Tafseer-e-Madani - Hud : 21
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانوں کا (اپنا) وَضَلَّ : اور گم ہوگیا عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ افترا کرتے تھے (جھوٹ باندھتے تھے)
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود خسارے میں ڈال دیا اپنے آپ کو، اور کھو گیا ان سے وہ سب کچھ جو یہ (زندگی بھر) گھڑتے رہے تھے (مختلف ناموں سے)
56 ۔ حق سے محرومی سب سے بڑا خسارہ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خسارے میں ڈالا تھا اپنے آپ کو۔ سو دین حق سے محرومی سب سے بڑی محرومی اور خسارہ ہے۔ اور اس محرومی کا باعث یہ لوگ خود تھے۔ والعیاذ باللہ۔ اور اس خسارے کا ارتکاب انہوں نے خود کیا تھا نور ایمان و یقین سے منہ موڑ کر اور ہدایت کے بدلے میں گمراہی کو اپنا کر۔ والعیاذ باللہ۔ سو نور ایمان و یقین سے منہ موڑنا اپنے آپ کو خسارے میں ڈالنا ہے۔ اور یہ خسارہ ایسا خسارہ ہے جو خساروں کا خسارہ اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ اور ایسا خسارہ کہ اس کی تلافی وتدارک کی بھی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ان لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کو خود ضائع کیا، اس کے برعکس جن لوگوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو محفوظ رکھا اور نور حق و ہدایت کو اپنا کر انہوں نے اس کو جلا بخشی کا انتظام کیا وہ نور علیٰ نور کا مصداق بن گئے۔ اور وہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند و سرفراز ہوگئے۔ سو اس سے یہ اصولی اور بنیادی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی صلاح و فساد اور اس کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی ما یحب ویرید۔ 57 ۔ افتراء پردازوں کے سب سہارے غائب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کھو چکی ہوں گی ان کی سب افتراء پردازیاں جو دنیاوی زندگی میں انہوں نے اپنا رکھی تھیں۔ مثلا یہ کہ فلاں فلاں دیویاں اور دیوتا اور فلاں فلاں سرکاریں ہماری حاجت روا و مشکل کشا ہیں اور فلاں فلاں حضرات ہمارے سفارشی ہیں، ہم نے بس ان کا لڑ پکڑ رکھا ہے۔ ان کے ساتھ ہم بھی تر جائیں گے۔ آخر جہاں سے اونٹ گزرتا ہے اس کی دم بھی گزر جاتی ہے۔ پس ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے وغیرہ وغیرہ۔ سو ان لوگوں کے ایسے تمام فرضی سہارے اور خود ساختہ وسیلے سب کے سب ھباء منثورا ہوجائیں گے اور ان میں سے کوئی بھی چیز ان کے کچھ بھی کام نہیں آسکے گی، تب اصل حقیقت ان کے سامنے پوری طرح منکشف ہوجائے گی اور ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ یہ کس قدر اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے اور کیسے دھوکے میں مبتلا تھے۔ مگر اس وقت ان کو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا سوائے یاس و حسرت میں اضافے کے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اس وقت یہ رہ رہ کر تمنا و آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے دین حق کو قبول کیا ہوتا اور ہم مسلمان ہوتے مگر بےوقت کی ان آرزوؤں اور تمناؤں سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا۔ سوائے اس کہ اس طرح ان کی آتش و حسرت کی باطنی آگ کا لاوا اور تیز ہوگا۔ والعیاذ باللہ۔
Top