Tafseer-e-Madani - Hud : 3
وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ١ؕ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیْرٍ
وَّاَنِ : اور یہ کہ اسْتَغْفِرُوْا : مغفرت طلب کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : اس کی طرف رجوع کرو يُمَتِّعْكُمْ : وہ فائدہ پہنچائے گا تمہیں مَّتَاعًا : متاع حَسَنًا : اچھی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : وقت مُّسَمًّى : مقرر وَّيُؤْتِ : اور دے گا كُلَّ : ہر ذِيْ فَضْلٍ : فضل والا فَضْلَهٗ : اپنا فضل وَاِنْ : اور اگر تم تَوَلَّوْا : پھر جاؤ فَاِنِّىْٓ : تو بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ : ایک دن كَبِيْرٍ : بڑا
اور یہ کہ تم لوگ معافی مانگو اپنے رب سے (اپنے گناہوں کی) ، پھر لوٹ آؤ تم اس کی طرف (سچی توبہ کے ذریعے) تو وہ نوازے گا تم لوگوں کو اچھے سامان زندگی سے، ایک مدت مقررہ تک، اور وہ عطا فرمائے گا ہر فضل والے کو اس کا فضل3 اور اگر تم لوگ پھرگئے (اس راہ حق و ہدایت سے) تو مجھے سخت اندیشہ ہے تمہارے بارے میں ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب کا،4
5 ۔ پیغمبر کی صفت و شان تبشیر : سو پیغمبر کی زبان سے اعلان کروایا گیا کہ میرا کام ہے خوش خبری سنانا۔ یعنی دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح کی خوشخبری سنانا ان لوگوں کو جو عقیدہ توحید سے سرشار اور صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی سے مشرف ہوں کہ ان کے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی ہے کہ ایسوں کو دنیا میں حیات طیبہ " پاکیزہ زندگی " کی نعمت نصیب ہوگئی اور آخرت میں ان کو جنت کی سدا بہار نعمتوں اور وہاں کی نعیم مقیم سے نوازا جائے گا۔ سو اللہ پاک کے بھیجے ہوئے انبیاء و رسل ہمیشہ یہی پیغام لے کر آئے کہ عبادت و بندگی اور اس کی ہر قسم و شکل اللہ وحدہ لاشریک ہی کا حق ہے اور اسی کے لیے ان کو نذیر و بشیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یعنی ماننے والوں کو خوش خبری سنانا اور نہ ماننے والوں کو خبردار کرنا۔ کہ وہ اگر باز نہ آئے اور راہ حق و صواب کی طرف لوٹے تو ان کا انجام بڑا ہی برا ہوگا۔ 6 ۔ رب سے گناہوں کی بخشش مانگنے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ معافی مانگو اپنے رب سے کہ گناہ جتنے بھی بڑے اور جس قدر بھی زیادہ ہوں وہ ان کو معاف فرمانے والا ہے بشرطیکہ توبہ صحیح اور سچی ہو کہ اس کی بخشش و رحمت لامحدود ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور سچی توبہ پر وہ گناہوں کی ایسی بخشش فرماتا ہے کہ ان کا نام و نشان بھی مٹا دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نبی معصوم۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ نے ارشاد فرمایا " التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ " یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں " اور یہ صرف اسی وحدہ لاشریک کی شان ہے کہ وہ گناہوں کو اس طرح معاف فرماتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے پیغمبر کی بشارت کے پہلو کو ذکر فرمایا گیا ہے کہ تم لوگ اپنے رب سے مغفرت و بخشش کی دعا مانگو اور اسی کی طرف توبہ اور رجوع کرو تو وہ تم لوگوں کو ان اور عنایات سے نوازے گا۔ سبحانہ وتعالیٰ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال۔ 7 ۔ توبہ اور رجوع الی اللہ کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ توبہ اور رجوع کرو اس کی طرف۔ پس تم لوگ سچی اور صحیح توبہ کرو جس کے بنیادی طور پر تین رکن ہیں ایک اپنے کئے پر ندامت و شرمندگی، دوسرے برائی کو چھوڑ دینا اور تیسرے اس کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا پکا و پختہ عزم کرنا۔ اور چوتھا یہ بھی ہے کہ جس کسی کا حق مارا ہو وہ اس کو واپس کردیا جائے۔ سو ان ارکان کی رعایت و پابندی کے ساتھ جو توبہ کی جائے گی وہ صحیح توبہ ہوگی اور وہ ضرور قبول ہوگی۔ انشاء اللہ۔ سو اگر تم لوگوں نے اپنے گزشتہ کفر و شرک اور دوسرے معاصی وذنوب پر نادم اور شرمندہ ہو کر ان کو ترک کردیا اور اپنے کیے کرائے پر اس سے معافی مانگی پھر سچی توبہ اور رجوع الی اللہ کے ذریعے آئندہ کے لیے ہر قسم کی عبادت و بندگی کو اسی کے لیے خاص کیا تو وہ تم کو اس دنیا میں بھی " متاع حسن " اور عمدہ نعمتوں سے نوازے گا۔ تمہاری عمروں میں برکت ڈالے گا اور تمہیں وقت مقرر تک مہلت دے گا اور تمہیں ان مخاطر اور نقصانات سے محفوظ رکھے گا جو کفر و شرک اور معاصی وذنوب پر اصرار کرنے والوں کو پہنچتے ہیں۔ (المراغی وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 8 ۔ اللہ تعالیٰ کی نوازش کی خوش خبری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس پر اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو دنیا کے متاع حسن یعنی عمدہ سامان زندگی سے نوازے گا کہ اس کی تو شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے۔ اور اس قدر کہ اسے کرم اور اس کی عطا کی کوئی حد و انتہا ہی نہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو بندے کا کام ہے اس کی طرف رجوع کرنا اور ہمیشہ رجوع رہنا۔ اور اس کی شان ہے نوازنا اور کرم فرمانا ہے اور اس قدر کہ اس کے کرم اور اس کی شان ہے نوازنا اور لگاتار نوازنا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور اس کی عنایات اور نوازشات سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ایمان صادق اور عمل صالح ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) ۔ (النحل : 97) سو ایمان و یقین، عمل صالح اور توبہ و استغفار سعادت دارین سے سرفرازی اور عنایات خداوندی سے بہرہ مندی کے بنیادی اور اہم ذرائع و وسائل ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 9 ۔ اعمال صالحہ کا بدلہ آخرت سے پہلے دنیا میں بھی : سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نیک اعمال کا کچھ بدلہ انسان کو آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ اس ارشاد ربانی میں فرمایا گیا ہے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال کا بدلہ انسان کو آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی ملتا ہے، اگرچہ ان کا اصل اور پورا بدلہ آخرت ہی میں ملے گا، لیکن ان کا کچھ نہ کچھ بدلہ مختلف نعمتوں کی شکل میں اس دنیا میں بھی ملتا ہے جس طرح کہ برے اعمال کی کچھ سزا دنیا میں بھی ملتی ہے۔ اور مختلف شکلوں میں ملتی ہے۔ والعیاذ باللہ۔ اگرچہ ان کی اصل اور پوری سزا آخرت میں ہی ملے گی کہ " دار الجزاء " بہرحال وہی ہے اور دنیا " دار الجزاء " نہیں " دار العمل " اور " دار الامتحان " ہے اس لیے عقل و نقل سب کا تقاضا ہے کہ آخرت اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنے پیش نظر رکھا جائے۔ 10 ۔ ہر فضل والے کو اس کے فضل سے نوازا جائے گا : کہ اس کے صحیح عقیدے اور نیک عمل کی بناء پر وہ اس کو دنیا میں پاکیزہ زندگی اور نیک اعمال کی توفیق مزید سے بھی نوازے گا اور آخرت میں اس کو اس کی نیکیوں کے مطابق جنت کے درجات عالیہ سے بھی سرفراز فرمائے گا۔ سو جتنا کوئی اپنے عقیدہ و ایمان، صدق و اخلاص اور عمل و کردار میں آگے بڑھا ہوگا اسی قدر اس کو وہاں پر درجات عالیہ اور مرتب رفیعہ سے نوازا اور سرفراز فرمایا جائے گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ) الآیۃ۔ (النحل : 97) سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے جو کہتے ہیں کہ جو کوئی آخرت بنائے گا اس کی دنیا گئی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بلکہ اگر امعان نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ طالب عقبیٰ ہی دنیا سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور وہی دنیا کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اور اس کو اپنے پیش نظر رکھ کر اس سے حقیقی فائدہ اٹھاتے اور اپنی آخرت بناتے ہیں۔ اور اس طرح وہ دنیا و آخرت دونوں کی حقیقی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند اور سرفراز ہوتے ہیں۔ 11 ۔ حق سے اعراض و روگردانی کا نتیجہ بہت برا۔ والعیاذ باللہ : سو پیغمبر نے ان لوگوں سے مزید فرمایا کہ اگر پھر بھی تم لوگ پھرے اور منہ موڑے ہی رہے تو مجھے تمہارے بارے میں سخت اندیشہ ہے ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب کا۔ یعنی قیامت کے دن کے عذاب کا (جامع البیان، المراغی، المحاسن وغیرہ) جس کی ہولناکی کا یہ عالم ہوگا کہ اس میں بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے (يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَا) سو اگر تم لوگوں نے اس راہ حق و ہدایت سے منہ موڑا تو تمہارا حشر بھی اس ہولناک دن میں ویسا ہی ہوگا جیسا کہ دوسری منکر اور باغی قوموں کا ہوگا۔ والعیاذ باللہ۔ سو قیامت کے اس ہولناک دن کا اندیشہ ہی انسان کو درست رکھ سکتا ہے۔ اس لیے اس کا اندیشہ و خیال ہمیشہ رکھنا چاہیے تاکہ اس کے لیے تیاری کی جاس کے کہ اس کے لیے تیاری اور عمل کا موقع دنیاوی زندگی کی اس فرصت محدود و مختصر ہی میں ہوسکتا ہے ورنہ پھر کوئی موقع نہیں ہوگا۔ پس اگر تم لوگوں نے دعوت حق کو قبول کرکے صحیح راہ کو اپنایا تو اس کا فائدہ تم ہی لوگوں کو پہنچے گا۔ اور اگر تم نے اس سے اعراض برتا اور منہ موڑا تو اس کا نقصان بھی خود تم ہی لوگوں کو ہوگا۔ پس تم اپنے نفع و نقصان کے بارے میں سوچ کر خود ہی فیصلہ کرو۔ سو نور حق و ہدایت سے بہرہ مند و سرفراز رکھے۔ آمین۔
Top