Tafseer-e-Madani - An-Najm : 3
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب فَعَّالٌ : کر گزرنے والا لِّمَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہے
ان کو اس میں ہمیشہ رہنا ہوگا جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ تمہارا رب ہی کچھ اور چاہے، بیشک تمہارا رب جو چاہے کر ڈالنے والا ہے،
206 ۔ نیک بختوں کی کامیابی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بدبخت لوگ وہاں پر دوزخ میں پڑے چیختے چلاتے اور دھاڑیں مار رہے ہوں گے اور ان کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہوگا جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے۔ لیکن نیک بخت جنت میں ہوں گے جہاں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہوگا جب تک کہ زمین و آسمان قائم رہیں گے۔ اپنے ایمان و عقیدہ اطاعت و بندگی اور اعمال صالحہ کی بناء پر۔ اللہم اجعلنا منہم۔ اور ایسے نیک بخت اور سعادت مند جنت کی ان سدابہار نعمتوں سے سرفراز ہوں گے جن کا اس جہان رنگ و بو میں تصور کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں۔ اور یہی وہ کامیابی ہے جو کہ اصل اور حقیقی کامیابی ہے اور جو سدابہار اور ابدی و دائمی کامیابی ہے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین۔ سو اس یوم فصل وتمیز میں لوگ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے دو حصوں میں بٹ جائیں گے۔ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے سرفراز لوگ سعادت مند ہوں گے جن کو حضرت واہب مطلق۔ جل وعلا۔ کی طرف سے بےمثال اور ابدی و دائمی اجر وثواب سے نوازا جائے گا۔ جبکہ شقی اور بدبخت لوگوں کو اپنے زندگی بھر کے کفر و انکار کا پھل پانا اور ہمیشہ کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ نیک بختی اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین۔ 207 ۔ اللہ کی مشیت سب پر حاوی و غالب : سو یہاں پر اہل جنت اور اہل دوزخ دونوں کے انجام کے ذکر وبیان کے بعد ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو وہاں رہنا ہوگا جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ مگر یہ کہ تمہارا رب ہی کچھ اور چاہے کہ تمہارے رب کی مشیت بہرحال سب پر حاوی اور سب پر غالب ہے اور زمین و آسمان سے یہاں پر مراد وہاں کے زمین و آسمان ہیں۔ کیونکہ یہ موجودہ آسمان و زمین تو اس وقت ختم ہوچکے ہوں گے۔ اور ظاہر ہے کہ وہاں کے آسمان و زمین ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ اس لیے ان بدبختوں کو ہمیشہ وہاں رہنا ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ یا اس محاورے کے طور پر دوام اور ہمیشگی مراد ہے کہ عرب جب کسی چیز کے دوام و خلود کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ چیز باقی رہے گی جب تک کہ آسمان و زمین باقی ہیں۔ " دائم ما تدوم السماء والارض " بہرکیف دونوں صورتوں میں مقصود ان لوگوں کے وہاں پر رہنے کے دوام و خلود کا بیان کرنا ہے کہ ایمان والے اور جنتی ہمیشہ جنت ہی میں رہیں گے۔ اللہ ہمیں انہی میں کرے۔ اور کفر و بغاوت والے دوزخی ہمیشہ ہمیش کے لیے دوزخ میں ہی رہیں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (طبری، قرطبی، روح، کشاف وغیرہ) سو جنتی وہاں کی سدا بہار نعمتوں میں ہمیشہ کے بےمثال آرام و راحت میں رہیں گے جبکہ دوزخی دوزخ کے ہولناک عذابوں میں پڑے چیختے چلاتے رہیں گے۔ مگر ان کی چیخ و پکار کا کوئی فائدہ ان کو بہرحال نہیں ہوگا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت کی تیزی کے۔
Top