Tafseer-e-Madani - Yunus : 107
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ۚ وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ١ؕ یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : پہنچائے تجھے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی نقصان فَلَا كَاشِفَ : تو نہیں ہٹانے والا لَهٗٓ : اس کا اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا وَاِنْ : اور اگر يُّرِدْكَ : تیرا چاہے بِخَيْرٍ : بھلا فَلَا رَآدَّ : تو نہیں کوئی روکنے والا لِفَضْلِهٖ : اس کے فضل کو يُصِيْبُ : وہ پہنچاتا ہے بِهٖ : اس کو مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَھُوَ : اور وہ الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچانے پر آجائے تو کوئی نہیں جو اسے ٹال سکے سوائے اس کے، اور اگر وہ تم سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی نہیں جو روک سکتا ہو اس کے فضل کو وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے، اپنے فضل (وکرم) سے اور وہی ہے بڑا بخشنے والا، نہایت مہربان3
181 ۔ نفع و نقصان کا مالک اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے : کہ یہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ وہی مالک و مختار اور متصرف و کارساز ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور عطائی وغیر عطائی کے جو فلسفے تم لوگوں نے اپنے چور دروازوں کے لئے گھڑ رکھے ہیں وہ سب تمہارے اپنے دماغوں کی اختراع اور نفس کے دھوکے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اصل حقیقت اور امر واقع یہی ہے کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کوئی نہیں ہے جو اس کو دور کرسکے۔ سوائے اس وحدہ لاشریک کے۔ اور اگر وہ تمہیں کسی خیر اور بھلائی سے نوازنا چاہے تو کوئی نہیں جو اس کے اس فضل و مہربانی کو روک دے۔ سو اس ارشاد سے اوپر والی بات ہی کی تاکید و وضاحت دوسرے اسلوب و انداز میں فرمادی گئی جس سے ان تمام تصورات کی نفی ہوجاتی ہے جن کی بناء پر مشرک لوگ طرح طرح کے اور شفعاء گھڑتے اور ان کو پوجتے پکارتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ایسے لوگ اس انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہوتے ہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 182 ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو اس میں تصریح فرمائی گئی کہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے اور محض اپنی رحمت و عنایت سے نوازتا ہے نہ کہ کسی کے واسطے اور وسیلے سے۔ یا کسی لاڈلے اور پیارے کے کہنے اور مجبور کرنے اور اس کے اڑ کر بیٹھ جانے سے۔ جیسا کہ مشرک لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔ اور اس کے لیے انہوں نے طرح طرح کے مفروضے اور خود ساختہ فلسفے گھڑ رکھے ہیں کہ ہماری وہ سنتا نہیں اور ان کی رد نہیں کرتا۔ اس لیے ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ مشرک لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ ہمارا وجود اور اس کے اندر اور باہر کی بیشمار عظیم الشان نعمتیں اور زمین و آسمان کی یہ حکمتوں بھری عظیم الشان کائنات اور اس کے اندر کی بےحد و حساب اور عظیم الشان نعمتیں آخر اس نے کس کے کہنے مانگنے اور اڑ کر بیٹھ جانے سے عطا فرمائی ہیں ؟ اور جب یہ عظیم الشان اور بےحد و حساب نعمتیں اس نے ازخود محض اپنے فضل و کرم سے عظا فرمائی ہیں تو پھر وہ تمہیں تمہاری یہ معمولی معمولی چیزیں کیوں نہ دے گا جن کے لیے تم لوگ جابجا پھرتے، وسیلے پکڑتے اور طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے ہو ؟۔ وباللہ العیاذ والعصمۃ۔ سو وہ اپنے فضل و کرم سے جس کو چاہتا ہے اور جب اور جیسے چاہتا ہے نوازتا ہے کہ اس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے۔ ہمیشہ اور ہر طرح سے نوازنا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ آخر میں " غفور " اور " رحیم " کی دو صفتوں کا حوالہ دے کر اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب وہ خود بخشنے والا اور انتہائی مہربان بھی ہے تو پھر بندے کو اسی کے دامن رحمت ہی میں پناہ لینی چاہئے۔ اس کو چھوڑ کر اسے دوسروں کا سہارا ڈھونڈنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے ؟ پس رجوع ہمیشہ اور ہر حال میں اسی وحدہ لاشریک کی طرف کرنا چاہئے۔ رب اغفرلی وارحمنی انک انت الغفور الرحیم۔
Top