Tafseer-e-Madani - Yunus : 60
وَ مَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور کیا ظَنُّ : خیال الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : گھڑتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَھُمْ : ان کے اکثر لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر نہیں کرتے
اور کیا خیال ہے ان لوگوں کا قیامت کے بارے میں، جو اللہ پر جھوٹ موٹ افتراء باندھتے ہیں ؟ بیشک اللہ بڑا ہی مہربان ہے لوگوں پر، لیکن لوگ ہیں کہ ان کی اکثریت شکر ادا نہیں کرتی،3
103 ۔ اللہ پر افتراء باندھنے والوں کی پکڑ لازمی ہوگی : سو کیا خیال ہے ایسے افتراء پردازوں کا۔ کیا ایسے ایسے جرائم پر ان کی وہاں پر کوئی باز پرس نہ ہوگی ؟ اور ان کو اپنے کئے کا کوئی بھگتان بھگتنا نہ پڑے گا ؟ سو اس طرح کیسے اور کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایسوں کی کوئی گرفت و پکڑ نہ ہو کہ یہ اس کے قانون عدل و حکمت کے خلاف ہے۔ پس ایسوں کی باز پرس لازما ہوگی۔ یہاں پر یہ اسلوب کلام بھی ملاحظہ ہو کہ یہاں پر سوال کرنے کے بعد اس کا جواب دیئے بغیر بات کو ختم فرما دیا گیا جو کہ متکلم کے انتہائی غضب کی دلیل ہے۔ مطلب یہ کہ کیا ان کی شامت زدہ لوگوں نے اپنے اس جرم کو کوئی معمولی جرم سمجھ رکھا ہے ؟ اور یہ اس سے اس طرح نچنت اور بےفکر ہو کر بیٹھے ہیں۔ سو قیامت کا روز حساب آنے پر ان کو پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے کس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا اور ان کو اس کی کیسی ہولناک سزا ملتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 104 ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی تذکیر و یاد دہانی : سو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی تذکیر و یاد دہانی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ بڑا ہی مہربان ہے لوگوں پر اور یہ اس کی بےنہایت رحمت و عنایت اور مہربانی ہی کا ایک عظیم الشان مظہر ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو بےحد و حساب ظاہری نعمتوں کے علاوہ ہدایت و وحی کی اس عظیم الشان معنوی دولت اور روحانی نعمت سے بھی نوازا اور سرفراز فرمایا ہے، جو دوسری نعمتوں سے بڑھ کر اور دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہے اور پھر ناشکرے انسان کی طرف سے ہر طرح کی بےقدری اور ناشکری کے باوجود وہ اس کو مہلت پر مہلت بھی دئیے جارہا ہے۔ فسبحان الذی لا حد لفضلہ ولا نھایۃ لحلمہ واحسانہ۔ سو اگر اس کی یہ شان حلم و کرم اور رحمت و عنایت نہ ہوتی اور وہ لوگوں کو ان کے کیے کرائے پر فوری پکڑنے لگتا جو کسی بھی نفس کو روئے زمین پر باقی نہ چھوڑتا سو ہمیشہ اس کی رحمت و عنایت کی امید رکھنی چاہئے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ 105 ۔ لوگوں کی اکثریت ناشکروں کی۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے تصریح فرمائی گئی کہ اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔ سو لوگوں کی اکثریت اپنے خالق ومالک کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتی اور اس وحدہ لاشریک کے حضور جھکنے اور صدق دل سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی بجائے اس کے احکام و ارشادات طرح طرح سے مخالفت و نافرمانی کرتی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ سر سے پاؤں تک اس کو گوناگوں رحمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ظاہری اور باطنی ہر طرح کی نعمتوں میں۔ والعیاذ باللہ۔ یہاں سے پھر اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ عوام کی اکثریت کا کسی طرف ہوجانا اس کے حق اور صدق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ مغربی جمہوریت کے علمبرداروں کا کہنا ہے، اور جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ماننا ہے۔ کیونکہ عوام کی اکثریت بہرحال غلط کاروں ہی کی رہی۔ پہلے بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ والعیاذ باللہ۔ کی ان کی اکثریت ناشکروں، ناقدروں اور بےانصافوں ہی کی رہی ہے اور شکر گزار، قدرداں اور عدل وانصاف والے لوگ ہمیشہ کم ہی رہے ہیں۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top