Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو جو ایمان نہ لائے دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔
بیان اجمالی حال و مآل امم سابقہ برائے عبرت ونصیحت امم حاضرہ قال اللہ تعالیٰ وما ارسلنا فی قریۃ من نبی۔۔۔ الی۔۔۔ وان وجدنا اکثرھم لفسقین (ربط) گزشتہ رکوعات میں امم سابقہ کے واقعات قرے تفصیل کے ساتھ بیان کیے اب ان کا اجمالی خلاصہ بیان کرتے ہیں تاکہ موجودہ زمانے کے لوگوں کے لیے عبرت اور نصیحت کا ذریعہ بنیں کہ اے لگو تمہیں ان واقعات سے انبیاء کرام کی تکذیب کے برے نتائج کا علم ہوگیا مگر یہ یاد رکھو کہ یہ سزائیں ان کو دفعۃً نہیں دی گئیں بلکہ تنبیہات کے بعد دی گئیں کیونکہ ہماری عادت یہ ہے کہ لوگ جب انبیاء کی تکذیب کرتے ہیں تو ہم شروع میں تنبیہ کے طور پر بیماری اور قحط اور مختلف قسم کی سختیوں اور تکلیفوں کو ان پر مسلط کرتے ہیں تاکہ یہ مکذبین اپنی شرارتوں سے باز آجائیں اور بارگاہ الٰہی کی طرف جھکیں اور جب ان کی سخت طبیعتیں تنبیہات کا اثر قبول نہیں کرتیں تو ہم ان سے مصیبتوں اور سختیوں کو ہٹا کر ان پر اپنی نعمتوں اور احسانات کے دروازے کھول دیتے ہیں کہ شاید ان احسانات سے شرما کر ہماری طرف متوجہ ہوں اور سمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہماری مصیبتوں کو دور کیا اور ہم کو اپنی نعمتوں سے نوازا اور خوشحالی بخشی مگر وہ عیش و عشرت میں اس قدر مست ہوجاتے ہیں کہ تضرع اور زاری کی طرف آنے کے بجائے اپنے حال کو یوں تاویل کرنے لگتے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں زمانہ کی گردش ہے کبھی یوں ہے اور کبھی ووں اور یہ نہ سمجھے کہ یہ سب اللہ کی آزمائش ہے زمانہ کے اتفاقات نہیں۔ پس جب لوگ غفلت کی اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت ناگہانی طور پر خدا کا عذاب غافلوں کو بحالت غفلت کو پکڑ لیتا ہے جبکہ وہ عیش و عشرت میں غافل اور مست ہوتے ہیں۔ پس اے گروہ قریش تم کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ امم سابقہ کی طرح ناگہانی عذاب الٰہی تم کو نہ آ دبائے یہ نہ سمجھنا کہ عذاب الٰہی صرف انبیاء سابقین کے منکرین پر ہوا تھا تم پر بھی ان کار وتکذیب کے بعد اسی قسم کا عذاب آسکتا ہے۔ ہوشیار ہوجاؤ۔ ان واقعات کے ذکر کرنے سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ تم عبرت پکڑو۔ یا یوں کہ کہ گزشتہ رکوعات میں امم سابقہ کا حال اور ان کی تکذیب کا عبرت ناک مآل ذکر کیا اب یہ بتلاتے ہیں کہ منکرین اور مکذبین کے بارے میں سنت الٰہیہ اور طریقۂ خداوندی یہ ہے کہ اول ان کو تنگی اور سختی میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ عبرت پکڑیں اور ہوش میں آجائیں اور پھر ان پر رزق کے دروازے کھولتے ہیں تاکہ شکر کریں اور اطاعت کی طرف مائل ہوں لیکن جب ان پر کسی طرح اثر نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کو یکایک پکڑ لیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ امم سابقہ کو فقط تنبیہ قولی کے بعد ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ فعلی اور عملی تنبیہات کے بعد بھی جب وہ متنبہ نہ ہوئے تب ہلاک کئے گئے چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بستی میں کوئی نبی اور اس بستی والوں نے اس نبی کو جھٹلایا مگر یہ کہ ہم نے اس بستی کو بالکلیہ تباہ اور برباد کرنے سے پہلے اس کے باشندوں کو بطور تنبیہ تنگی اور سختی میں یعنی فقر اور تنگدستی میں اور رنج اور بیماری میں مبتلا کیا کہ شاید وہ اس سے ڈر کر ہمارے آگے گڑ گڑائیں اور ہمارے نبی کی نصیحت اور دعوت کو قبول کریں تاکہ ان سے یہ بلا دفع کردی جائے پھر جب وہ ان بلاؤں اور مصیبتوں سے بھی متنبہ نہ ہوئے اور اسی طرح اپنے تکبر اور تکذیب پر قائم رہے تو ہم نے بطور استدراج اور بطریق مکر ان پر مال و دولت کے دروازے کھولدئیے اور بجائے شدت اور محنت کے ان کو صحت اور سلامتی اور راحت دے دی یہاں تک کہ وہ لوگ مال اور اولاد میں بہت زیادہ ہوگئے اور اپنی گزشتہ تنگی اور سختی کو بالکل بھول گئے اور اپنی غفلت اور سخت دلی کے باعث یہ کہنے لگے کہ اسی طرح کی تکلیف اور راحت ہمارے بڑوں کو پہنچتی رہی ہے یعنی ہم جس تکلیف میں مبتلا تھے وہ کچھ ہم پر خدا کا عتاب نہ تھا اور اب جو ہم سے وہ تکلیف جاتی رہی اور اس کے بدلہ ہم کو راحت ملی وہ ہم پر خدا کا کچھ انعام نہیں یہ سب زمانہ کے اتفاقات اور انقلابات ہیں قدیم زمانے سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ آدمی کو کبھی راحت پہنچتی ہے اور کبھی تکلیف اس میں ایمان اور کفر کو کوئی دخل نہیں جیسے موسم کبھی اچھا آتا ہے اور کبھی خراب اس میں اچھے اور برے اعمال کو کوئی دخل نہیں اور یہ نہ سمجھے کہ راحت اور مصیبت سب اللہ کے حکم سے ہے پس جب یہ لوگ ان ضراء اور سراء کے عملی تنبیہات کے بعد بھی اپنے تمرد اور تکبر پر قائم اور مضبوط رہے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑا یعنی ایسی حالت میں ان کو پکڑا کہ ان کو کسی قسم کا خوف نہ تھا اور وہ جانتے نہ تھے کہ ان پر عذاب نازل ہوگا ان کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ ہم یکایک اس عیش و عشرت سے محروم ہوجائیں گے اور یہ حسرت اور ارمان لے کر مرے کہ کاش اگر نزول عذاب کے کچھ آثار پہلے نظر آجاتے تو شاید توبہ کرلیتے اور یہ ساری بلا کفر اور تکذیب کی وجہ سے آئی اگر ان بستیوں کے لوگ پیغمبروں پر ایمان لے آتے اور ان کی تکذیب اور مخالفت سے پرہیز کرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے ہمارے پیغمبروں کو جھٹلایا اس لیے ہم نے ان پر قہر اور عذاب کے دروازے کھلدئیے پس ہم نے ان کو ان کے اعمال خبیثہ کی سزا میں پکڑ لیا اور عذاب مہلک سے ان کو ہلاک اور برباد کردیا کیا ان عبرتناک قصوں کے سننے کے بعد پھر بھی ان موجودہ بستیوں کے رہنے والے جو نبی اکرم ﷺ کے دور نبوت میں موجود ہیں اور عیش و عشرت میں مست ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں پس کیا یہ موجودہ بستیوں والے اس بات سے نڈر اور بےخوف ہوگئے ہیں کہ سابقین کی طرح رات کے وقت ان پر ہمارا عذاب آئے اور یہ سوتے ہوئے ہوں یعنی غفلت کے وقت میں عذاب کا شب خون ان پر آئے کیا یہ بستیوں والے اس بات سے بےخوف ہوگئے کہ دن چڑھے ان پر ہمارا عذاب آجائے اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔ خدا سے غفلت برتی۔ غفلت کی حالت میں پکڑے گئے۔ کیا یہ تکذیب کرنے والے خدا کے داؤ اور مکر سے بےخوف ہوگئے ہیں۔ عیش و عشرت اور خواب استراحت میں یکایک پکڑ لینا کہ جہاں سے کسی مصیبت کا وہم و گمان بھی نہ ہو یہ اللہ کا مکر یعنی اس کا داؤ ہے۔ پس نہیں بےخوف ہوتے مکر الٰہی سے مگر وہی لوگ جو زیاں کار ہیں اور نقصان کے مارے ہوئے ہیں کیا واضح نہیں ہوا ان لوگوں کے لیے کہ جو زمین کے پہلے باشندوں کے ہلاک ہونے کے بعد زمین وارث ہورہے ہیں۔ کہ اگر ہم چاہیں تو پہلے ہلاک شدہ لوگوں کی طرح ان کو بھی ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیں اور پہلوں کی طرح ان کو بھی کفر کا مزہ چکھا دیں اور اصل بات یہ ہے کہ ہماری سنت یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں جو حق سے دیدہ و دانستہ اعراض کرتے ہیں پس ایسے لوگ حق کو سنتے ہی نہیں چہ جائیکہ اس کی طرف توجہ اور التفات کریں اگر دل کھلا ہوا ہوتا تو حق کو سنتا اور سمجھتا اور جب دل پر مہر لگ گئی تو گوش دل کیا سنے اور کیا سمجھے۔ کلام حق کا سننا اصل کام دل کے کان کا ہے اس آب وگل کے کان کا کام نہیں۔ ایں سخن از گوش دل باید شنود گوش گل ایں جاندارد، ہیچ سود گوش سر باجملہ حیوان ہمدم است گوش سر مخصوص نسل آدم است گوش سر چوں جانب گویندہ است گوش سر سہل است گر آگندہ است اب آئندہ آیات میں جناب رسالت مآب ﷺ کی تسلی کے فرماتے ہیں جو تمام گزشتہ مضمون کا خلاصہ ہے یہ مذکورہ بستیاں یعنی قوم نوح اور عاد وثمود اور قوم لوط اور قوم شعیب کی بستیاں جن کا اوپر ذکر ہوا جیسے احقاف اور حجر اور مؤتفکات وغیرہ ان کی بعض خبریں ہم تجھ سے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مکذبین کا اخیر انجام ہلاکت ہے اور تحقیق ان کے پاس ان کے رسول اپنی نبوت و رسالت کی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے پس نہ تھے ایسے کہ ایمان لے آتے اس بات پر جس کو وہ پہلی ہی بار جھٹلا چکے تھے اللہ تعالیٰ یونہی کافروں کے دل پر مہر کردیتا ہے جسے نمونہ دیکھنا ہو وہ ان بدبختوں کو دیکھ لے اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی وفاء اور نباہ نہیں پائی عہد سے مراد یا تو عہد الست ہے یا وہ عہد مراد ہے کہ جو مصیبت آنے کے وقت یہ لوگ کرلیا کرتے تھے۔ کہ اگر ہم نجات پائیں تو ایمان لے آئیں گے اور تحقیق ہم نے ان میں سے اکثر کو بد عہد اور بدکردار پایا جب مصیبت ٹلی تو سب عہد و پیمان ختم ہوا اور جیسے پہلے تھے ویسے ہی ہوگئے الغرض ہمیشہ سے کافروں کا یہ طریقہ اور شیوہ ہے پس آپ ان کی تکذیب اور اعراض سے اور ان کی عہد شکنی سے غم نہ کریں۔ پھر بھیجا ہم نے ان کے پیچھے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں پاس پھر زبردستی کی ان کے سامنے سو دیکھ ! آخر کیسا ہوا حال بگاڑنے والوں کا اور کہا موسیٰ نے اے فرعون میں بھیجا ہوں جہان کے صاحب کا۔ قائم ہوں اس پر کہ نہ کہوں اللہ کی طرف سے مگر جو سچ ہے کہ لایا ہوں تم پاس نشانی تمہارے رب کی سو رخصت دے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بولا اگر تو آیا ہے کچھ نشان لے کر تو وہ لا اگر تو سچا ہے ل تب ڈالا اپنا عصا تو اسی وقت وہ ہوا اژدہا صریح اور نکالا اپنا ہاتھ تو اسی وقت وہ سفید نظر آیا دیکھتوں کو قصۂ ششم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) با سبطیان وقبطیان (ربط) گزشتہ رکوعات میں پانچ پیغمبروں کے قصے بیان ہوئے اور ان کے بعد بطور نتیجہ اور خلاصہ یہ بتلایا کہ مکذبین کے متعلق سنت الٰہی کیا ہے اب ان پانچ قصوں کے بعد چھٹا قصہ موسیٰ (علیہ السلام) کا بیان کرتے ہیں جو ان سب انبیاء کے بعد تشریف لائے یہ قصہ بظاہر ایک قصہ ہے مگر اپنے اندر بہت سے قصوں کو لیے ہوئے ہے اور یہ قصہ بہ نسبت اور قصوں کے زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے چناچہ اس مقام پر بھی یہ قصہ بہ نسبت اور قصوں کے زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے چناچہ اس مقام پر یہ قصہ نصف پارہ تک چلا گیا ہے اور صرف اس مقام پر نہیں قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر اکثر وبیشتر آیا ہے اور یہ قصہ متعدد مطالب اور مختلف مقاصد کے بیان کرنے کے لیے قرآن کریم میں بہت جگہ ایا ہے اور تکرار اور تفصیل کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات انبیاء سابقین کے معجزات سے زیادہ قوی ہیں اور نہایت عظیم اور عجیب ہیں جن سے سحر اور معجزہ کا فرق خوب واضح ہوجاتا ہے اور فرعون اور فرعونیوں کا ظلم وعناد اور تکبر بھی شدید ہے جس سے ظلم کے انجام بد کا بخوبی علم ہوجاتا ہے اور بنی اسرائیل کی جہالتیں بھی عجیب ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کے سامنے لب کشائی جہالت اور ھماقت ہے اس لیے یہ امور اس قصہ کی تکریر اور تفصیل کو مقتضی ہوئے۔ نیز موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ آنحضرت ﷺ کے قصہ سے بہت مشابہت رکھتا ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی برکت سے بنی اسرائیل کو دین ودنیا کی عزتیں ملیں اور آپ کے دشمن ذلیل و خوار ہوئے اسی طرح آنحضرت ﷺ کی برکت سے امت محمدیہ کو دین ودنیا کی عزتیں ملیں اور داوء د اور سلیمان (علیہما السلام) جیسی بادشاہت ملی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب نامہ چند واسطوں سے یعقوب (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے آپ کے والد کا نام عمران تھا قبطی زبان میں مو کے معنی ماء یعنی پانی کے ہیں اور اس کے معنی شجر یعنی درخت کے ہیں چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) پانی اور درخت کے رمیان پائے گئے ہیں اس لیے ان کا نام موسیٰ ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس ال کی ہوئی اور ان کے اور یوسف (علیہ السلام) کے درمیان چار سو سال کا فاصلہ تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) سے سات سو سال بعد ہوئے اور فرعون اس بادشاہ کا نام نہ تھا بلکہ اس زمانہ میں ہر شاہ مصر کا یہ لقب تھا جیسا کہ بادشاہان فارس کا لقب کسری اور شاہان روم کا لقب قیصر تھا اس طرح اس بادشاہ کا لقب تو فرعون تھا اور اصل نام قابوس تھا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا یہ قوم قبط کا بادشاہ تھا جو مصر میں رہتی تھی کہا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ تین سو سال تک زندہ رہا واللہ اعلم۔ فرعون مصر کا بادشاہ تھا ربوبیت اور الوہیت کا مدعی تھا اور کہتا تھا کہ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا خدا اور معبود نہیں جانتا جب اس نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اہل مصر نے اس کو قبول کیا مگر بنی اسرائیل نے اس کو قبول نہ کیا فرعون بنی اسرائیل سے یہ کہتا کہ تمہارا باپ یوسف تھا جو میرے آباؤ اجداد کا زرخرید غلام تھا اور تم سب میرے غلام زادے ہو یہ کہہ کر بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا اور ان سے ذلت آمیز خدمتیں لینے لگا۔ فرعون بنی اسرائیل سے یہ کہتا کہ تمہارا باپ یوسف تھا جو میرے آباء و اجداد کا زر خرید غلام تھا اور تم سب میرے غلام زادے ہو یہ کہہ کر بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنالیا اور ان سے ذلت آمیز خدمتیں لینے لگا۔ فرعون اپنی ظاہری شان و شوکت پر مغرور تھا حق تعالیٰ نے اس کی طرف ایک نبی کو مبعوث کیا جو بالکل درویش تھا اور ظاہری شان و شوکت سے بالکل خالی تھا صوف کا عمامہ اور صوف کا جبہ اس کا لباس تھا جیسا کہ امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں کئی جگہ ذکر فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ ان کو ایک عصا عطاء فرمایا جس سے فرعون جیسے سراپا عصیان و طغیان کی تنبیہ مقصود تھی اور تاکہ جب معجزہ عصا ظاہر ہو تو متکبرین اور مغرورین سمجھ جائیں کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا فرستادہ ہے جس کے ہاتھ سے ایسے افعال کا ظہور ہوتا ہے جو طاقت بشریہ کی حدود سے باہر ہیں یہ دنیا دار امتحان ہے اور حق اور باطل کے معرکہ کا میدان ہے اس لیے من جانب اللہ تعالیٰ اکثر وبیشتر نبوت و رسالت کا ظہور برنگ فقیری و درویشی ہوتا ہے اور ظاہری اور مادی شان و شوکت باطل کی جانب ہوتی ہے مقصود امتحان ہوتا ہے کہ کون ظاہری اور مادی شان و شوکت دیکھ کر باطل کی جانب ہوتی ہے مقصود امتحان ہوتا ہے کہ کون ظاہری اور مادی شان و شوکت ہوتی تو پھر فرعون کو کون پوچھتا۔
Top