Tafseer-e-Madani - Hud : 66
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ مِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم نَجَّيْنَا : ہم نے بچالیا صٰلِحًا : صالح وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا : اپنی رحمت سے وَ : اور مِنْ خِزْيِ : رسوائی سے يَوْمِئِذٍ : اس دن کی اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب هُوَ : وہ الْقَوِيُّ : قوی الْعَزِيْزُ : غالب
پھر جب آپہنچا ہمارا حکم، تو ہم نے بچا لیا صالح کو، اور ان سب کو جو ایمان لائے تھے ان کے ساتھ، اپنی خاص رحمت سے اور (محفوظ رکھا ان کو اس عذاب اور) اس دن کی رسوائی سے، بیشک تمہارا رب ہی ہے قوت والا، سب پر غالب2
147 ۔ حضرات انبیاء و رسل کا حاجت روا و مشکل کشا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب آگیا ہمارا حکم تو ہم نے بچا لیا صالح کو بھی اور ان سب کو بھی جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی خاص رحمت سے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ ہی ہے۔ کہ مشکل کشا و حاجت روا سب کے بہرحال ہم ہی ہیں۔ اور جب صالح (علیہ السلام) جیسے نبی اور ان کے ساتھی بھی حاجت روا و مشکل کشا نہیں بلکہ وہ بھی اپنی نجات کے لیے ہمارے ہی محتاج ہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو کہ مشکل کشائی اور حاجت روائی کا دم بھر سکے ؟ سو بڑے ہی بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں وہ لوگ جو اللہ کے سوا اس کی عاجز مخلوق میں سے مختلف ہستیوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں جبکہ ان کو دنیا سے گزرے ہوئے اور قبروں میں اترے ہوئے زمانے گزر چکے ہیں۔ سو ایسا کرنا شرک ہے جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ما فوق الاسباب مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کی شان اور اسی کا کام ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 148 ۔ حق تعالیٰ کی صفت قوت و عزت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے بچا لیا صالح کو اور ان سب کو جو ایمان لائے تھے ان کے ساتھ ان کو بچا لیا اس ہولناک عذاب اور اس دن کی رسوائی سے۔ بلاشبہ تمہارا رب ہی ہے قوت والا سب پر غالب۔ سو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوگئی کہ ایسے ہولناک عذاب سے بچانا حق تعالیٰ ہی کا کام اور اسی کی صفت و شان ہے۔ اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح ہوگئی کہ حق والوں کی معیت ورفاقت نجات و سلامتی کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔ جبکہ ان سے علیحدگی اور دوری اور ان سے عداوت و دشمنی رکھنا ہلاکت و تباہی کی راہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس معیت ورفاقت ہمیشہ اللہ والوں ہی کی رکھنی چاہئے۔ ان کی محبت وتعلق کے اعتبار سے بھی اور عمل و کردار اور اخلاق و اوصاف کے لحاظ سے بھی۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جب ہمارے حکم کے مطابق اس بدبخت قوم پر ہمارا عذاب آگیا تو ہم نے اپنی خاص رحمت و عنایت سے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھی نجات دے دی اور ان سب کو بھی جو آپ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ ورنہ اس ناہنجار قوم پر آنے والا عذاب ایسا ہولناک اور اس قدر ہمہ گیر تھا کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت کے سوا کوئی بھی چیز اس سے بچانے والی نہیں تھی۔ سو بلاشبہ ہمارا رب بڑا ہی قوی و عزیز ہے۔ فعلیہ نتوکل وبہ نستعین فی کل ان وحین۔
Top