Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 40
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور لوگوں (کی ناس پاسی و سرکشی) کا یہ عالم ہے کہ جب ہم ان کو چکھا دیں کوئی رحمت، کسی ایسی تکلیف (و مصیبت) کے بعد، جو ان کو پہنچ چکی ہوتی ہے تو یہ چھوٹتے ہی چالبازیاں کرنے لگتے ہیں ہماری آیتوں کے بارے میں، کہو کہ اللہ کی چال اس سے کہیں زیادہ تیز (اور کارگر) ہے، بیشک ہمارے فرشتے دیکھ رہے ہیں وہ سب مکاریاں جو تم لوگ کرتے ہو،
38 ۔ انسان کی تنگ ظرفی کا عالم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ لوگوں کی تنگ ظرفی اور کوتاہ نظری کا عالم یہ ہے کہ اگر ہم ان کو چکھا دیں کوئی رحمت کسی ایسی تکلیف کے بعد جو ان کو پہنچ چکی ہوتی ہے تو یہ چھوٹتے ہی چالبازیاں کرنے لگتے ہیں ہماری آیتوں کے بارے میں (من رحمۃ) من تنکیر عموم کا فائدہ دے رہی ہے یعنی کوئی بھی رحمت اور نعت ہو۔ خواہ روپیہ پیسہ اور مال ودولت کی صورت میں ہو یا عزت و اقتدار، جاہ و مرتبہ صدارت ووزارت اور سیادت و قیادت وغیرہ وغیرہ کی کسی بھی شکل میں۔ تو یہ تنگ ظرف اور مادہ پرست انسان ایسے موقع پر خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور وہ آپے سے باہر ہوکرناچنے کو دنے اور بھنگڑا ڈالنے لگتا ہے وغیرہ وغیرہ کل بھی اس کا یہی حال تھا اور آج بھی یہی ہے کہ ایسے تنگ ظرف لوگوں کی معراج یہی کچھ ہوتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ جبکہ مومن صادق کی نظرآخرت اور انجام پر ہوتی ہے سو انسان کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں پر اس سے مرادوہی انسان جو لذت ایمان و یقین سے محروم ہے جس کے اولین مصداق کفار قریش ہیں جو کہ قرآن حکیم کے براہ راست مخاطب تھے۔ اور اس کے بعد جو بھی ان کے نقش قدم پر ہوں گے وہ سب اس میں داخل ہیں جبکہ مومن صادق کی صفت وشان اس کے بالکل برعکس ہے کہ اس کے نزدیک یہ دنیا پوری بھی مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی، تو پھر اس کے کچھ ٹکوں کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے تو پھر اس پر اترانے اور تکبر کرنے کا کیا سوال ؟ سو اس طرح ایسے لوگ خود اپنی ہی حرمان نصیبی اور ہولناک خسارے کا سامان کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ 39 ۔ انسان کی بےانصافی اور ناشکری کا ایک نمونہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایساشخص چھوٹتے ہی چالبازیاں کرنے لگتا ہے ہماری آیتوں کے بارے میں سو اس طرح اس کے اندر کا چھپا ہوا شر اور شرک ابل کر باہر آجاتا ہے اور وہ ہماری آیتوں اور حق کے مقابلے میں تن کر کھڑاہو جاتا ہے کہیں کہتا ہے کہ یہ سب کچھ تو میری اپنی عقلوتدبیر اور چالاکی و چالبازی کا نتیجہ ہے اور کہیں کہتا ہے کہ یہ فلاں حضرت یا آستانے کی مہربانی یا فلاں بت کی کرشمہ سازی ہے اور اس کے لیے وہ نذروں، نیازوں اور چڑھاو وں، چادروں کا کام شروع کردیتا ہے اور کبھی وہاں سربھی ٹیک دیتا ہے اور جلوسوں کی شکل میں حاضری بھی دیتا ہے اور منعم حقیقی جل جلالہ، کو نہ صرف یہ کہ وہ بھول جاتا ہے بلکہ الٹا اس کی بارگاہ اقدس واعلیٰ اور توحید خالص کی طرف بلانے والوں کو برابھلاکہنے، تنگ کرنے، اور ان کی راہیں روکنے پر اترآتا ہے۔ سو کتنا ناشکر اور کس قدراحسان فراموش ہے یہ انسان ؟ (قتل الانسان مآاکفرہ) اور یہ ناشکرا انسان اپنے اس شروفساد اور اعراض وانکار میں اس قدر آگے نکل جاتا ہے کہ اللہ کی آیات کی تکذیب اور ان کے ساتھ استہزاء کی جسارت تک کرنے لگتا ہے۔ کماقال مجاہد۔ (ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کجی سے ہمیشہ محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔ 40 ۔ اللہ کی چال بڑی ہی تیز اور انتہائی کارگر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں سے کہو کہ اللہ کی چال اس سے کہیں زیادہ تیز اور کارگر ہے اور ایسی تیز اور اس قدر کارگر کہ تمہیں اس کا پتہ بھی نہیں چل سکتا جبکہ اس کے علم ازلی میں تمہاری سزا بھی مقرر ہوچکی ہوتی ہے۔ والعیاذ باللہ من کل سوء وشر۔ سو اس وحدہ لاشریک کا معاملہ دنیا والوں کی داروگیر سے مختلف ہوتا ہے کہ دنیاوالے چونکہ تنگ ظرف ہوتے ہیں ان میں صبر و برداشت کا مادہ ایک محدود و مختصر حدتک ہی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ بلکہ فورا ایکشن لیتے ہیں جبکہ اس مالک الملک۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کی ہر صفت کی طرح اس کی صفت حلم وکرم بھی لامحدود ہے اس لیے وہ ایسے سرکشوں کو ڈھیل پر ڈھیل دیئے جاتا ہے بلکہ انکو دنیاوی نعمتوں سے بھی نوازتا جاتا ہے جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ ٹھیک ہیں (we are right) ورنہ ہماری پکڑکیوں نہیں ہوتی اور ہمیں یہ دنیاوی مال و متاع کیوں ملتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی سرکشی میں اور بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ حق بات پر کان دھرنے اور اس کو قبول کرنے کے لیے تیارہی نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں وہ اپنے اس آخری انجام اور ہولناک نتیجے کو پہنچ کر رہتے ہیں جو ان کے لیے طے اور مقدرہوچکا ہوتا ہے اور ایسے دھرلیے جاتے ہیں کہ پھر ان کے لیے اس سے نکلنے اور رہائی پانے کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں رہتی۔ سو تمہارے رب کی گرفت وپکڑبڑی سخت ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ نیز ارشاد فرمایا گیا کہ ہمارے فرشتے ان تمام چالوں کو لکھتے اور ان کا پورا ریکارڈ تیار کرتے جارہے ہیں جو تم لوگ طرح طرح سے اور مختلف شکلوں میں کرتے ہو سو اسی ریکارڈ کے مطابق وقت آنے پر تم سب سے عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق بھرپور طریقوں سے نمٹاجائیگا۔ پس تم لوگ کبھی یہ نہ سمجھنا کہ تم اپنے کیے کرائے کا پھل پانے سے بچ جاؤگے اور تمہاری کوئی پوچھ نہیں ہوگی کہ اس خالق ومالک کے یہاں ایسی اندھیرنگری کا کوئی امکان نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔ اللہ ہمیشہ اور ہر موقع پر اپنی رضاء خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے اور زیغ وضلال کی ہر قسم اور نفس و شیطان کے ہر دھوکے سے ہمیشہ اور ہر حال میں محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔ 41 ۔ ظالموں اور مکاروں کے لیے تنبیہ وتحذیر : سو ظالموں اور مکاروں کی تنبیہ وتحذیر کے لیے آگہی بخشی گئی کہ ان کی تمام تر چالبازیوں اور مکاریوں کا باضابطہ طور پر ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ہمارے فرشتے لکھ رہے ہیں وہ تمام مکاریاں جو تم لوگ کررہے ہو۔ سو ہمارے فرشتے تمہارے کرتوتوں کا ریکارڈ تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ پورا دستاویزی ثبوت موجود ہو اور عدل وانصاف کے تقاضے کامل طور پر پورے ہوسکیں۔ (المنار وغیرہ) فرق صرف اتنا ہے کہ ہم چونکہ فورا نہیں پکڑتے تو اس سے تم دھوکے میں پڑے ہو کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ والعیاذ باللہ۔ سو اللہ کی گرفت اور پکڑ سے بےفکر اور بےخوف ہونا بڑے ہی سخت خسارے کا سودا ہے (فلایامن مکر اللہ الا القوم الخاسرون) (الاعراف : 99) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو یہ بھی اس مالک کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اس نے پیشگی اور اس قدرصراحت و وضاحت سے بتادیا کہ ہمارے فرشتے تمہارے تمام کرتوت لکھ رہے ہیں اور تمہارا ریکارڈتیار ہو رہا ہے سو یہ سب کچھ بتادیا تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے اور وہ کل یہ نہ کہے کہ مجھے خبر نہیں تھی، بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ظالموں کی مکاریاں اللہ سے مخفی نہیں اور ان سب کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top