Tafseer-e-Madani - Yunus : 108
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو قَدْ جَآءَكُمُ : پہنچ چکا تمہارے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنِ : تو جو اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنی جان کے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : وہ گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اس پر (برے کو) وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِوَكِيْلٍ : مختار
(اعلان عام کے طور پر) کہہ دو کہ اے لوگو، بیشک آچکا تمہارے پاس حق تمہارے رب کی جانب سے، پس اب جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی لئے کرے گا، اور جو کوئی گمراہی کو اپنائے گا تو اس کی گمراہی کا وبال بھی خود اسی پر ہوگا، اور میں تم پر کوئی مختار کار نہیں ہوں،
183 ۔ لوگوں کے لیے ایک پرزور تنبیہ و تذکیر : کہ بیشک آچکا تمہارے پاس اے لوگوں حق تمہارے رب کی جانب سے۔ یعنی یہ قرآن حکیم جو کہ اس وحدہ لاشریک نے اپنی رحمت سے، حضرت رحمۃ اللعالمین ﷺ کے ذریعے ساری دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ تاکہ اس کے ذریعے لوگ دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار و بہرہ ور ہوسکیں۔ سو یہ سراسر حق و صدق اور عین رحمت و عنایت ہے تمہارے رب کی جانب سے۔ اور اسی سے وابستگی میں تمہارے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے۔ اس کے ذریعے جو تعلیم تمہیں دی جارہی ہے وہ سراسر حق و صدق ہے اور اس سے اعراض و انکار پر دنیا و آخرت میں جس عذاب کی خبر دی جارہی ہے وہ بھی قطعی طور پر حق اور شدنی ہے۔ بس جو اس حق و ہدایت کو اپنائے گا وہ اپنے بھلے کا سامان کرے گا۔ اور جو اس سے منہ موڑے گا۔ اس کے بھٹکنے کا وبال بھی خود اسی پر پڑے گا۔ اور جب یہ حق تمہارے رب کی جانب سے تمہارے پاس پہنچ گیا تو اب جو اس سے منہ موڑے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ نصف النہار کی روشنی میں اپنے آپ کو ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈالا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو اس ارشاد میں سب لوگوں کو خطاب کرکے یہ آخری تنبیہ فرما دی گئی اور اس قدر موثر انداز میں تاکہ پھر کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ سو اس کے اولین مخاطب اگرچہ کفار قریش اور مشرکین مکہ ہیں لیکن اپنے الفاظ و کلمات کے عموم کے اعتبار سے یہ قیامت تک کے سب ہی لوگوں کو عام اور شامل ہے۔ اور یہ حکم سب ہی کے لیے ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ جو اس کو اپنائے گا اس کا اپنا ہی بھلا اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ اپنی ہی ہلاکت کا سامان کرے گا۔ کیونکہ نور حق و ہدایت سے اعراض و روگردانی کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 184 ۔ پیغمبر کا کام پیغام حق کو پہنچا دینا اور بس : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کا کام پیغام حق کو پہنچا دینا ہوتا ہے اور بس۔ سو پیغمبر کی زبان سے اعلان کرایا گیا کہ میں تم پر کوئی مختار کار نہیں ہوں کہ تم کو مجبور کرکے تم سے منوا دوں۔ بلکہ میرا کام تو صرف پہنچا دینا ہے پیغام حق و ہدایت کو۔ اور یہ کہ میں ماننے اور نہ ماننے والوں کو ان کے انجام کی خبر کردوں اور بس۔ اور وہ میں نے کردیا۔ والحمد للہ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پیغام حق کو تم لوگوں سے منوا لینا اور تمہارے دل و دماغ میں اس کو اتار دینا نہ تو میرے بس اور اختیار میں ہے اور نہ ہی یہ میرا منصب و ذمہ داری ہے۔ (المراغی وغیرہ) یہ تو اسی مالک الملک کی شان اور اسی کی صفت ہے جس کا میں بندہ و رسول ہوں اور جس کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہر چیز کی باگ ڈور ہے۔ اگر تم لوگوں نے اس پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑا اور اس سے اعراض برتا تو اس کا بھگتان تم لوگوں کو بہرحال بھگتنا اور اس کی بارگاہ اقدس و اعلی میں جواب دینا ہوگا۔ اب تم لوگ اپنے بارے میں اور اپنے انجام سے متعلق خود سوچ اور دیکھ لو کہ کون سا طریقہ اور کون سا راستہ تمہارے لیے بہتر ہوسکتا ہے۔
Top