Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 14
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے تمہارے کام میں لگا دیا (اپنی رحمت و عنایت سے) سمندر (کے اس عظیم الشان ذخیرہ آب) کو، تاکہ تم لوگ اس سے ترو تازہ گوشت بھی کھاؤ اور اس سے زیب وزینت کی وہ مختلف چیزیں بھی نکالو جن کو تم لوگ پہنتے ہو، اور تم دیکھتے ہو کہ (کس طرح) چلتی ہیں یہ کشتیاں (اور دیوہیکل جہاز) سمندر میں، اس کے سینے کو چیرتے ہوئے (تاکہ تم اس سے طرح طرح کے فائدے حاصل کرسکو) اور تاکہ تم (اس کی آمدو رفت کے ذریعے) تلاش کرسکو اس کا فضل، اور تاکہ تم لوگ شکر ادا کرو (اس واہب مطلق کا) ،2
24۔ سمندر کی تسخیر کی نعمت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ (وہی) ہے جس نے کام میں لگا دیا سمندر کو جس کے نتیجے میں تم لوگ اس سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہو۔ جس کا تقاضا یہ تھا کہ تم سراپا شکروسپاس بن کر اس وحدہ لاشریک کے آگے دل وجان سے جھک جاتے کہ اس نے محض اپنی قدرت و عنایت اور رحمت وکرم سے سمندر جیسی اس عظیم الشان مخلوق کو ہمارا خادم بنادیا۔ مگر تم میں سے کتنے لوگوں نے اس کی بجائے اسی سمندر کو اس کے پانی کو اپنا معبود بنادیا۔ اور انہوں نے جل پوجا کے نام سے اس کی پوجا شروع کردی۔ سو تم لوگ کتنے ناشکرے اور کس قدر بےانصاف لوگ ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس نے اپنی قدرت مطلقہ، حکمت بالغہ اور عنایت شاملہ سے سمندر کے اس عظیم الشان ذخیرہ آب کو تمہارے لئے ایسا مسخر کردیا کہ تم اس میں جہاز رانی کرتے، مال برداری کرتے، مچھلیاں پکڑتے اس سے موتی اور مونگے نکالتے ہو وغیرہ وغیرہ، سوسمندروں وغیرہ کی یہ تمام مخلوقات تمہاری خادم ہیں جن کو قدرت نے تمہارے کام میں لگا دیا، پس عقل اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے خالق ومالک کے حضور جھک جاؤ۔ اور جھکے ہی رہو۔ 25۔ تازہ گوشت کی نعمت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت بھی کھاؤ، یعنی مچھلی جو کہ بنابنایا اور نفیس ولذیذ گوشت ہے۔ سمندر کے کھارے پانی کو بھی دیکھو اور مچھلی کے اس تازہ اور لذیذ گوشت کو بھی دیکھو جو طرح طرح کے فوائد پر مشتمل ہے۔ اور قسما قسم کی وٹامنز (vitamins) سے بھرپور ہے۔ ایسے شور اور کھارے پانی سے ایسی نعمت کا نکالنا اور بھی اتنی بےحد وحساب مقدار میں کہ لاکھوں کروڑوں لوگ اس سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اور خدا ہی جانے کب سے اٹھاتے آرہے ہیں۔ آخر یہ سب کچھ کس کی بےمثل قدرت اور رحمت و عنایت کا نتیجہ ہے ؟ مچھلی کے اس تازہ گوشت سے تم دن رات کھاتے، لطف اندوز ہوتے اور اس سے اور اس کے مختلف اجزاء سے طرح طرح کے کاروبار کرکے روپیہ کماتے ہو۔ سو تم لوگوں میں سے کتنی بڑی تعداد میں لوگ مچھلیاں پکڑتے اور ان کا شکار کرتے ہیں۔ اور حکومتوں کی حکومتیں سمندروں دریاؤں اور جھیلوں وغیرہ کے مختلف حصوں کو ماہی گیری وغیرہ کے لیے ٹھیکوں پر دیتی ہیں اور لاکھوں کروڑوں کی کمائی کرتے ہیں۔ سو تم لوگ ذرا سوچو تو سہی کہ ان بےحد وحساب خزانوں کو پیدا کس نے کیا ؟ سو وہی ہے اللہ وحدہ لاشریک خالق کل اور مالک مطلق سبحانہ وتعالیٰ جس نے اپنی قدرت بےپایاں اور عنایت وحکمت بےغایت سے تم لوگوں کے لیے یہ سب انتظام فرمائے۔ سو وہی ہے معبود برحق جو ہر قسم کی عبادت کا بلاشرکت غیرے حقدار ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 26۔ سامان زیب وزینت کی فراہمی کا انتظام : سو اسی نے خزانوں بھرے ان سمندروں کو تمہارے لئے مسخر کردیا تاکہ تم لوگ ان سے زیب وزینت کی طرح طرح چیزیں نکالو۔ مثلاموتی، مونگے اور ہیرے و جواہر وغیرہ وغیرہ۔ جو تمہاری عورتیں پہن کر تمہارے لیے بناؤ سنگار کرتی اور تمہارے ذوق نظر کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تم لوگ زیب وزینت کے ان طرح طرح کے سامانوں کو سمندروں سے نکال نکال کر اور خاص پیمانوں سے اور باریک حساب کے ساتھ ناپ تول کر بھاری بھاری رقمیں حاصل کرتے ہو اور دولت کماتے ہو۔ اور ان میں رتی ماشہ بھی تم لوگ چھوڑنے اور معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ لیکن کیا تم لوگوں نے کبھی یہ سوچا کہ آخر وہ کون ہے جو سمندر کی تہ میں ان کے پہاڑوں کے پہاڑ اور ذخیروں کے ذخیرے پیدا کرتا ہے۔ اس کو تو تم نے کیا دیا ؟ سو اس کو بھول جانا کتنی بڑی بےانصافی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو وہی اللہ ہے معبود برحق جو عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل کا حقدار ہے اور بلاشرکت غیرے حقدار ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 27۔ شکر نعمت کے تقاضے کا ذکر وبیان : چناچہ ان مختلف نعمتوں کے ذکر کے بعد تقاضاء نعمت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ تم شکر ادا کرو اس واہب مطلق اور خالق ومالک کا جس نے محض اپنے فضل وکرم اور رحمت و عنایت سے ان عظیم الشان نعمتوں، بےمثال عنایتوں اور عدیم النظیر کرم گستریوں سے تم کو نوازا ہے۔ تبارک وتعالیٰ ۔ اور اس کا شکر ادا کرنا تم پر حق بھی ہے اور اس میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا بھی ہے کہ اس سے تمہاری ان نعمتوں میں برکت آئے گی اور ان میں دوام نصیب ہوگا، ورنہ اس غنی مطلق کو تمہارے شکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ سو تم لوگ سوچو کہ اس واہب مطلق سے منہ موڑنا اس کے حق شکر کی ادائیگی میں غفلت و لاپرواہی برتنا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کی بخشی ہوئی ان نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرنا اور ان کو کسی دیوی دیوتا یا کسی خود ساختہ سرکار اور بناوٹی ہستی کا کرم سمجھنا اور اس کی عنایت قرار دینا کس قدر بڑا ظلم ہے۔ اور کتنی بڑی ناشکری اور بےانصافی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ من کل زیغ وضلال، وسوء وانحراف۔
Top