Tafseer-e-Madani - Hud : 90
وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ
وَ : اور اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : اس کی طرف رجوع کرو اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب رَحِيْمٌ : نہایت مہربان وَّدُوْدٌ : محبت والا
اور معافی مانگو تم سب اپنے رب سے (اپنے گزشتہ کئے کرائے کی) پھر اسی کی طرف رجوع کرو (اپنے آئندہ کے لئے) بیشک میرا رب بڑا ہی مہربان نہایت ہی محبت رکھنے والا ہے (اپنی مخلوق سے،3)
184 ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت و محبت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ بیشک میرا رب بڑا ہی مہربان، نہایت ہی محبت کرنے والا ہے۔ ایسا مہربان اور اتنی محبت کرنے والا رحیم ودود کہ عمر بھر کا گنہگار اور گناہوں میں سراپا ڈوبا ہوا انسان بھی اگر اس کے حضور سچے دل سے توبہ کرکے رجوع کرلے تو جل جلالہ اس کو بھی معاف فرما دیتا ہے اور اس کو سب گناہوں کی میل سے بالکل پاک و صاف کردیتا ہے اور جب وہ انسان کا خالق اور موجد ہے تو اس کی اس رحمت و مہربانی اور محبت و مودت کا جو اس کو اپنے بندوں سے ہے اندازہ ہی کون کرسکتا ہے ؟ سبحانہ وتعالیٰ ۔ فایاہ نسال ان یغفرلنا ذنوبنا کلھا، دقھا وجلھا، اولھا واخرھا، سرھا وعلانی تھا، ما علمنا منھا وما لم نعلم، فمغفرتہ۔ جل وعلا۔ اوسع واکثر من ذنوبنا ورحمتہ۔ تبارک وتعالیٰ ارجی عندنا من عملنا۔ سو ایسے رب رحیم و ودود سے مایوس ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز ہے اس کی طرف صحیح اور سچے دل سے رجوع ہونا اور ہمیشہ رجوع رہنا۔ وباللہ التوفیق۔ سو آیت کریمہ کے آخر میں حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کی صفات کریمہ میں سے رحمت اور محبت کی دو صفتوں کا حوالہ دینے سے مقصود استغفار اور توبہ کی ترغیب و تشویق بھی ہے اور نہایت لطیف انداز میں اس کی قبولیت کی بشارت و خوشخبری بھی۔ سو تمہارے جرائم کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں جب تم لوگ صدق دل سے اس کی طرف رجوع کرو گے تو وہ تمہیں ٹھکرائے گا نہیں بلکہ معاف کرکے اپنی رحمتوں اور عنایتوں سے نوازے گا کہ وہ بڑا ہی مہربان نہایت ہی محبت کرنے والا ہے اور اتنا و اس قدر کی اس کی رحمتوں برکتوں اور عنایتوں کا کوئی کنارہ نہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top