Tafseer-e-Madani - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
(جواب ملا کہ) تو اب ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمانی ہی پر کمر بستہ رہا، اور فساد برپا کرنے والوں ہی میں شامل رہا
154 ۔ فرعون کو اس کے دعوائے ایمان کا جواب : سو غرقابی کے اس موقع پر فرعون نے اپنے ایمان کا اعلان کیا لیکن اس کو جواب ملا کہ اب ایمان لاتے ہو جبکہ اس سے پہلے تم کفر ہی کرتے رہے تھے ؟ اور اس کو یہ جواب اللہ پاک کی طرف سے یا جبریل امین کی جانب سے دیا گیا۔ (جامع البیان وغیرہ) سو اس کے بارے میں یہ دونوں ہی احتمال موجود ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ مطلب بہرحال ایک ہی ہے کہ تو اب ایمان لا رہا ہے جبکہ اس کا وقت گزر چکا اور اس کا موقع ہاتھ سے نکل گیا اور اللہ کے عذاب نے تجھے دبوچ لیا۔ سو یہ وقت ایمان لانے کا نہیں بلکہ اپنے کفر و انکار اور تمردو سرکشی کے بھگتان کے بھگتنے کا ہے۔ سو اس میں اس لعین کی نہایت تذلیل و تحقیر ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس سے یہ بات قولا ہی کہی گئی ہو جیسا کہ ظاہر اور متبادر ہے اور جیسا کہ ابھی گزرا۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مقصود صورت حال کی تصویر ہو۔ جو بھی اس کے اس بےوقت کے دعوائے ایمان کو اس کے منہ پر مارا گیا کہ تم اب ایمان لاتے اور اپنے اسلام کا دعوی کرتے ہو جبکہ عذاب نے تم کو آدبوچا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے تم نافرمانی کرتے اور فساد ہی مچاتے رہے ہو۔ سو اب تمہارا یہ دعوی قابل قبول نہیں۔ کیونکہ یہ ایمان، ایمان مشاہدہ ہے نہ کہ ایمان بالغیب جو کہ اصل مطلوب ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 155 ۔ اعتبار صرف ایمان بالغیب کا ہے : یعنی پوری زندگی کفر انکار کے ساتھ گزارنے کے بعد اب مشاہدہ عذاب کے بعد کا تیرا یہ ایمان معتبر نہیں کہ یہ ایمان باس یا ایمان یاس کہلاتا ہے۔ جو کہ معتبر و مقبول نہیں کہ معتبر و مقبول ایمان وہ ہے جو کہ انسان اپنی مرضی و اختیار سے لاتا ہے۔ اور اس کا وقت موت سے پہلے ہے۔ اور جس کو ایمان بالغیب کہا جاتا ہے کہ وہ بن دیکھے حضرات انبیاء و رسل۔ علیہم الصلوۃ والسلام۔ کی دعوت پر لایا جاتا ہے۔ سو وہی ایمان معتبر ہے۔ اسی کی قدر و قیمت ہے اور وہی ایمان انسان کے کام آسکتا ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی کہ دنیا میں اس سے انسان کو حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی نصیب ہوتی ہے جو کہ سعادتوں کی سعادت اور اپنے اندر کئی سعادتیں اور رحمتیں و برکتیں رکھتی ہے۔ اور اسی انسان کو آخرت کے اس جہان نادیدہ میں جنت کی سدا بہار نعیم مقیم سے سرفرازی نصیب ہوگی جبکہ ایمان بالمشاہدہ نہ مفید ہے اور نہ مطلوب و معتبر۔ کہ اس پر نہ ثواب و عقاب کا ترتب ہوسکتا ہے اور نہ انسان ان انعامات کا مستحق ہوسکتا ہے، جو ایمان بالغیب کی بناء پر اہل ایمان کو ملتے ہیں، پس اصل چیز ایمان بالغیب ہی ہے۔
Top