Tafseer-e-Madani - Hud : 53
قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰهُوْدُ : اے ہود مَا جِئْتَنَا : تو نہیں آیا ہمارے پا بِبَيِّنَةٍ : کوئی دلیل (سند) لے کر وَّمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِتَارِكِيْٓ : چھوڑنے والے اٰلِهَتِنَا : اپنے معبود عَنْ قَوْلِكَ : تیرے کہنے سے وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم لَكَ : تیرے لیے (تجھ پر) بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
ان لوگوں نے جواب دیا اے ھود، تم ہمارے پاس کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور ہم محض تمہارے کہنے پر چھوڑنے والے نہیں ہیں اپنے معبودوں کو، اور نہ ہی ہم تمہاری بات ماننے والے ہیں
124 ۔ قوم عاد کے عناد و انکار اور ان کی ہٹ دھرمی کا نمونہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ہمارے پاس کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے۔ اور ہم لوگ محض تمہارے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہی ہم تمہاری بات ماننے والے ہیں۔ یعنی ان سب کی فرمائش کے مطابق کوئی ایسا معجزہ جس کی بناء پر ہم ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں۔ سو یہ ان کی ضد و ہٹ دھرمی اور اعجوبہ پرستی کا ایک مظہر ہے اور یہی چیز آج تک دنیا میں موجود ہے۔ اہل حق کی طرف سے اہل باطل کے سامنے کتنے ہی دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ پیش کردئے جائیں، مگر جنہوں نے نہیں ماننا ہوتا وہ مان کر نہیں دیتے۔ اور وہ طرح طرح کی کج بحثیوں سے کام لیتے ہیں۔ اور اس کے برعکس اگر کوئی ننگ دھرنگ ملنگ، مدہوش یا نیم بےہوش شخص مل جائے تو کتنے ہی ایسے ہوتے ہیں جو فورا اس کے آگے جھک جاتے ہیں اور پھر اس کی کرامتوں کے مصنوعی قصے بیان کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس کو چھوتے، مس کرتے، ہاتھ پھیرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ اس کی رال چاٹتے ہیں۔ والعیاذ باللہ جل و علا۔ لیکن قرآن و سنت کی صاف وصریح تعلیمات مقدسہ اور نصوص قیمہ نہ ان کے جی کو لگتی ہیں اور نہ ان کے دل و دماغ میں اترتی ہیں۔ اور نہ ہی ایسے لوگ ادھر کوئی توجہ ہی دیتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ حالانکہ بزرگی و ولایت اصل میں نام ہی ایمان وتقوی کا ہے۔ جتنا انسان ان دونوں وصفوں میں ترقی کرتا جائے گا، اتنا ہی وہ درجات و مراتب ولایت میں آگے بڑھتا جائے گا، جیسا کہ سورة یونس کی آیت نمبر 62 تا نمبر 64 میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ اور جیسا کہ اسوہ رسول کریم ﷺ اور حیات صحابہ وتابعین سے ثابت و واضح ہے۔ بہرکیف ھود کی قوم کے ان بدبخت لوگوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے اپنی کجی فطرت اور زیغ و ضلال طبیعت کی بناء پر یہی کہا کہ چونکہ آپ ہمارے پاس فرمائش کے مطابق کوئی معجزہ نہیں لائے اس لیے ہم نہ آپ پر ایمان لانے والے ہیں اور نہ ہی آپ کے کہنے کے مطابق اپنے خود ساختہ معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں۔ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے ضد وعناد اور ہٹ دھرمی کا کہ اس سے انسان نور حق و ہدایت کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top