Tafseer-e-Madani - Hud : 20
اُولٰٓئِكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ١ۘ یُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ١ؕ مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَ مَا كَانُوْا یُبْصِرُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ لَمْ يَكُوْنُوْا : نہیں ہیں مُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنیوالے، تھکانے والے فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ : سے دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : حمایتی يُضٰعَفُ : دوگنا لَهُمُ : ان کے لیے الْعَذَابُ : عذاب مَا : نہ كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ طاقت رکھتے تھے السَّمْعَ : سننا وَمَا : اور نہ كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ : وہ دیکھتے تھے
یہ لوگ ایسے نہیں کہ عاجز کردیں (اللہ کو کہیں بھاگ کر) زمین میں، اور نہ ہی ان کا کوئی حمایتی (اور مددگار) ہوسکتا ہے اللہ کے سوا، ان کو دوہرا عذاب دیا جائے (ان کے کئے کا) یہ لوگ (شدت عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے) نہ تو سن سکتے تھے (پیغام حق و ہدایت کو) اور نہ ہی ان کو خود کچھ سوجھتا (دکھتا) تھا،
53 ۔ افتراء پردازوں کی بےبسی اور لاچارگی کا ذکر وبیان : سو اس سے افتراء پردازوں کی اللہ کی گرفت و پکڑ کے مقابلے میں بےبسی و لاچارگی کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا کیا کہ یہ ایسے لوگ نہیں کہ اللہ کو عاجز کردیں کہیں زمین میں چھپ کر اور نہ ہی ایسوں کے لیے کوئی حمایتی اور مددگار ہوگا۔ جو ان کو چھڑا اور بچا سکے اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت و پکڑ سے اور ان کے وہ خود ساختہ اور من گھڑت حمایتی اور سفارشی ان کے کچھ بھی کام نہ آسکیں گے جو انہوں نے طرح طرح کے ناموں سے گھڑ رکھے ہیں کہ ان کے اندر اس کی سرے سے کوئی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں۔ سو فیصلے کے اس دن ان لوگوں کی وہ تمام ملمع کاریاں اور سخن سازیاں " ھبآء منثورا " ہوجائیں گی جس سے یہ لوگ دنیا میں کام لیتے تھے۔ جبکہ حقائق اپنی اصل شکل میں سامنے آجائیں گے۔ جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر ارشاد فرمایا گیا (وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ) (الاعراف : 53 و یونس :30، ہود : 29، القصص : 75 وغیرہ) اور دنیا میں جو ان کو مہلت دی گئی تھی تو وہ اس لیے نہیں تھی کہ یہ خداوند قدوس کے قابو سے باہر تھی، بلکہ وہ ڈھیل ان کو اس لیے دی گئی تھی کہ یہ لوگ اگر اپنی اصلاح کرنا چاہیں تو کرلیں اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ورنہ اپنا پیمانہ جرم لبریز کرلیں تاکہ اس کے نتیجے میں اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہیں۔ 54 ۔ افتراء پردازوں کے لیے دوہرے عذاب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسوں کو دوہرا عذاب دیا جائے گا۔ ضلال کا بھی اور اضلال کا بھی کہ یہ گمراہ بھی تھے اور گمراہ کن بھی۔ والعیاذ باللہ من کل شآئبۃ من شوآئب الضلال والاضلال۔ سو ایسے لوگ اپنی اس طرح کی کارروائیوں سے آج خوش ہوتے ہیں اور ان کو اپنی چالاکی اور ہوشیاری سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس طرح یہ لوگ اپنے لیے دوہرے عذاب اور ہولناک انجام کا سامان کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس روز ان کا آخری انجام ان کے سامنے ہوگا۔ حقیقت حال پوری طرح واضح ہوچکی ہوگی ان کے خود ساختہ من گھڑت اور فرضی سہارے سب کے سب ہوا ہوچکے ہوں گے اور ان کو اس دوہرے عذاب میں دھر لیا جائے گا جس کے یہ لوگ اپنے ضلال اور اضلال کے دوہرے جرم کی بناء پر مستحق ہوچکے تھے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور ان کے خود ساختہ شرکاء و شفعاء میں سے کوئی بھی ان کے کچھ بھی کام نہیں آسکے گا۔ کہ وہ سب کچھ من گھڑت اور بےبنیاد تھا، جس کے کام آنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ 55 ۔ یہ اندھے اور بہرے ہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ لوگ نہ تو سن سکتے تھے (پیغام حق و ہدایت کو) اور نہ ہی ان کو کچھ سوجھتا دیکھتا تھا۔ سو یہ لوگ اندھے اور بہرے بن گئے تھے اور ان پر مہر جباریت لگ گئی تھی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور یہی نتیجہ اور انجام ہوتا ہے عناد اور ہٹ دھرمی کا کہ اس سے انسان کو نہ کچھ سوجھتا ہے نہ دکھتا ہے۔ اور ایسے لوگ فہم و ادراک کی قوتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور دستور خداوندی کے مطابق ان پر مہر جباریت لگ جاتی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ اور ان لوگوں کا یہ اندھا اور بہرا پن ان کا خود اپنا اختیار کردہ تھا کہ عناد و ہٹ دھرمی اور نفرت و بیزاری کی بناء پر یہ حق بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے اور دنیا کی محبت کا پردہ ان کی آنکھون پر ایسا چھا گیا تھا کہ حق کی نشانیاں دیکھنے اور ان سے سبق لینے اور عبرت پکڑنے کے لیے ان کی آنکھیں کھلتی ہی نہیں تھیں اور اس طرح ان کی محرومی کا داغ اور پکا اور مزید گہرا ہوتا جاتا تھا۔ سو عناد اور ہٹ دھرمی بیماریوں کی بیماری ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان اندھا اور بہرہ ہو کر گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔
Top