Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ
: اور
مَآ اَرْسَلْنَا
: بھیجا ہم نے
فِيْ
: میں
قَرْيَةٍ
: کسی بستی
مِّنْ نَّبِيٍّ
: کوئی نبی
اِلَّآ
: مگر
اَخَذْنَآ
: ہم نے پکڑا
اَهْلَهَا
: وہاں کے لوگ
بِالْبَاْسَآءِ
: سختی میں
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَضَّرَّعُوْنَ
: عاجزی کریں
اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو جو ایمان نہ لائے دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔
بیان اجمالی حال و مآل امم سابقہ برائے عبرت ونصیحت امم حاضرہ قال اللہ تعالیٰ وما ارسلنا فی قریۃ من نبی۔۔۔ الی۔۔۔ وان وجدنا اکثرھم لفسقین (ربط) گزشتہ رکوعات میں امم سابقہ کے واقعات قرے تفصیل کے ساتھ بیان کیے اب ان کا اجمالی خلاصہ بیان کرتے ہیں تاکہ موجودہ زمانے کے لوگوں کے لیے عبرت اور نصیحت کا ذریعہ بنیں کہ اے لگو تمہیں ان واقعات سے انبیاء کرام کی تکذیب کے برے نتائج کا علم ہوگیا مگر یہ یاد رکھو کہ یہ سزائیں ان کو دفعۃً نہیں دی گئیں بلکہ تنبیہات کے بعد دی گئیں کیونکہ ہماری عادت یہ ہے کہ لوگ جب انبیاء کی تکذیب کرتے ہیں تو ہم شروع میں تنبیہ کے طور پر بیماری اور قحط اور مختلف قسم کی سختیوں اور تکلیفوں کو ان پر مسلط کرتے ہیں تاکہ یہ مکذبین اپنی شرارتوں سے باز آجائیں اور بارگاہ الٰہی کی طرف جھکیں اور جب ان کی سخت طبیعتیں تنبیہات کا اثر قبول نہیں کرتیں تو ہم ان سے مصیبتوں اور سختیوں کو ہٹا کر ان پر اپنی نعمتوں اور احسانات کے دروازے کھول دیتے ہیں کہ شاید ان احسانات سے شرما کر ہماری طرف متوجہ ہوں اور سمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہماری مصیبتوں کو دور کیا اور ہم کو اپنی نعمتوں سے نوازا اور خوشحالی بخشی مگر وہ عیش و عشرت میں اس قدر مست ہوجاتے ہیں کہ تضرع اور زاری کی طرف آنے کے بجائے اپنے حال کو یوں تاویل کرنے لگتے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں زمانہ کی گردش ہے کبھی یوں ہے اور کبھی ووں اور یہ نہ سمجھے کہ یہ سب اللہ کی آزمائش ہے زمانہ کے اتفاقات نہیں۔ پس جب لوگ غفلت کی اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت ناگہانی طور پر خدا کا عذاب غافلوں کو بحالت غفلت کو پکڑ لیتا ہے جبکہ وہ عیش و عشرت میں غافل اور مست ہوتے ہیں۔ پس اے گروہ قریش تم کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ امم سابقہ کی طرح ناگہانی عذاب الٰہی تم کو نہ آ دبائے یہ نہ سمجھنا کہ عذاب الٰہی صرف انبیاء سابقین کے منکرین پر ہوا تھا تم پر بھی ان کار وتکذیب کے بعد اسی قسم کا عذاب آسکتا ہے۔ ہوشیار ہوجاؤ۔ ان واقعات کے ذکر کرنے سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ تم عبرت پکڑو۔ یا یوں کہ کہ گزشتہ رکوعات میں امم سابقہ کا حال اور ان کی تکذیب کا عبرت ناک مآل ذکر کیا اب یہ بتلاتے ہیں کہ منکرین اور مکذبین کے بارے میں سنت الٰہیہ اور طریقۂ خداوندی یہ ہے کہ اول ان کو تنگی اور سختی میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ عبرت پکڑیں اور ہوش میں آجائیں اور پھر ان پر رزق کے دروازے کھولتے ہیں تاکہ شکر کریں اور اطاعت کی طرف مائل ہوں لیکن جب ان پر کسی طرح اثر نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کو یکایک پکڑ لیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ امم سابقہ کو فقط تنبیہ قولی کے بعد ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ فعلی اور عملی تنبیہات کے بعد بھی جب وہ متنبہ نہ ہوئے تب ہلاک کئے گئے چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بستی میں کوئی نبی اور اس بستی والوں نے اس نبی کو جھٹلایا مگر یہ کہ ہم نے اس بستی کو بالکلیہ تباہ اور برباد کرنے سے پہلے اس کے باشندوں کو بطور تنبیہ تنگی اور سختی میں یعنی فقر اور تنگدستی میں اور رنج اور بیماری میں مبتلا کیا کہ شاید وہ اس سے ڈر کر ہمارے آگے گڑ گڑائیں اور ہمارے نبی کی نصیحت اور دعوت کو قبول کریں تاکہ ان سے یہ بلا دفع کردی جائے پھر جب وہ ان بلاؤں اور مصیبتوں سے بھی متنبہ نہ ہوئے اور اسی طرح اپنے تکبر اور تکذیب پر قائم رہے تو ہم نے بطور استدراج اور بطریق مکر ان پر مال و دولت کے دروازے کھولدئیے اور بجائے شدت اور محنت کے ان کو صحت اور سلامتی اور راحت دے دی یہاں تک کہ وہ لوگ مال اور اولاد میں بہت زیادہ ہوگئے اور اپنی گزشتہ تنگی اور سختی کو بالکل بھول گئے اور اپنی غفلت اور سخت دلی کے باعث یہ کہنے لگے کہ اسی طرح کی تکلیف اور راحت ہمارے بڑوں کو پہنچتی رہی ہے یعنی ہم جس تکلیف میں مبتلا تھے وہ کچھ ہم پر خدا کا عتاب نہ تھا اور اب جو ہم سے وہ تکلیف جاتی رہی اور اس کے بدلہ ہم کو راحت ملی وہ ہم پر خدا کا کچھ انعام نہیں یہ سب زمانہ کے اتفاقات اور انقلابات ہیں قدیم زمانے سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ آدمی کو کبھی راحت پہنچتی ہے اور کبھی تکلیف اس میں ایمان اور کفر کو کوئی دخل نہیں جیسے موسم کبھی اچھا آتا ہے اور کبھی خراب اس میں اچھے اور برے اعمال کو کوئی دخل نہیں اور یہ نہ سمجھے کہ راحت اور مصیبت سب اللہ کے حکم سے ہے پس جب یہ لوگ ان ضراء اور سراء کے عملی تنبیہات کے بعد بھی اپنے تمرد اور تکبر پر قائم اور مضبوط رہے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑا یعنی ایسی حالت میں ان کو پکڑا کہ ان کو کسی قسم کا خوف نہ تھا اور وہ جانتے نہ تھے کہ ان پر عذاب نازل ہوگا ان کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ ہم یکایک اس عیش و عشرت سے محروم ہوجائیں گے اور یہ حسرت اور ارمان لے کر مرے کہ کاش اگر نزول عذاب کے کچھ آثار پہلے نظر آجاتے تو شاید توبہ کرلیتے اور یہ ساری بلا کفر اور تکذیب کی وجہ سے آئی اگر ان بستیوں کے لوگ پیغمبروں پر ایمان لے آتے اور ان کی تکذیب اور مخالفت سے پرہیز کرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے ہمارے پیغمبروں کو جھٹلایا اس لیے ہم نے ان پر قہر اور عذاب کے دروازے کھلدئیے پس ہم نے ان کو ان کے اعمال خبیثہ کی سزا میں پکڑ لیا اور عذاب مہلک سے ان کو ہلاک اور برباد کردیا کیا ان عبرتناک قصوں کے سننے کے بعد پھر بھی ان موجودہ بستیوں کے رہنے والے جو نبی اکرم ﷺ کے دور نبوت میں موجود ہیں اور عیش و عشرت میں مست ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں پس کیا یہ موجودہ بستیوں والے اس بات سے نڈر اور بےخوف ہوگئے ہیں کہ سابقین کی طرح رات کے وقت ان پر ہمارا عذاب آئے اور یہ سوتے ہوئے ہوں یعنی غفلت کے وقت میں عذاب کا شب خون ان پر آئے کیا یہ بستیوں والے اس بات سے بےخوف ہوگئے کہ دن چڑھے ان پر ہمارا عذاب آجائے اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔ خدا سے غفلت برتی۔ غفلت کی حالت میں پکڑے گئے۔ کیا یہ تکذیب کرنے والے خدا کے داؤ اور مکر سے بےخوف ہوگئے ہیں۔ عیش و عشرت اور خواب استراحت میں یکایک پکڑ لینا کہ جہاں سے کسی مصیبت کا وہم و گمان بھی نہ ہو یہ اللہ کا مکر یعنی اس کا داؤ ہے۔ پس نہیں بےخوف ہوتے مکر الٰہی سے مگر وہی لوگ جو زیاں کار ہیں اور نقصان کے مارے ہوئے ہیں کیا واضح نہیں ہوا ان لوگوں کے لیے کہ جو زمین کے پہلے باشندوں کے ہلاک ہونے کے بعد زمین وارث ہورہے ہیں۔ کہ اگر ہم چاہیں تو پہلے ہلاک شدہ لوگوں کی طرح ان کو بھی ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیں اور پہلوں کی طرح ان کو بھی کفر کا مزہ چکھا دیں اور اصل بات یہ ہے کہ ہماری سنت یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں جو حق سے دیدہ و دانستہ اعراض کرتے ہیں پس ایسے لوگ حق کو سنتے ہی نہیں چہ جائیکہ اس کی طرف توجہ اور التفات کریں اگر دل کھلا ہوا ہوتا تو حق کو سنتا اور سمجھتا اور جب دل پر مہر لگ گئی تو گوش دل کیا سنے اور کیا سمجھے۔ کلام حق کا سننا اصل کام دل کے کان کا ہے اس آب وگل کے کان کا کام نہیں۔ ایں سخن از گوش دل باید شنود گوش گل ایں جاندارد، ہیچ سود گوش سر باجملہ حیوان ہمدم است گوش سر مخصوص نسل آدم است گوش سر چوں جانب گویندہ است گوش سر سہل است گر آگندہ است اب آئندہ آیات میں جناب رسالت مآب ﷺ کی تسلی کے فرماتے ہیں جو تمام گزشتہ مضمون کا خلاصہ ہے یہ مذکورہ بستیاں یعنی قوم نوح اور عاد وثمود اور قوم لوط اور قوم شعیب کی بستیاں جن کا اوپر ذکر ہوا جیسے احقاف اور حجر اور مؤتفکات وغیرہ ان کی بعض خبریں ہم تجھ سے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مکذبین کا اخیر انجام ہلاکت ہے اور تحقیق ان کے پاس ان کے رسول اپنی نبوت و رسالت کی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے پس نہ تھے ایسے کہ ایمان لے آتے اس بات پر جس کو وہ پہلی ہی بار جھٹلا چکے تھے اللہ تعالیٰ یونہی کافروں کے دل پر مہر کردیتا ہے جسے نمونہ دیکھنا ہو وہ ان بدبختوں کو دیکھ لے اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی وفاء اور نباہ نہیں پائی عہد سے مراد یا تو عہد الست ہے یا وہ عہد مراد ہے کہ جو مصیبت آنے کے وقت یہ لوگ کرلیا کرتے تھے۔ کہ اگر ہم نجات پائیں تو ایمان لے آئیں گے اور تحقیق ہم نے ان میں سے اکثر کو بد عہد اور بدکردار پایا جب مصیبت ٹلی تو سب عہد و پیمان ختم ہوا اور جیسے پہلے تھے ویسے ہی ہوگئے الغرض ہمیشہ سے کافروں کا یہ طریقہ اور شیوہ ہے پس آپ ان کی تکذیب اور اعراض سے اور ان کی عہد شکنی سے غم نہ کریں۔ پھر بھیجا ہم نے ان کے پیچھے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں پاس پھر زبردستی کی ان کے سامنے سو دیکھ ! آخر کیسا ہوا حال بگاڑنے والوں کا اور کہا موسیٰ نے اے فرعون میں بھیجا ہوں جہان کے صاحب کا۔ قائم ہوں اس پر کہ نہ کہوں اللہ کی طرف سے مگر جو سچ ہے کہ لایا ہوں تم پاس نشانی تمہارے رب کی سو رخصت دے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بولا اگر تو آیا ہے کچھ نشان لے کر تو وہ لا اگر تو سچا ہے ل تب ڈالا اپنا عصا تو اسی وقت وہ ہوا اژدہا صریح اور نکالا اپنا ہاتھ تو اسی وقت وہ سفید نظر آیا دیکھتوں کو قصۂ ششم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) با سبطیان وقبطیان (ربط) گزشتہ رکوعات میں پانچ پیغمبروں کے قصے بیان ہوئے اور ان کے بعد بطور نتیجہ اور خلاصہ یہ بتلایا کہ مکذبین کے متعلق سنت الٰہی کیا ہے اب ان پانچ قصوں کے بعد چھٹا قصہ موسیٰ (علیہ السلام) کا بیان کرتے ہیں جو ان سب انبیاء کے بعد تشریف لائے یہ قصہ بظاہر ایک قصہ ہے مگر اپنے اندر بہت سے قصوں کو لیے ہوئے ہے اور یہ قصہ بہ نسبت اور قصوں کے زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے چناچہ اس مقام پر بھی یہ قصہ بہ نسبت اور قصوں کے زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے چناچہ اس مقام پر یہ قصہ نصف پارہ تک چلا گیا ہے اور صرف اس مقام پر نہیں قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر اکثر وبیشتر آیا ہے اور یہ قصہ متعدد مطالب اور مختلف مقاصد کے بیان کرنے کے لیے قرآن کریم میں بہت جگہ ایا ہے اور تکرار اور تفصیل کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات انبیاء سابقین کے معجزات سے زیادہ قوی ہیں اور نہایت عظیم اور عجیب ہیں جن سے سحر اور معجزہ کا فرق خوب واضح ہوجاتا ہے اور فرعون اور فرعونیوں کا ظلم وعناد اور تکبر بھی شدید ہے جس سے ظلم کے انجام بد کا بخوبی علم ہوجاتا ہے اور بنی اسرائیل کی جہالتیں بھی عجیب ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کے سامنے لب کشائی جہالت اور ھماقت ہے اس لیے یہ امور اس قصہ کی تکریر اور تفصیل کو مقتضی ہوئے۔ نیز موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ آنحضرت ﷺ کے قصہ سے بہت مشابہت رکھتا ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی برکت سے بنی اسرائیل کو دین ودنیا کی عزتیں ملیں اور آپ کے دشمن ذلیل و خوار ہوئے اسی طرح آنحضرت ﷺ کی برکت سے امت محمدیہ کو دین ودنیا کی عزتیں ملیں اور داوء د اور سلیمان (علیہما السلام) جیسی بادشاہت ملی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب نامہ چند واسطوں سے یعقوب (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے آپ کے والد کا نام عمران تھا قبطی زبان میں مو کے معنی ماء یعنی پانی کے ہیں اور اس کے معنی شجر یعنی درخت کے ہیں چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) پانی اور درخت کے رمیان پائے گئے ہیں اس لیے ان کا نام موسیٰ ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس ال کی ہوئی اور ان کے اور یوسف (علیہ السلام) کے درمیان چار سو سال کا فاصلہ تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) سے سات سو سال بعد ہوئے اور فرعون اس بادشاہ کا نام نہ تھا بلکہ اس زمانہ میں ہر شاہ مصر کا یہ لقب تھا جیسا کہ بادشاہان فارس کا لقب کسری اور شاہان روم کا لقب قیصر تھا اس طرح اس بادشاہ کا لقب تو فرعون تھا اور اصل نام قابوس تھا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا یہ قوم قبط کا بادشاہ تھا جو مصر میں رہتی تھی کہا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ تین سو سال تک زندہ رہا واللہ اعلم۔ فرعون مصر کا بادشاہ تھا ربوبیت اور الوہیت کا مدعی تھا اور کہتا تھا کہ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا خدا اور معبود نہیں جانتا جب اس نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اہل مصر نے اس کو قبول کیا مگر بنی اسرائیل نے اس کو قبول نہ کیا فرعون بنی اسرائیل سے یہ کہتا کہ تمہارا باپ یوسف تھا جو میرے آباؤ اجداد کا زرخرید غلام تھا اور تم سب میرے غلام زادے ہو یہ کہہ کر بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا اور ان سے ذلت آمیز خدمتیں لینے لگا۔ فرعون بنی اسرائیل سے یہ کہتا کہ تمہارا باپ یوسف تھا جو میرے آباء و اجداد کا زر خرید غلام تھا اور تم سب میرے غلام زادے ہو یہ کہہ کر بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنالیا اور ان سے ذلت آمیز خدمتیں لینے لگا۔ فرعون اپنی ظاہری شان و شوکت پر مغرور تھا حق تعالیٰ نے اس کی طرف ایک نبی کو مبعوث کیا جو بالکل درویش تھا اور ظاہری شان و شوکت سے بالکل خالی تھا صوف کا عمامہ اور صوف کا جبہ اس کا لباس تھا جیسا کہ امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں کئی جگہ ذکر فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ ان کو ایک عصا عطاء فرمایا جس سے فرعون جیسے سراپا عصیان و طغیان کی تنبیہ مقصود تھی اور تاکہ جب معجزہ عصا ظاہر ہو تو متکبرین اور مغرورین سمجھ جائیں کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا فرستادہ ہے جس کے ہاتھ سے ایسے افعال کا ظہور ہوتا ہے جو طاقت بشریہ کی حدود سے باہر ہیں یہ دنیا دار امتحان ہے اور حق اور باطل کے معرکہ کا میدان ہے اس لیے من جانب اللہ تعالیٰ اکثر وبیشتر نبوت و رسالت کا ظہور برنگ فقیری و درویشی ہوتا ہے اور ظاہری اور مادی شان و شوکت باطل کی جانب ہوتی ہے مقصود امتحان ہوتا ہے کہ کون ظاہری اور مادی شان و شوکت دیکھ کر باطل کی جانب ہوتی ہے مقصود امتحان ہوتا ہے کہ کون ظاہری اور مادی شان و شوکت ہوتی تو پھر فرعون کو کون پوچھتا۔
Top