( 4) زر پرستوں کے زعم باطل کی تردید اور اس کے انجام کا ذکرو بیان : سو زرپرست دنیا داروں نے جو دنیاوی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے ان کے اس زعم باطل کی تردید کے لیے فرمایا گیا ہرگز نہیں، یعنی معاملہ ایسا نہیں اور ہرگز نہیں، جیسا کہ ایسے لوگوں نے سمجھ رکھا ہے، کہ نہ ایسا کوئی شخص ہمیشہ رہے گا اور نہ ہی اس کا یہ مال و دولت بلکہ ان میں سے ہر ایک اور یہاں کی ہر شے فانی ہے، اور کسی نے اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا جواب دینا، اور اس کا صلہ وبدلہ پانا ہے، سو اصل دولت ایمان و یقین اور عمل و کردار کی دولت ہے، اس کے ساتھ اگر کسی کو دنیاوی مال و دولت بھی مل جائے اور اس کو اپنے خالق ومالک کی رضا و خوشنودی میں صرف کرنے کی توفیق بھی اس کو نصیب ہوجائے تو یہ اور " نور علی نور " ورنہ یہ عذاب و وبال ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اصل چیز دنیاوی مال و دولت نہیں بلکہ متاع ایمان و یقین ہے، جو سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ چناچہ زر پرستوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ضرور بالضرور پھینکا جائے گا نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ چکنا چور کردینے والی ہولناک آگ میں، یعنی اس کو پھینکا جائے گا اس میں نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ، جس طرح کسی گندگی اور غلاظت کو آگ کے الاؤ میں پھینک دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس میں بھسم ہوجائے، کہ کفر و شرک کی گندگی اس ظاہری گندگی سے بھی کہیں بڑھ کر انسانی وجود کو غلیظ اور گندہ بنا دیتی ہے، اس لیے ایسوں کو دوزخ کی اس ہولناک آگ میں جھونک دیا جائے گا، جہاں ان کا حال اس ظاہری اور حسی گندگی کے انجام سے بھی کہیں برا ہوگا، کیونکہ یہ گندگی تو جل کر ختم ہوجاتی ہے، مگر کفر و شرک کی یہ غلاظت ان کو وہاں ختم بھی نہ ہونے دے گی، بلکہ وہ وہاں کی اس ہولناک آگ میں ہمیشہ کے لیے پڑے اور جلتے رہیں گے اور " لا یموت فیھا ولا یحی " والی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے، والعیاذ باللہ العظیم، سو ایمان و یقین سے محرومی سعادت دارین سے محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔