Tafseer-e-Madani - Hud : 8
وَ لَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗ١ؕ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور اگر اَخَّرْنَا : ہم روک رکھیں عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابَ : عذاب اِلٰٓى : تک اُمَّةٍ : ایک مدت مَّعْدُوْدَةٍ : گنی ہوئی معین لَّيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے مَا يَحْبِسُهٗ : کیا روک رہی ہے اسے اَلَا : یاد رکھو يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْهِمْ : ان پر آئے گا لَيْسَ : نہ مَصْرُوْفًا : ٹالا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَحَاقَ : گھیر لے گا وہ بِهِمْ : انہیں مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
8 اور اگر ہم ٹال دیں ان سے اس عذاب کو (جس کے یہ حق دار ہیں) ایک گنی چنی مدت (یعنی دنیاوی زندگی) تک کے لئے، تو یہ لوگ (بڑے بےباکانہ اور مزاحیہ انداز میں) کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے روک رکھا ہے اس کو ؟ (وہ آتا کیوں نہیں ؟ ) سو آگاہ رہو کہ جس دن وہ ان پر آن پہنچے گا تو اسکو ان سے پھیرا نہ جائے گا، اور اپنے گھیرے میں لے کر رہے گا ان کو وہی کچھ جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے
23 ۔ منکرین کے مذاق و استہزاء کا جواب : سو منکرین کے عذاب کے بارے میں مذاق و استہزاء کے جواب میں ایک اصولی ہدایت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ سو اگر ہم ان سے ان کے عذاب کو کچھ مدت کے لیے ٹال دیتے ہیں اپنی سنت و دستور کے مطابق کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا) (الطلاق : 3) اور ہر چیز اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوگی تو اس تاخیر و امہال سے ایسے تنگ ظرف اور مست ہوجاتے ہیں اور وہ بجائے اپنی روش کی اصلاح کے حق اور اہل حق کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ عذاب آتا کیوں نہیں۔ اس کو کس نے باندھ رکھا ہے وغیرہ وغیرہ سو یہ ان منکرین کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کا ایک نمونہ بھی ہے اور ان کی محرومی و بدبختی کا ایک ثبوت بھی کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی رحمت و عنایت سے ان کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ یہ توبہ استغفار اور رجوع الی اللہ کے ذریعے اپنی اصلاح کرلیں اور دائمی عذاب سے بچ جائیں۔ مگر یہ ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سو یہی حال ہوتا ہے ان لوگوں کا جن کی شقاوت و بدبختی ان پر غالب آجاتی ہے۔ کہ ان کو حق اور صدق کی بات سمجھنے اور اپنانے کی توفیق ہی نصیب نہیں ہوتی اور ہلاکت و تباہی ہی کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ 24 ۔ منکرین کے عناد و ہٹ دھرمی کا ایک نمونہ و مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ہم ان لوگوں سے اس عذاب کو ٹال دیں ایک مدت تک تو یہ کہتے ہیں کہ کس نے روک رکھا ہے اس کو۔ سو اس طرح یہ منکر لوگ اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے ایمان و یقین سے محرومی کا کہ انسان اصل مقصد سے منہ موڑ کر اس طرح کے لایعنی مطالبات کرنے اور حق کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے اس ہولناک انجام سے دوچار ہو کر رہتا ہے جس سے نکلنے اور بچنے کی کوئی صورت اس کے لیے ممکن نہیں رہتی۔ اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ حالانکہ عقل و نقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے آنے سے پہلے اس سے بچنے کی فکر کی جائے ورنہ عذاب کے آجانے پر نہ یہ اس کو روک سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے وہ مزعومہ اور من گھڑت شرکاء و شفعاء ہی کچھ کام آسکتے ہیں جن کا ان کو زعم اور گھمنڈ ہے۔ پس سلامتی اور نجات کی راہ یہی ہے کہ دین حق کی تعلیمات کو صدق دل سے اپنایا جائے۔ 25 ۔ منکرین عذاب الہی کی زد میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آگاہ رہو کہ جس دن وہ عذاب ان پر آپہنچے گا تو اس کو کسی طرح سے پھیرا نہیں جائے گا اور ان کو گھیر کر رہے گا وہ کچھ جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ سو وقت آنے پر اللہ کے عذاب سے بچنے کی کوئی صورت ایسوں کے لیے ممکن نہ رہے گی، اس طرح کہ نہ وہ عذاب ان سے ٹلے گا اور نہ اس سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت ان کے لیے ممکن ہوگی۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل سوء و شر۔ سو کفر و انکار محرومیوں کی محرومی اور سب سے بڑا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری عنایت سے جو مہلت ان کو ملتی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر یہ اپنی روش کی اصلاح کرلیں قبل اس سے کہ وہ فرصت ان کے ہاتھ سے نکل جائے جو ایک محدود وقت کے لیے ان کو دی گئی ہے۔ اور وہ عذاب ان پر آدھمکے جس کے یہ مستحق ہیں اور جب وہ ان پر آجائے گا تو نہ اس کو یہ لوگ خود ٹال سکیں گے اور نہ ان کے وہ خود ساختہ اور من گھڑت شفعاء اور شرکاء اس موقع پر ان کے کچھ کام آسکیں گے جن پر ان کو بڑا ناز ہے اور جن کا یہ لوگ بڑا زعم اور گھمنڈ رکھتے ہیں۔ اور اس وقت ایسے بدبختوں کو ہمیشہ کے عذاب میں دھر لیا جائے گا۔ سو منکرین بہرحال عذاب الہی کی زد میں ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس عقل و نقل کا تقاضا ہے کہ عذاب الہی سے بچنے کی فکر و کوشش کی جائے۔ وباللہ التوفیق۔
Top