Tafseer-e-Madani - Yunus : 36
وَ مَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا١ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
وَمَا يَتَّبِعُ : اور پیروی نہیں کرتے اَكْثَرُھُمْ : ان کے اکثر اِلَّا ظَنًّا : مگر گمان اِنَّ : بیشک الظَّنَّ : گمان لَا يُغْنِيْ : نہیں کام دیتا مِنَ : سے (کام) الْحَقِّ : حق شَيْئًا : کچھ بھی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور ان کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ پیروی نہیں کرتے مگر ظن (و گمان) کی، حالانکہ یہ قطعی بات ہے کہ ظن (گمان) حق کی طرف سے کچھ بھی کام نہیں آسکتے، بیشک اللہ پوری طرح جانتا ان سب کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں،2
68 ۔ لوگوں کی اکثریت ظن و گمان ہی کی پیروی کرتی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ لوگوں کی اکثریت پیروی نہیں کرتی مگر ظن و گمان کی۔ یہی ہے فساد کی اصل جڑ جس کو قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اور طرح طرح سے بیان فرمایا ہے۔ چناچہ آپ غور کرکے دیکھ لیں آپ کو ہر جگہ یہی حقیقت چمکتی دمکتی نظر آئے گی جو قرآن حکیم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ایک دنیا ہے جو ظن وتخمین اور بےبنیاد خیالات کی پیروی میں لگی ہوئی ہے۔ آج بھی اگر آپ ان سے پوچھیں کہ تم لوگ جو ان آستانوں پر جھکتے، ان کے گرد پھیر لگاتے اور ان کی پوجا پاٹ کرتے ہو تو آخر اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے ؟ تو یہ کہیں گے کہ ہمارے خیال میں یہ کہ ہمارا دل یونہی کہتا ہے اور یہ کہ فلاں حضرت نے ہمیں یوں ہی بتایا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ کسی بھی عمل اور قول وقرار کے لئے دلیل وہ ہوتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہو۔ مگر اس طرف وہاں توجہ ہی نہیں ہوتی۔ وہاں پر تو محض ظن و گمان اور اوہام و اہواء کی پیروی ہوتی ہے اور بس۔ جو حق سے کچھ بھی کام نہیں آسکتی جیسا کہ اگلے حاشیے میں اس کی کچھ مزید تفصیل آرہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 69 ۔ ظن و گمان حق کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہیں آسکتا : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ ظن و گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آسکتا۔ بلکہ کام آنے والی چیز حق اور صرف حق ہی ہے۔ اور حق کا علم و ادراک سوائے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے جو کہ درحقیقت شرح ہے کتاب الہٰی کی اور کہیں سے بھی حاصل ہونا ممکن نہیں۔ کہ اس کے سوا حق کا اور کوئی مصدر و منبع سرے سے ہے ہی نہیں۔ پس جو لوگ اس کتاب حکیم پر ایمان و یقین سے محروم ہیں وہ بہرحال اور سراسر حق و صداقت کے نور اور ایمان و یقین کی دولت سے محروم اور ظن وتخمین کے اندھیروں میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ اور متاع عمر کو وہ مختلف بھول بھلیوں میں ضائع کرکے اپنے لئے ابدی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ اور ظن وتخمین کے اس طرح کے تیر تکے اگر لوگوں کے یہاں چل بھی گئے تو کیا۔ اصل معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں کا ہے جہاں اس طرح کی کوئی بات نہیں چل سکتی۔ اصل حساب اسی کے یہاں دینا ہے اور وہ ان کے ان تمام کاموں کو پوری طرح جانتا ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ پس معاملہ اس کے ساتھ صحیح رکھنے کی ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سوآء السبیل۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و صواب پر قائم اور ثابت قدم رکھے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔
Top