوی ہے سبحان الذی خلق الازواج کلھا الخ عطر اور گلاب، پیخانہ اور پیشاب، طہارت اور نجاست نور اور ظلمت ایمان اور کفر ہدایت اور ضلالت اور سعادت وشقاوت وغیرہ وغیرہ عالم میں جو کچھ بھی رونما ہورہا ہے وہ سب اس کی قدرت اور مشیت سے ہورہا ہے جس کو چاہتا ہے وہ عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے وہ ذلت دیتا ہے پس سمجھ لو کہ وہ فعال لما یرید اگر چاہتا تو تم سب کو ہدایت اور توفیق دے دیتا ہدایت اور ضلالت سب اس کے اختیار میں ہے لیکن اس کی مشیت یہی ہے کہ کچھ لوگ ہدایت پائیں اور کچھ گمراہ ہوں جنت اور جہنم دونوں ہی آباد ہوں وہ سب کا رزاق ہے اس کی دوزخ کے لیے بھی ایندھن درکار ہے کما قال تعالیٰ ولقد ذرانا لجہنم کثیرا من الجن والانس الایۃ۔ اس کی مشیت اور حکمت کا منشا یہ ہے کہ اس کارخانہ عالم میں نور ہدایت بھی ہو اور کفر کی ظلمت بھی ہو پیخانہ اور پیشاب بھی ہو عطر اور گلاب بھی ہو کما قال تعالیٰ ھو الذی خلقکم فمنکم کافر ومنکم مومن درکار خانہ عشق از کفر ناگزیر است دوزخ کر ابسوز دگر بولہب نباشد جس کو وہ ہدایت اور فوفیق دے وہ اس کا فضل و احسان ہے اور جس کو چاہے وہ اپنی ہدایت اور توفیق سے محروم رکھے ہدایت اور توفیق اس کی ملک ہے اور اس کے خزانۂ رحمت کی ایک نعمت ہے اس کو اپنے خزانہ کا اختیار ہے جس کو چاہے اس میں سے کچھ دیدے اور چاہے نہ دے اس مالک مطلق پر نہ کسی کا کوئی حق ہے اور نہ کوئی قرضہ ہے واللہ یختص برحمتہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم جو دیدے وہ اس کا فضل ہے اور جو نہ دے وہ اس کا عدل ہے غرض یہ کہ کفر اور شرک اور اسلام اور توحید بری اور اچھی ہر قسم کی چیزیں اس کی مشیت سے ہوتی ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ اس ملک مقتدر کی سلطنت میں کوئی چیز اور کوئی فعل بغیر اس کی مشیت کے ہوجائے ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کارخانۂ عالم میں جو مختلف اور متضاد چیزوں کا مجموعہ ہے اس میں جو اچھی چیزیں ہیں وہ اس کے نزدیک پسندیدہ ہیں اور بری چیزیں اسے ناپسند ہیں سب کو معلوم ہے کہ اس عالم میں مختلف اعمال اور مختلف افعال اور متصاد عقائد اور نظریات موجود ہیں کیا ان سب کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے نزدیک خوش اخلاقی اور بداخلاقی اور نیکو کاری اور بدکاری اور امانت اور خیانت نکاح اور زنا سب ہی پسندیدہ ہیں ؟ پس ہر کام اس کی مشیت سے ہونا اس کی دلیل نہیں کہ وہ کام اس کے نزدیک پسندیدہ بھی ہے معلوم ہوا کہ اللہ کے ارادہ اور مشیت کو کسی فعل کے جواز اور استحسان کی دلیل بنانا قطعاً غلط ہے حجت بالغہ بعثت رسل اور کتب منزلہ ہیں جن سے اللہ کے احکام اور اوامر اور نواہی کا علم ہوتا ہے اور اگر کفر اور شرک کے مستحسن ہونے کی یہی دلیل ہے کہ اگر خدا چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے تو پھ مسلمانوں سے کیوں مزاحمت کرتے ہو مسلمان بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسلام اور توحید خدا کے نزدیک پسندیدہ نہ ہوتی تو ہم مسلمان اور موحد نہ ہوتے اور نہ ہم تم سے جہاد و قتال کرتے بند کو چاہیے کہ اپنے افعال اور اعمال کے لیے خدا کی مشیت اور ارادہ کو بہانہ نہ بنائے بلکہ اس کے حکم اور قانون کا اتباع کرے حکم اور چیز ہے اور مشیت خداوندی اور چیز ہے خدا کی مشیت کا کسی کو علم نہیں وہ سر مکتوم ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں اور احکام سے بندوں کو آگاہ کیا اور بندوں کو ان کے سمجھنے کے لیے عقل دی اور ان کے کرنے کے لیے قدرت اور اختیار دے دیا بیشک اگر خدا چاہتا تو سب راہ راست پر آجاتے لیکن اللہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنے ارادہ اور اختیار سے راہ راست پر آئیں اس طرح اللہ تعالیٰ کی حجت بندوں پر پوری ہوگئی اور الزام قائم ہوگیا اب تم لغو حیلوں اور بہانوں سے عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتے لہٰذا تم کو چاہئے کہ اپنے کفر اور شرک اور گمراہی کی تاویلوں کو چھوڑو اور اپنی گمراہی اور ڈھٹائی کو خدا تعالیٰ کی ناراضی کی علامت جانو اور سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت اور توفیق کا ارادہ نہیں فرمایا وہ اگر تم سے راضی ہوتا تم کو ہدایت اور توفیق کی دولت سے سرفراز کرتا تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی اس کی دلیل ہے کہ خدا کا ارادہ تمہارے ذلیل کرنے کا ہے اوباشی اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذلیل کرنے کا ارادہ کیا ہے خلاصۂ کلام یہ کہ تمہارا کفر اور شرک اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تم سے راضی ہے بلکہ تمہاری یہ گمراہی اور ہٹ دھرمی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کا ارادہ نہیں فرمایا اولئک الذین لم یرد اللہ ان یطھر قلوبھم اب اس کے بعد ان سے دلیل نقلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اب آپ ﷺ ان سے یہ کہدیجئے کہ تم اپنے گواہوں کو لاؤ جو یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے روبرو ان مذکورہ چیزوں کو حرام کیا ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ ان کا یہ تحریم کا دعویٰ اپنی طرف سے ہے اس کے متعلق ان کے پاس کوئی گواہ نہیں اور واقعی ایسے گواہوں کا دستیاب ہونا قطعاً ناممکن اور محال ہے جو یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے روبرو ان چیزوں کو حرام کیا ہے پس اگر بالفرض والتقدیر کچھ نادان اور جھوٹے اور گستاخ بطور تعصب جھوٹی گواہی دینے پر آمادہ ہوجائیں تو آپ ﷺ ہرگز ان کے ساتھ گواہی نہ دیجئے یعنی ان کی تصدیق نہ کیجئے کیونکہ وہ لوگ اس گواہی میں صراحۃً اور بداھۃً بلاشبہ جھوٹے ہیں وہ کون ہے کہ جس کے روبرو خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ یہ چیزیں نہ چلیے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ہمارے پیغمبروں کی تکذیب کی اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور اپنے پروردگار کے ساتھ دوسروں کو برابر کرتے ہیں یعنی خدا کے ساتھ شریک گردانتے ہیں۔ ان آیات کی ایک دوسری تفسیر : یہاں تک جو کچھ آیات مذکورہ کی تفسیر کی گئی وہ اس تقدیر پر تھی کہ مشرکین کے قول لو شاء اللہ ما اشرکنا سے یہ غرض ہو کہ وہ اس طرح سے اپنے کفریات اور شرکیات کا استحسان اور پسندیدۂ خدا ندی ہونا ثابت کرنا چاہتے تھے جیسا کہ ان کے احوال واقوال سے ظاہر ہوتا ہے اور مفسرین کی ایک جماعت نے اس کو اختیار کیا ہے اور بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ لوشاء اللہ ما اشرکنا کہنے سے مشرکین کی غرض صرف اپنی معذوری اور مجبوری کا بیان کرنا تھا کہ ہم مجبور ہیں اور خدا کی مشیت کے تابع ہیں خدا ہم سے جو چاہتا ہے وہ کراتا ہے ہم بھلا یا برا جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ اس کی مشیت سے کر رہے ہیں پھر مشیت خداوندی کے مقابلہ میں انبیاء ورسل ہم سے کیوں مزاحمت کرتے ہیں اور عذاب الٰہی سے ہم کو کیوں ڈراتے ہیں سو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کا جواب دیا کہ بالکل غلط کہتے پہلے زمانہ کے کافروں نے بھی اپنے پیغمبروں سے یہی کہا تھا یہاں تک کہ اللہ نے ان کے کفرو وشرک کے جرم میں پکڑا اور ہلاک کیا تب معلوم ہوا کہ ان کا یہ دعویٰ کہ ہم مجبور ہیں بالکل غلط ہے اس لیے کہ (اول) تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں کہ بےوجہ اور بےقصور لوگوں کو پکڑے اور ہلاک کرے اللہ تعالیٰ اس سے منزہ اور پاک ہے کہ بندہ کو کسی فعل پر مجبور کرے اور پھر اس پر اس کو سزا دے (دوم) یہ کہ اگر یہ لوگ مجبور ہوتے تو عذاب دیکھ کر توبہ کیوں کرتے اور خدا سے یہ وعدہ کیوں کرتے کہ اگر ہم کو معافی دے دی جائے تو آئندہ ہم کفر اور شرک نہ کریں گے گذشتہ اعمال سے توبہ اور آئندہ کے لیے ان کے ترک کا وعدہ تو اختیاری ہی امور میں ہوسکتا ہے نہ کہ اضطراری امور میں اگر یہ لوگ گذشتہ کفر اور شرک میں مجبور تھے تو پھر یہ کہنا کہ ہم آیندہ کے لیے سچی توبہ کرتے ہیں کہ اب کفر وشرک نہ کریں گے بالکل غلط ہے جس چیز میں انسان مجبور ہو اس کے متعلق وعدہ کرنا بالکل غلط ہے خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کو اختیار عطا کیا ہے کہ اپنے ارادہ اور اختیار سے افعال کو بجا لاسکے اور ان امور میں اللہ کی مشیت بندہ کے ارادہ اور مشیت کے تابع ہوتی ہے بندہ جیسا ارادہ کرتا ہے اللہ کی مشیت بھی اس کے موافق ہوتی ہے مگر بعض مواقع میں اللہ کی مشیت قاہرہ ہوتی ہے کہ بندہ کے ارادہ اور مشیت کے خلاف ہوتی ہے تو ایسی صورت میں بندہ سے عذاب دفع ہوجاتا ہے اس لیے کہ اس صورت میں بندہ جماد لایعقل کی طرح ہوجاتا ہے اور وہ اپنی حرکات و سکنات میں شجر وحجر کی طرح مجبور ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص خود اپنے کو چھت سے گرادیوے یا خود کنویں میں کود پڑے تو یہ شخص مجرم ہے اور قابل ملامت ہے کیونکہ یہ اس کا اختیاری فعل ہے اور اگر کسی کا قدم پھسل جائے اور چھت سے گر جائے یا بےاختیار پیر پھسل جانے سے کنویں میں گر جائے تو وہ معذور ہے کیونکہ اس گرنے میں اس کے ارادہ اور اختیار کو دخل نہ تھا اور اہل عقل کے نزدیک ان دونوں صورتوں میں فرق ظاہر ہے۔ رہی خدا تعالیٰ کی مشیت اور اس کی تقدیر سو اس کا کسی کو بھی علم نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و حکمت سے ہر چیز کو تقدیر میں لکھدیا ہے مگر کسی کو یہ پتہ نہیں دیا کہ اس نے تقدیر میں کیا لکھا ہے البتہ دنیا میں کاروبار کرنے کے لیے اس نے بندہ کو قدرت اور اختیار عطا فرمایا تاکہ بندہ اس خدادا قدرت واختیار سے اپنا کام چلا سکے اور حق اور باطل میں فرق کرنے کے لیے اس کو عقل و شعور عطا کیا اور بندوں کی ہدایت کے لیے پیغمبروں کو بھیجا جن کو وحی اور الہام کی دولت کے علاوہ ایسی عقل کامل عطا فرمائی جو حد اعجاز کو پہنچی ہوئی تھی اور ان کے ذریعہ سے بندوں کو آگاہ کیا کہ کونسی چیز مرضی الٰہی کے مطابق ہے اور کونسی چیز مرضی الٰہی کے خلاف اور حق اور باطل کی راہیں الگ الگ کر کے تم کو بتلا دی گئیں اب ایمان اور کفر اور گلاب اور پیشاب دونوں تمہارے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور تمہاری عقل اور اختیار کی آزمائش ہے کہ تم کس کو اختیار کرتے ہو بس اگر کوئی بد عقل بجائے عرق گلاب کے پیشاب پی جائے اور جواز کے لیے یہ دلیل پیش کرنے لگے کہ اگر خدا چاہتا تو میں پیشاب نہ پیتا میں تو مجبو رہوں خدا نے جو میری تقدیر میں لکھ دیا ہے میں اس کے خلاف کیسے کرسکتا ہوں کوئی ادنی عقل والا بھی اس دلیل کو قبول نہ کرے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی حجت بالغہ موجود ہے یعنی خدادا قدرت واختیار اور خدادا عقل و شعور موجود ہے اور سامنے ہے اور اس کی مشیت اور تقدیر امر غیبی ہے اس کا کسی کو بھی علم نہیں اور مزید برآن انبیاء کرام کی نصیحتیں اور ہدایتیں کہ یہ چیز پسندیدہ ہے اور یہ چیز ناپسندیدہ ہے اس کے لیے مشعل راہ ہیں اس پر اللہ کی حجت پوری ہوچکی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی بد عقل گلاب کو چھوڑ کر پیشاب پینے لگے تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور توفیق سے محروم ہے اسی طرح کسی کفر اور گمراہی کو اختیار کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اس کی قسمت میں ہدایت نہیں رکھی گئی۔ خلاصۂ جواب یہ ہے کہ بیشک ہر چیز خدا ہی کی مشیت سے ہوتی ہے مگر اس کی تقدیر اور مشیت کا کسی کو علم نہیں البتہ خدا تعالیٰ نے بندہ کو حق اور باطل میں فرق کرنے کے لیے عقل اور شعور عطا کیا ہے اور فعل اور عمل کے لیے قدرت اور اختیار بھی دیا ہے جسے وہ اپنے موقع اور محل پر استعمال کرسکے۔ پس جو شخص اس خدادا عقل و شعور، قدرت اور اختیار کو اپنے موقع اور محل پر استعمال نہ کرے اس پر اللہ تعالیٰ کا الزام اور حجت پوری ہے کہ باوجود عقل اور شعور کے اور باوجود قدرت اور اختیار کے اور باوجود انبیاء کرام کی نصیحتوں اور ہدایتوں کے حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف کیوں دوڑا جارہا ہے (دیکھو تفسیر کبیر ص 171 ج 4) فائدہ :۔ طاعت و معصیت کی حقیقت طاعت اور معصیت یہ دونوں لفظ آپس میں ایک دوسرے کی نقیض ہیں طاعت کے لغوی معنی متابعت اور پیروی کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں حکم خداوندی کی تعمیل اور پیروی کا نام طاعت ہے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مشیت ازلیہ کی موافقت کا نام طاعت نہیں مشرکین نے یہ سمجھا کہ مشیت خداوندی کی موافقت کا نام طاعت ہے اور یہ غلط ہے تعمیل حکم اور امتثال امر کا نام طاعت ہے اور یہ غلط ہے تعمیل حکم اور امتثال امر کا نام طاعت ہ ارادۂ خداوندی اور مشیت ازلیہ کی موافقت کا نام طاعت نہیں اللہ کے ارادہ اور مشیت کا کسی کو علم نہیں اور حکم خداوندی کی مخالفت کا نام معصیت ہے یا یوں کہو کہ دائرہ طاعت سے خروج کا نام معصیت ہے۔ (ہذا کلہٗ ، توضیح ما قالہ الاستاذ الامام عبدالقاہر البغدادی (رح) تعالیٰ فی کتابہ اصول الدین ص 251) (حاشیہ : قال الاستاذ عبدالقاھر البغدادی (رح) تعالیٰ قال اصحابنا ان الطاعۃ ھی المتابعۃ واختلف المتکلمون فی حقیق تھا فقالت القدریۃ انھا موافقۃ الارادۃ وان کل من فعل مراد غیرہ فقد اطاعہ والزم الجبائی علی ھذا کون الباری تعالیٰ مطیعا لعبدہ اذا فعل مرادہ فالتزم ذلک وکفرتہ الامۃ وقال اصحابنا ان الطاعۃ موافقۃ الامر فکل من امتثل امر غیرہ صار مطیعا لہ وسؤالنا ربنا لیس بامر فلذلک لم یکن مطیعا لنا وان اجابنا فیہا سالناہ وللعصیان فی اللغۃ معنیان احدھما معنی الذنب والخروج عن الطاعۃ الواجبۃ والثانی الامتناع عن الشیئ والمعصیۃ نقیض الطاعۃ فکما ان الطاعۃ موافقۃ الامر کذلک المعصیۃ مخالفۃ الامر انتھی کلامہ فی کتاب اصول الدین ص 25)
Top