Tafseer-e-Madani - Al-Faatiha : 1
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِ : سے اسْمِ : نام اللّٰهِ : اللہ ال : جو رَحْمٰنِ : بہت مہربان الرَّحِيمِ : جو رحم کرنے والا
اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے۔ (سورة الفاتحة۔ سورة نمبر 1۔ تعداد آیات 7)
1 ۔ سورة فاتحہ کی وجہ تسمیہ اور اس کی عظمت شان : " فاتحہ " کا لفظ " فتح " سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ آغاز اور شروع کرنے کے ہیں۔ چونکہ اس سورة کریمہ سے قرآن حکیم کا آغاز ہوتا ہے، اس کی تلاوت بھی اسی سے شروع ہوتی ہے اور کتابت میں بھی اس کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو " سورة فاتحہ " کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ سورة کریمہ جس سے قرآن حکیم کا آغاز ہوتا ہے۔ اور اس کی " تاء " نقل کی ہے یعنی " اَلنَّقْلُ مِنَ الْوَصْفِیّۃ اِلَی الْعَلَمِیّۃ " یعنی " اس کے ذریعے اس کو وصفیت کے معنی سے نقل کر کے علم بنایا گیا "۔ لیکن وصف کا معنی بہرحال ملحوظ ہے۔ ( محاسن التاویل للقاسمی، فتح القدیر للشوکانی وغیرہ) مگر واضح رہے کہ اس کی یہ حیثیت محض ذکر و کتابت کے اعتبار سے ہے نہ کہ اس کے نزول کے اعتبار سے۔ کیونکہ اس اعتبار سے اس سورت کے بارے میں حضرات اہل علم کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کیونکہ قول مشہور کی بنا پر ترتیب نزولی کے اعتبار سے یہ سورت پانچویں نمبر پر ہے۔ اور یہ قرآن حکیم کی ایک بڑی ہی عظیم الشان سورة کریمہ ہے۔ اور یوں تو قرآن پاک کی ہر سورت ہی عظیم الشان ہے مگر بعض وجوہ کے اعتبار سے کسی کو خاص اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی لئے اس سورة کریمہ کے نام بھی بہت سے ہیں جو اس کی اس عظمت و اہمیت پر دلالت کرتے ہیں۔ چناچہ اس کو " فَاتِحۃُ الکتاب " کے علاوہ " اُمُّ الکتاب " بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ خلاصہ اور اجمال ہے قرآن حکیم کے جملہ مطالب و مضامین کا۔ اور قرآن حکیم خلاصہ و اجمال ہے اس سے پہلے نازل ہونے والی تمام آسمانی کتابوں کے مطالب و مضامین کا۔ اور اسی بنا پر اس کو " مہیمن " بھی کہا گیا ہے کہ یہ کتاب حکیم آسمانی کتابوں کے علوم و معارف کی امین اور آئینہ دار ہے۔ اسی طرح سورة فاتحہ کا ایک نام " اَلْکَنْزُ " یعنی خزانہ بھی ہے۔ کیونکہ یہ آسمانی علوم و معارف کا ایک عظیم الشان خزانہ اور گنجینہ رحمت ہے۔ اور حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ یہ سورة کریمہ عرش عظیم کے نیچے کے ایک خزانہ سے نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح اس کا ایک نام " تعلیم المسئلہ " بھی ہے۔ کیونکہ اس میں حضرت حق جَلَّ جَلَالُہ کے حضور عرض و درخواست کا طریقہ تعلیم فرمایا گیا ہے۔ ورنہ انسان کے بس میں نہ تھا کہ وہ مشت خاک ہوتے ہوئے حضرت حق جَلَّ جَلَالُہ کی بارگاہ اقدس و اعلیٰ میں از خود عرض داشت پیش کرسکتا۔ کیونکہ وہ انسان ضعیف البنیان جو کے فہم و ادراک سے وراء الوراء ہے۔ اسی طرح اس سورة مبارکہ کا نام " شفاء " اور " شافیہ " بھی ہے۔ کیونکہ اس میں ہر درد کی دوا اور ہر مرض کی شفا کا سامان ودیعت فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح اس کو " کافیہ " اور " وافیہ " بھی فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ طالب ہدایت کی راہنمائی اور اس کے ذخیرہ خیر و برکت کے لیے یہ سورة کریمہ کافی و وافی ہے۔ اسی طرح اس کو " الصَّلوٰۃ " یا " سورة الصلوۃ " بھی فرمایا گیا ہے کیونکہ قراءت صلوٰۃ میں اس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ بہرکیف یہ سورة کریمہ قرآن حکیم کی فاتحہ اور اس کا آغاز اور ایک عظیم الشان اور بےمثل سورت ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِہٰذِہ السُّوْرَۃِ -
Top