Tafseer-e-Madani - Hud : 91
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا١ۚ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ١٘ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰشُعَيْبُ : اے شعیب مَا نَفْقَهُ : ہم نہیں سمجھتے كَثِيْرًا : بہت مِّمَّا تَقُوْلُ : ان سے جو تو کہتا ہے وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَنَرٰىكَ : تجھے دیکھتے ہیں فِيْنَا : اپنے درمیان ضَعِيْفًا : ضعیف (کمزور) وَلَوْ : اور اگر لَا رَهْطُكَ : تیرا کنبہ نہ ہوتا لَرَجَمْنٰكَ : تجھ پر پتھراؤ کرتے وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : تو عَلَيْنَا : ہم پر بِعَزِيْزٍ : غالب
انہوں نے جواب دیا اے شعیب، تمہاری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں، اور ہم تجھے اپنے درمیان بالکل ہی کمزور پاتے ہیں اور اگر تیرے خاندان کا پاس نہ ہوتا تو ہم نے تجھے کبھی کا سنگسار کر (کے ختم کر) دیا ہوتا، کہ تم تو ہمارے اوپر کچھ بھاری نہیں ہو
185 ۔ منکروں کے تکبر کا ایک نمونہ و مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ تمہاری بہت سی باتیں ہمیں سمجھ نہیں آرہی۔ سو اس سے ان منکر لوگوں کے تکبر اور ان کی ہٹ دھرمی کا ایک مظہر اور نمونہ سامنے آتا ہے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ دل کی دنیا اور نیت اگر درست نہ ہو تو پیغمبر کی صاف وصریح بات بھی انسان کو سمجھ نہیں آتی۔ جیسا کہ قوم شعیب کے کفار کے اس جواب سے ظاہر اور واضح ہے۔ آج بھی اس حقیقت کا مشاہدہ جگہ جگہ اور طرح طرح سے ہوتا رہتا ہے کہ اہل بدعت اور دوسرے اہل زیغ و ضلال اور اصحاب کبر و غرور کے سامنے عقل و نقل اور قرآن و سنت کے کتنے ہی ٹھوس اور واضح دلائل پیش کئے جائیں ان کے صفا چٹ دلوں میں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ الا ماشاء اللہ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ سو صدق نیت اور صفائے باطن اصلاح احوال کی اولین اساس اور بنیادی شرط ہے جس پر اصل دارومدار ہے۔ اللہ ہمارے بواطن اور ظواہر کو درست فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔ بہرکیف حضرت شعیب (علیہ السلام) کی اس مخلصانہ دعوت اور درد مندانہ پند و نصیحت اور موعظت کا جواب ان متکبر لوگوں نے پورے کبر و غرور اور رعونت کے ساتھ یہ دیا کہ تمہاری بہت سی باتیں ہمیں سمجھ نہیں آتیں۔ یعنی یہ بیکار اور مہمل قسم کی باتیں ہیں جو ہمارے لیے لائق اعتناء ہی نہیں۔ بھلا ہم سے بڑھ کر عقلمند اور دانا و بینا اور جہاں دیدہ اور کون ہوسکتا ہے ؟ سو اس طرح ان بدبختوں نے دعوت حق و ہدایت سے منہ موڑ کر اور اس کے قبول کرنے سے انکار کرکے اپنی محرومی اور شقاوت و بدبختی کو اور پکا کردیا۔ اور اپنے قول وقرار سے یہ واضح کردیا کہ اب ان کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی اور اب ان کا وجود اللہ کی دھرتی پر ایک ناروا بوجھ بن گیا ہے۔ 186 ۔ شرک کی ایک خاصیت خالق کی بجائے مخلوق سے ڈرنا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے حضرت شعیب سے کہا کہ ہم تمہیں اپنے درمیان بالکل کمزور دیکھتے ہیں۔ اگر ہمیں تمہارے خاندان کا پاس ولحاظ نہ ہوتا تو ہم یقینا تم کو کبھی کا سنگسار کردیتے سو یہ بھی مشرک انسان کی ایک عمومی اور مشترک نفسیات ہمیشہ رہی ہے۔ کل بھی تھی اور آج بھی ہے کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتا مگر اس کی کمزور مخلوق بلکہ بالکل فرضی اور وہمی چیزوں سے ڈرتا ہے۔ چناچہ آج بھی دیکھا جاتا ہے کہ شرک کے مارے ہوئے ہوی و ہوس کے ایسے بندے جب اللہ کے گھروں (مسجدوں) میں سے کسی گھر کے پاس سے گزر رہے ہوتے ہیں تو بالکل لاپرواہی سے ڈھول بجاتے۔ سیٹیاں مارتے اور ناچتے تھرکتے گزر جاتے ہیں۔ مگر جب ایسے لوگ کسی قبر، کسی جھنڈیوں والے درخت، یا کسی نام کی کسی بناوٹی " سرکار " کے پاس سے گزریں گے تو یکدم مؤدب ہوجائیں گے۔ سلام کرنے اور ہاتھ چومنے لگ جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح ان کے مشرکانہ اوہام کے اندر اضافہ ہی ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو مشرک انسان اللہ سے نہیں ڈرتا اس کی مخلوق سے ڈرتا ہے۔ بلکہ ایسی فرضی اور وہمی چیزوں سے ڈرتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ بہرکیف ان لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں تمہارے کنبے قبیلے کا پاس ولحاظ نہ ہوتا تو تم سے نمٹنا ہمارے لیے کچھ مشکل نہیں تھا، تم ہم پر کوئی گراں اور بھاری نہیں ہو۔ سو ایسے ہٹ دھرم منکروں سے کسی خیر کی کوئی توقع آخر کس طرح کی جاسکتی ہے ؟ اور ان کا بھلا کیسے اور کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ اور ان کی بگڑی آخر کیسے اور کس طرح بن سکتی ہے ؟
Top