Tafseer-e-Madani - Yunus : 39
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِمَا : وہ جو لَمْ يُحِيْطُوْا : نہیں قابو پایا بِعِلْمِهٖ : اس کے علم پر وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَاْتِهِمْ : ان کے پاس آئی تَاْوِيْلُهٗ : اس کی حقیقت كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : ان لوگوں نے مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَانْظُرْ : پس آپ دیکھیں كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے جھٹلایا اس چیز کو جس کے علم کا یہ احاطہ نہ کرسکے، اور جس کی حقیقت (اور آخری انجام) ابھی تک پہنچی نہیں ان لوگوں کے پاس اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے (حق اور حقیقت کو) جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے، سو دیکھ لو کیسا ہوا انجام ایسے ظالموں کا،3
73 ۔ جہالت باعث عداوت و محرومی۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے جھٹلایا اس چیز کو جس کے علم کا یہ احاطہ نہیں کرسکتے۔ سو جہالت اور لاعلمی عداوت و محرومی کا ایک بڑا اور بنیادی سبب ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جس چیز کی حقیقت نہ جانے وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ " الناس اعدآء لما جہلوا " پس ان لوگوں کی تکذیب کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ان کی اپنی جہالت و لاعلمی ہے۔ والعیاذ باللہ۔ (محاسن التاویل وغیرہ) پس جہالت محرومی کا ایک بڑا اور بنیادی سبب ہے۔ اور علم کی روشنی سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ۔ اور علم سے مراد ظاہر ہے حق و حقیقت کا وہی علم ہے جو کتاب و سنت سے حاصل ہوتا ہے۔ سو قرآن حکیم ان کو کفر و انکار پر جس انجام اور عذاب سے ڈراتا اور خبردار کرتا ہے یہ لوگ چونکہ اس سے آگاہ نہیں اور وہ ان کے احاطہ علم و ادراک سے خارج ہے۔ اور یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ اس کی حقیقت ابھی ان کے سامنے ظاہر نہیں ہوئی۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ یہ اس کو اس وقت تک ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جب تک یہ اس کو سر کی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ اور اس وقت تو یہ مانیں گے اور چیخ چیخ کر مانیں گے مگر بےوقت کے اس ماننے کا ان کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ وہ ایمان بالمشاہدہ ہوگا جبکہ مطلوب ایمان بالغیب ہے۔ جس کے حصول کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے اور بس۔ اس کے بعد اس کے حصول اور اس سے سرفرازی کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔ 74 ۔ ظالموں اور ظلم کا انجام برا۔ والعیاذ باللہ : سو درس عبرت لینے کی تعلیم و تلقین کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے پس تم دیکھ لو کہ کیسا ہوا انجام ایسے ظالموں کا۔ سو اس ارشاد میں ان ظالموں کے انجام سے عبرت پکڑنے کی تعلیم و تلقین ہے جنہوں نے حق و ہدایت سے منہ موڑا اور اس کی تکذیب و تحقیر سے کام لیا۔ والعیاذ باللہ۔ سو ان کے اس انجام سے سبق لو اور عبرت پکڑو تاکہ تم لوگ تکذیب و انکار حق کے اس سنگین اور ہولناک جرم سے بچ سکو جس کا ارتکاب ان لوگوں نے کیا۔ اور اس کے نتیجے میں تم اس ہولناک اور اس بھیانک انجام سے بچ سکو جس سے وہ لوگ دوچار ہوئے کہ اللہ کا قانون بےلاگ اور سب کے لئے ایک ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کی یہ روش بعینہ وہی روش ہے جو ان سے پہلے رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں کی روش تھی۔ اور جس کے نتیجے میں بالآخر وہ لوگ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے تھے سو اگر یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئے تو ان کا انجام اور حشر بھی وہی ہوگا جو ان پہلی قوموں کا ہوچکا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ فکر و عمل کی ہر کجی سے ہمیشہ محفوظ رکھے، اور ہمیشہ ہر حال میں ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا اور راہ حق وصواب پر مستقیم وثابت قدم رہنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top