Tafseer-e-Madani - Yunus : 44
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا النَّاسَ : لوگ شَيْئًا : کچھ بھی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن النَّاسَ : لوگ اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ پر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے ہیں
بیشک اللہ لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہیں کہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں،3
81 ۔ حق سے منہ موڑنا خود اپنی جان پر ظلم کرنا ہے۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نور حق و ہدایت سے منہ موڑ کر ایسے لوگ خود اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے ہیں۔ کیونکہ حق اور حقیقت کے انکار کا یہ جرم ایسا سنگین اور ہولناک جرم ہے کہ انسان کو دارین کی سعادتوں سے محروم کردیتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس طرح حق کا انکار کرکے انسان خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے مگر اس کو اس کا علم و احساس بھی نہیں ہوتا جو کہ خسارہ در خسارہ اور محرومی در محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس طرح ایسے لوگ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ اور ظلم کے معنی وہاں تو عنایت ہی عنایت، رحمت ہی رحمت اور نوازش ہی نوازش ہے اس نے انسانوں کو بہترین صلاحیتوں سے نوازا۔ پھر کائنات کی حکمتوں اور عبرتوں بھری یہ عظیم الشان اور کھلی کتاب ان کے سامنے رکھ دی۔ پھر اپنے انبیاء و رسل کے ذریعے ان کے لیے دعوت حق و ہدایت کا انتظام فرمایا۔ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی صلاحیتوں سے کام لیتے تو پیغمبر کی دعوت ان کو اپنے دلوں کی آواز معلوم ہوتی۔ لیکن یہ اندھے اور بہرے بن گئے۔ انہوں نے حق کو سن کر اور مان کر نہ دیا اور اس طرح انہوں نے نور حق و ہدایت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو تہ در تہ اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کے حوالے کردیا اور سعادت و سرخروئی کی راہ سے منہ موڑ کر انہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھوں کے اندر پھینک دیا اور خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھا کر یہ لوگ (خسر الدنیا والاخرۃ) کے مصداق بن گئے اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ (ذلک ھو الخسران المبین) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے آمین۔
Top